Express News:
2025-07-26@01:40:46 GMT

جھنڈے ، درفش کاویانی

اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT

جھنڈے آپ نے رنگ برنگے دیکھے ہوں گے، سیاہ وسفید، نیلے پیلے، سرخ سبز، زرد مطلب یہ کہ جتنے رنگ اتنے جھنڈے اتنے ان کے فنڈے ، بظاہر یہ جھنڈے الگ، مختلف بلکہ اکثرمتضاد بھی دکھائی دیتے ہیں لیکن سارے جھنڈوں میں ایک قدر مشترک بھی ہے، اس قدرمشترک خصوصیت پر بات بعد میں بات کریں گے ،پہلے جھنڈوں کی تاریخ پر تحقیق کاجھنڈا لہراتے ہیں۔

اگرچہ جھنڈوں کی تاریخ انتہائی تاریک ہے لیکن جغرافیہ، تاریخ بھی زیادہ اندھیرے میں ہے ،شکوک کے گھیرے میں ہے اور روایات کے پھیرے میں ہے ۔ اس لیے ہم اگر تحقیق کا ٹٹو دوڑائیں گے تو تاریخ کے بجائے کہانیوں کی تاریکی میں دوڑائیں گے ،چاہے ہمارا ٹٹوئے تاریخ تاریک راہوں میں مارا ہی کیوں نہ جائے ۔

 پارسیوں کی کتاب ژنداوویشا اورشاہنامہ فردوسی کے مطابق بہت قدیم زمانوں میں بلخ کا ایک حکمران تھا ضحاک، جودراصل اساک خانہ بدوشوں کا استعارہ ہے یہ بہت ہی ظالم بادشاہ تھا، اس کے کندھوں پر شیطان اہرمن نے بوسہ دیا تھا جہاں دوسانپ اگ آئے تھے، ضحاک روزانہ دوآدمیوں کا مغز ان سانپوں کو کھلاتا تھا، ظاہر ہے ، مارے بغیر کسی کا مغز حاصل نہیں کیاجاسکتا ہے اس کو مجبوراً ان آدمیوں کو مارنا بھی پڑتا تھا۔

 ایک دن ’’کاوہ ‘‘ نامی لوہار کے دوبیٹے بھی اس اتیا چار کا شکار ہوئے جس پر کاوہ لوہار نے علم بغاوت بلند کیا، اس نے اپنی دھونکنی کو جھنڈا بنا کر بغاوت کاآغاز کر دیا تو ضحاک کا شکار ہونے والے اوربھی بہت سارے لوگ بغاوت میں ساتھ ہو گئے، پشتو میں ایک کہاوت ہے کہ تلواریں لالا چلاتا ہے اورلقمے عبداللہ کھاتا ہے ۔

خیر کاوہ لوہار کی اس دھونکنی سے جھنڈوں کا سلسلہ چل نکلا ۔ درفش فارسی میں لوہاروں کی دھونکنی کوکہتے ہیں، یہ ایک صوتی نام ہے کہ پرانے زمانے کی چمڑے سے بنی ہوئی دھونکنی جب چلائی جاتی تھی تو اس سے در۔ فش۔ درفش کی آواز نکلتی تھی چنانچہ ایران کے جھنڈے کا نام ابھی تک درفش کاویانی ہے۔ 

آج کل کا تو پتہ نہیں لیکن شاہ ایران کے عہد تک ایرانی جھنڈے کاسرکاری نام درفش کاویانی ہی تھا ۔ شہنشاہ ایران نے جب اپنی تاج پوشی کا عظیم الشان جشن منایا تھا جس پر اربوں کروڑوں روپے عوام کے خون سے نچوڑ کر اڑائے گئے تھے، اس میں ایرانی شہنشاہیت کاتسلسل اسی ڈھائی ہزار سالہ تاریخ سے جوڑا گیا تھا۔

اوردنیا کے حکمرانوں اور مشہور شخصیات کو مدعو کیاگیا، پرتعیش عمارت تعمیر کی گئی تھی، ٹاپ کلاس لگژری مہمان نوازی کا انتظام کیا گیا تھا، سیکڑوں تو نئی مرسیڈیز گاڑیاں خریدی گئی تھیں، دنیا بھر سے انٹرٹینر بلوائے گئے تھے جن میں چنیدہ قسم کی حسینائیں شامل تھیں۔ 

کئی دن تک اعلیٰ پیمانے پر خور ونوش کا وافر انتظام تھا ، ڈھائی ہزار تو صرف دنبے قربان کیے گئے تھے حالانکہ ان بے چاروں کا اس معاملے میں کوئی قصور نہیں تھا نہ ہی وہ ضحاک کے رشتہ دار تھے ، بیلوں، بکریوں، مرغیوں وغیرہ یادوسرے کئی اقسام کے کچے پکے گوشت کاتو کوئی حساب ہی نہیں لگایا جاسکا البتہ قربانی کے بیلوں کی تعداد ڈھائی ہزار تھی۔

درفش کاویانی لہرا کر شہنشاہ کی تاج پوشی کی گئی تھی اوراس پر قدیم خطابت آریا مہر کو چسپاں کیا گیا تھا ۔ جھنڈوں کا ایک میلہ افغانستان کے شہر مزار شریف میں بھی لگتا تھا،ایران وافغانستان میں اسے نوروز ، میلہ گل سرخ اورجھنڈوں کا میلہ بھی کہاجاتا ہے۔

اس سلسلے میں بہت ساری روایتیں گڈمڈ ہوکر الجھنیں بن چکی ہیں، سب سے پہلی اوربڑی الجھن تو یہ ہے کہ مزار شریف میں جو مزار ہے اورعام طورپر اسے مزارسخی یاسخی بابا کہا جاتا ہے اس پر موٹے موٹے الفاظ میں مزار حضرت علی کرم اللہ وجہہ لکھا ہوا ہے حالانکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کامزار نجف اشرف عراق میں بھی ہے۔ 

دوسری روایت یہ ہے کہ اس جشن نوروز کو جمشید سے بھی منسوب کیا جاتا ہے اورعراقی بہارکی دیوی عشار سے بھی منسوب کیاجاتا ہے، وہ بہار سبزے اورہریالی بارآوری کی دیوی تھی اورجب وہ اپنے محبوب تموز کی بیماری کا علاج لانے چار مہینے کے لیے پاتال چلی گئی تو زمین کی ساری ہریالی چلی گئی اورسردیوں کے چار مہینے بعد جب وہ لوٹ آئی تو پھر بہار آگئی اوراس دن کو اس استورے سے بھی منسوب کیا جاتا ہے۔

جس دن جھنڈے لہرانے یاپرچم کشائی کی تقریب ہوئی تھی اس دن ایران ،افغانستان پاکستان بلکہ ہندوستان کے لوگوں کا اتنا اژدہام ہوجاتا ہے کہ اس رات نہ عمارتوں میں کوئی جگہ ہوتی ہے نہ پارکوں میں نہ سڑکوں پر نہ ارد گرد کھیتوں میں ۔صبح سویرے شہر اورملک کے چنیدہ عمائدین جمع ہوجاتے ہیں۔ 

پہلے رنگ برنگے جھنڈے لہرائے جاتے ہیں پھر کبوتر چھوڑے جاتے ہیں اورپھر اچانک تیس چالیس لوگ اٹھ کھڑے ہوکر چلانے لگتے ہیں ، بینا شویم بینا شویم۔ یعنی ہماری آنکھوں میں بینائی آگئی ، تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ یہ لوگ اندھے تھے اوراب بینا ہوگئے ،کیسے ؟ کیوں؟ عقیدتوں میں ایسے پوچھنا منع ہے کیوں کہ فارسی کہاوت ہے کہ پیران نمی پرد بدان می پرانند۔ پیر اڑتے نہیں لیکن مرید انھیں اڑاتے ہیں ۔

ویسے بھی ہمارا موضوع جھنڈے اورجھنڈوں سے وابستہ فنڈے ہیں اورآخر میں حسب وعدہ اس سوال کاجواب کہ دنیا بھر کے تمام اورہررنگ وشکل اورسائز کے جھنڈوں میں قدر مشترک کیا ہے ، اور وہ قدر مشترک ہے ڈنڈا۔ جھنڈا کوئی بھی ہوسب میں ایک جیسا ہی ڈنڈا ہوتا ہے جو دکھائی نہیں دیتا لیکن جب پڑتا ہے تو ہڈیاں توڑ دیتا ہے اوریہی ہر جھنڈے کا کام ہوتا ہے ، وہ ہاتھی کے دانتوں جیسا معاملہ ہے ، اوپر تو کسی کپڑے کاخوبصورت نقش ونگار والا جھنڈا ہوتا ہے لیکن نیچے سارے جھنڈے ایک ہی ڈنڈے میں مرتکز ہوجاتے ہیں اوراپنا وہی کام کرتا ہے جو ڈنڈے کا تھا،ہے اورہمیشہ رہے گا۔

ہزاروں رنگ بدلے گا یہ جھنڈا

مگر ہرگز نہ بدلے گا یہ ڈنڈا

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جھنڈے ا جاتا ہے سے بھی

پڑھیں:

امریکہ کو اب فینٹانل کا سیاسی تماشہ بند کرنا چاہیے ، چینی میڈیا

امریکہ کو اب فینٹانل کا سیاسی تماشہ بند کرنا چاہیے ، چینی میڈیا WhatsAppFacebookTwitter 0 24 July, 2025 سب نیوز

بیجنگ:  چند روز قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے “فینٹانل اسمگلنگ کی جامع روک تھام”سے متعلق ایک ایکٹ پر دستخط کیے ۔امریکی انسداد امراض مراکز کے مطابق، 2023 میں تقریباً 70،000 افراد فینٹانل اور اس سے متعلقہ اوپیوئڈز سے ہلاک ہوئے ہیں. یہ فینٹانل سے متاثرہ امریکی خاندانوں کو ایک تسلی دینے والی بات ہے ۔ لیکن موقع پر ٹرمپ نے ایک بار پھر چین کی طرف انگلی اٹھاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ‘مجھے یقین ہے کہ چین ان لوگوں (منشیات کے اسمگلرز) کو سزائے موت دے گا۔”ایک بار پھر،امریکی معاشرے میں گہرے بحران سے جنم لینے والا صحت عامہ کا مسئلہ دوسرے ممالک پر الزام تراشی کے سیاسی شو کا ایک بہانہ بن گیا ہے۔یہ نہ صرف منشیات کے خلاف بین الاقوامی تعاون کو متاثر کرتا ہے، بلکہ ان ٹوٹے ہوئے خاندانوں کے لیے بھی مزید دکھ کا باعث ہے۔ چین منشیات کے خلاف سخت ترین پالیسیوں پر عمل درآمد کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے، اور ملک میں فینٹانل کے غلط استعمال کا کوئی مسئلہ موجود نہیں ہے.

مئی 2019 میں ، چین فینٹانل مادوں کی مکمل درجہ بندی کو نافذ کرنے والا دنیا کا پہلا ملک ہے اور اس نے قومی ڈرگ لیبارٹری کی سربراہی میں “1 + 5 + این” ڈرگ لیبارٹری سسٹم قائم کیا ، جس میں ایک قومی ڈرگ لیبارٹری کی قیادت سے پانچ علاقائی ذیلی مراکز اور دیگرصوبائی اور میونسپل ڈرگ لیبارٹریاں شامل ہیں ۔پھر رواں سال 4 مارچ کو چین نے وائٹ پیپر “چین کا فینٹانل مادہ کنٹرول” جاری کیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ ، چین فعال طور پر متعلقہ بین الاقوامی تعاون کو فروغ دے رہا ہے ، بہت سے ممالک کے ساتھ معیاری سپیکٹرل لائبریریوں کا اشتراک کررہا ہے ، اور فینٹانل خطرے کی تشخیص کے عالمی معیارات کے قیام کو فروغ دے رہا ہے۔یہ تمام اقدامات فینٹانل جیسے مادوں کو کنٹرول کرنے کے چین کے عزم کی عکاسی کرتے ہیں اور لوگوں کی صحت اور فلاح و بہبود کے لئے چینی حکومت کے احساس ذمہ داری کو اجاگر کرتے ہیں۔ فینٹانل اینستھیزیا کے لئے استعمال ہونے والی دوا ہے ۔

چین میں ایک مشہور کہاوت ہے کہ” ہر دوا تیس فیصد تک زہر بھی ہو سکتی ہے”۔ایک دوا انسان کے لیے مددگار ہے یا زہریلی، استعمال کے طریقے پرمنحصر ہے۔سوشل میڈیا پر ایک چینی نیٹزین نے اپنے سرجری تجربے کو شیئر کرتے ہوئے کہا کہ سرجری کے بعد درد ناقابل برداشت تھا لیکن نرس نے بے ہوشی کا ایک انجکشن لگانے کے بعد دوسرے انجکشن سے انکار کر دیا۔نرس نے انہیں یہ بتایا کہ زیادہ انجکشن لگانے سے دوا کی لت پڑ جائے گی۔اس نیٹزین نے کہا کہ اب مجھے لگتا ہے کہ مجھے نرس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ لیکن امریکہ میں، درد میں کمی کو ایک اہم انسانی حق کے طور پر دیکھا جاتا ہے، اور دوا کا غلط استعمال انتہائی عام ہے.فوری کوشش قلیل مدتی درد سے نجات حاصل کرنا ہے ، لیکن منشیات کی طویل مدتی لت پڑ جاتی ہے۔

اس سے بڑھ کر ستم ظریفی یہ ہے کہ امریکہ میں دونوں جماعتوں نے انتخابات میں فینٹانل بحران کو امیگریشن کے مسئلے سے جوڑ دیا ہے، لیکن کسی نے بھی اس کا اصل حل پیش نہیں کیا ہے۔ سرمایہ دار منافع کو انسانی صحت پر ترجیح دیتا ہے اور سیاستدان اپنی ذمہ داری سنبھالنے کے بجائے “قربانی کا بکرا “ڈھونڈ تے” ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ فینٹانل بحران کا اصل ، امریکی معاشرے کے منظم بحرانوں کی ایک جھلک ہے۔ سرمائے کے منافع کے پیچھے اندھے تعاقب کی وجہ سے فینٹانل کا غلط استعمال ہوا ہے، سیاست دانوں نے اس بحران کو سیاسی تماشہ بنایا ہے اور عوام کی صحت اور فلاح و بہبود کو فہرست میں سب سے نیچے رکھا گیا ہے۔تاریخ میں چینی قوم منشیات کی لعنت کا شکار ہوئی تھی اور چینی عوام کو منشیات سے گہری نفرت ہے ۔ تاریخ یہ نہیں بھولے گی کہ جون 1839 میں اس وقت کے چینی وزیر لین زے شو نے صوبہ گوانگ دونگ کے ہومن بیچ پر افیون کو تباہ کرنے کا حکم دیا۔

یہ مہم کل 23 دن تک جاری رہی، جو منشیات کی لعنت کے خلاف چین کی “زیرو ٹالیرینس” کی علامت ہے، اور آج بھی چین منشیات پر سخت کنٹرول اور موثر بین الاقوامی تعاون کے ذریعے ایک بڑے ملک کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتا ہے. عالمی منشیات کے کنٹرول میں غفلت برتنے کے بجائے تعاون کی ضرورت ہے. اپنے مسائل کے لئے دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانے سے شائد آپ کچھ حد تک بہتر محسوس کر سکتے ہیں ، لیکن مسئلے کے حل میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔فینٹانل امریکہ کا مسئلہ ہے ، اور اب وقت آگیا ہے کہ امریکی حکومت تضادات سے جان چھڑائے اور اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرے۔ سیاسی تماشے میں مشغول رہنا صرف مزید خاندانوں کو اس بحران کا شکار بنائے گا۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرامریکا کی کولمبیا یونیورسٹی نے قانونی جنگ ختم کرنے اور وفاقی فنڈنگ پر ٹرمپ انتظامیہ سے ڈیل کر لی چین اور یورپی یونین نے نتیجہ خیز نتائج حاصل کیے ہیں، چینی صدر چین کی عالمی تجارتی تنظیم میں یکطرفہ ٹیرف اقدامات کی مخالفت کی اپیل چین کی ہائی نان فری ٹریڈ پورٹ غیرملکی سرمایہ کاری کے لیےایک پرکشش منزل رہی ہے، چینی میڈیا پاکستان اور افغانستان کے درمیان ترجیحی بنیادوں پر تجارتی معاہدہ طے پاگیا چین میں 32 ویں بین الاقوامی ریڈیو، فلم اور ٹیلی ویژن نمائش بی آئی آر ٹی وی 2025 کا آغاز چین،2025 ایس سی او سولائزیشن ڈائیلاگ کا افتتاح TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • پی ٹی آئی کی تحریک سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں، عرفان صدیقی
  • مذاکرات کا عمل آگے نہیں بڑھ سکا لیکن اب بہتری کی طرف جانا چاہیے، بیرسٹر گوہر
  • مذاکرات کا عمل آگے نہیں بڑھ سکا لیکن اب بہتری کی طرف جانا چاہیے: بیرسٹر گوہر
  • جب ’غیر ملکی ایجنٹ‘ کی رپورٹیں ’آرٹ کا شہکار‘ بن گئیں
  • شاہ محمود قریشی کی رہائی ‘مفاہمت یا پھر …
  • اٹلی میں بھارتی سپر اسٹار کی ریسنگ کار کو خوفناک حادثہ؛ بال بال بچ گئے
  • نیل کٹر میں موجود اس سوراخ کی وجہ جانتے ہیں؟
  • امریکہ کو اب فینٹانل کا سیاسی تماشہ بند کرنا چاہیے ، چینی میڈیا
  • گلگت بلتستان میں لینڈ سلائیڈنگ ،مون سون کی تباہی، لیکن ذمہ دار کون؟
  • ’حکومتِ پاکستان غریب شہریوں کے لیے وکلاء کی فیس ادا کرے گی‘