Daily Ausaf:
2025-11-03@17:59:10 GMT

مسئلہ کشمیر کا تاریخی پس منظر اور موجودہ صورتحال

اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
اس کے بعد سے کشمیری عوام ملکی اور بین الاقوامی سطح پر مسلسل یہ آواز بلند کر رہے ہیں کہ بین الاقوامی وعدہ کے مطابق آزادانہ استصواب کے ذریعے سے انہیں حق خود ارادیت کے تحت اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے مگر نہ بھارت اس کے لیے تیار ہو رہا ہے اور نہ اقوام متحدہ اور عالمی برادری ہی کشمیری عوام کو ان کا یہ جائز اور مسلمہ حق دلوانے میں کسی سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ جبکہ اس وقت مبینہ طور پر چھ لاکھ کے لگ بھگ انڈین آرمی جموں و کشمیر کے بھارتی مقبوضہ حصے پر مسلط ہے اور ریاست کے عوام جبر و تشدد کے وحشیانہ ماحول میں سنگینوں کے سائے تلے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ کشمیری عوام نے بھارتی مظالم اور اقوام متحدہ کی بے حسی کے خلاف تنگ آ کر متعدد بار ہتھیار اٹھائے اور ہزاروں نوجوانوں نے جام شہادت نوش کیا۔ اس دوران میں کئی بار مذاکرات کی میز بچھی مگر پون صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط اس جدوجہد کا ابھی تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا اور احتجاج اور قربانی کا کوئی مرحلہ بھارت اور عالمی برادری کے طرز عمل میں تبدیلی لانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔
ریاست جموں و کشمیر کی آبادی ایک کروڑ سے زیادہ بتائی جاتی ہے جس کی غالب اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ آبادی کا ایک بڑا حصہ پاکستان اور دیگر ممالک میں مہاجر کے طور پر زندگی بسر کر رہا ہے اور دنیا کے کسی بھی حصے میں رہنے والے کشمیری اپنے اس مطالبہ پر پوری طرح متفق اور اس کے لیے سرگرم عمل ہیں کہ انہیں اقوام متحدہ کے وعدے کے مطابق آزادانہ حق خود ارادیت کے ذریعے سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے۔ کشمیر دنیا کے خوبصورت ترین خطوں میں سے ہے اور یہ ایسی جنت نظیر وادی ہے جس کے بارے میں کسی فارسی شاعر نے کہا تھا کہ
اگر فردوس بر روئے زمیں است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است
مگر آج یہ جنت ارضی انڈیا کی چھ لاکھ فوج کی سنگینوں تلے آگ اور خون کا میدان کارزار بن چکی ہے اور اس خطے کے مظلوم مسلمان اپنی آزادی اور دینی تشخص کے لیے قربانیوں کی ایک نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔
یہ تو مسئلہ کشمیر کا تاریخ پس منظر ہے جس کا تعلق ماضی سے ہے اور اس خطے کے عوام کے مسلمہ حقوق سے ہے، مگر اس مسئلے کا ایک معروضی تناظر بھی ہے جسے اس موقع پر سامنے رکھنا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ:
(۱) جس طرح پون صدی قبل تقسیم ہند کے موقع پر بین الاقوامی قوتوں بالخصوص مغربی استعمار کا مفاد اس میں تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کی فضا بہرحال قائم رکھی جائے اور اسی مقصد کے لیے طے شدہ پلان کے مطابق کشمیر کا مسئلہ سازش کے ذریعے سے کھڑا کیا گیا اور پھر اسے کبھی حل نہ کرنے کی پالیسی اختیار کر لی گئی، اسی طرح آج ان قوتوں کا مفاد اس میں ہے کہ یہ کشیدگی کم ہو اور پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے قریب آکر اس بین الاقوامی ایجنڈے پر عملدرآمد کی مشترکہ طور پر راہ ہموار کریں جو ’’گلوبلائزیشن‘‘ کے نام سے پوری دنیا پر مغرب کی حکمرانی مسلط کرنے کے لیے منظم طور پر آگے بڑھایا جا رہا ہے۔
(۲) مغربی حکمرانوں کو پاکستان کی ایٹمی طاقت کھٹک رہی ہے کیونکہ یہ مسلم دنیا کی ایٹمی قوت سمجھی جا رہی ہے اس لیے پاکستان کو ایٹمی طاقت سے دستبردار ہونے پر آمادہ کرنے کے لیے مسئلہ کشمیر کو کسی نہ کسی طرح حل کرنا ضروری سمجھا جا رہا ہے۔
(۳) مغربی استعمار کو پاکستان کی فوج کا موجودہ سائز، صلاحیت اور جہاد کے عنوان سے اس کی تربیت کھٹک رہی ہے اور پاک فوج کی ڈاؤن سائزنگ اور اس کا ذہنی رخ بدلنے کے لیے کشمیر کا ٹارگٹ اس کی نگاہوں سے اوجھل کرنا ضروری سمجھا جا رہا، اس لیے بھی مسئلہ کشمیر کا کوئی نہ کوئی حل ضروری خیال کیا جاتا ہے۔
(۴) جہاد کے عنوان سے روسی جارحیت سے نجات حاصل کرنے کے بعد افغان مجاہدین نے وہاں جو اسلامی نظریاتی حکومت قائم کر لی ہے، اس تجربہ کا کشمیر میں اعادہ مغربی استعمار کے نزدیک ناقابل برداشت ہوگا، اس لیے بین الاقوامی حلقوں کے نزدیک یہ ناگزیر ہوگیا ہے کہ کشمیر میں کوئی بھی تبدیلی جہاد کے عنوان سے نہ ہو اور بین الاقوامی سیاسی رابطوں کے ذریعے سے اسی طرح کا کوئی حل کشمیریوں پر مسلط کر دیا جائے جیسے ’’جنیوا معاہدہ‘‘ کے تحت روسی افواج کو افغانستان سے واپسی کا راستہ دے کر کابل میں ایک کمزور سی حکومت بٹھا دی گئی تھی اور افغان مجاہدین کے مختلف گروپوں کو مستقل طور پر آپس میں لڑاتے رہنے کا اہتمام کر لیا گیا تھا۔
(۵) مغربی حکمرانوں کو چین کے خلاف اپنا حصار مضبوط کرنے اور جنوبی ایشیا کو ایک بلاک کی صورت میں چین کے خلاف کھڑا کرنے کے لیے بھی پاکستان اور بھارت کی دوستی اور اشتراک کار درکار ہے اور یہ مسئلہ کشمیر کے کسی نہ کسی حل کے سوا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ چین کے خلاف عسکری مہم جوئی کے لیے جغرافیائی طور پر وادی کشمیر سب سے مضبوط اور موزوں عسکری مرکز ثابت ہو سکتی ہے اور وہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ پاکستان اور بھارت کسی نہ کسی صورت میں اسے بین الاقوامی کنٹرول کے نام سے مغربی ملکوں کے سپرد کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔
(۶) بھارت کو ریاست جموں و کشمیر سے دستبرداری میں اپنی روایتی ہٹ دھرمی اور پاکستان دشمنی کے ساتھ ساتھ یہ مشکل پیش آرہی ہے کہ اس کے اپنے مختلف علاقوں میں آزادی کی تحریکات چل رہی ہیں اس لیے کشمیر کو آزادی دینے کی صورت میں مختلف علاقوں کی ان تحریکاتِ آزادی کا راستہ روکنا مشکل ہو جائے گا اور اس کے نتیجے میں بھارت اسی طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو سکتا ہے جس طرح جہاد افغانستان کے نتیجے میں سوویت یونین کے حصے بخرے ہوگئے تھے۔
(۷) پاکستان کے لیے قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے بقول کشمیر ’’شہ رگ‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے اور کشمیری عوام کے ساتھ پاکستان کے لازوال دینی، ثقافتی اور جغرافیائی رشتوں اور تعلقات کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی سامنے ہے کہ کشمیر اس کے بیشتر دریاؤں کا سرچشمہ ہے اور مستقبل قریب میں پانی کے عالمی سطح پر پیدا ہونے والے متوقع عظیم بحران سے قبل اپنے دریاؤں کے سرچشموں سے دستبرداری پورے پاکستان کو بنجر بنانے اور ایتھوپیا اور سوڈان جیسے خوفناک قحطوں کو قبول کرنے کے مترادف ہوگا۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: پاکستان اور بھارت بین الاقوامی مسئلہ کشمیر کشمیری عوام کرنے کے لیے کے ذریعے سے کشمیر کا کے خلاف اس لیے اور اس ہے اور رہی ہے رہا ہے

پڑھیں:

ترقی کی چکا چوند کے پیچھے کا منظر

اللہ بھلا کرے ہمارے ناخداؤں کا، صبح شام ہمیں یقین دلائے رکھتے ہیں کہ ملک ترقی کر رہا ہے، گھبرانا نہیں۔ بلکہ ثبوت کے طور پر کئی دعوے اور مختلف معاشی اشاریے پیش کیے جاتے ہیں کہ لو دیکھ لو، جنگل کا جنگل ہرا ہے لیکن کیا کیجیے۔ 

زمینی حقائق سے واسطہ پڑتا ہے تو بندۂ مزدور کے اوقات اسی طرح تلخ اور سوہان روح ملتے ہیں۔ ہم عوام کی یہ دہائی کون سنتا ہے لیکن جب ان اعداد وشمار کو مختلف ترتیب سے کوئی عالمی ادارہ مرتب کر کے عوام کی دہائی اور تاثر کی تائید کرے تو اس پر اعتبار کرنا بنتا ہے۔

سالہا سال سے سن، پڑھ اور دیکھ رہے ہیں کہ ترقی کی دوڑ میں ایشیاء تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ جی ڈی پی گروتھ، پیداوار، برآمدات اور ارب پتیوں کی تعداد میں دھڑادھڑ اضافہ ہو رہا ہے۔

ایسے میں معاشی بدحالی کا دھڑکا تو اصولاً نہیں ہونا چاہیے لیکن معروف عالمی ریسرچ ادارے آکسفیم کی ایشیائی ممالک کی ترقی کی بابت تازہ رپورٹ کے مطابق ترقی ہو تو رہی لیکن اس کے ثمرات کا غالب حصہ چند ہاتھوں تک محدود ہے جب کہ عوام کے حصے میں ٹریکل ڈاؤن ایفیکٹ کا لالی پاپ ہی رہتا ہے۔ یقین نہ آئے تو رپورٹ کے چیدہ نکات سنئے اور سر دھنیے…

رپورٹ کا عنوان ہے ’’An Unequal Future‘‘ یعنی ’’غیر مساوی مستقبل‘‘۔ رپورٹ کا خلاصہ یہ کہ اگر ترقی کی یہ رادھا نو من تیل کے ساتھ اسی طرح ناچتی رہی تو پورے ایشیاء میں انصاف، مساوات اور خوشحالی کا خواب بس خواب ہی رہے گا۔

آکسفیم کے مطابق، ایشیاء کے بیشتر ممالک میں دولت اور آمدنی کی تقسیم خطرناک حد تک غیر مساوی ہے۔ بظاہر ترقی کی شرح بلند ہے مگر سماجی انصاف، پائیدار روزگار اور روزمرہ کی پبلک سرورسز کی فراہمی کمزور تر ہو رہی ہے۔

یہ رپورٹ تین بڑے بحرانوں کو ایک دوسرے سے جوڑتی ہے۔ آمدنی و دولت کی ناہمواری، موسمیاتی تباہ کاری اور ڈیجیٹل خلاء (Digital Divide)۔

رپورٹ کے مطابق ایشیاء کے بڑے ممالک میں امیر ترین 10 فیصد افراد قومی آمدنی کے 60 سے 77 فیصد حصہ کے مالک ہیں۔

بھارت میں ایک فیصد اشرافیہ ملک کی کل دولت کا 40 فیصد جب کہ چین میں 31 فیصد کنٹرول کرتی ہے۔ یہ خوفناک تضاد اس حقیقت کا اظہار ہے کہ معاشی ترقی کے اعداد و شمار اور رنگ برنگے اشاریے عوامی فلاح اور متناسب سماجی ترقی کے مترادف نہیں۔ ترقی کے باوجود 18.9 فیصد آبادی اب بھی روزانہ 3.65 ڈالر سے کم پر گزارا کرتی ہے اور 50 کروڑ سے زائد لوگ غربت یا اس کے دہانے پر ہیں۔

ٹیکس کا نظام بھی بالعموم غیرمنصفانہ ہے۔ ایشیاء میں اوسطاً ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب 19 فیصد ہے جو ترقی یافتہ ممالک (OECD اوسط 34 فیصد) سے کہیں کم ہے۔ نتیجتاً حکومتوں کے پاس تعلیم، صحت اور سماجی تحفظ کے لیے وسائل ناکافی رہتے ہیں۔اے آئی، انٹرنیٹ اور موبائلز فونز کے انقلاب کے باوجود ڈیجیٹل ناہمواری بھی بڑھ رہی ہے۔ شہری علاقوں میں 83 فیصد لوگ آن لائن ہیں جب کہ دیہی علاقوں میں یہ شرح 49 فیصد ہے۔صنفی پیمانے سے جانچیں تو خواتین کی ڈیجیٹل شمولیت مردوں کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہے۔

ماحولیاتی اعتبار سے بھی عدم مساوات نمایاں ہے۔ جن طبقات کا آلودگی میں حصہ سب سے کم ہے، وہی سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ جنوبی ایشیاء میں امیر ترین 0.1 فیصد افراد ایک عام شہری کے مقابلے میں 70 گنا زیادہ کاربن خارج کرتے ہیں جب کہ غریب ترین 50 فیصد طبقہ ماحولیاتی نقصانات کا سب سے بڑا شکار ہے۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں معاشی نمو کے باوجود معاشی ناہمواری اور سماجی عدم مساوات تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اگرچہ غربت میں گاہے وقتی کمی دیکھی گئی مگر عملاً امیر اور غریب کے درمیان فاصلہ وسیع تر ہو رہا ہے۔ پاکستان میں امیر ترین 10 فیصد افراد قومی آمدنی کا تقریباً 62 فیصد حاصل کرتے ہیں جب کہ نچلے 50 فیصد عوام کے حصے میں صرف 10 فیصد آمدنی آتی ہے۔ یہ معاشی و سماجی ناہمواری وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور اشرافیہ کے ہاتھوں میں طاقت کے ارتکاز کو ظاہر کرتی ہے۔

ٹیکس کا ڈھانچہ اس خلیج کو مزید گہرا کرتا ہے۔ پاکستان کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب محض 9.5 تا 10 فیصد ہے جو خطے میں سب سے کم ہے۔ یہ مایوس کن شرح پبلک سروسز کے لیے مالی گنجائش کو مزید محدود کر دیتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں زیادہ تر محصولات بالواسطہ ٹیکسوں (پٹرول، بجلی، اشیائے ضروریہ) سے حاصل کیے جاتے ہیں، جس کا بوجھ بالآخر غریب اور متوسط طبقے پر آتا ہے۔

تعلیم اور صحت پر سرکاری خرچ بھی اسی عدم توازن کا تسلسل ہے۔ پاکستان اپنی قومی آمدنی کا صرف 2.2 فیصد تعلیم اور 1.5 فیصد صحت پر خرچ کرتا ہے۔ یہ شرح بنگلہ دیش (تعلیم 2.6÷، صحت 2.4÷) اور نیپال (تعلیم 3.4÷، صحت 2.9÷) سے کم ہے جب کہ جنوبی کوریا جیسے ممالک تعلیم پر 4.8÷ اور صحت پر 5.1÷ خرچ کرتے ہیں۔

ماحولیاتی لحاظ سے پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہے جو کلائمیٹ چینج سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ گزشتہ دہائی میں ماحولیاتی آفات کے باعث 3 کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے اور 30 ارب ڈالر سے زیادہ کا معاشی نقصان ہوا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا عالمی آلودگی میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد اگرچہ کچھ کم ہوئی، تاہم رپورٹ کے مطابق 22 فیصد آبادی اب بھی روزانہ 3.65 ڈالر سے کم پر زندہ ہے اور 50 فیصد سے زیادہ لوگ ایسے ہیں جو معمولی معاشی جھٹکے سے غربت میں جا سکتے ہیں۔

یہ تمام اعداد وشمار چیخ چیخ کر دہائی دے رہے ہیں کہ معاشی ترقی کے افسانوں میں ہم نے مساوات اور ہیومن ڈویلپمنٹ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ پاکستان کے لیے اصل چیلنج صرف معاشی نمو ہی نہیں بلکہ اس نمو کی منصفانہ تقسیم بھی ہے۔ اگروسائل، مواقع اور انصاف کی سمت درست نہ کی گئی تو دولت کے محلوں کے سائے میں غربت کی بستیاں مزید پھیلتی جائیں گی۔ فیصلہ سازوں کوتو شاید سوچنے کی مجبوری نہیں لیکن سماج کو ضرورسوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم کیسی ترقی چاہتے ہیں: اشرافیہ کے ایک محدود طبقے کے لیے یا سب کے لیے؟

متعلقہ مضامین

  • ورلڈ کپ میں تاریخی کامیابی نے انڈینز کو ’1983 کی یاد دلا دی، مودی سمیت کرکٹ لیجنڈز کا خراجِ تحسین
  • آزاد کشمیر ہمیں جہاد سے ملا اور باقی کشمیر کی آزادی کا بھی یہ ہی راستہ ہے، شاداب نقشبندی
  • ترقی کی چکا چوند کے پیچھے کا منظر
  • بھارت میں کشمیریوں کی نسل کشی انتہا کو پہنچ گئی،کشمیر  کی آزادی وقت کی ضرورت ہے، صدرآصف علی زرداری
  • کشمیر کا مسئلہ پیپلز پارٹی کے دل کے قریب ہے، شازیہ مری
  • چین کی تاریخی فتح اور بھارت کو سبکی، نصرت جاوید بڑی خبریں سامنے لے آئے
  • بھارتی پروپیگنڈے کا نیا حربہ ناکام، اعجاز ملاح کا اعترافی بیان منظر عام پر، عطا تارڑ و طلال چوہدری کی مشترکہ پریس کانفرنس
  • کشمیر کی آزادی ناگزیر، بھارت میں مسلمانوں پر مظالم کا بازار گرم ہے: صدر مملکت
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، کبھی تھا نہ کبھی ہوگا، پاکستان
  • یوسف تاریگامی کا بھارت میں آزادی صحافت کی سنگین صورتحال پر اظہار تشویش