Nai Baat:
2025-04-25@02:09:40 GMT

شہبازشریف صاحب! سینما انڈسٹری پر بھی توجہ دیں

اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT

شہبازشریف صاحب! سینما انڈسٹری پر بھی توجہ دیں

نائن الیون کے واقعات کے بعد پوری دنیا پر اتنے برے اثرات پڑے اور جس قدر پاکستان کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کرنے کی بین الاقوامی سازش کی گئی، ایک سزاتو یہ کہ ہم واحد اسلامی نیوٹرل پاور ہیں۔ دوسرا ہم پر دہشت گردی کی زبردستی جنگ ٹھونس کر خطے میں ایک جنگ کی سی کیفیت پیدا کی گئی۔ ہمیں سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ پورے ملک میں دہشت گردی کے بارود نے ایک طرف ہماری کھیلوں کے میدان خالی کر دیئے تو دوسری طرف ہمارے تفریحی اداروں کو بہت نقصان پہنچا۔ ہمارا سب سے بڑا نقصان فلم انڈسٹری کی بندش کی صورت میں ہوا۔ یہ عوام کی واحد تفریح تھی کہ لوگ جوق در جوق سینما گھروں میں جاتے تھے۔ وہ کیا ماحول تھا جب ہمارے تمام سٹوڈیوز میں دن رات فلمیں بنتی تھیں۔ وہ ہمارے ملک کا بہترین گلیمر دور تھا۔ میرے نزدیک پوری دنیا میں آج بھی سینما انڈسٹری بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ آج بھی وہاں فلموں کے اوپر فلمیں دھڑا دھڑ بن رہی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہاں کی حکومتوں نے فلم انڈسٹری کے سر پر ہاتھ رکھا ہوا ہے۔ بدقسمتی سے 1947ء سے لے کر 2000ء تک ہر حکومت نے لاروں لپوں میں رکھتے ہوئے فلم انڈسٹری کی بندش میں اہم کردار ادا کیا۔ اگر گزشتہ ایک عشرے کی بات کروں تو دکھ کے ساتھ یہ کہہ رہا ہوں کہ آج کے دور کے سوشل میڈیا نے جہاں نسلوں کو تباہ کیا وہاں حکومت نے سینما جیسی تفریح سے بھی قوم کو محروم کر رکھا ہے۔ آج ہمارے سینما گھروں میں یا تو ایک دو تھیٹر بن گئے، باقی گاڑیوں کے شو رومز یا پلازے بنا دیئے گئے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جس ملک میں فلمیں بننا بند ہو جائیں وہاں سینما نے تو بند ہونا ہی ہے یہ وہی سینما گھرتھے جہاں لائن درلائن میں لوگ بلیک میں ٹکٹیں خریدا کرتے۔

جب سے میاں شہبازشریف کی حکومت آئی ہے اس نے ملک کے تباہ شدہ معاشی سسٹم میں جان ڈال دی ہے اور ملک ایک بڑے بحران سے نکل رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہماری کھیلوں کے میدان بھی آباد ہو گئے۔ خاص کر لاہور، کراچی میں تین ملکی بین الاقوامی ٹورنامنٹ کھیلا جا رہا ہے۔ 19فروری 2025ء سے ہمارے ہی میدانوں میں اس کے بعد پاکستان سپر لیگ کے دسویں ایڈیشن کا انعقاد ہونا ہے۔ آج اس ملک کے عوام کو اگر شدت کے ساتھ ضرورت ہے تو وہ فلم اور سینما انڈسٹری کی بحالی ہے۔ ایک غریب آدمی کے پاس ہے کیا۔ وہ بہت سی تباہیوں کے ساتھ اس بڑی تفریح سے بہت دور جا چکا ہے۔ حتیٰ کہ کسی زمانے میں واحد تفریح فلم کی صورت میں وہ انجوائے کر لیتا تھا۔جو اس سے چھین لی گئی۔ گو جدید دور میں انٹرنیٹ اور دوسرے خرافات نے ہر طرف تباہی مچا رکھی ہے۔ بڑے ٹی وی چینلز نے اپنی پروڈکشنز کے تحت فلمیں بنائیں مگر وہ فلمیں سینما گھروں اور غریب آدمی کی جیب سے کوسوں دور ہیں کہ اس غریب نے جہاں فلم دیکھنے جانا ہے وہ سینما گھر ہی اب نہیں رہے۔ اگر سینما گھروں کی بات کروں تو وہ زمانہ یاد کریں جب لاہور، کراچی میں بڑے نامور سینما گھر ہوا کرتے تھے۔جہاں بڑی فلمیں سلورجوبلی، گولڈن جوبلی اور پلاٹینم جوبلی تک پہنچ جاتی تھیں۔
یہ فلم انڈسٹری، جو پاکستان میں متحرک ثقافت وتہذیب پر مشتمل تھی، آزادی کے بعد سے پاکستانی معاشرے اور ثقافت پریہی فلم گہرا اثر ڈالتی رہی ہے۔ پاکستانی سنیما مختلف ذیلی صنعتوں پر مشتمل ہے، جن میں سب سے نمایاں ’’لالی وڈ‘‘تھا جہاں اردو اور پنجابی زبان میں فلمیں بنتی تھیں۔ لالی وڈ پاکستان کی سب سے بڑی فلمی صنعتوں میں شمار کی گئی۔پاکستانی سنیما میں مختلف زبانوں میں بنی ہوئی فلمیں لگتی تھیں۔ پاکستانی سنیما ملکی ثقافت میں ایک اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔اگر میں تھوڑاحساب کتاب کو دیکھوں تو پاکستان میں 1948ء سے اب تک 14ہزار سے زائد اردو، 10ہزار سے زائد پنجابی، 8ہزار سے زائد پشتو، 4ہزار سے زائد سندھی اور ایک ہزار سے زائد بلوچی فیچر فلمیں بنائی جا چکی ہیں۔ جو ملک کی سب سے بڑی فلمی صنعت کا مرکز تھا اور ’’لالی وڈ‘‘ کہلاتا تھا۔ 1970ء کی دہائی کے اوائل میں، پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ فیچر فلمیں بنانے والے ممالک میں چوتھے نمبر پر تھا۔ تاہم، 1977ء سے 2007ء کے دوران، مارشل لائ، سنسر قوانین کی سختی اور معیار کی کمی کی وجہ سے فلم انڈسٹری زوال کا شکار ہو گئی۔ 1980ء اور 1990ء کی دہائیوں میں فلم انڈسٹری کو کئی اتار چڑھاؤ کا سامنا رہا۔
1977ء میں جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے بعد پاکستانی فلمی صنعت زوال کا شکار ہونے لگی۔ فلم پروڈیوسرز کے لئے ڈگری ہولڈر ہونا لازمی قرار دیا گیا، جس سے کئی فلمساز متاثر ہوئے۔ حکومت نے لاہور کے بیشتر سینما ہال بند کر دیئے۔ نئے ٹیکسز لگنے سے فلم بینی کم ہوگئی اور سینما انڈسٹری شدید مالی بحران کا شکار ہوئی۔ وی سی آر اور فلموں کی غیر قانونی کاپیوں (Piracy) نے بھی صنعت کو نقصان پہنچایا۔ اسی دوران پنجابی 1979ء میں ’’مولا جٹ‘‘ جیسی پنجابی فلموں نے ’’گنڈاسہ کلچر‘‘ کو جنم دیا، جس میں تشدد اور انتقام کے موضوعات حاوی رہے۔ اردو فلمیں زوال پذیر ہوئیں جبکہ پنجابی اور پشتو فلموں میں عریانی اور تشدد بڑھ گیا، جسے سنسر قوانین بھی روک نہ سکے۔

جنرل ضیاء الحق ہی کے دور میں ملک میں اسلامائزیشن کا عمل شروع ہوا تو اس کے باعث فلم انڈسٹری پر سخت پابندیاں لگائی گئیں۔ لاہور میں بڑے سینما بند کر دیئے گئے جس سے انڈسٹری کو شدید نقصان پہنچا۔ ٹیکس کی شرح میں اضافے سے سینما گھروں میں حاضری کم ہوگئی اور لوگ متبادل تفریحی ذرائع کی طرف راغب ہونے لگے۔ VCRاور فلموں کی غیرقانونی کاپیوں (Piracy) نے بھی سنیما انڈسٹری کی آمدنی کو نقصان پہنچایا۔ ان عوامل کی وجہ سے 1980ء اور 1990ء کی دہائی میں پاکستانی فلم انڈسٹری تقریباً تباہ ہو گئی اور فلم بینوں کا رجحان بھارتی فلموں، ڈراموں اور بین الاقوامی تفریحی مواد کی طرف بڑھنے لگا۔
اور آخری بات…
شہباز حکومت سے گزارش ہے کہ جہاں وہ دن رات ملک کی بہتری کیلئے کوشاں ہیں ایک نظر غریب کی تفریح پر بھی ڈال دیں سینما انڈسٹری اور فلم نگری کو پھر سے آباد کردیں۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: سینما گھروں فلم انڈسٹری انڈسٹری کی کے ساتھ اور فلم کے بعد

پڑھیں:

کتاب ‘جھوٹے روپ کے درشن’ پر تبصرہ

راجہ انور صاحب کی کتاب ‘جھوٹے روپ کے درشن’ پڑھی، یہ کتاب راجہ انور اور کنول کی حقیقی محبت کے کمال و زوال پہ مرتب ہے۔ کتاب 2 سالہ خطوط پہ مشتمل ہے جو کہ 1972 سے 1974 تک محب اور محبوب کی روزمرہ زندگی کے احوال پر مشتمل ہے۔

کتاب کے مصنف راجہ انور صاحب پنجاب یونیورسٹی کے طالب علم اور وہاں کے اسٹوڈنٹس پالیٹکس میں فعال کردار ہیں۔ راجہ انور مالی حوالے سے غریب مگر انتہائی ذہین، قابل، متحرک اور طلبا کے پسندیدہ شخصیت ہیں، وہ طلبا حقوق کے لیے سرگرم آواز اور باشعور رہنما ہیں، اسی پاداش میں وہ قید و بند بھی رہے۔ اس تصنیف سے پہلے وہ ‘بڑی جیل سے جھوٹی جیل تک’ کتاب لکھ چکے۔

طلبا یونین ہی کے اک پروگرام میں راجہ انور کا تعارف کنول نامی لڑکی سے ہو جاتا ہے، کنول خوبصورت اور امیر کبیر گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں، کنول اسٹوڈنٹس پالیٹکس میں ہلکا پھلکا کام کرتی ہیں۔

دونوں کے آپسی تعارف دوستی میں بدل جاتی ہے اور روزمرہ کی قربت باہمی محبت میں۔ یہاں سے راجہ انور اور کنول ایک دوسرے کو خطوط لکھنا شروع کر دیتے ہیں، جس کا مجموعہ یہی کتاب ‘جھوٹے روپ کے درشن’ ہیں۔

راجہ صاحب کا مطالعہ وسیع ہے،  مذہب، سیاست، ریاست، معاشرت، محبت وغیرہ ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔

راجہ انور آزاد خیال اور فکری طور پہ زرا ایڈوانس منش ہیں۔ معاشرتی اقدار و روایات وغیرہ کو فضول سمجھتے ہیں، اپنے ایک خط میں کنول کو  اس حوالے سے  لکھتے ہیں،

‘ہم بھی کیا لوگ ہیں، بے جان روایتوں کے قبرستان میں دفن۔تہذیب، شرم اور حجاب ایسے بانجھ الفاظ کے سحر میں گرفتار… زندہ لاشیں’

راجہ صاحب اسی سوچ کے ساتھ اپنے خطوط میں آراء کا بے ساختہ اظہار کرتے ہیں، وہ پرائیویٹ اور انتہائی ذاتی نوعیت کی باتیں آسانی سے اور نارملی کہہ دیتے ہیں، جیسے وہ گرل فرینڈ بوائے فرینڈ نہیں میاں بیوی ہوں یا اس سے بھی آگے اور کچھ۔

راجہ صاحب جس لڑکی سے محبت کرتے ہیں، وہ پہلے ہی اپنے کزن خرم نامی لڑکے کی منہ بولی منگیتر ہے، خرم اچھے خاصے مالدار گھرانے سے تعلق رکھتا ہے اور بڑی کار کوٹھی رکھتا ہے۔ خرم بھی کنول کی محبت میں گرفتار ہوتا ہے اور وقتاً فوقتاً کنول سے میل ملاقات کرتا ہے۔ خرم اور کنول کے تعلق سے راجہ صاحب بخوبی واقف ہیں، البتہ خرم راجہ صاحب کو نہیں جانتے۔ ایک خط میں راجہ صاحب کنول کو اپنے رقیب یعنی خرم کے حوالے سے لکھتے ہیں۔

‘لوگ خوش فہمیوں کی دنیا بسائے بیٹھے ہیں۔ اندازہ کرو، تم مجھ سے چھپ چھپ کر ملتی ہو مگر وہ شخص تمہیں حور سمجھتا ہے، تم اسے فرشتہ کہتی ہو حالانکہ وہ بھی حور ہی کی مانند فرشتہ ہوگا۔ میں حقیر سا انسان تم فرشتوں اور حوروں کے درمیان پس کر رہ گیا ہوں۔ تم میرے سامنے ایک اور مرد سے ملتی ہو، میں تمہیں پھر بھی دیوی کہتا ہوں، وہ نہیں جانتا تم کسی اور سے ملتی ہو، اس لیے تمہیں حور جانتا ہے۔ تم سے کون زیادہ پیار کرتا ہے؟ تم ہی فیصلہ کر لو’۔

آپ اندازہ لگائیں راجہ صاحب کتنی کمال مہارت سے کنول کو اپنی جانب متوجہ کرا رہے ہیں، کیسی جسٹیفیکیشن اور زبردست دلیل دے رہے ہیں۔

راجہ صاحب کی معاشرے پہ گہری نظر ہے، وہ انسانی نفسیات و مسائل جانتے ہیں، وہ عام لوگوں سے بہت الگ سوچتے اور سمجھتے ہیں۔ ایک خط میں راقم ہیں کہ ‘محبت اور جنس (Sex and Love) درحقیقت ایک ہی تصویر کے دو رُخ ہیں؛ جنس کے بغیر محبت کی حیثیت دیوانے کے خواب کی سی ہے اور محبت کے بغیر جنس محض خود لذتی ہے۔ ہمارے یہاں شادی کو جنس سے وابستہ کردیا گیا ہے، حالانکہ شادی تو 2 انسانوں کے درمیان محض ایک سماجی معاہدے کا نام ہے، ایک طرح کا معاشی تحفظ ہے’۔

راجہ صاحب خط میں روزمرہ حالات بتاتے ہوئے اپنی دل کی بات بھی رکھ دیتے، وہ ہر حال میں کنول کو اپنے قریب لانے کی کوشش کرتے؛ لکھتے ہیں، ‘جان لو، بچوں سے لے کر بڑوں تک….. افراد سے لے کر اقوام تک…. سبھی جھگڑے ‘میرے اور تیرے’ کے پیدا کردہ ہیں، یہ میرا تیرا اگر ‘ہمارے’ میں بدل جائے تو شاید فساد ختم ہو پائیں’۔

راجہ صاحب اعلیٰ ظرف رکھتے ہیں، باوجود کنول کا عاشق ہونے کے، وہ اپنے محبوب کے محب، اپنے رقیب یعنی خرم کو برا بھلا نہیں کہتے، راجہ صاحب خرم سے خوف زدہ ضرور ہیں مگر ان کے خلاف سازشی کردار ادا نہیں کیا، خرم کے بارے کنول سے شکوہ کناہ ہیں، خط میں لکھتے ہیں۔

‘مجھے اس سے صرف یہ گلہ ہے کہ وہ مجھے تمہاری قربت سے محروم کر دیتا ہے۔ جب تک وہ یہاں رہتا ہے تنہائیاں سر پر بازو رکھے میرے اردگرد بین کرتی رہتی ہیں۔ ان دِنوں مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے تم ایک ایسی ماں ہو جس نے ایک بیٹا تو دنیا کے رواج کے مطابق جنم دیا، اسے تم اٹھائے پھرتی ہو، اس کے ماتھے پر سیاہ نشان لگاتی ہو کہ وہ نظربد سے بچا رہے، لوگوں سے اسے ملواتی ہو، گھنٹوں اسے ساتھ لیے رہتی ہو۔ مگر مجھے ایک ایسا بچہ بنا دیتی ہو، جسے تم نے بن باپ کے پیدا کیا تھا۔ مجھے دنیا کے سامنے اپنا کہنے سے شرماتی ہو، اس کی موجودگی میں تم مجھے روتا دھوتا چھوڑ کر چل دیتی ہو، پھر دنیا کی نظروں سے بچ بچا کر اندھیرے میں منہ لپٹے پل دو پل کے لیے مجھے بہلانے کے لیے آجاتی ہو۔ خرم میرے وجود کو ناجائز بنا دیتا ہے’۔

دلیل دیکھیں، مثال و مزاج دیکھیں۔ لیکن یہاں راجہ صاحب کا کا عشق اور ظریف بھی دیکھیں، وہ کنول سے کہتے ہیں کہ ‘اگر تم خرم سے پوچھ کے مجھے یقین دلا دو کہ تم خرم سے شادی کے بعد بھی مجھے ملو گی تو مجھے منظور ہے، اگر وہ یہ اجازت نہیں دیتا تو مجھ سے شادی کر لو، میں تمہیں شادی کے بعد خرم سے ملنے کی اجازت دونگا’۔ راجہ صاحب کی ہمت، عظمت اور اعتبار دیکھیں۔

راجہ صاحب کنول کے حقیقی عاشق ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، اور یہ بات فلسفیانہ انداز میں کنول کو بھی سمجھاتے ہیں، خط میں کنول سے مخاطب ہیں،تم بہت خوبصورت ہو۔ یقین کرو اگر خوبصورت نہ ہوتیں، تب بھی میں تمہیں اتنا ہی چاہتا۔ حُسن تو ایک اضافی اور بے معنی شے ہے، میری آنکھ میں ہے نہ تمہارے جسم میں، بلکہ ان دونوں کے درمیان پیدا ہونے والے رشتے کے احساس کا نام ہے۔

تم نے کہا تھا کہ مستقبل کے متعلق ابھی بات نہیں کریں گے؛ ٹھیک ہے، بات نہ کرنا اور ہے مگر سوچنا، اس سے قطعی علیحدہ شے ہے۔ اظہارِ بیان پر تو پابندی لگ سکتی ہے مگر میرے ذہین پر بھی قُفل لگا جاؤ، وہ ہر لمحہ تمہارے سوا کچھ سوچتا ہی نہیں۔ میں کیا کروں؟ تم ہی کچھ سوچو اور کوئی طریقہ بتاؤ۔

راجہ صاحب میل ملاقاتوں میں کنول سے مستقبل کے بارے اصرار کرتے ہیں، شادی کی گنجائش نکالنے پہ گفتگو کرتے ہیں، کنول بھی کسی حد تک یہی چاہتی ہے کہ راجہ صاحب سے اس کی شادی ہو لیکن کنول کے گھر بار اور فیملی اسٹیٹس راجہ صاحب کی قسمت کے آگے دیوار بنی رہتی ہے۔

دن اور مہینے تیزی سے گزرتے ہیں، دونوں مستقلاً یکجاں ہونے کا سوچتے ہیں کہ یونیوسٹی کے امتحانات سر پر آجاتے ہیں اور ان دونوں کو جدائی کی فکر لاحق ہو جاتی ہے۔ امتحان ہوتے ہی کنول کالج سے گھر چلی جاتی ہے۔ اب خط و کتابت محدود مگر محبت شدت اختیار کر جاتی ہے۔ ادھر خاندان میں کنول کی شادی کی سرگوشیاں شروع ہوتی ہیں، جبکہ گھریلو پریشانیوں اور سخت روایات کے سبب کنول راجہ صاحب کا نام لینے سے کتراتی ہے۔ اسی لیے کنول فلحال کچھ عرصہ آرام کا بہانہ کرکے شادی روکنے کی کوشش کرتی ہیں۔

یہاں تک حالات تقریباً ٹھیک رہتے ہیں، مگر ایک دن راجہ صاحب کے خط کنول کے گھر والوں کے ہاتھ لگ جاتے ہیں، وہ کنول کو ڈانٹ ڈپٹ کرکے معاملہ رفع دفعہ کر لیتے ہیں مگر کچھ دن بعد مزید خطوط گھر والوں کے سامنے آتے ہیں، جس سے تشویش بڑھ جاتی ہے اور صورتحال نازک ہو جاتی ہے جبکہ کنول کی شادی خرم سے کرنے کی تیاری زور پکڑ لیتی ہے۔

کنول راجہ صاحب کو سارے واقعات بتاتی ہے اور ایک دن خط میں خرم سے اپنی منگنی کی خبر دے دیتی ہے۔

 بس پھر کیا تھا، کنول کی منگنی کی خبر دیکھتے ہی راجہ صاحب کا تمام غیض و غضب ایک طویل خط میں جمع ہو جاتا ہے۔ راجہ صاحب شکوے شکایتوں کے انبار لگا دیتے ہیں۔ بلکہ کنول کو نیچا دیکھنے کی خاطر اسے اک طوائف سے بھی کمتر ثابت کرتے ہیں، الزامات اور طنعوں کی بھرمار کرتے ہیں۔ اس ایک خط میں راجہ صاحب کا تمام فلسفہ، محبت، زمانہ شناسی، ضبط اور بھرم سب آشکار ہوجاتے ہیں۔

راجہ صاحب جو تمام صورتحال سے واقف ہیں، زمانے کے روایت اور لوگوں کے مسائل جانتے ہیں، باوجود اس کے وہ کنول کو مال و دولت اور کار کوٹھی کا لالچی کہہ دیتے ہیں، حالانکہ پوری کہانی میں کہیں بھی کنول نے راجہ صاحب کو شادی کے لیے مکمل طور پہ گرین سگنل نہیں دیا، بلکہ ہر جا یہ خدشہ پیش کیا کہ گھر والوں نے اس کا رشتہ خرم سے طے کر رکھا ہے۔

راجہ صاحب نے آخری خط کے آخری جملے میں لکھا ہے کہ ‘باقی حساب ہماری نسلیں آپس میں طے کر لیں گے’۔

محبت کرنے والے لوگ اور خاص کر ناکام عاشق راجہ صاحب اور کنول کی فکری نسل سے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو میں راجہ صاحب کے سیکنڈ لاسٹ خط اور ان کے طرزِ عمل سے شدید اختلاف کرونگا، یہ کیا بات ہوئی جب تک محبوب میرا تھا، میرے پاس تھا، میرے مطابق تھا تو سب کچھ ٹھیک اور جائز، اور جب محبوب مجبوری کے مارے نہ رہا تو ساری محبت نفرت میں بدل جائے، اخلاص کے دعوے غلیظ انتقامی جملے بن جائیں، وعدوں اور دعووں کو خاک الود ہو جائے، کم از کم یہ اک سچے عاشق کا ظریف تو نہ ہو سکتا۔

میں سمجھتا ہوں حقیقی محبت تو یہ ہے کہ محبوب نہ بھی ملے تب بھی اس سے محبت باقی رہے، عزت، احترام و احساس کا رشتہ باقی رہے، نیک تمنائیں اور پرخلوص ادائیں قائم رہیں۔ عاشق کا کام ہے عشق کرنا، معشوق کو اختیار حاصل ہے وہ وفا کرے کہ جفا۔ محبت کا دعویٰ کرنے سے پہلے ظرف اتنا وسیع ضرور ہو کہ وصال و فراق اور ہر حال میں میں محبوب و معشوق کی مال، جان اور عزت محفوظ رہے۔

مجھے راجہ انور صاحب کے ردعمل سے اختلاف ہے۔ یہ محبت کے امتحان میں ناکامی کا ثبوت ہے۔

یہ کتاب ‘جھوٹے روپ کے درشن’ پڑھنے لائق ہے۔ بذات خود میں 2 دن کے وقفہ سے پڑھتا رہا ہوں، کیونکہ یہ کتاب ذہن پہ سحر طاری کرتی ہے، راجہ صاحب کا اسلوبِ بیان منفرد اور دلچسپ ہے، راجہ صاحب کے خطوط میں قاری کو اپنا آپ نظر آتا ہے۔ وہ روزمرہ گفتگو میں شاندار جملے کہتے ہیں۔ اگر آپ نے کبھی عشق کیا ہے تو یہ کتاب ضرور پڑھیے اور اپنی ماضی، حال اور مستقبل کی محبتوں کو سنہری جِلا بخشیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمیر خان آباد

متعلقہ مضامین

  • اور پھر بیاں اپنا (دوسرا اور آخری حصہ)
  • بلاول بھٹو کی وزیراعظم شہبازشریف سے آج ملاقات متوقع، کینالز کے معاملے پر بڑی پیشرفت کا امکان 
  • معاشی خود انحصاری کیلئے سنجیدہ اور دیرپا اقدامات کی ضرورت :احسن اقبال
  • پہلگام حملہ فالس فلیگ آپریشن، مقصد اپنی دہشتگردانہ کارروائیوں سے دنیا کی توجہ ہٹانا ہے، مشاہد حسین سید
  • کتاب ‘جھوٹے روپ کے درشن’ پر تبصرہ
  • سروس کی اگلی پرواز… پی آئی اے
  • پاکستانی فلمی صنعت کی بحالی کے لیے صرف فلم سٹی کافی نہیں
  • گندم اور کینالز کو ساتھ نہ ملائیں، ن لیگ معاملے سے توجہ ہٹانا چاہتی ہے، سعید غنی
  • وزیراعظم شہبازشریف ترک صدر کی دعوت پر 2 روزہ دورے پر ترکیہ چلے گئے
  • رواں ہفتے کونسی بڑی فلمیں تھیٹر اور او ٹی ٹی پر ریلیز ہوں گی؟ جانیئے