اٹلی میں بھارتی سپر اسٹار کی ریسنگ کار کو خوفناک حادثہ؛ بال بال بچ گئے
اشاعت کی تاریخ: 25th, July 2025 GMT
بھارت کی تمل فلم انڈسٹری کے سپر اسٹار اور ریسنگ کار کے دلدادہ اجیت کمار اٹلی میں ہونے والی GT4 یورپین سیریز کے دوران ایک خطرناک حادثے کا شکار ہو گئے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق اجیت کمار اس خوفناک حادثے میں خوش قسمتی سے بال بال محفوظ رہے لیکن اس سے بھی حیران کن اداکار کا حادثے کے بعد پہلا ردعمل تھا۔
یہ حادثہ مسانو ورلڈ سرکٹ میں پیش آیا، جہاں اجیت کی ریسنگ کار ایک کھڑی ہوئی گاڑی سے ٹکرا گئی۔ اجیت کمار کار سے باہر آئے اور خود ریس کے مارشلز کے ساتھ کھڑے ہو کر ملبہ ہٹانے میں لگ گئے۔
GT4 یورپین سیریز کے آفیشل X (ٹوئٹر) اکاؤنٹ نے ویڈیو شیئر کی جس میں اجیت کو پُرسکون انداز میں پٹری سے ملبہ ہٹاتے دیکھا جا سکتا ہے۔
کیپشن میں لکھا گیا کہ ریس کے باہر، گاڑی کو نقصان، لیکن پھر بھی صفائی میں مدد کے لیے تیار۔ اجیت کمار کے لیے مکمل احترام!"
Out of the race with damage, but still happy to help with the clean-up.
Full respect, Ajith Kumar ????
???? https://t.co/kWgHvjxvb7#gt4europe I #gt4 pic.twitter.com/yi7JnuWbI6 — GT4 European Series (@gt4series) July 20, 2025
اس پوسٹ پر تبصرہ کرنے والوں نے بھی ان کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہ اس سیزن میں پہلا بڑا حادثہ ہے لیکن اجیت کمار اپنی جگہ چھوڑ کر مارشلز کے ساتھ مل کر صفائی میں لگ گئے۔ ایسا بہت کم ڈرائیور کرتے ہیں۔
سوشل میڈیا صارفین نے حادثے کے فوری بعد اداکار اجیت کمار کی بردباری، عاجزی اور کھیل کے لیے احترام کے جذبے کو سراہا۔
یاد رہے کہ اداکاری اجیت کمار موٹر اسپورٹس میں کوئی نیا نام نہیں۔ وہ 2003 میں فارمولا BMW ایشیا سیریز اور 2010 میں FIA فارمولا 2 چیمپئن شپ میں بھی حصہ لے چکے ہیں۔
رواں سال کے آغاز میں انہوں نے دبئی 24 آورز اینڈورینس ریس میں بھی شرکت کی تھی اور تیسری پوزیشن حاصل کی تھی۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اجیت کمار
پڑھیں:
فلسطینی نوجوان کی غیر معمولی ہجرت ، جیٹ اسکی پر سمندر پار اٹلی پہنچ گیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اٹلی: غزہ کے 31 سالہ فلسطینی محمد ابو دخہ نے ایک طویل، پرخطر اور غیر معمولی سفر کے بعد بالآخر یورپ میں پناہ حاصل کرنے کی کوشش میں اٹلی کا رخ کیا، یہ سفر ایک سال سے زائد عرصہ، ہزاروں ڈالر کے اخراجات، کئی ناکامیوں اور بالآخر ایک جیٹ اسکی کے ذریعے ممکن ہوا۔
عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق ابو دخہ نے اپنی کہانی ویڈیوز، تصاویر اور آڈیو فائلز میں دستاویزی شکل میں ریکارڈ کی جو انہوں نے عالمی میڈیا سے شیئر کیں، جس میں بتایا کہ وہ غزہ میں جاری تقریباً دو سالہ اسرائیل، حماس جنگ کی تباہ کاریوں سے فرار ہونے پر مجبور ہوئے، جس میں مقامی حکام کے مطابق اب تک 64 ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں۔
انہوں نے اپریل 2024 میں 5 ہزار ڈالر ادا کر کے رفح سرحد کے راستے مصر کا سفر کیا بعدازاں وہ پناہ کے لیے چین گئے لیکن ناکامی پر ملیشیا اور انڈونیشیا کے راستے دوبارہ مصر لوٹ آئے، پھر لیبیا پہنچے جہاں انسانی اسمگلروں کے ساتھ دس ناکام کوششوں کے بعد انہوں نے تقریباً 5 ہزار ڈالر میں ایک استعمال شدہ یاماہا جیٹ اسکی خریدی، اضافی 1500 ڈالر جی پی ایس، سیٹلائٹ فون اور لائف جیکٹس پر خرچ کیے۔
دو دیگر فلسطینی ساتھیوں کے ساتھ انہوں نے 12 گھنٹے کا سمندری سفر کیا، دورانِ سفر انہیں تیونس کی گشتی کشتی کا تعاقب بھی برداشت کرنا پڑا، ایندھن ختم ہونے پر 20 کلومیٹر دوری پر انہوں نے مدد طلب کی، جس کے بعد یورپی بارڈر ایجنسی فرنٹیکس کے ایک مشن کے تحت رومانیہ کی گشتی کشتی نے انہیں بچایا اور وہ 18 اگست کو لampedusa پہنچے۔
یورپی ادارے کے ترجمان کے مطابق یہ واقعہ ’’انتہائی غیر معمولی‘‘ تھا، ابو دخہ اور ان کے ساتھیوں کو اٹلی کے جزیرے سے سسلی منتقل کیا گیا مگر بعد میں وہ حکام کی نگرانی سے نکل کر جینوا سے برسلز روانہ ہو گئے اور پھر جرمنی جا پہنچے، جہاں وہ اس وقت پناہ کے درخواست گزار کے طور پر مقیم ہیں۔
ابو دخہ کا کہنا تھا کہ ان کا خاندان خان یونس کے ایک خیمہ بستی میں رہائش پذیر ہے، جہاں ان کا گھر جنگ میں تباہ ہو چکا ہے، ان کے والد نے کہا کہ وہاں اس کا انٹرنیٹ شاپ تھا اور زندگی کافی بہتر تھا مگر سب کچھ تباہ ہوگیا۔
خیال رہےکہ ابو دخہ اس وقت جرمنی کے شہر برامشے میں ایک پناہ گزین مرکز میں مقیم ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ اپنی بیوی اور دو بچوں کو، جن میں سے ایک کو نیورولوجیکل مرض لاحق ہے، جرمنی بلا سکیں، انہوں نے کہا کہ اسی لیے میں نے اپنی جان داؤ پر لگائی، بغیر اپنے خاندان کے زندگی کی کوئی معنویت نہیں۔
غزہ میں جاری اسرائیلی بمباری اور امریکی حمایت کو مقامی عوام نے امداد کے نام پر دہشت گردی قرار دیا ہے، جس کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ شہری لقمۂ اجل بن رہے ہیں جبکہ اسپتال، پناہ گزین کیمپ اور بنیادی ڈھانچہ تباہی کا شکار ہیں، عالمی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر کسی قسم کا مؤثر کردار ادا نہیں کر رہے، دوسری جانب مسلم حکمرانوں کی بے حسی اور خاموشی نے مظلوم فلسطینیوں کے دکھ درد میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔