ن لیگ اور پی پی میں حکومت سے متعلق کیا فارمولا طے پایا تھا؟ یوسف رضا گیلانی نے بتادیا
اشاعت کی تاریخ: 23rd, November 2025 GMT
چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ حکومت کی تشکیل کے وقت مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان ہاف ٹرم کا معاہدہ ہوا تھا، بلاول بھٹو زرداری نے ہاف ٹرم سے انکار کیا تاہم میرے خیال میں معاہدہ اب بھی موجود ہے۔
یہ بھی پڑھیں:قائم مقام صدر یوسف رضا گیلانی سے سینیٹرز اور سیاسی شخصیات کی ملاقات
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ حکومت کی تشکیل کے وقت مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان ہاف ٹرم پر معاہدہ ہوا تھا، لیکن وہ خود اس مذاکرات کا حصہ نہیں تھے۔ انہیں بتایا گیا کہ اس پر اتفاق ہوا ہے، جس میں وزیرِاعظم، اسپیکر اور سینیٹ کے چیئرمین کی مدت نصف نصف طے کرنے کی بات ہوئی۔
یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ انہیں خود 6 سال کی مدت لینے کی پیشکش کو ترک کرنا پڑا اور 3 سال کی مدت اختیار کی، جبکہ 6 سال کی مدت مولانا محمود الحسن کو دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ پارٹی کے مشورے اور شفاف اتفاق رائے کے تحت کیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت میں شیئرنگ کے یہ اصول اب بھی لیڈرشپ کے درمیان برقرار ہیں اور یہ مکمل طور پر قیادت کا اندرونی معاملہ ہے، وزیراعظم اور اسپیکر کی مدت پر بھی ہاف ٹرم کے لیے اتفاق ہوا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: قائمقام صدر یوسف رضا گیلانی سے ازبک اسپیکر کی ملاقات، اقتصادی امور سمیت اہم معاملات پر بات چیت
ان کا کہنا تھا کہ 18ویں ترمیم کے بعد 26ویں اور 27ویں ترمیمات بھی جمہوری عمل اور حکومت کی مضبوطی کے لیے اہم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 18ویں ترمیم چارٹر آف ڈیموکریسی کا حصہ تھی، جس پر محترمہ بینظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف نے دستخط کیے تھے، لیکن ان کے دور میں زیادہ تر اقدامات مکمل نہیں ہو سکے۔
یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ 17ویں اور 18ویں ترمیمات کے دوران پارلیمنٹ نے چارٹر آف ڈیموکریسی کے 85 فیصد نکات متفقہ طور پر منظور کیے۔ انہوں نے یاد دہانی کرائی کہ 1973 میں پاکستان میں ایک ایوانی نظام تھا جس میں 128 ووٹ تھے، جبکہ موجودہ دستور میں 446 ارکان کے ساتھ دو ایوانی نظام موجود ہے اور ترمیمات متفقہ طور پر پاس ہوئی ہیں۔
چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ 27ویں ترمیم کے معاملے میں بھی پارلیمنٹ نے مکمل طریقہ کار اختیار کیا، جس میں جائنٹ کمیٹی اور سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی شامل تھی، اور تقریباً تمام اراکین نے بحث میں حصہ لیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اختلاف کے باوجود پارلیمانی طریقہ کار کے مطابق فیصلے کیے گئے۔
یہ بھی پڑھیں: چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی کی آذربائیجان کی اسپیکر ملی مجلس سے ملاقات
انہوں نے زور دیا کہ پیپلز پارٹی نے ان اصلاحات میں شراکت دی اور یہ کسی قسم کا دباؤ یا زبردستی نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ کوآرڈینیشن اور اتفاق رائے کے بعد دو تہائی اکثریت حاصل کی گئی اور تمام فیصلے شفاف انداز میں کیے گئے۔
چیئرمین سینیٹ نے آخر میں کہا کہ پاکستان میں جمہوریت ابھی نیا ہے، کئی مسائل موجود ہیں، اور آئندہ بھی وقت کے ساتھ سیاسی اور آئینی اصلاحات جاری رہیں گی۔
یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ کسی بھی آئینی یا نظریاتی فیصلہ میں پارٹی کے مرکزی ایگزیکٹو کمیٹی (سی ای سی) کی مشاورت ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر رکن کی رائے لینے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کیا جاتا ہے تاکہ پارٹی کے ارکان کو اعتماد اور شرکت کا موقع ملے۔
گلانی نے بتایا کہ 243 آرٹیکل کی اصلاحات اور این ایف سی ایوارڈ پر پارٹی میں طویل بحث ہوئی اور ہر پہلو پر غور کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے 18ویں ترمیم کے دوران کچھ تحفظات ظاہر کیے تھے لیکن پارلیمانی طریقہ کار کے مطابق تمام فیصلے متفقہ طور پر ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں:چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کرپشن کے 3 کیسز میں بری
چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ آئندہ اصلاحات میں بھی عوامی مفاد کو مدنظر رکھنا ضروری ہے اور آئینی عدالتیں اور دیگر اصلاحات اب عوام کو انصاف فراہم کرنے کی ذمہ داری رکھتی ہیں۔ انہوں نے مشہور قول کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اہم سوال یہ ہے کہ عوام انصاف حاصل کر رہے ہیں یا نہیں، اور اگر وہ انصاف پا رہے ہیں تو جمہوریت مضبوط ہوگی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news پیپلز پارٹی چیئرمین سینیٹ مسلم لیگ ن یوسف رضا گیلانی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پیپلز پارٹی چیئرمین سینیٹ مسلم لیگ ن یوسف رضا گیلانی انہوں نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ یہ بھی پڑھیں پیپلز پارٹی 18ویں ترمیم کے درمیان پارٹی کے کہ حکومت ہاف ٹرم کی مدت
پڑھیں:
آئی ایم ایف کی رپورٹ نے حکومت کے کرتوت واضح کر دیے، وقاص اکرم
مرکزی سیکریٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کی رپورٹ نے حکومت کے کرتوت واضح کر دیے، آئی ایم ایف کی نظر میں وفاقی حکومت کی جو حیثیت اور اوقات ہے وہ سامنے آگئی، ستائسویں ترمیم کو دنیا نے دیکھ لیا۔
سیکریٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم نے دعویٰ کیا کہ بانیِ پی ٹی آئی کی ملاقاتوں پر غیرقانونی پابندی عائد کرکے آئین کے آرٹیکل 10 اور 14 کی صریح خلاف ورزی کی جارہی ہے اور انہیں قیدِ تنہائی میں رکھا گیا ہے، حالانکہ دہائیوں سے قانون موجود ہے کہ ہر قیدی ہفتے میں ملاقات کا حق رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بانیِ پی ٹی آئی کی بہنوں اور اہلیہ بشریٰ بی بی کو بھی ملاقات کی اجازت نہیں دی جارہی، جبکہ صوبائی وزیرِاعلیٰ کو سات مرتبہ روک کر پورے خیبرپختونخوا کی تذلیل کی گئی۔
شیخ وقاص اکرم کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کو بانیِ پی ٹی آئی کا خوف ہے، اسی وجہ سے ان کی قانونی ملاقاتیں روکی جارہی ہیں تاکہ وہ پارٹی سے دور نہ ہونے پائیں اور احتجاج کی کوئی کال نہ دیں۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ موجودہ حکومت گورے غاصب سے بھی زیادہ ظالم ثابت ہوئی ہے اور سیاسی مخالفین کی آواز دبانے کی کوشش کی جارہی ہے جبکہ ان کے مطابق بانیِ پی ٹی آئی جیل میں ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید مضبوط ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دو سال سے 9 مئی کی سی سی ٹی وی فوٹیج مانگی جارہی ہے مگر فراہم نہیں کی گئی، جبکہ پنجاب میں ایسے افراد کو بھی لائیو دکھایا جاتا ہے جنہیں محلے والے تک نہیں جانتے، مگر حقیقی نمائندوں کی آواز میڈیا پر نہیں چلنے دی جاتی۔
آئی ایم ایف رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ بین الاقوامی ادارہ خود حکومت کے کرتوت سامنے لا رہا ہے، رپورٹ میں 5.3 کھرب کی کرپشن، عدالتی نظام کی کمزوریاں، لاکھوں مقدمات کے زیرِ التواء ہونے اور اداروں کے اختیارات میں ٹکراؤ کی نشاندہی کی گئی ہے، جو ان کے مطابق حکومت کی ناکامی کا واضح ثبوت ہے۔
انہوں نے چیف جسٹس پاکستان سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ آئی ایم ایف رپورٹ کے نکات کا جائزہ لیں۔
شیخ وقاص اکرم نے حکومت کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ انتشار کی ذمہ دار وہ خود ہیں، اس رویے سے ملک میں مزید سیاسی بحران کو ہوا دی جارہی ہے۔