Express News:
2025-11-03@06:44:26 GMT

جھنڈے ، درفش کاویانی

اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT

جھنڈے آپ نے رنگ برنگے دیکھے ہوں گے، سیاہ وسفید، نیلے پیلے، سرخ سبز، زرد مطلب یہ کہ جتنے رنگ اتنے جھنڈے اتنے ان کے فنڈے ، بظاہر یہ جھنڈے الگ، مختلف بلکہ اکثرمتضاد بھی دکھائی دیتے ہیں لیکن سارے جھنڈوں میں ایک قدر مشترک بھی ہے، اس قدرمشترک خصوصیت پر بات بعد میں بات کریں گے ،پہلے جھنڈوں کی تاریخ پر تحقیق کاجھنڈا لہراتے ہیں۔

اگرچہ جھنڈوں کی تاریخ انتہائی تاریک ہے لیکن جغرافیہ، تاریخ بھی زیادہ اندھیرے میں ہے ،شکوک کے گھیرے میں ہے اور روایات کے پھیرے میں ہے ۔ اس لیے ہم اگر تحقیق کا ٹٹو دوڑائیں گے تو تاریخ کے بجائے کہانیوں کی تاریکی میں دوڑائیں گے ،چاہے ہمارا ٹٹوئے تاریخ تاریک راہوں میں مارا ہی کیوں نہ جائے ۔

 پارسیوں کی کتاب ژنداوویشا اورشاہنامہ فردوسی کے مطابق بہت قدیم زمانوں میں بلخ کا ایک حکمران تھا ضحاک، جودراصل اساک خانہ بدوشوں کا استعارہ ہے یہ بہت ہی ظالم بادشاہ تھا، اس کے کندھوں پر شیطان اہرمن نے بوسہ دیا تھا جہاں دوسانپ اگ آئے تھے، ضحاک روزانہ دوآدمیوں کا مغز ان سانپوں کو کھلاتا تھا، ظاہر ہے ، مارے بغیر کسی کا مغز حاصل نہیں کیاجاسکتا ہے اس کو مجبوراً ان آدمیوں کو مارنا بھی پڑتا تھا۔

 ایک دن ’’کاوہ ‘‘ نامی لوہار کے دوبیٹے بھی اس اتیا چار کا شکار ہوئے جس پر کاوہ لوہار نے علم بغاوت بلند کیا، اس نے اپنی دھونکنی کو جھنڈا بنا کر بغاوت کاآغاز کر دیا تو ضحاک کا شکار ہونے والے اوربھی بہت سارے لوگ بغاوت میں ساتھ ہو گئے، پشتو میں ایک کہاوت ہے کہ تلواریں لالا چلاتا ہے اورلقمے عبداللہ کھاتا ہے ۔

خیر کاوہ لوہار کی اس دھونکنی سے جھنڈوں کا سلسلہ چل نکلا ۔ درفش فارسی میں لوہاروں کی دھونکنی کوکہتے ہیں، یہ ایک صوتی نام ہے کہ پرانے زمانے کی چمڑے سے بنی ہوئی دھونکنی جب چلائی جاتی تھی تو اس سے در۔ فش۔ درفش کی آواز نکلتی تھی چنانچہ ایران کے جھنڈے کا نام ابھی تک درفش کاویانی ہے۔ 

آج کل کا تو پتہ نہیں لیکن شاہ ایران کے عہد تک ایرانی جھنڈے کاسرکاری نام درفش کاویانی ہی تھا ۔ شہنشاہ ایران نے جب اپنی تاج پوشی کا عظیم الشان جشن منایا تھا جس پر اربوں کروڑوں روپے عوام کے خون سے نچوڑ کر اڑائے گئے تھے، اس میں ایرانی شہنشاہیت کاتسلسل اسی ڈھائی ہزار سالہ تاریخ سے جوڑا گیا تھا۔

اوردنیا کے حکمرانوں اور مشہور شخصیات کو مدعو کیاگیا، پرتعیش عمارت تعمیر کی گئی تھی، ٹاپ کلاس لگژری مہمان نوازی کا انتظام کیا گیا تھا، سیکڑوں تو نئی مرسیڈیز گاڑیاں خریدی گئی تھیں، دنیا بھر سے انٹرٹینر بلوائے گئے تھے جن میں چنیدہ قسم کی حسینائیں شامل تھیں۔ 

کئی دن تک اعلیٰ پیمانے پر خور ونوش کا وافر انتظام تھا ، ڈھائی ہزار تو صرف دنبے قربان کیے گئے تھے حالانکہ ان بے چاروں کا اس معاملے میں کوئی قصور نہیں تھا نہ ہی وہ ضحاک کے رشتہ دار تھے ، بیلوں، بکریوں، مرغیوں وغیرہ یادوسرے کئی اقسام کے کچے پکے گوشت کاتو کوئی حساب ہی نہیں لگایا جاسکا البتہ قربانی کے بیلوں کی تعداد ڈھائی ہزار تھی۔

درفش کاویانی لہرا کر شہنشاہ کی تاج پوشی کی گئی تھی اوراس پر قدیم خطابت آریا مہر کو چسپاں کیا گیا تھا ۔ جھنڈوں کا ایک میلہ افغانستان کے شہر مزار شریف میں بھی لگتا تھا،ایران وافغانستان میں اسے نوروز ، میلہ گل سرخ اورجھنڈوں کا میلہ بھی کہاجاتا ہے۔

اس سلسلے میں بہت ساری روایتیں گڈمڈ ہوکر الجھنیں بن چکی ہیں، سب سے پہلی اوربڑی الجھن تو یہ ہے کہ مزار شریف میں جو مزار ہے اورعام طورپر اسے مزارسخی یاسخی بابا کہا جاتا ہے اس پر موٹے موٹے الفاظ میں مزار حضرت علی کرم اللہ وجہہ لکھا ہوا ہے حالانکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کامزار نجف اشرف عراق میں بھی ہے۔ 

دوسری روایت یہ ہے کہ اس جشن نوروز کو جمشید سے بھی منسوب کیا جاتا ہے اورعراقی بہارکی دیوی عشار سے بھی منسوب کیاجاتا ہے، وہ بہار سبزے اورہریالی بارآوری کی دیوی تھی اورجب وہ اپنے محبوب تموز کی بیماری کا علاج لانے چار مہینے کے لیے پاتال چلی گئی تو زمین کی ساری ہریالی چلی گئی اورسردیوں کے چار مہینے بعد جب وہ لوٹ آئی تو پھر بہار آگئی اوراس دن کو اس استورے سے بھی منسوب کیا جاتا ہے۔

جس دن جھنڈے لہرانے یاپرچم کشائی کی تقریب ہوئی تھی اس دن ایران ،افغانستان پاکستان بلکہ ہندوستان کے لوگوں کا اتنا اژدہام ہوجاتا ہے کہ اس رات نہ عمارتوں میں کوئی جگہ ہوتی ہے نہ پارکوں میں نہ سڑکوں پر نہ ارد گرد کھیتوں میں ۔صبح سویرے شہر اورملک کے چنیدہ عمائدین جمع ہوجاتے ہیں۔ 

پہلے رنگ برنگے جھنڈے لہرائے جاتے ہیں پھر کبوتر چھوڑے جاتے ہیں اورپھر اچانک تیس چالیس لوگ اٹھ کھڑے ہوکر چلانے لگتے ہیں ، بینا شویم بینا شویم۔ یعنی ہماری آنکھوں میں بینائی آگئی ، تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ یہ لوگ اندھے تھے اوراب بینا ہوگئے ،کیسے ؟ کیوں؟ عقیدتوں میں ایسے پوچھنا منع ہے کیوں کہ فارسی کہاوت ہے کہ پیران نمی پرد بدان می پرانند۔ پیر اڑتے نہیں لیکن مرید انھیں اڑاتے ہیں ۔

ویسے بھی ہمارا موضوع جھنڈے اورجھنڈوں سے وابستہ فنڈے ہیں اورآخر میں حسب وعدہ اس سوال کاجواب کہ دنیا بھر کے تمام اورہررنگ وشکل اورسائز کے جھنڈوں میں قدر مشترک کیا ہے ، اور وہ قدر مشترک ہے ڈنڈا۔ جھنڈا کوئی بھی ہوسب میں ایک جیسا ہی ڈنڈا ہوتا ہے جو دکھائی نہیں دیتا لیکن جب پڑتا ہے تو ہڈیاں توڑ دیتا ہے اوریہی ہر جھنڈے کا کام ہوتا ہے ، وہ ہاتھی کے دانتوں جیسا معاملہ ہے ، اوپر تو کسی کپڑے کاخوبصورت نقش ونگار والا جھنڈا ہوتا ہے لیکن نیچے سارے جھنڈے ایک ہی ڈنڈے میں مرتکز ہوجاتے ہیں اوراپنا وہی کام کرتا ہے جو ڈنڈے کا تھا،ہے اورہمیشہ رہے گا۔

ہزاروں رنگ بدلے گا یہ جھنڈا

مگر ہرگز نہ بدلے گا یہ ڈنڈا

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جھنڈے ا جاتا ہے سے بھی

پڑھیں:

امریکہ نے فیلڈ مارشل کی تعریفیں بہت کیں لیکن دفاعی معاہدہ ہندوستان کیساتھ کرلیا، پروفیسر ابراہیم

جماعت اسلامی کے صوبائی امیر کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا بالخصوص جنوبی پختونخوا شدید بد امنی کی لپیٹ میں ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر لوگ اغواء ہو رہے ہیں۔ کولیٹرل ڈیمیج کی صورت میں عام عوام اور بچوں کی جانیں جا رہی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ امیر جماعت اسلامی خیبر پختونخوا جنوبی پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کہا ہے کہ امریکہ نے فیلڈ مارشل کی بہت تعریفیں کیں لیکن اس دفاعی معاہدہ ہندوستان کے ساتھ ہوگیا۔ ہندوستان اور امریکہ کے درمیان ٹیکنالوجی ٹرانسفر کا معاہدہ ہوا ہے لیکن امریکہ نے کبھی پاکستان کو ٹیکنالوجی ٹرانسفر کا معاہدہ نہیں کیا۔ چین پاکستان کو ٹیکنالوجی ٹرانسفر کر رہا ہے اور پاکستان چین کے تعاون سے جہاز وغیرہ بنا رہا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ صرف رئیر ارتھ کے لیے فیلڈ مارشل عاصم منیر کی تعریفیں کر رہا ہے۔ خیبر پختونخوا بالخصوص جنوبی پختونخوا شدید بد امنی کی لپیٹ میں ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر لوگ اغواء ہو رہے ہیں۔ کولیٹرل ڈیمیج کی صورت میں عام عوام اور بچوں کی جانیں جا رہی ہیں۔ صوبے کے عوام امن کے لیے ترس گئے ہیں۔ امن و امان کے قیام کے لیے سیکورٹی فورسز کو اندرونی سیکورٹی سے ہاتھ اٹھا کر تمام اختیارات پولیس کو دینے ہوں گے ورنہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ آج بھی جنرل مشرف کی پالیسی کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ بنوں کی بند سڑکیں کھولی جائیں، سڑکوں کی بندش سے عوام سخت تکلیف کا شکار ہیں۔ لاہور میں جماعت اسلامی کا اجتماع عام تاریخی ہوگا۔ اجتماع عام میں دنیا بھر سے اسلامی تحریکوں کے رہنما شریک ہوں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے کوہاٹ میں جماعتِ اسلامی خیبر پختونخوا جنوبی کے صوبائی ذمہ داران کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

اس موقع پر جماعت اسلامی خیبر پختونخوا جنوبی کے سیکرٹری جنرل محمد ظہور خٹک سمیت دیگر صوبائی ذمہ داران موجود تھے۔ اجلاس میں مختلف امور سمیت اجتماع عام کی تیاریوں کا جائزہ لیا گیا اور رپورٹس پیش کی گئیں۔ پروفیسر محمد ابراہیم خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ امریکہ پاکستان کو ٹیکنالوجی دیتا بھی تو اس کے ساتھ شرائط کی ایک فہرست بھی ہوتی ہے۔ امریکا کی شرط ہے کہ پاکستان ایف سولہ طیارہ بھارت کے خلاف استعمال نہیں کر سکتا، اگر بھارت کے خلاف استعمال نہیں کریں گے تو کیا افغانستان کے خلاف استعمال کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی پختونخوا میں پاک افغان سرحد پر خرلاچی، غلام خان اور انگور اڈہ گزر گاہیں بند ہیں۔ افغانیوں کو زبردستی واپس بھیجا جا رہا ہے۔ زبردستی نکالے جانے والے افغان شہریوں کا پاکستان کے بارے میں کیا تاثر ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ سرحد کے دونوں طرف متعدد قبائل آباد ہیں۔ ان کی آپس میں رشتے داریاں ہیں لیکن حکومت نے بیچ میں خاردار تاریں لگا دیں، سرحد بند کردی اور لوگوں کا آنا جانا مشکل بنا دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا بنیادی کام دعوت اور تربیت کا ہے اور اس مقصد کے لیے جماعت اسلامی ہر جائز ذریعہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ کارکنان دعوت الی اللہ کے کام اجتماع عام کے پیغام کو گھر گھر پہنچائیں۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • فیکٹری کے ایک ملازم کے اکاؤنٹ میں تمام ملازمین کی تنخواہ ٹرانسفر
  • امریکہ نے فیلڈ مارشل کی تعریفیں بہت کیں لیکن دفاعی معاہدہ ہندوستان کیساتھ کرلیا، پروفیسر ابراہیم
  • کس پہ اعتبار کیا؟
  • کراچی میں سڑکیں ٹھیک نہیں لیکن بھاری ای چالان کیے جارہے ہیں، حافظ نعیم
  • کبھی لگتا ہے کہ سب اچھا ہے لیکن چیزیں آپ کے حق میں نہیں ہوتیں، بابر اعظم
  • روس میں فیکٹری ملازم کو تمام ملازمین کی تنخواہیں غلطی سے وصول، واپس کرنے سے انکار
  • ایران امریکا ڈیل بہت مشکل ہے لیکن برابری کی بنیاد پر ہوسکتی ہے
  • سگنل خراب ہے لیکن کیمرے سے ڈر لگ رہا ہے، سڑک پر پھنسے کراچی کے نوجوانوں کی ویڈیو وائرل