معصوم لڑکی جو ایک شرمناک پارٹی میں شرکت کے بعد تاریک راہ پر چل پڑی
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
لندن (انٹرنیشنل ڈیسک) ایک معصوم نرسری ورکر کیٹی بیمپٹن نے انکشاف کیا ہے کہ کس طرح وہ ایک سوئنگر پارٹی میں شریک ہوئی۔ وہ ایک مڈل کلاس جوڑے کے بچوں کی دیکھ بھال کرتی تھی اور انہی نے اسے پہلی بار اس شرمناک پارٹی میں مدعو کیا۔ یہ تجربہ اس کی زندگی کو ہمیشہ کے لیے بدل دینے والے ایک خطرناک راستے پر لے گیا۔
برطانوی خبررساں ادارے کے مطابق 2020 میں شمالی ویلز میں پرورش پانے والی کیٹی آسٹریلیا گئی، جہاں اس نے اپنی زندگی کی پہلی سوئنگنگ پارٹی میں شرکت کی۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ تجربہ اس کے لیے خود شناسی کا سفر ثابت ہوا، مگر اس دوران اسے یہ بھی سمجھنے کا موقع ملا کہ کچھ خواتین منشیات کا سہارا کیوں لیتی ہیں۔
کیٹی نے بتایا “میں نے اپنی پہلی سوئنگنگ پارٹی 2020 میں کووڈ سے پہلے کی۔ اس وقت میں ایک نرسری ورکر اور نینی تھی اور اس قسم کے تجربے سے مکمل ناآشنا تھی۔” یہ پارٹی گولڈ کوسٹ، آسٹریلیا میں ایک جوڑے کی طرف سے منعقد کی گئی تھی، جو اپنے شادی شدہ دوستوں کے لیے “سنگل یونی کارن” کی تلاش میں تھے۔
پارٹی کا آغاز رات دو بجےاس وقت ہوا جب سب لوگ ایک نجی اپارٹمنٹ میں واپس آئے۔ کیٹی نے بتایا “میں نے اس رات پہلے ہی نشہ کرلیا تھا، پھر ہم واپس آئے، میوزک آن کیا، اور کچھ خواتین نے اپنی ڈریسز اتار کر صرف لانجری میں ڈانس کرنا شروع کر دیا۔اس لمحے یہ سب عجیب نہیں لگا کیونکہ وہ پہلے ہی نشے کی حالت میں تھی۔وہ سب تجربہ کار سوئنگرز لگ رہے تھے۔”
اس کے بعد کیٹی نے اسی گروپ کے ساتھ مزید سوئنگنگ پارٹیز میں شرکت کی لیکن جب اسے دوسری بار ایک جوڑے کے شوہر کی سالگرہ کے تحفے کے طور پر مدعو کیا گیا، تو وہ اس کے لیے زیادہ حیران کن نہیں تھا۔ بعد میں، کیٹی کی ملاقات مشہور پورن سٹار راب سے ہوئی جس کے ساتھ اس نے 140 افراد پر مشتمل سوئنگرز پارٹی کا انعقاد کیا۔
کیٹی نے بتایا کہ ان پارٹیز میں بے خودی اور آزادی کا احساس مصنوعی ہوتا تھا کیونکہ لوگ نشے کی حالت میں ہوتے تھے۔ “یہ سب جعلی تھا، حقیقی نہیں۔ میں نے آہستہ آہستہ ان سے کنارہ کشی اختیار کرنا شروع کی، کم تقریبات میں شرکت کی، اور جب جاتی بھی تو نشہ نہیں کرتی تھی۔”
کیٹی کے مطابق، کئی خواتین ان تقریبات میں اپنے ماضی کے صدمات اور کم اعتمادی کی وجہ سے شامل ہوتی تھیں اور نشے کا استعمال ایک عارضی حل تھا، جو حقیقی مسائل کا سامنا کرنے سے بچنے کے لیے کیا جاتا تھا۔
سنہ 2023 میں جب کیٹی اور راب تھائی لینڈ کے جزیرے کوہ ساموئی منتقل ہوئے تب اس نے یہ طرزِ زندگی چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ کیٹی کے حمل نے اس کیلئے یہ فیصلہ کرنا آسان کردیا۔اس نے ایک جنگل میں روحانی ریٹریٹ میں شرکت کی تاکہ خود کو پاک کر سکے اور زندگی کے ایک نئے باب میں داخل ہو سکے۔
اب کیٹی نے “سکول آف سنسویلیٹی” کی بنیاد رکھی ہے تاکہ خواتین کو اپنے جسم اور حقیقی محبت سے جوڑنے میں مدد مل سکے۔ کیٹی کا کہنا ہے “میں دوسروں کی مدد کرنا چاہتی ہوں۔ میں اندھیرے میں جا چکی ہوں، مگر اب روشنی میں واپس آ گئی ہوں۔ یہ میرا مشن ہے، اور شاید میں جلد ہی یو کے واپس جاؤں تاکہ اپنی کہانی دوسروں تک پہنچا سکوں۔”
مزیدپڑھیں:صوابی جلسے میں کون کتنے بندے لایا ؟ جنید اکبر نے پارٹی عہدیداروں سے رپورٹ مانگ لی
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: میں شرکت کی پارٹی میں کے لیے
پڑھیں:
انسانیت کے نام پر
افغانستان کی خاتون صحافی فرشتہ سدید کا تعلق ’ کیسا ‘ صوبہ سے ہے، وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ جب افغانستان میں حالات بہتر تھے تو وہ ایک ریڈیو بہار میں کام کرتی تھیں۔ جب طالبان نے افغانستان پر قبضہ کیا اور کابل میں ان کی حکومت قائم ہوگئی تو طالبان حکومت نے خواتین اور اقلیتوں کو نشانہ بنایا۔ طالبان کی شوریٰ نے فتویٰ دیا کہ خواتین بغیر محرم گھر سے نکل نہیں سکتیں ، خواتین کے لیے ملازمت کرنا مشکل بنا دیا گیا ، یوں فرشتہ سدید کے برے دن شروع ہوگئے۔
انھیں گرفتار کر لیا گیا۔ وہ کسی طرح جان جوکھوں میں ڈال کر سرحد پار کر کے پاکستان میں داخل ہوگئیں۔ یہاں فرشتہ اور ان کے اہلِ خانہ نے امریکا اور یورپی ممالک میں سیاسی پناہ لینے کے لیے عرض داشتیں بھجوانی شروع کردیں۔ فرانس کی حکومت نے عرض داشت پر مثبت کارروائی پر اتفاق کیا اور اس بارے میں باقاعدہ دفتری کارروائی شروع ہوگئی۔ چند برس کے بعد حکومت پاکستان نے غیرقانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کو نکالنے کی پالیسی اختیارکی۔
گزشتہ سال سیکڑوں افغان پناہ گزینوں کو ان کے وطن افغانستان بھیج دیا گیا۔ پھر پاکستان سے واپس وطن جانے کی تاریخ میں توسیع کردی گئی اور جب گزشتہ ماہ رضاکارانہ واپسی کے لیے بڑھائی گئی یہ مدت پوری ہوئی تو اسلام آباد، پنجاب اور سندھ پولیس نے ان پناہ گزینوں کو ٹرانزٹ کیمپوں میں منتقل کرنے کے لیے آپریشن شروع گئے۔ اسلام آباد میں مقیم پناہ گزینوں کی لسٹ میں شامل افغان صحافی بھی اس کی لپیٹ میں آئے۔ فرشتہ بھی تین دن تک ٹرانزٹ کیمپ میں قیام پذیر رہی۔ البتہ صحافیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے احتجاج پر فرشتہ کو کمیپ سے نکلنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔
افغانستان میں جب طالبان نے اقتدار سنبھالا تو شروع شروع میں تو ریڈیو اور ٹیلی وژن اسٹیشن میں خواتین کو کام کرنے کا موقع دیا گیا۔ افغانستان کی عبوری حکومت کے ایک وزیر نے ایک خاتون اینکر پرسن کو انٹرویو بھی دیا تھا۔ پھر شاید قندھار گروپ کے رجعت پسندوں نے کابل میں فیصلہ سازی پر بالادستی حاصل کر لی اور ایک دن یہ اعلان ہوا کہ تمام ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشن بند کردیے گئے ہیں۔
افغانستان کی مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے صحافی جن میں مرد اور خواتین شامل تھے، حالات سے دلبرداشتہ ہوکر سرحد عبور کر کے اسلام آباد پہنچ گئے۔ ان پناہ گزینوں نے خود کو اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے دفتر میں رجسٹر کرایا اور امریکا اور یورپی ممالک میں سیاسی پناہ کے لیے کوششیں شروع کردیں۔ امریکا میںجب تک ڈیموکریٹک صدر جو بائیڈن وائٹ ہاؤس میں براجمان رہے، تب تک پاکستان میں مقیم پناہ گزین افغان صحافیوں، غیر ملکی این جی اوز میں کام کرنے والے افغان شہریوں اور وہ لو گ جو امریکی اداروں میں کام کرتے تھے، انھیں امریکا کا ویزا دینے کی یقین دہانی کرائی گئی مگر صدر ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد اب ان سب کا مستقبل مخدوش ہوگیا ہے۔
ان میں سے کئی وہ ہیں جو امریکا اور برطانیہ کے اداروں میں کام کرتے تھے۔ امریکا کی اس وقت کی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ اس کیٹیگری میں شامل صحافیوں اور دیگر افراد کو امریکا میں آنے کے لیے ویزے دیے جائیں گے ۔ خاصے افراد امریکا چلے بھی گئے مگر اکثریت ابھی تک امریکا اور یورپ جانے کی منتظر ہے، لیکن اب صدر ٹرمپ کی تبدیل شدہ پالیسی نے ان کے لیے مشکلات کھڑی کردی ہیں ۔ ایسے افغان پناہ گزین جن میں صحافی بھی شامل ہیں، تاحال اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ گزشتہ مارچ میں افغان پناہ گزین سینئر صحافی محمود کونجی اور ان کے صاحبزادے کو واپس بھیجنے کے لیے پکڑا گیا تھا۔ محمود کونجی نے Onlineویزہ کے لیے درخواست دی ہوئی ہے۔
ایک غیر سرکاری تنظیم فریڈم نیٹ ورک کے روحِ رواں اقبال خٹک کی قیادت میں افغان جرنلسٹس سالیڈیرٹی نیٹ ورک کا قیام عمل میں آیا ہے۔ اقبال خٹک کی تحقیق کے مطابق 300افغان پناہ گزین صحافیوں اور ان کے اہل خانہ یورپی ممالک کے ویزے کے منتظر ہیں، ان کے تمام کاغذات متعلقہ سفارت خانوں میں جمع ہیں مگر ویزہ کا عمل طویل ہونے کی بناء پر وہ تاحال اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ اب وہ بھی مشکلات کا شکار ہیں ۔ بی بی سی نے افغانستان میں خواتین کے حالتِ زار کے بارے میں رپورٹیں تیار کی ہیں۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جو خواتین تعلیم حاصل کرنے میں زیادہ دلچسپی کا اظہارکرتی ہیں انھیں مدارس میں بھیجا جا رہا ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں ایک اور تعلیمی سال لڑکیوں کی تعلیمی اداروں میں موجودگی کے بغیر ختم ہوگیا۔
ایک افغان روشن خیال شخص قاری حامد محمودی نے صحافیوں کو بتایا کہ جب اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے دروازے لڑکیوں کے لیے بند ہوتے تھے تو ان کی بیٹی ذمنہ کی ذہنی اور جسمانی حالت خراب ہوگئی۔ انھوں نے سوچا کہ ایک مدرسہ قائم کیا جائے جس میں لڑکیوں کو دینی تعلیم کے ساتھ بارہویں جماعت تک درسی کتابیں بھی پڑھائی جاتی ہیں۔ اسی طرح محمودی نے ابتدائی طبی امداد اور دیگر کورسز شروع کرائے، مگر مجموعی طور پر افغانستان میں لڑکیوں کے لیے دینی تعلیم کے مدارس میں بھی ماحول افسردہ ہے۔ اقوام متحدہ کے بچوں کے فنڈز یونیسیف کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ افغان حکومت کی خواتین مخالف پالیسی کی بناء پرکئی لاکھ بچیوں کا مستقبل مخدوش ہوگیا ہے۔
افغانستان کے قونصل جنرل کا دعویٰ ہے کہ افغانستان میں حالات معمول پر آچکے ہیں، اس بناء پر افغان باشندوں کو اپنے وطن واپس جانا چاہیے مگر وہ خواتین کی تعلیم اور روزگار کے حق کے حوالے سے کچھ کہنے کو تیار نہیں ہیں۔ افغانستان میں طالبات کو اسکول،کالج اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے اور روزگار کا کوئی حق نہیں ہے۔ ایک طالبہ نے یونیسیف کی ٹیم کو بتایا تھا کہ وہ ڈاکٹر بننے کے خواب دیکھتی تھیں مگر اب طالبان کے مدارس میں جانا پڑگیا ہے جہاں صرف مخصوص کتابوں سے تعلیم دی جاتی ہے اور سیاسی بحث پر پابندی عائد کی گئی ہے، یوں ان بچیوں میں ڈپریشن کے علاوہ کچھ نہیں بچ پارہا۔
حکومت پاکستان نے مالیاتی بحران،غیر ملکی امداد بند ہونے اور سیکیورٹی کی وجوہات کی بناء پر افغان مہاجرین کو ان کے اپنے وطن بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے کا سندھ اور بلوچستان میں بھی خیرمقدم کیا گیا ہے کیونکہ افغان مہاجرین کا بیشتر بوجھ کراچی، حیدرآباد اورکوئٹہ پر ہے۔ البتہ ایسے افغان پناہ گزین جو یورپی ممالک کے ویز ے آنے کے منتظر ہیں ، انھیں انسانی بنیادوں پر جب تک وہ یورپ، امریکا اور کینیڈا وغیرہ نہ چلے جائیں، پاکستان میں قیام کی اجازت ہونی چاہیے۔ پاکستانی حکومت کو انسانیت کی بنیاد پرکچھ فیصلے کرنے چاہئیں۔