ملائیشیا میں 16 سال سے کم عمر صارفین کے لیے سوشل میڈیا استعمال کرنے پر پابندی
اشاعت کی تاریخ: 24th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ملائیشین حکومت نے ملک میں آن لائن خطرات اور ڈیجیٹل دنیا میں بچوں کے عدم تحفظ کے بڑھتے خدشات کے پیش نظر ایک بڑا فیصلہ کیا ہے۔
حکومت نے اعلان کیا ہے کہ 2026ء سے 16 برس سے کم عمر بچے کسی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اپنا نیا اکاؤنٹ نہیں بنا سکیں گے۔ یہ فیصلہ کابینہ کی حالیہ مشاورت کے بعد سامنے آیا ہے، جس میں بچوں کو درپیش آن لائن خطرات، نامناسب مواد اور سائبر بُلنگ جیسے مسائل پر تفصیل سے غور کیا گیا۔
سرکاری ذرائع کے مطابق وزیر کمیونیکیشن داتوک فہمی فاضل نے واضح کیا کہ حکومت اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے رہی ہے کیونکہ گزشتہ چند سالوں میں کم عمر بچوں کے آن لائن استحصال، غلط مواد تک رسائی اور نفسیاتی دباؤ میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا اب معمولی تفریح نہیں رہا بلکہ ایک ایسا پلیٹ فارم بن چکا ہے جہاں کم عمر ذہن بہت تیزی سے متاثر ہوتے ہیں، اسی لیے ملک کو ایسے قوانین کی ضرورت ہے جو بچوں کے ڈیجیٹل ماحول کو محفوظ بنا سکیں۔
حکومت اس پابندی کے نفاذ کے لیے ایک جامع نظام تیار کر رہی ہے، جس کے تحت تمام ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر رجسٹریشن کے وقت e-KYC یعنی الیکٹرانک تصدیقِ شناخت کا نظام لازمی قرار دیا جائے گا۔ اس طریقہ کار کے تحت نئے اکاؤنٹ بنانے والے صارفین کو اپنی عمر اور شناخت ثابت کرنے کے لیے MyKad، پاسپورٹ یا ڈیجیٹل آئی ڈی جیسی سرکاری دستاویزات فراہم کرنا ہوں گی۔
حکومت کا کہنا ہے کہ یہ میکانزم جعلی عمر کے ساتھ اکاؤنٹ بنانے کا راستہ بند کر دے گا اور سوشل میڈیا کمپنیوں کو بھی زیادہ ذمہ داری کے ساتھ کام کرنا پڑے گا۔
یہ فیصلہ آن لائن سیفٹی ایکٹ کا حصہ ہے، جو یکم جنوری 2026ء سے نافذ العمل ہوگا۔ اس قانون کو بچوں کے تحفظ کے لیے اہم بنیاد قرار دیا جا رہا ہے، کیونکہ اس کے ذریعے حکومت کو پلیٹ فارمز کی نگرانی، خلاف ورزی کی صورت میں کارروائی اور ڈیجیٹل ماحول کو محفوظ بنانے کے وسیع اختیارات ملیں گے۔
متعدد ماہرین نے حکومت کے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ کم عمر بچوں کو ایسی ڈیجیٹل دنیا میں چھوڑ دینا جس میں نقصان دہ مواد، غیر اخلاقی رجحانات اور سائبر بُلنگ عام ہو چکی ہے، والدین اور ریاست دونوں کے لیے تشویشناک صورتحال ہے۔
یہ پابندی مستقبل میں بچوں کی ذہنی صحت، تعلیم اور محفوظ آن لائن تعامل کے لیے مثبت اثرات مرتب کرے گی۔
حکومتی مؤقف ہے کہ سخت نگرانی، واضح قوانین اور بہتر ڈیجیٹل آگاہی پروگراموں کے ذریعے اس مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ والدین، اسکولوں اور سوشل میڈیا کمپنیوں کے تعاون کے بغیر یہ نظام کام نہیں کرے گا، اس لیے آنے والے مہینوں میں ایک آگاہی مہم بھی شروع کی جائے گی جس میں بچوں کو ڈجیٹل خطرات، ذمہ دارانہ استعمال اور آن لائن رویوں کے بارے میں تعلیم دی جائے گی۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سوشل میڈیا میں بچوں بچوں کے آن لائن کے لیے
پڑھیں:
مس انفارمیشن سب سے بڑا چیلنج، آن لائن انتہا پسندی کیخلاف شراکت داری ناگزیر: عطا تارڑ
اسلام آباد (اپنے سٹاف رپورٹر سے) وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے ڈی ایٹ میڈیا فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بہترین وقت ہے کہ ہم تعاون، ہم آہنگی اور مشترکہ اقدامات کو مضبوط کریں۔ عالمی میڈیا منظرنامہ بے مثال اور تیز رفتار تبدیلیوں سے گزر رہا ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا آج دنیا کا سب سے تیزی سے پھیلتا ہوا ذریعہ ابلاغ بن گیا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ڈی ایٹ میڈیا فورم ضابطہ اخلاق اور کوڈ آف کنڈکٹ کی تیاری کے لیے بہترین پلیٹ فارم ثابت ہو سکتا ہے۔ نئی نسل خصوصاً Gen Z کو میڈیا لٹریسی اور درست معلومات کی تعلیم دینا وقت کی ضرورت ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑنے کہا کہ پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد 117 ملین تک پہنچ چکی ہے۔ ملک بھر میں 79 ملین سے زائد افراد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز استعمال کر رہے ہیں۔ حکومت پاکستان نے شفاف ابلاغ، ڈیجیٹل ذمہ داری اور میڈیا اداروں کے مابین بہتر روابط کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا ہے۔ آن لائن پلیٹ فارمز اور سوشل میڈیا آؤٹ لیٹس پر فیکٹ چیکنگ کا باقاعدہ نظام موجود ہے تاکہ درست معلومات فراہم کی جائیں اور جعلی خبروں کی نشاندہی کی جا سکے۔ مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن حالیہ دور کے سب سے بڑے چیلنج ہیں۔ عالمی اقتصادی فورم میں جب عالمی رہنماؤں سے سوال کیا گیا کہ ہمارے دور کا سب سے بڑا چیلنج کیا ہے تو انہوں نے ایٹمی جنگ یا موسمیاتی تبدیلی کا ذکر نہیں کیا بلکہ مس انفارمیشن کو سب سے بڑا چیلنج قرار دیا۔ عطاء اللہ تارڑنے کہا کہ مشترکہ فیکٹ چیک پلیٹ فارم قائم کرنے وقت کی ضرورت ہے۔ آن لائن انتہاپسندی اور نفرت انگیز مواد کے خلاف مشترکہ شراکت داری ناگزیر ہے۔ پاکستان جنوری 2026ء میں سیکرٹری جنرل شپ کی ذمہ داری سنبھالے گا تو موجودہ سیکرٹری جنرل کے تجربات اور مثالی قیادت سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا۔ ڈی ایٹ ممالک کو باہمی اتفاق رائے سے ایک مشترکہ ضابطہ اخلاق مرتب کرنا چاہیے۔ پاکستان امن، استحکام اور بحرانوں کا مقابلہ کرنے کی مشترکہ صلاحیت بڑھانے کے لیے ہر سطح پر تعاون کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ صدر الہام علیوف کی قیادت میں ڈی ایٹ کی سرگرمیوں کو تقویت ملی، عالمی منظر نامہ تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ پروپیگنڈا اور غلط معلومات دنیا بھر میں گمراہ کن بیانیہ کو جنم دے رہی ہیں۔ ڈی ایٹ ممالک کی مثبت کہانیاں دنیا تک پہنچانا ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے۔ بحرانوں کی ذمہ دارانہ رپورٹنگ کے لئے صحافیوں کی تربیت ناگزیر ہے۔ آذربائیجان میں میڈیا ایکسی لینس سینٹر کے قیام کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ رکن ممالک کی شراکت سے میڈیا تعاون کے نئے دروازے کھلیں گے۔