پی ٹی آئی کی تنظیم نو اور سیاسی حکمت عملی کی ضرورت
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
پی ٹی آئی کا داخلی یا تنظیمی بحران ہمیشہ سے یہ ہی رہا ہے کہ اس میں سیاسی فیصلوں یا سیاسی لوگوں کے مقابلے میں غیر سیاسی فیصلے اور غیر سیاسی افراد کی زیادہ اہمیت رہی ہے۔اس پارٹی نے کبھی اپنی تنظیمی معاملات کو درست کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی بلکہ جو بھی کوشش کی گئی اس مہم جوئی کے نتیجے میں پارٹی میں مزید تقسیم پیدا ہوئی۔
وہ لوگ جو پی ٹی آئی کے اندر سیاسی سمجھ بوجھ رکھتے تھے یا ان کو سیاسی جماعت کوخود چلانے کا تجربہ تھا انھیں زیادہ اہمیت حاصل نہیں ہو سکی۔ان کے مقابلے میں وہ لوگ زیادہ اہمیت حاصل کرگئے جن کی سوچ اور سیاسی فہم عملی طور پر نہ ہونے کے برابر تھا۔اس کی ایک بڑی وجہ خود بانی پی ٹی آئی کے نئے نئے تجربات اور غیر سیاسی لوگوں پر بہت زیادہ انحصار کرنا بھی ان کی سیاسی حکمت عملی میں شامل تھا۔
حالیہ دنوں پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی نے پنجاب اور خیبر پختون خواہ کے تناظر میں چند بنیادی نوعیت کے کچھ اہم فیصلے کیے ہیں۔ان میں سب سے بڑی تبدیلی تو وزیر اعلیٰ خیبر پختون خواہ علی امین گنڈا پور سے صوبائی صدارت کی واپسی ہے۔ان کی جگہ جنید اکبر کو پارٹی کا نیا صوبائی صدر بنایا گیا ہے۔علی امین گنڈاپور ایک ہی وقت میں خیبر پختون خواہ کے وزیر اعلیٰ تھے،دوسرے وقت میں صوبائی صدارت بھی ان کے پاس تھی۔
اسی طرح بشری بی بی اور علی امین گنڈا پور کے درمیان بھی رابطہ کاری موجود تھی،علی امین گنڈا پور بانی پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بھی سہولت کاری کا کردار ادا کر رہے تھے،محسن نقوی سے بھی ان کے تعلقات بہت اچھے تھے،صوبائی سطح پر پارٹی کے اندر ان کی صدارت پر بہت سے لوگوں کو بہت سے تحفظات تھے۔
بانی پی ٹی آئی میں بھی یہ احساس پیدا ہوا کہ علی امین گنڈا پور مجھ سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کے مفادات کو فوقیت دے کر معاملات طے کرنا چاہتے ہیں،اسی طرح 26 نومبر کو جو کچھ ہوا اس کی ذمے داری بھی بہت سے لوگوں کے بقول علی امین گنڈا پور کی تھی۔ان تمام وجوہات کی بنیاد پر علی امین گنڈا پور کی تبدیلی رونما ہوئی ہے۔
اب دیکھنا یہ ہوگا کہ جنید اکبر صوبائی سطح پر کیا کردار ادا کرتے ہیں اور علی مین گنڈا پور بطور وزیر اعلیٰ ان کو کس حد تک سہولت کاری دیں گے۔جنید اکبرنے یہ اعتراف کیا ہے کہ پارٹی میں بہت سے لوگ اسٹیبلشمنٹ سے رابطے میں تھے اور ان کے مفادات پارٹی سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ سے جڑے ہوئے تھے اور اب یہ کھیل مزید نہیں چل سکے گا۔
میں ہمیشہ سے اس بات کا حامی رہا ہوں کہ صوبائی چیف ایگزیکٹو کا عہدہ اور پارٹی کی صوبائی صدارت کا عہدہ علیحدہ علیحدہ ہونا چاہیے۔اب اگر پی ٹ پی ٹی آئی نے یہ فیصلہ کیا ہے تو اس کی تائید ہونی چاہیے۔لیکن جنید اکبر کو بھی اس تاثر کی نفی کرنی چاہیے کہ وہ کسی مخصوص گروپ کی حمایت سے صدر بنے ہیں۔
ان کو علی امین گنڈا پور ہوں یا عاطف خان گروپ ہو یا کوئی دیگر گروپ سب کو ساتھ لے کر چلنا ہے اور خاص طور پر پی ٹی آئی کی مزاحمت اور پی ٹی آئی کے کارکنان کو اپنے ساتھ جوڑنا ہے۔کیونکہ علی امین گنڈا پور تمام تر اختیارات کے باوجود صوبائی سطح پر پی ٹی آئی کے لیے کوئی بڑی مزاحمت پیدا نہیں کر سکے تھے بلکہ یہ بھی دیکھنا پڑا کہ اہم موقع پر جہاں پی ٹی آئی نے احتجاج کرنا تھا خود وہ منظر عام سے غائب نظر آئے۔
جہاں تک پنجاب کا تعلق ہے وہاں پی ٹی آئی نے فیصلہ کیا ہے کہ عالیہ حمزہ کو پنجاب کا صوبائی آرگنائزر بنایا جائے اور اس عہدے پر ان کی تقرری بھی کر دی گئی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مشکل وقت میں عالیہ حمزہ نہ صرف پارٹی کے ساتھ کھڑی رہی بلکہ انھوں نے جیل بھی کاٹی ہے۔
لیکن پنجاب کی چیف ارگنائزر کے طور پر ان کو کوئی خاص تجربہ نہیں ہے۔ویسے بھی جو لوگ پنجاب کی سیاست کو سمجھتے ہیں ان کو اس بات کا احساس ہے کہ پنجاب کی سیاست برادریوں اور بڑے خاندانوں کے ارد گرد گھومتی ہے اور یہاں سے سیاست کرنے والا جب تک اس کھیل میں کوئی بڑا کردار ادا نہیں کرتا اس کی کوئی بڑی پزیرائی نہیں ہوتی۔
پی ٹی آئی اور پنجاب کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں بہت سے اہم لوگ جیلوں میں ہیں جن میں یاسمین راشد ،میاں محمود الرشید، اعجاز چوہدری ،عمر سرفراز چیمہ شامل ہیں۔ جب کہ پارٹی کے صوبائی صدر حماد اظہر نے کئی سالوں سے نہ صرف سیاسی طور پر سیاسی روپوشی اختیار کی ہوئی ہے بلکہ ٹک ٹاک کی بنیاد پر پارٹی چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
جب پی ٹی آئی میں عمران خان سمیت دیگر قیادت نے سیاسی روپوشی کا راستہ اختیار نہیں کیا تو حماد اظہر اور میاں اسلم اقبال نے یہ راستہ کیوں اختیار کیوں اختیار کیا ہوا ہے۔اصولی طور پر اگر انھوں نے سیاسی روپوشی کا فیصلہ کر ہی لیا تھا تو خود ان کو پارٹی عہدوں سے استعفی دے دینا چاہیے تھا یا پارٹی کو ان کی جگہ کسی اور کو یہ ذمے داری دے دینی چاہیے تھی۔
پی ٹی آئی نے پنجاب کو چار زونوں میں تبدیل کیا یا لاہور کی صدارت بھی ایسے فرد کو دی گئی جو کچھ نہیں کر سکتا تھا۔غیر سیاسی لوگوں پر مشتمل پی ٹی آئی کے عہدے دار خود پی ٹی آئی پر سیاسی بوجھ بن گئے۔
اپ پی ٹی آئی کے کارکنوں سے پوچھیں تو وہ خود اس قیادت کی نفی کریں گے اور ان کے بقول اس مشکل وقت میں وہ پارٹی کے ساتھ کم کھڑے ہوئے ۔پنجاب میں ایک کردار چوہدری پرویز الہی اور شاہ محمود قریشی کا بھی ہے۔
دونوں نے بڑی ثابت قدمی سے بڑی جرات دکھائی۔لیکن چوہدری پرویز الہی اپنی رہائی کے بعد مکمل طور پر خاموش ہیں اور کسی قسم کی سیاسی سرگرمی نہیں کر رہے حالانکہ وہ سیاسی ڈیرہ داری کے ماہر ہیں اور پنجاب کی سیاسی برادریوں میں ان کا کافی گہرا اثر ہے اور اگر پی ٹی آئی نے پنجاب کی سیاست میں کوئی بڑا فعال کردار ادا کرنا ہے تو اس میں چوہدری پرویز الہی بڑا کردار ادا کر سکتے ہیں۔
لیکن ایک طرف چوہدری پرویز الہی کی خاموشی اور دوسری طرف ان کے بیٹے مونس الہی کی سیاسی غیر حاضری نے ان کے سیاسی مستقبل پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔لیکن اگر چوہدری پرویز الہی اور ڈاکٹر یاسمین راشد مل کر پنجاب کی صدارت اور جنرل سیکریٹری کے اوپر کام کریں تو یہ ایک بہترین آپشن ہو سکتا ہے۔
اس میں شیخ وقاص اکرم کو بھی کسی اہم عہدے پر لایا جا سکتا ہے۔عمر سرفراز چیمہ کو پنجاب کا سیکریٹری اطلاعت و نشریات بنایا جا سکتا ہے۔لاہور کی صدارت کے لیے آج بھی ان کے پاس میاں محمود الرشید کی شکل میں ایک بہتر آپشن موجود ہے۔30 اکتوبر 2011 کو لاہور میں ہونے والا تاریخی جلسہ میاں محمود الرشید کی کوششوں کا ہی نتیجہ تھا اور اس کا اعتراف خود بانی پی ٹی آئی بھی کرتے ہیں۔ محمود الرشید آج بھی نہ صرف پارٹی کے ساتھ کھڑے ہیں بلکہ جیل بھی عملاً کاٹ رہے ہیں۔
ایک مسئلہ پی ٹی آئی میں پارٹی چھوڑ جانے والے پرانے لوگوں کا ہے۔بہت سے لوگ پارٹی میں واپس آنا چاہتے ہیں اور پارٹی کے اندر بہت سے لوگ ان کے بارے میں منفی جذبات رکھتے ہیں۔پہلی بات تو یہ ہے کہ ان میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جنھوں نے بہت مشکل حالات میں اور بہت دباؤ میں پارٹی چھوڑی تھی۔
یہ دباؤ محض ان تک محدود نہیں تھا بلکہ ان کے خاندان کے افراد تک بھی دیکھنے کو ملا۔ہر بندہ ایک خاص حد تک مزاحمت کرتا ہے اس لیے ان کے معاملات کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔دوسرا طبقہ وہ تھا جنھوں نے بہت جلد ہی پارٹی چھوڑ دی تھی اور اپنی سیاسی راہ جدا کر لی ان کے بارے میں پارٹی کو ان کی حمایت نہیں کرنی چاہیے۔ البتہ جو لوگ بھی پارٹی میں واپسی چاہتے ہیں، ان کے لیے دروازے کھلنے چاہیے اور ان کو غیر مشروط طور پر پارٹی میں واپسی کا راستہ دینا چاہیے۔یعنی ان کی واپسی فوری طور پر بغیر کسی عہدے یا پارٹی ٹکٹ سے غیر مشروط کی جائے۔
مرکزی سطح پر بھی بیرسٹر گوہر پارٹی کو یکجا نہیں کر سکے اور خود وکلا گروپ بھی پارٹی کے اندر تقسیم کا سبب بنا ہے۔پارٹی صدارت کے لیے ڈاکٹر عارف علوی کو دی جائے تو یہ ایک اچھی آپشن ہوگی۔اگر فواد چودری پارٹی میں واپس آتے ہیں تو وہ پارٹی کے سیکریٹری اطلاعات کے طور پر بہتر کردار ادا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: علی امین گنڈا پور بانی پی ٹی ا ئی محمود الرشید پی ٹی آئی نے پی ٹی آئی کے میں پارٹی غیر سیاسی پارٹی میں پارٹی کے کی صدارت پنجاب کی پنجاب کا کی سیاسی نہیں کر ہیں اور کے اندر کے لیے بھی ان
پڑھیں:
پیپلز پارٹی کی 17سالہ حکمرانی، اہل کراچی بدترین اذیت کا شکار ہیں،حافظ نعیم الرحمن
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی:۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے ملائشیا سے واپسی پر سینئر صحافیوں کے ساتھ تبادلہ خیال کی نشست میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ کراچی کی ابتر حالت پر افسوس ہوتا ہے، پیپلز پارٹی کی صوبے میں 17سالہ حکمرانی کے باعث کراچی کے رہنے والے بدترین حالات اور شدید ذہنی و جسمانی اذیت کا شکار ہیں، پیپلز پارٹی نا اہل بھی ہے اور کرپٹ بھی، گزشتہ 15سالو ں میں کراچی کی ترقی کے 3360 ارب روپے کھائے گئے، کراچی کی تعمیر و ترقی کا صرف یہی ایک راستہ ہے،مقامی حکومتوں کو با اختیار بنایا جائے۔
سپریم کورٹ کے حکم اور آرٹیکل 140-Aکے مطابق اختیارات و وسائل نچلی سطح تک منتقل کیے جائیں، کراچی میں ووٹ کی چوری کو معاف نہیں کیا، آئندہ ووٹ کی حفاظت کو بھی یقینی بنائیں گے، ملک میں متناسب نمائندگی کی بنیاد پر انتخابات کا اصول اور طریقہ کار اپنانا چاہیے،لینڈ ریفارمز بھی بہت ضروری ہیں۔پاکستان میں سیاست کا المیہ یہ ہے کہ سیاسی تحریکیں ہائی جیک ہو جاتی ہیں، سیاسی رہنما اسٹیبلشمنٹ سے ہاتھ ملا لیتے ہیں۔
ان حالات میں جماعت اسلامی واحد جمہوری جماعت اور حقیقی اپوزیشن ہے،جماعت اسلامی عام لوگوں کی جماعت اور عام آدمی کے ساتھ کھڑی ہے، ہم پاکستان کے لوگوں کو مایوس نہیں کریں گے، پاکستان میں سیاسی استحکام کی منزل دور ضرور لیکن عوام کی مدد سے حاصل کر کے رہیں گے۔
حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ بلوچستان کی صورتحال نازک معاملہ ہے، پنجاب میں بلوچستان کے لیے لانگ مارچ بڑا بریک تھرو تھا، جماعت اسلامی کوئٹہ، جعفرآباد اور گوادر میں بنو قابل پروگرام شروع کر رہی ہے، سندھ میں وڈیرہ شاہی اور جاگیردارانہ نظام اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر پی پی کا ساتھ دے رہا ہے۔
سندھ کے نوجوانوں میں سوشل میڈیا کی بدولت بیداری کی لہر پیدا ہو رہی ہے، کے پی کے میں پی ٹی آئی کے طویل اقتدار میں مافیاز پروان چڑھے، پنجاب میں ایک روٹی، دو کباب کی حکومتی امداد کے پیچھے بھی خودنمائی کی تحریک نظر آتی ہے۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان نے کہا کہ افغانستان سے پر امن تعلقات چاہتے ہیں، ڈائیلاگ ہونے چاہییں، افغانستان کو بھی سمجھنا چاہیے، وہاں سے دراندازی بند ہونی چاہیے، بہرحال دو طرفہ ملکی تعلقات میں بہتری کی گنجائش موجود ہے۔
21-22-23نومبر کو لاہور میں جماعت اسلامی کا اجتماع عام ہو گا، اسی میں آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان ہو گا،اجتماع عام میں خواتین، یوتھ، بزنس کمیونٹی، بین الاقوامی تنظیموں و اسلامی تحریکوں کے سیشن ہوں گے۔