Jasarat News:
2025-06-11@01:10:23 GMT

مزاحمت اور بی اے؟

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

مزاحمت اور بی اے؟

باطل کی مزاحمت انبیا و مرسلین اور مجددین کا ورثہ ہے۔ سیدنا ابراہیمؑ نے نمرود کی مزاحمت کی۔ سیدنا موسیٰؑ نے فرعون کی مزاحمت کی۔ رسول اکرمؐ نے مکے کے کفار اور مشرکین کی مزاحمت کی۔ برصغیر میں مجدد الف ثانی نے جہانگیر کی مزاحمت کی۔ مولانا مودودیؒ نے مغربی فکر اور سوشلزم کی مزاحمت کی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جاوید احمد غامدی کے شاگرد خورشید ندیم کا حالیہ کالم مزاحمت اور بی اے کئی اعتبار سے شرمناک ہے اس لیے کہ اس کالم میں خورشید ندیم نے مزاحمت کو بی اے اور ایم اے کی ڈگریوں کے ساتھ منسلک کردیا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ انہوں نے اپنے کالم میں سرسید احمد خان کی بھی تحسین فرمائی ہے اور تاثر دیا ہے کہ برصغیر میں صرف سرسید تھے جنہوں نے جدید علوم کی تحصیل کا درس دے کر برصغیر کے مسلمانوں میں مزاحمتی روح کو پروان چڑھایا۔ ان کے بقول سرسید نہ ہوتے تو پاکستان کو پڑھے لکھے طبقے سے وکیل فراہم نہیں ہوسکتے تھے۔ انہوں نے اس حوالے سے کیا لکھا ہے انہی الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں۔

’’مسلمانوں نے اگر کسی ناانصافی کے خلاف مزاحمت کرنی ہے تو انہیں پہلے بی اے کرنا پڑے گا۔ یہ مجبوری ہے۔ لڑائی لڑنی ہے تو پہلے تلوار خریدنا پڑے گی۔

یہ بات برصغیر کی سطح پر سب سے پہلے سرسیّد احمد خاں نے سمجھانے کی کوشش کی۔ ان کے ساتھ جو سلوک ہوا‘ وہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ اکبر الہ آبادی جیسی مرنجاں مرنج شخصیت بھی سر سید کے خلا ف فن آزما ہوئی:

ہم کیا کہیں‘ احباب کیا کارِ نمایاں کر گئے
بی اے ہوئے‘ نوکر ہوئے‘ پنشن ملی‘ پھر مر گئے

معلوم نہیں ہم مسلمان بی اے‘ ایم اے سے کیوں دور بھاگتے ہیں۔ لیلیٰ کی اماں نے جب رشتے کے لیے مجنوں کو ایم اے کرنے کو کہا تو وہ عشق سے دست بردار ہو گیا‘ مگر ایم اے کے لیے آمادہ نہیں ہوا۔ آخر وہ بھی مسلمان تھا۔ اکبر ہی نے ہمیں وہ جواب سنایا ہے جو مجنوں نے لیلیٰ کی ماں کو دیا:

یہی ٹھیری جو شرطِ وصلِ لیلیٰ
تو استعفا مرا با حسرت و یاس

یہ تو اللہ کا شکر ہوا کہ چند ایک نے سرسیّد کی بات مانی۔ بی اے کر لیا اور پھر ایل ایل بی بھی۔ پاکستان کو اپنا مقدمہ لڑنے کے لیے کچھ وکیل میسر آگئے اور یہ ملک آزاد ہو گیا۔ تاریخ نے اپنا فیصلہ سنا دیا کہ مزاحمت کے لیے بی اے کرنا پڑتا ہے۔ ورنہ آزادی کے متوالے کبھی ایک میدان میں رزقِ خاک ہو جاتے ہیں اور کبھی دوسرے میدان میں۔ کبھی شاملی میں کام آتے ہیں اور کبھی ان کے قافلے افغانستان کی راہوں میں گردِ خاک ہو جاتے ہیں۔

یہ غلط فہمی ہمارے رگ وپے میں سرایت کر گئی ہے کہ مسلح جدوجہد ہی مزاحمت کی واحد صورت ہے اور جو اس پر نقد کرتا ہے‘ وہ مزاحمت ہی کا منکر ہے۔ مسلح جدوجہد کو مزاحمت کی واحد صورت قرار دینے کا رجحان انیسویں صدی کی انقلابی تحریکوں کے زیرِ اثر مقبول ہوا۔ ظلم کے خلاف مزاحمت انسانی فطرت میں ہے اور دنیا کے ہر معاشرے میں اسے جائز سمجھا گیا ہے۔ مزاحمت کی کئی صورتیں ہوتی ہیں۔ ان کا تعلق حالات اور زمانے سے ہے۔ کبھی بی اے کرنا بھی مزاحمت ہی کی ایک صورت ہوتی ہے۔ اس بات کی تفہیم کے لیے ہم پھر سرسیّد کی طرف لوٹتے ہیں۔

سرسیّد نے برصغیر کے مسلمانوں کو یہ سمجھانے کی سعی کی کہ اس وقت تعلیم ہی وہ ہتھیار ہو سکتا ہے جس سے مزاحمت ممکن ہے۔ جنگِ آزادی میں اگر چند سو بندوقیں تمہاری تلواروں اور افرادی قوت پر غالب رہیں تو اس فرق کو جانو۔ خود کو بندوق بنانے اور چلانے کے قابل بنائو۔ اس کے لیے پہلے بی اے کرنا پڑے گا۔ لوگ مان کر نہیں دیے۔ سب کچھ برباد کر ڈالا۔ شیخ الہند جیسا مجاہد بھی مالٹا کی اسیری کاٹ کر لوٹا تو اسی نتیجے تک پہنچا کہ سیاسی جدوجہد ہی واحد راستہ ہے۔ ذہین آدمی تھے‘ بی اے کیے بغیر یہ بات سمجھ گئے مگر انہیں معلوم تھا کہ عام آدمی اتنا ذہین نہیں ہوتا۔ اسے بی اے کرنے کے بعد ہی بات سمجھ میں آئے گی۔ بسترِ علالت پر جامعہ ملیہ کا سنگِ بنیاد رکھنے پہنچ گئے تاکہ مسلم قوم کے نوجوانوں کے بی اے کرنے کے لیے کوئی معیاری ادارہ موجود ہو‘‘۔ (روزنامہ دنیا: 28 جنوری 2025ء)

پوری انسانی فکر بتاتی ہے کہ مذہب انسان میں باطل کی مزاحمت کا جیسا جذبہ پیدا کرتا ہے کوئی اور چیز انسان کو باطل کا ویسا مخالف نہیں بناتی۔ انبیا و مرسلین نے باطل کی جو مزاحمت کی اس کا خاص پہلو یہ ہے کہ انبیا و مرسلین نے کبھی اس بات پر خدا سے شکوہ نہیں کیا کہ اس نے انہیں لاکھوں گنا طاقت ور باطل کے خلاف صف آرا کردیا ہے۔ سیدنا ابراہیمؑ کے پاس نہ ریاست تھی، نہ فوج تھی، نہ قوم تھی، نہ دولت تھی وہ صرف ایک فرد تھے مگر انہیں وقت کے سب سے بڑے بادشاہ کے خلاف صف آرا کردیا گیا۔ اس صورت حال میں سیدنا ابراہیمؑ نے اللہ سے یہ نہیں کہا کہ پہلے مجھے طاقت عطا کر پھر میں نمرود کو للکاروں گا۔ سیدنا موسیٰؑ کا مقابلہ فرعون سے تھا۔ سیدنا موسیٰؑ کے پاس بھی نہ کوئی ریاست تھی، نہ فوج تھی، نہ مسلح پیروکار تھے ان کے معاون صرف ان کے بھائی سیدنا ہارونؑ تھے۔ سیدنا موسیٰؑ نے بھی خدا سے یہ نہیں کہا کہ پہلے مجھے قوت و شوکت عطا فرما پھر میں فرعون کا مقابلہ کروں گا۔ رسول اکرمؐ کو غزوہ بدر میں کفار کے مقابل کھڑا کیا گیا تو کفار کا لشکر ایک ہزار افراد پر مشتمل تھا۔ ان کے پاس درجنوں اونٹ اور سیکڑوں گھوڑے تھے۔ ان کے پاس تلواریں تھیں نیزے تھے زرہ بکتر تھی یہاں تک کہ وہ ناچنے والی عورتیں بھی ساتھ لائے ہوئے تھے۔ ان کے مقابلے پر رسول اکرمؐ کے پاس صرف 313 افراد تھے۔ مسلمانوں کے لشکر کے پاس ایک گھوڑا اور چند اونٹ تھے۔ ذرہ بکتر کسی کے پاس نہیں تھی۔ نیزے بھی چند تھے۔ اکثر مسلمان ڈنڈے لے کر میدان جنگ میں اترے ہوئے تھے۔ اس منظرنامے میں رسول اللہ نے خدا سے یہ نہیں کہا کہ پہلے مجھے لشکر جرار کے مقابلے پر لشکر جرار عطا کر پھر میں اس کا مقابلہ کروں گا۔ مگر خورشید ندیم باطل کا مقابلہ کرنے والوں کو کمزور دیکھتے ہیں تو ان پر طنز کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے کالم میں اسامہ بن لادن کے حوالے سے جاوید غامدی کا یہ فقرہ کوٹ کیا ہے کہ اسامہ کا ایمان قابل رشک مگر بصیرت قابل افسوس ہے۔ اب خورشید ندیم اسرائیل کے مقابلے پر حماس کی قوت کو کم پارہے ہیں تو وہ اس پر طنز کے تیر برسا رہے ہیں۔

خیر یہ تو ایک طویل جملہ ٔ معترضہ تھا۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ خورشید ندیم نے مزاحمت کو بی اے اور ایم بی ڈگریوں یا جدید تعلیم کے ساتھ منسلک کیا ہے حالانکہ مسلمانوں کی ایک ہزار سالہ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ صرف مذہب ہے جس نے مسلمانوں سے باطل کی مزاحمت کروائی ہے۔ جدید مغربی تعلیم تو ایک ہزار سال سے مسلمانوں کو کاٹھ کباڑ میں تبدیل کررہی ہے۔ ابن سینا اور فارابی مسلمانوں کے بڑے فلسفی تھے۔ ان کا علم جدید عہد کے ہزاروں پی ایچ ڈیز سے زیادہ تھا مگر ان کی گمراہی کا یہ عالم تھا کہ وہ یونان کے فلسفے کو مذہب پر فوقیت دیتے تھے۔ ان دونوں کا عقیدہ تھا کہ معاذ اللہ خدا کلیات کا علم تو رکھتا ہے مگر جزیات کا علم نہیں رکھتا۔ ان کا خیال تھا موت کے بعد کسی زندگی کا کوئی وجود نہیں ہوگا۔ ان کی رائے تھی کہ خدا نے کائنات کسی خاص وقت میں تخلیق نہیں کی بلکہ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ جیسا کہ ظاہر ہے یہ تینوں باتیں صریح کفر ہیں۔ ابن سینا اور فارابی کے برعکس امام غزالی اپنے عہد میں مذہبی فکر کے سب سے بڑے ترجمان تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ یونان کا فلسفہ مسلمانوں کا گمراہ کررہا ہے تو انہوں نے تہافت الفلاسفہ کے نام سے ایک کتاب لکھ ڈالی جس میں یونان کے فلسفے کا ایسا رد تھا جس نے مسلم دنیا میں مغربی فلسفے کا بیج مار دیا اور یہ فلسفہ مسلمانوں کے عقائد کے لیے ایک ہزار سال تک کبھی خطرہ نہ بن سکا۔

خورشید ندیم نے اپنے کالم میں سرسید احمد خان کو ’’امامِ وقت‘‘ بنا کر پیش کیا ہے۔ حالانکہ سرسید کی پوری فکر ضلالت اور گمراہی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ دوسری طرف سرسید اور ان کی فکر نے مسلم برصغیر کو مغرب کے ادنیٰ غلاموں کے سوا کچھ نہیں دیا۔ سرسید کی فکر کی ضلالت اور گمراہی پر مبنی ہونے کی بات طنز یا مذاق نہیں ہے۔ سرسید منکر قرآن تھے، اس دعوے کی دلیل یہ ہے کہ قرآن کے کسی ایک جزو کا انکار پورے قرآن کا انکار ہے اور سرسید نے اپنی تحریروں میں قرآن میں مذکور تمام معجزات کا انکار کیا ہے۔ مثلاً ان کا خیال ہے کہ ابراہہ کا لشکر خدا کی جانب سے بھیجے گئے پرندوں کی کنکریوں سے ہلاک نہیں ہوا بلکہ اس کے لشکر میں چیچک کی وبا پھیل گئی تھی جس سے ابراہہ کا لشکر ہلاک ہوا۔

اسی طرح سرسید نے سیدنا موسیٰؑ سے قرآن میں منسوب اس معجزے کا بھی انکار کیا ہے کہ ان کے عصا نے دریا میں راستہ بنایا۔ سرسید کا اصرار ہے کہ سیدنا موسیٰؑ اور ان کی قوم نے دریا اس وقت پار کیا جب دریا اترا ہوا تھا۔ سرسید منکر حدیث تھے۔ وہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی احادیث کو بھی مشتبہ سمجھتے تھے۔ سرسید نے مسلمانوں کی پوری فقہ کی روایت کو بھی مسترد کردیا تھا۔ وہ نہ امام ابوحنیفہ کے مقلّد تھے، نہ امام شافعی کے، وہ امام مالک کو مانتے تھے نہ امام حنبل کو تسلیم کرتے تھے۔ سرسید نے مسلمانوں کی پوری تفسیری روایت کا بھی انکار کردیا تھا۔ حد تو یہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں سے کہا کہ عربی، فارسی اور اردو میں کیا رکھا ہے، سیکھنی ہے تو انگریزی سیکھو، فرانسیسی سیکھو، جرمن سیکھو، یہ تمام حقائق بتارہے ہیں کہ سرسید مغرب اور اس کے علوم و فنون کی نہیں بلکہ مسلمانوں کے دین اور اس کی علامتوں کی مزاحمت کررہے تھے اور وہ عام مسلمانوں کو بھی دین سے برگشتہ کررہے تھے۔

خورشید ندیم کا خیال ہے کہ سرسید کی پیدا کردہ علمی روایت نے پاکستان کو وکیل مہیا کیے۔ یہ خیال بھی سو فی صد غلط ہے۔ مسلم برصغیر نے جو دو دیوقامت شخصیات پیدا کیں ان میں سے ایک اقبال ہیں اور دوسرے قائداعظم، اقبال کا معاملہ یہ ہے کہ وہ جب تک ’’قوم پرست‘‘ تھے اس وقت تک ان میں اور ایک کٹر ہندو میں فرق کرنا ناممکن تھا۔ مثلاً اقبال نے اس عہد میں نہ صرف یہ کہ گوتم بدھ اور بابا گرونانک کو سراہا بلکہ رام کو ’’امامِ ہند‘‘ کا خطاب دیا۔ ان کا اس زمانے کا ایک شعر ہے۔

پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تو خدا ہے
خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے

جیسا کہ ظاہر ہے کہ ایسا شعر کوئی ’’مسلمان‘‘ نہیں کہہ سکتا تھا۔ یہ صرف ہندو کہہ سکتا تھا لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے اقبال کی قلب ماہیت کردی اور انہوں نے مذہب کے زیر اثر عظیم الشان شاعری تخلیق کی۔ محمد علی جناح جب تک کانگریس میں تھے وہ ایک قومی نظریے کے علمبردار تھے مگر دو قومی نظریے کے علمبردار بنتے ہی وہ انگریزوں اور ہندو اکثریت کی مزاحمت کرنے لگے۔ یعنی اقبال اور قائداعظم کی مزاحمت کی پشت پر بھی صرف مذہب کی قوت تھی۔ اکبر الٰہ آبادی کی مزاحمتی شاعری غیر معمولی ہے اور اس کی جڑیں بھی مذہبی شعور میں پیوسط ہیں۔ مثلاً اکبر نے کہا ہے۔

منزلوں دور ان کی دانش سے خدا کی ذات ہے
خرد بیں اور دوربیں تک ان کی بس اوقات ہے

علومِ دنیوی کے بحر میں غوطے لگانے سے
زباں گو صاف ہوجاتی ہے دل طاہر نہیں ہوتا

نئی تعلیم کو کیا واسطہ ہے آدمیت سے
جنابِ ڈارون کو حضرتِ انساں سے کیا مطلب

نہ کتابوں سے نہ کالج کے ہے در سے پیدا
دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا

بیسویں صدی میں اقبال کے بعد مغرب کی مزاحمت کا سب سے بڑا استعارہ مولانا مودودی ہیں اور انہوں نے پوری مغربی تہذیب کو مسترد کیا ہے۔ انہوں نے اپنی ایک تحریر میں مغربی تہذیب کو ’’باطل‘‘ قرار دیا ہے۔ ایک جگہ انہوں نے مغربی تہذیب کو ’’جہالیتِ خالصہ‘‘ کا نام دیا ہے اور اپنی ایک کتاب میں مولانا نے مغربی تہذیب کو ’’تخمِ خبیث‘‘ اور ’’شجرِ خبیث‘‘ کا نام دیا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حقیقی مزاحمت، بی اے، ایم اے اور پی ایچ ڈی سے نہیں اسلام کے شعور سے پیدا ہوتی ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: مغربی تہذیب کو کی مزاحمت کی مسلمانوں کے بی اے کرنا کا مقابلہ انہوں نے کالم میں ایک ہزار بی اے کر یہ ہے کہ باطل کی کے خلاف ہیں اور ایم اے کیا ہے دیا ہے کے لیے کے پاس ہے اور کہا کہ ہیں کہ اور ان

پڑھیں:

فرد سے معاشرے تک عیدِ قربان کا پیغام

عیدالاضحی اس بے مثال قربانی کی یادگار ہے، جو حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ تعالٰی کے حضور پیش کی تھی۔ اپنی نوعیت اور تاریخ کے لحاظ سے یہ پہلی انسانی قربانی تھی، کیوںکہ یہ صرف اللہ تعالی کے لئے تھی۔

اللہ تعالی کو حضرت ابراہیم ؑ کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ رہتی دنیا تک اسے ایک پسندیدہ ترین عبادت قرار دے دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ خدائے بزرگ و برتر کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے آج دنیا بھر میں کروڑوں مسلمان قربانی کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ حضرت ابراہیمؑ نے اللہ کے حکم پر اپنے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کو قربان کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ صرف ایک والد کی طرف سے اپنے بیٹے کی جان دینے کا نہیں تھا، بلکہ یہ ایک عظیم آزمائش تھی۔

حضرت اسماعیلؑ کا رضا مند ہونا، حضرت ابراہیم ؑ کا صبر، اور پھر اللہ تعالیٰ کا فدیہ بھیج دینا ۔ یہ سب ایمان، وفاداری اور تسلیم و رضا کی اعلیٰ مثالیں ہیں۔ یہی واقعہ آج بھی قربانی کی صورت میں دہرایا جاتا ہے۔ اگرچہ مسلمانوں کے ہاں دو عیدیں منائی جاتی ہیں: عید الفطر اور عید الاضحی…لیکن ان میں سے عید الاضحی کو ایک منفرد مقام حاصل ہے کیوںکہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بے مثال قربانی اور اللہ سے وفاداری کی یاد دلاتی ہے۔ یہ دن فقط ظاہری مسرتوں اور چمک دمک کا مظہر نہیں، بلکہ یہ اندرونی پاکیزگی، خلوص نیت، اور اللہ تعالیٰ سے تعلق کو گہرا کرنے کا نام ہے۔

عید کے موقع پر جب لوگ ایک دوسرے کو گلے ملتے ہیں، دل کی کدورتیں دور کرتے ہیں، اور خوشیوں کو دوسروں کے ساتھ بانٹتے ہیں، تو یہ محض رسمی عمل نہیں بلکہ امتِ مسلمہ کے اتحاد، اخوت، اور بھائی چارے کا عملی اظہار ہوتا ہے۔ عید الفطر، رمضان کے بابرکت مہینے کے اختتام پر خوشی کا پیغام ہوتی ہے، جہاں روزے داروں کو اللہ کی طرف سے انعام و انعام ملتا ہے۔ جبکہ عید الاضحی، ایمان کے ایک عظیم امتحان کی یادگار ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وہ عظیم سنت، جس میں انہوں نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کو اللہ کے حکم پر قربان کرنے کا عزم کیا۔ یہ واقعہ صرف ایک تاریخی حوالہ نہیں بلکہ ہر دور کے مسلمانوں کے لیے ایک عظیم سبق ہے کہ اللہ کی رضا کے آگے ہر چیز ہیچ ہے، حتیٰ کہ اپنی اولاد بھی۔ عید الاضحی دراصل قربانی کے فلسفے کو زندہ کرنے کا دن ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب انسان اپنی پسندیدہ چیز اللہ کی راہ میں پیش کر کے، اپنی بندگی، عاجزی، اور فرمانبرداری کا عملی ثبوت دیتا ہے۔

عیدِ قربان پر معاشی سرگرمیاں

عید الاضحی کا معیشت پر بھی نمایاں اثر پڑتا ہے۔ لاکھوں جانوروں کی خرید و فروخت، قصائیوں، چارہ فروشوں، اور ٹرانسپورٹ سے وابستہ افراد کے لیے یہ دن معاشی سرگرمی کا باعث بنتے ہیں۔ دیہی علاقوں سے جانور شہروں میں آتے ہیں، بازار سجتے ہیں، اور ہزاروں خاندانوں کو روزگار ملتا ہے۔ اگرچہ معاشی ناہمواریوں کی وجہ سے ہر سال قربان ہونے والے کروڑوں جانوروں میں کچھ کمی بیشی ہوتی رہتی ہے، لیکن پھر بھی ہر مسلمان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی طرح اپنے رب کا حکم بجا لائے۔ قربانی کے جانوروں کا سالانہ بنیادوں پر جائزہ لیا جائے تو پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کی رپورٹ کے مطابق عید الاضحیٰ 2023ء کے دوران پاکستان میں تقریباً 6.1 ملین (61 لاکھ) جانور قربان کیے گئے، جن کی مجموعی مالیت تقریباً 531 ارب روپے تھی۔ اس برس قربان کیے گئے جانوروں گائے اور بیل 2.6 ملین، بکرے 3 ملین، بھیڑیں 350,000، بھینسیں: 150,000 اور اونٹ: 87,000 تھے۔

پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کے مطابق، ان قربانیوں سے حاصل ہونے والی کھالوں کی مالیت تقریباً 7 ارب روپے تھی، تاہم شدید گرمی اور مناسب دیکھ بھال کی کمی کی وجہ سے کھالوں کا تقریباً 35 فیصد حصہ ضائع ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا۔ یوں ہی پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ عید الاضحیٰ 2024ء کے دوران پاکستان میں تقریباً 6.8 ملین (68 لاکھ) جانور قربان کیے گئے، جن کی مجموعی مالیت 500 ارب روپے سے زائد تھی۔ قربان کیے گئے جانوروں میں 28 لاکھ گائے، 33 لاکھ بکرے، 1.65 لاکھ بھینسیں، 99 ہزار اونٹ اور 3.85لاکھ بھیڑیں شامل تھیں۔

عید الاضحیٰ 2025ء کے دوران پاکستان میں قربانی کے جانوروں کی تعداد اور مالیت کے حوالے سے سرکاری یا مستند اعداد و شمار فی الحال دستیاب نہیں تاہم، گزشتہ سالوں کے رجحانات کو مدنظر رکھتے ہوئے، ماہرین کا اندازہ ہے کہ اس سال بھی تقریباً 6.5 سے 7.0 ملین (65 سے 70 لاکھ) جانور قربان کیے جا سکتے ہیں، جن کی مجموعی مالیت 500 سے 550 ارب روپے کے درمیان ہو سکتی ہے۔

قربانی کی اصل روح

قربانی اسلام کا ایک عظیم شعائر ہے، جو صرف ایک رسم یا ظاہری عمل نہیں بلکہ انسان کے باطن کی پاکیزگی اور خلوص نیت کا امتحان ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ’’اللہ تک نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں اور نہ خون، بلکہ اْسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے‘‘ (سور? الحج: 37)۔ یہ آیت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ قربانی محض جانور ذبح کرنے کا نام نہیں، بلکہ اس کا اصل مقصد اللہ کی رضا، عاجزی اور اخلاص کا اظہار ہے۔ قربانی ایک روحانی کیفیت کا نام ہے، جس میں انسان صرف جانور ہی نہیں، بلکہ اپنے نفس کی قربانی دیتا ہے۔

اس میں وہ اپنی خواہشات، ضد، انا، حسد، خود غرضی، اور دنیاوی لالچ کو راہِ خدا میں چھوڑنے کا عہد کرتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت صرف بیٹے کو قربان کرنے کی تیاری نہ تھی، بلکہ مکمل طور پر اللہ کے حکم کے سامنے جھک جانے کا جذبہ تھا۔ یہی جذبہ آج بھی قربانی کی اصل روح ہے۔ اگر ہم اس عبادت کو صرف گوشت حاصل کرنے، یا رسم نبھانے کی حد تک محدود رکھیں گے تو ہم اس کے اصل مقصد سے محروم ہو جائیں گے۔ قربانی ہمیں سکھاتی ہے کہ ہم دنیا میں اپنے مفادات اور نفس پر قابو پاتے ہوئے، خلوص کے ساتھ اللہ کی رضا کو اپنی زندگی کا مرکز بنائیں۔

عبادت یا دکھاوا؟

بدقسمتی سے آج کل قربانی جیسے عظیم اور پاکیزہ عمل کو ایک معاشرتی ’’ایونٹ‘‘ بنا دیا گیا ہے، جہاں عبادت کی جگہ نمائش، اخلاص کی جگہ فخر، اور عاجزی کی جگہ برتری کا اظہار نظر آتا ہے۔ سوشل میڈیا پر جانوروں کی ویڈیوز، ان کی قیمتوں کا دکھاوا اور غیر ضروری تشہیر نے اس مقدس فریضے کو سطحی اور مصنوعی بنا دیا ہے۔ جہاں پہلے قربانی خالص نیت سے کی جاتی تھی، وہیں اب کئی لوگ اسے محض دوسروں کو مرعوب کرنے اور اپنی حیثیت جتانے کا ذریعہ بنا بیٹھے ہیں۔ قربانی کے جانور کی قیمت، جسامت یا نسل کبھی بھی عبادت کا معیار نہیں تھے۔

اصل عبادت تو نیت، تقویٰ اور عاجزی میں پنہاں ہے۔ جانور کو محبت سے پالنا، اس کی خدمت کرنا اور نرمی سے سنتِ ابراہیمیؑ کے مطابق ذبح کرنا، یہ سب وہ اقدار ہیں جو ہمیں قربانی کے ذریعے سیکھنے کو ملتی ہیں۔ مگر جب ہم اس عمل کو سوشل میڈیا پر ’’لائکس‘‘ اور ’’کمنٹس‘‘ کے لیے استعمال کرتے ہیں تو یہ گویا روحِ قربانی کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے۔ عبادت کو دکھاوے سے پاک رکھنا ایمان کا تقاضا ہے۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ ’’اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے‘‘۔ لہذا اگر نیت خالص نہ ہو تو عمل خواہ کتنا بھی عظیم ہو، اس کی روح فنا ہو جاتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم قربانی کو اس کے اصل مفہوم اور مقصد کے ساتھ انجام دیں۔

قربانی اور اسلامی مساوات

اسلام نے ہمیشہ معاشرتی مساوات کی تعلیم دی ہے اور عید الاضحی اس کا عملی مظہر ہے۔ قربانی کا گوشت صرف گھر والوں تک محدود نہ رہے بلکہ رشتہ داروں، ہمسایوں اور مستحق افراد تک پہنچے، کیوں کہ یہی اسلام کا اصل پیغام ہے۔ اگر ہر صاحب حیثیت فرد سچے دل سے قربانی کرے اور گوشت کو صحیح طور پر تقسیم کرے، تو معاشرے میں بھوک اور محرومی کی شدت بڑی حد تک کم ہو سکتی ہے۔

اجتماعی قربانی اور جدید رجحانات

آج کے تیز رفتار اور مصروف طرزِ زندگی میں جب وقت، جگہ، اور وسائل محدود ہوتے جا رہے ہیں، اجتماعی قربانی ایک قابلِ عمل، بامقصد اور بابرکت حل کے طور پر سامنے آئی ہے۔ شہروں میں رہنے والے بہت سے لوگ، جنہیں نہ جگہ میسر ہے، نہ جانور کی دیکھ بھال کا وقت اور نہ ذبح و تقسیم کا تجربہ، وہ اجتماعی قربانی کے ذریعے نہ صرف اپنی عبادت ادا کر لیتے ہیں بلکہ بہتر نظم و نسق کا حصہ بھی بنتے ہیں۔

مساجد، مدارس، سماجی تنظیمیں اور فلاحی ادارے اجتماعی قربانی کے عمل کو نہایت منظم انداز میں سرانجام دیتے ہیں، جس سے جانوروں کی دیکھ بھال، اسلامی اصولوں کے مطابق ذبح اور گوشت کی ترسیل، سب کچھ احسن انداز میں انجام پاتا ہے۔ اسی طرح یہ قربانی نہ صرف ایک فرد کی عبادت رہتی ہے بلکہ ایک اجتماعی فلاحی عمل میں ڈھل جاتی ہے، جہاں سینکڑوں مستحقین کے گھروں میں خوشیاں پہنچتی ہیں۔ مزید یہ کہ کورونا کے بعد کے دور میں، صحت اور صفائی کے خدشات کی وجہ سے بھی اجتماعی قربانی کو مزید پذیرائی ملی ہے۔ اس سے نہ صرف ماحول کو آلودگی سے بچایا جا سکتا ہے بلکہ جانوروں کے فضلے، خون اور باقیات کے بہتر طریقے سے انتظامات کیے جا سکتے ہیں۔

آن لائن قربانی نے بھی انفرادی سطح پر ایک نئی سہولت مہیا کی ہے۔ اب لوگ موبائل ایپس، ویب سائٹس اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے قربانی کا جانور منتخب کر سکتے ہیں، ادائیگی کر سکتے ہیں، اور ذبح کے بعد گوشت کی ترسیل بھی حاصل کر سکتے ہیں، تاہم اس سہولت کے ساتھ ایک اہم ذمہ داری بھی جڑی ہے کیوں کہ قربانی محض ’’ٹرانزیکشن‘‘ نہیں بلکہ عبادت ہے۔ اس لیے نیت کا اخلاص، اعتماد والے ادارے کا انتخاب اور شفافیت کو یقینی بنانا ازحد ضروری ہے۔

کچھ افراد آن لائن قربانی کے ذریعے اپنی عبادت کو باآسانی مکمل تو کر لیتے ہیں، لیکن اس عمل سے دوری کی وجہ سے اس عبادت کی روحانی گہرائی کو پوری طرح محسوس نہیں کر پاتے۔ اس لیے، جہاں یہ سہولت کارآمد ہے، وہیں روحانی تعلق اور شعور کو قائم رکھنا بھی اتنا ہی اہم ہے۔ اجتماعی قربانی کا رجحان اگر خلوص، نظم اور مقصدیت کے ساتھ قائم رہے تو یہ نہ صرف وقت کی ضرورت ہے بلکہ ایک ایسی سماجی عبادت بھی بن سکتی ہے جو انفرادی نفع سے بڑھ کر اجتماعی فلاح کا سبب بنتی ہے۔

خاندانی بندھن

عید الاضحی صرف عبادت اور قربانی کا موقع نہیں، بلکہ یہ ایک ایسا تہوار ہے جو خاندان کے افراد کو قلبی طور پر قریب لاتا ہے۔ گھر کے تمام افراد، چاہے وہ بچے، جوان ہوں یا بزرگ، سب مل کر عید کی تیاریوں میں حصہ لیتے ہیں۔

جانور کی دیکھ بھال، چارہ ڈالنا، پانی دینا اور اس سے مانوس ہونا، یہ سب وہ سرگرمیاں ہیں جو خاندان میں محبت، تعاون اور ذمہ داری کا احساس پیدا کرتی ہیں۔ خواتین کھانے کی تیاری میں مشغول ہوتی ہیں، مرد حضرات انتظامات سنبھالتے ہیں، اور بچے جوش و خروش سے گھومتے پھرتے ہیں۔ اس سب کا مجموعی اثر یہ ہوتا ہے کہ خاندان کے افراد میں وہ قربت اور محبت پیدا ہوتی ہے جو عام دنوں میں شاید نہ ہو۔ یہ دن ہمیں سکھاتا ہے کہ خوشیاں بانٹنے سے بڑھتی ہیں، اور رشتہ داروں سے جڑا رہنا ہی معاشرتی سکون کا اصل ذریعہ ہے۔

خواتین کا کردار: قربانی، پکوان اور سخاوت

عید الاضحی کے موقع پر خواتین کا کردار قابلِ قدر اور لائقِ تحسین ہوتا ہے، لیکن بدقسمتی سے اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ وہ نہ صرف گھر کے اندرونی امور کو سنبھالتی ہیں بلکہ قربانی کے بعد گوشت کی تقسیم، سلیقے سے رکھنا اور پکوان کی تیاری میں مرکزی کردار ادا کرتی ہیں۔ ان کی تنظیمی صلاحیتیں اور وقت پر ہر کام کی انجام دہی قربانی کی مجموعی کامیابی کی ضمانت ہوتی ہیں۔ کئی خواتین اس موقع کو سخاوت اور ہمدردی کے اظہار کے طور پر استعمال کرتی ہیں اور ضرورت مندوں کے گھروں تک گوشت پہنچاتی ہیں۔ ان کے بنائے ہوئے روایتی کھانے نہ صرف ذائقے دار ہوتے ہیں بلکہ محبت سے بھرپور بھی ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عید کی اصل رونق انہی کے دم سے ہے۔

جانوروں سے محبت دراصل بچوں کی تربیت

قربانی سے پہلے جانور سے تعلق قائم کرنا، اس سے شفقت سے پیش آنا اور اس کی دیکھ بھال میں دلچسپی لینا ایک ایسا تربیتی عمل ہے جو بچوں کی شخصی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

جب بچہ کسی جاندار کے ساتھ پیار کا رشتہ بناتا ہے اور پھر اس کے فراق پر صبر کا مظاہرہ کرتا ہے، تو یہ اس کے اندر ہمدردی، برداشت، اور قربانی کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ یہ عمل بچوں کو محض مذہبی معلومات نہیں دیتا بلکہ ان کے جذبات اور اخلاقیات کو نکھارتا ہے۔ یہ سبق وہ کتابوں سے نہیں بلکہ عملی تجربے سے سیکھتے ہیں کہ اصل قربانی یہ ہے کہ اپنی محبوب چیز کو رضائے الٰہی کے لیے چھوڑ دیا جائے۔

صفائی اور شہری ذمہ داریاں

عید الاضحی کے بعد شہروں اور محلوں میں صفائی کا جو منظر پیش آتا ہے وہ ہماری اجتماعی غفلت کی تصویر ہوتا ہے۔ اگرچہ بلدیاتی ادارے صفائی کی مہم چلاتے ہیں، لیکن اصل تبدیلی تب آئے گی جب ہم بطور ذمہ دار شہری اپنی ذمہ داریاں سمجھیں گے۔ گوشت کے فضلات کو مناسب طریقے سے ٹھکانے لگانا، خون کو پانی سے دھونا، اور آس پاس کے ماحول کو صاف رکھنا صرف حکومت کا نہیں، ہر فرد کا اخلاقی اور دینی فریضہ ہے کیوں کہ ہمارے دین نے صفائی کو نصف ایمان قرار دیا ہے، اور قربانی جیسے مقدس موقع پر اگر ہم صفائی کا خیال نہ رکھیں تو یہ عبادت کی روح کے منافی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم نہ صرف اپنے گھروں بلکہ گلی محلوں کو بھی پاکیزہ بنائیں تاکہ عید واقعی ایک خوشگوار تجربہ بن سکے۔

عید کا حقیقی حسن

عید کی خوشیوں کا اصل حسن تب نمایاں ہوتا ہے جب یہ صرف امیروں یا صاحبِ استطاعت لوگوں تک محدود نہ رہے، بلکہ غربا، یتامیٰ اور نادار افراد بھی ان خوشیوں میں شریک ہوں۔ اگر ہمارے اردگرد کوئی ایسا خاندان ہے جو گوشت خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا، یا کوئی بچہ عید پر نیا لباس نہیں پہن سکا، تو یہ ہماری اجتماعی ناکامی ہے۔

عید کے موقع پر احساس، درد مندی اور سخاوت وہ اقدار ہیں جو ہمیں ایک باوقار معاشرہ بننے میں مدد دیتی ہیں۔ اگر ہم اپنے پڑوسیوں، ملازمین، اور کمزور طبقات کو نظر انداز کر کے صرف اپنے خاندان کی خوشیوں میں مگن رہیں گے، تو یہ خوشی مکمل نہیں ہو سکتی۔ ہمیں چاہیے کہ ہم عید کو خدمتِ خلق، انفاق اور باہمی محبت کا ذریعہ بنائیں۔

خطبہِ عید

نمازِ عید کے بعد کا خطبہ محض رسمی خطاب نہیں بلکہ ایک بیداری اور اصلاح کا سنہری موقع ہوتا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب ہزاروں افراد یکجا ہو کر دل و دماغ کے ساتھ بات سننے کو تیار ہوتے ہیں، اور اگر اس موقع پر دین کے ساتھ سماجی پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے تو ایک مثبت تبدیلی کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ اگر خطیب قربانی کی روح، معاشرتی اتحاد، صفائی کی اہمیت، اور معاشرتی ذمہ داریوں پر سیر حاصل گفتگو کرے، تو سننے والوں کے رویے اور سوچ میں فرق آ سکتا ہے۔ یہ موقع قوم کو متحد، باشعور، اور باعمل بنانے کا موقع ہے، جسے ضائع نہیں کرنا چاہیے۔

عید الاضحیٰ کا بین الاقوامی رنگ

دنیا بھر میں عید الاضحیٰ مختلف ثقافتی رنگوں، زبانوں اور مقامی روایات کے ساتھ منائی جاتی ہے، لیکن اس کی اصل روح’’قربانی برائے رضائے الٰہی‘‘ ہر جگہ یکساں ہے۔ افریقہ میں قبیلے کے لوگ اجتماعی طور پر جانور ذبح کرتے ہیں، بنگلہ دیش میں پورا محلہ ایک ساتھ مل کر حصہ ڈالتا ہے، اور یورپ و امریکہ میں مسلمان تارکین وطن اپنی کمیونٹیز میں عبادت کے ساتھ اپنی شناخت کو محفوظ رکھتے ہیں۔ ان مختلف اندازوں کے باوجود جو چیز سب کو جوڑتی ہے وہ قربانی کی اصل نیت، وحدتِ امت، اور اخوت کا پیغام ہے۔ یہ عالمی منظر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم چاہے کسی بھی ملک میں ہوں، ہماری عبادت ایک ہے، اور ہمارا خالق بھی ایک۔

مہنگائی

گزشتہ چند برسوں سے مہنگائی نے متوسط اور کم آمدنی والے طبقے کے لیے قربانی جیسے فریضے کو ایک کٹھن آزمائش بنا دیا ہے۔ جانوروں کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی ہیں، جس سے وہ ذہنی دباؤ اور سماجی احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتا ہے۔ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام نے استطاعت کو بنیاد بنایا ہے، اور جو شخص واقعی قربانی کا متحمل نہیں، وہ شرعی طور پر معذور ہے، محروم نہیں۔ دین ہمیں دکھاوے سے روکتا ہے اور نیت کے اخلاص کو سب سے بلند رکھتا ہے۔ اس مشکل معاشی ماحول میں وہ افراد جو صاحبِ حیثیت ہیں، ان پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دوسرے بھائیوں کو قربانی میں شامل کریں یا ان کے لیے آسانیاں پیدا کریں۔

قربانی کا گوشت

قربانی کے فوراً بعد اکثر گھروں میں گوشت کی بھرمار ہو جاتی ہے، لیکن اگر اس گوشت کا درست انداز میں استعمال نہ ہو تو یہ نعمت ضیاع میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ گوشت کو ذخیرہ کرنے کے لیے صفائی، درجہ حرارت اور مناسب پیکنگ کا خیال رکھنا ضروری ہے، ورنہ بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

فریزر میں بلاوجہ گوشت بھرنا اور مہینوں تک اسے ضائع کر دینا، اسراف کے زمرے میں آتا ہے، جس کی سخت ممانعت کی گئی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم گوشت کی تقسیم میں توازن رکھیں، عزیز و اقارب کے ساتھ ساتھ ہمسایوں اور مستحقین کو بھی شامل کریں، اور اسے اعتدال کے ساتھ استعمال کریں۔ اس سے نہ صرف نعمت کا شکر ادا ہو گا بلکہ دوسروں کا حق بھی ادا کیا جا سکے گا۔

نوجوان نسل کے لیے پیغام

عید کا دن نوجوانوں کے لیے محض تعطیل یا تفریح کا موقع نہیں، بلکہ تربیت اور کردار سازی کا ایک نادر موقع ہے۔ جب نوجوان قربانی کی تیاری، جانور کی دیکھ بھال، اور اس کے ساتھ محبت میں شریک ہوتے ہیں، تو ان کے اندر احساس، ذمہ داری، اور خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ انہیں یہ سیکھنے کا موقع ملتا ہے کہ قربانی صرف جسمانی عمل نہیں بلکہ ایک روحانی جہاد ہے، جس کا مقصد اپنے اندر کی خود پسندی، غفلت، اور دنیا پرستی کو ختم کرنا ہے۔ اگر نوجوان اس عبادت کے گہرے مفہوم کو سمجھ لیں، تو وہ اپنی زندگی کو خدمت، خلوص، اور قربانی کے اصولوں پر استوار کر سکتے ہیں، جو مستقبل میں انہیں ایک بہتر انسان، شہری اور مسلمان بننے میں مدد دے گا۔  

متعلقہ مضامین

  • یہ ظلم کب تک ؟
  • کراچی، 3 بچوں کے باپ موٹر سائیکل مکینک کا قتل ڈکیتی کے دوران مزاحمت کا نتیجہ نکلا
  • کراچی؛ 3 بچوں کے باپ موٹرسائیکل مکینک کا قتل ڈکیتی کے دوران مزاحمت کا نتیجہ نکلا
  • پی ٹی آئی کا بجٹ کیخلاف احتجاج کا فیصلہ، اہم اجلاس آج طلب
  • منی پور ،بھارت کے تابوت میں آخری کیل
  • کراچی: ڈکیتی مزاحمت پر فائرنگ، تین بچوں کا باپ جان کی بازی ہار گیا
  • محرابپور،مویشی تاجر سے 16 لاکھ روپے لوٹ لیے
  • قلم اُٹھایئے اور شعور پھیلایئے
  • ✨ قربانی: رسم، روایت یا روح؟
  • فرد سے معاشرے تک عیدِ قربان کا پیغام