حکمرانوں کو کفایت شعاری اختیار کرنی چاہیے
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور اس سیمت کئی دیگر چیزوں کے بارے میں نشر و اشاعت کے ادارے مناظر دیکھا رہے ہوتے ہیں اور کالم نگار اپنے قلم سے توجہ دلانے کی کوشش کرتے نظر آرہے ہوتے ہیں مگر مجال ہے کہ حکمرانوں یا سرکاری عہدہ داروں کے کان پر جوں تک رینگ جائے۔ حکمرانوں کے پاس اتنا بھی وقت نہیں ہوتا کہ وہ ہر چھوٹے و بڑے شہروں کے بارے میں جانیں یا دیکھیں کہ لوگ کس حال میں گزر بسر کر رہے ہیں حتیٰ کہ انہیں اپنے حلقے کی عوام اور وہاں کے مسائل کے بارے میں بھی علم نہیں ہوتا۔ عوام سے براہ راست تعلق نہ رکھنے کی وجہ سے حکمران عموماً عوام کے اصل مسائل اور زمینی حقائق سے بے خبر رہتے ہیں لہٰذا ان سے خیر کی کوئی توقع کیسے رکھی جاسکتی ہے۔ ہمارے حکمران اپنے اخراجات اور عیاشیوں پر خرچ ہونے والے اربوں روپے کے اخراجات ختم کردیں تو غریب عوام کی حالت میں بہتری کے آثار پیدا ہوسکتے ہیں۔ ہر آنے والا حکمران باتیں تو بہت کرتا ہے موجودہ وزیرِ اعظم سمیت پر عمل کہیں بھی نظر نہیں آرہا ہوتا بلکہ روز بروز ان کے اخراجات میں کئی ہزار قسم کے اضافے نظر بھی آرہے ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ یہ بھی سننے کو ملتا ہے ان لوگوں کو جو مشاہرہ ملتا ہے اس میں ان کا گزارا نہیں ہو پاتا جبکہ ماشاء اللہ سے تمام سیاسی رہنما ہی کھرب پتی ہیں۔ وطنِ عزیز کے موجودہ حالت کے تناظر میں دیکھا جائے تو ان تمام سیاسی رہنماؤں کو کسی بھی قسم کا مشاہرہ نہیں لینا چاہیے اور اگر یہ رہنما چاہیں تو آج ہی وطنِ عزیز قرض سے نجات پاسکتا ہے مگر کیا کہیں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
اپنی اپنی مصلحت ہے اپنا اپنا ہے مفاد
ورنہ اس دنیا میں کب کوئی کسی کے ساتھ ہے
سادگی کے حوالے سے کئی برس قبل ایک کالم میں پڑھا تھا جو میں نقل کررہا ہوں کہ ’’سن انیس سو ساٹھ میں ایک بریگیڈیئر جب چین میں ملٹری اٹیچی بننے تو انہوں نے وہاں کی حکومت سے درخواست کی کہ وہ ہوچی منہ سے ملنا چاہتے ہیں ان کی درخواست پر ملاقات کا وقت طے پا گیا تھا۔ فوجی طریقہ کار کے مطابق وہ کچھ وقت قبل ہی پہنچ گئے تھے۔ ان کا رہنما انہیں ایک خوبصورت سے باغ کے دروازے کے باہر چھوڑ کر چلا گیا اور وہ اس باغ میں داخل ہوگئے تھے، اس باغ میں ایک چھوٹا سا مکان تھا جس کے باہر ایک مالی کیاریوں میں پودے لگا رہا تھا، وہ اس مالی سے بڑے متاثر ہوئے جو اپنے کام میں ہمہ تن مشغول تھا۔ وہ ایک کرسی پر بیٹھ گئے تھے، انہوں نے ارد گرد نظر دورائی تو انہیں کرسی، میز اور چھوٹے سے مکان بھی نظر آیا اور غور کرنے پر انہیں پتہ چلا کہ یہ سب کچھ بانس سے تعمیر کیا گیا تھا حتیٰ کہ کیلیں بھی بانس کی بنی ہوئی تھیں۔ وہ انتظار کررہے تھے کہ کب کوئی آئے اور ان کو صدارتی محل لے جائے گا تاکہ ملاقات ہوسکے۔ اتنے میں وہی مالی اپنے ہاتھ جھاڑ کر ان کے پاس آیا اور ان سے کہا میں ہوچی منہ ہوں اس پر بریگیڈیئر صاحب کی حالت دیکھنے والی تھی وہ جو چھوٹا سا مکان تھا وہ ہوچی منہ کا پیلس تھا۔ یہ کوئی کہانی نہیں بلکہ حقائق ہیں جو اسی دنیا میں ظہور پزیر ہوئے ہیں، ہمارے لیے ان سب کہانیوں میں بڑے سبق ہیں۔‘‘
کاش وطنِ عزیز میں بھی ایسے رہنما اور ایسی سیاسی جماعتیں وجود میں آئیں جن کو عوام کی فلاح وبہود کا خیال ہو، عوام کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہوں، صرف ذاتی مفاد کے لیے نہ آئیں۔ ہر سیاسی جماعت کا مقصد ہوتا ہے حصولِ اقتدار لیکن جب اقتدار مل جاتا ہے تو پھر لوٹ مار، عیاشیاں اور اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کی فکری رہتی ہیں۔ اصل میں ذمہ داری کا مظاہرہ ہونا چاہیے جس دن اقتدار کی جگہ ذمہ داری نے لے لی حالات تبدیل ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔
ایک غریب ملک جس کے اٹھانوے فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی نہ ملے، بے روزگاری عام ہو، لوگ خودکشی کررہے ہوں، بغیر پیسے کے کسی دفتر میں کوئی کام نہ ہو، تعلیم کے دروازے غریبوں کے لیے بند ہوں، اسپتالوں کی حالت خراب ہو، پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی ہو تو اس ملک کے حکمرانوں کو عیاشیاں زیب نہیں دیتیں۔ فضول اخراجات اس وقت اچھے لگتے ہیں جب ملک خوش حال ہو آج بھی ملک پر تقریباً سترہ ہزار تین سو باسٹھ ارب روپے کا قرض پہنچ گیا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم ہر سطح پر کفایت شعاری اور سادگی اختیار کریں یہی ایک صورت ہے جس سے عوام کو کچھ راحت مل سکتی ہے۔ اگر اب بھی سنجیدگی سے نہیں سوچا گیا تو پھر اللہ ہی حافظ ہے وطنِ عزیز کا۔
وہ سادگی میں بھی ہے عجب دل کشی لیے
اس واسطے ہم اس کی تمنا میں جی لیے
ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
آئی پی پیز کو ٹیکس سے استثنیٰ، عوام پر ٹیکس کا بوجھ ڈالا جارہا ہے: حافظ نعیم
کراچی (آئی این پی) امیر جماعتِ اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ آئی پی پیز کو ٹیکس سے استثنیٰ دیا جارہا ہے، عام عوام پر ٹیکس کا بوجھ ڈالا جارہا ہے، ایک لاکھ 25 ہزار تنخواہ والے شخص کو ٹیکس سے چھوٹ دی جائے۔کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ بجٹ میں پھر خوف پیدا ہونا شروع ہوگیا ہے، پانچ ماہ سے مہنگائی بڑھتی جارہی ہے، مصنوعی دعوں سے معیشت بہتر نہیں ہوتی، عملی اقدامات سے ہوتی ہے، تنخواہ دار طبقے نے ٹیکس کی مد میں 400 ارب روپے جمع کرائے۔حافظ نعیم الرحمان کا کہنا ہے کہ بڑے جاگیرداروں کی شوگر ملیں ہیں، یہ حکومتوں میں ہوتے ہیں، مخصوص طبقے کو لوٹ مار کرنی ہے، ٹیکس جمع نہیں کرانا، تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا نظام ازسر نو بنایا جائے، حکومت بجلی کے ٹیرف میں مستقل کمی نہیں کر رہی۔انہوں نے مزید کہا کہ عام صارفین سے لوٹ مار کی جارہی ہے، مخصوص طبقے کی مراعات بڑھ رہی ہیں، عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا جارہا، دو ہزار ارب روپے آئی پی پیز کو دیے جارہے ہیں۔امیرِ جماعتِ اسلامی نے کہا کہ 67 ہزار افراد انتظامیہ کی ناقص حکمتِ عملی کی وجہ سے حج نہیں کر سکے۔ان کا کہنا تھا کہ کے فور منصوبہ مستقل تاخیر کا شکار ہے، ارسا نے کراچی کا پانی نہیں بڑھایا، کے فور منصوبے کا تخمینہ دو سو ارب تک پہنچ چکا ہے، کراچی کا بنیادی انفرا اسٹرکچر تباہ کردیا گیا ہے۔حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ امریکا نے غزہ میں جنگ بندی پر ویٹو کردیا ہے، اسرائیلی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ نے امن کے بجائے جنگ کو فوقیت دی، امریکا نسل کشی کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، ہم نے بھارت کو شکست دی، بھارت اب تنہا ہو چکا ہے۔حافظ نعیم الرحمان کا کہنا ہے کہ پوری دنیا میں پاکستان کا وقار بلند ہوا ہے، فیلڈ مارشل عاصم منیر مسلم ممالک کی افواج کے سربراہان کا اجلاس بلائیں، تمام ممالک کے سپہ سالاروں کو اکٹھا کیا جائے۔حافظ نعیم الرحمان نے یہ بھی کہا کہ امریکا نے افغانستان میں قتل عام کیا، امریکا امن کا داعی نہیں بلکہ انسانیت کا دشمن ہے، ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں نے غزہ کی صورتحال پر احتجاج نہیں کیا۔