Jasarat News:
2025-11-04@05:27:57 GMT

صہیونیت کے نئے عزائم

اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT

صہیونیت کے نئے عزائم

غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کے بعد یہ امید پیدا ہوچلی تھی کہ 15 ماہ تک اسرائیل کی وحشیانہ بمباری اور جنگی جرائم کے نتیجے میں ہولناک تباہی اور ہلاکتوں کے بعد بے بس فلسطینیوں کو سکھ کا سانس لینے کا موقع ملے گا، اب یہاں امن کی صورتحال بہتر ہوگی، تعمیر ِ نو کا کام شروع ہوگا، تعلیمی ادارے دوبارہ کھل جائیں گے،کاروبارِ زندگی معمول پر آجائے گا اور زندگی پھر سے سانس لینے لگے گی، مگراس معاہدے کی سیاہی ابھی خشک بھی نہ ہونے پائی تھی کہ امریکی صدر نے اپنی زبنیل ِ عیاری سے وہ ترپ کا وہ پتا پھینکا جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ’’ہم غزہ پر قبضہ کر لیں گے‘‘۔ اب اسی نوع کی چال نیتن یاہو چلنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اْسی پرانے بیانیے کی جگالی کر رہے ہیں جو ماضی میں دیتے رہے ہیں، کہتے ہیں سعودی عرب کے پاس بہت زمین ہے وہاں فلسطینیوں کو آباد کر کے ایک الگ فلسطینی ریاست بنادی جائے، 7 اکتوبر 2023 کے بعد فلسطینی ریاست کا تصور ختم ہوگیا ہے، فلسطینی ریاست کا قیام اسرائیل کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے، دو ریاستی حل تسلیم نہیں۔ نیتن یاہو کے اس بیان پر سعودی عرب، پاکستان، ترکی، مصر، اردن، ایران نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے قابل ِ مذمت، اشتعال انگیز اور بین الاقوامی قوانین اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی صریحاً خلاف ورزی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ فلسطینیوں کو ایک آزاد و خود مختار ریاست کے قیام کا حق حاصل ہے۔ سعودی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کا فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کا بیان غزہ میں سنگین جنگی جرائم سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے، فلسطینیوں کی جبری بے دخلی منظور نہیں، فلسطینیوں کو ان کا جائز حق مل کر رہے گا، یہ ان سے کوئی نہیں چھین سکتا، سابق سعودی انٹیلی جنس چیف شہزادہ ترکی الفیصل نے بھی اس امر کا ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر فلسطینیوں کو غزہ سے منتقل کرنا ہے تو اْن کے آبائی علاقوں جافا، حیفہ اور دیگر مقامات پر بھیجا جائے جہاں ان کے زیتون کے باغات تھے اور انہیں اسرائیل نے ان علاقوں سے زبردستی بے دخل کردیا تھا۔ اس بیان سے پیدا ہونے والی صورتحال پر 27 فروری کو عرب سربراہ اجلاس طلب کرلیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بے پناہ طاقت کے استعمال کے باوجود اسرائیل غزہ میں اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے، حماس کو گھٹنے ٹکوانے کے بلند و بانگ دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں، حماس آج بھی ایک زندہ عسکری حقیقت ہے، جو اس کے لیے سوہانِ روح اور ڈراؤنا خواب ہے، جب کہ قیدیوں کے تبادلے کے موقع پر حماس نے جو حکمت ِ عملی مرتب کی ہے اس کے نتیجے میں پوری دنیا ہی نہیں خود اسرائیل میں اس کے دعوؤں کی بھد اُڑائی جارہی ہے، جدید ترین اسلحے، توپ، ٹینک اور عسکری طاقت کے باوجود غزہ اسرائیل کی حربی ٹیکنالوجی کے قبرستان کا منظر پیش کر رہا ہے، اس کھلی ناکامی کے خود اسرائیلی حکام بھی معترف ہیں، اسرائیلی آرمی چیف کا اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے عہدے سے مستعفی ہونا اس امر کا کھلا ثبوت ہے، اسرائیلی عوام بھی قومی سلامتی اور تحفظ کے اقدامات پر سوال اٹھا رہے ہیں، اسے داخلی اور خارجی سطح پر دباؤ کا سامنا ہے، اس تناظر میں اس نوع کے بیانات کے ذریعے اسرائیل اپنی ذمے داریوں سے فرار کی راہ تلاش کر رہا ہے۔ انسانی تاریخ اس امر کی حقیقت پر دال ہے کہ جارح قوت اپنی تمام تر طاقت اور آلات ضرب و حرب کے باوجود بھی جب مخالف فریق کو جنگی میدان میں زیر نہیں کرپاتی تو وہ اعصابی و نفسیاتی حربے استعمال کرنا شروع کردیتی ہے، علامتی فتوحات (Symbolic Victories) کی حکمت عملی مرتب کی جاتی ہے، امریکا اور اسرائیل اپنے اپنے جارحانہ تجربات سے اس امر میں طاق ہو چکے ہیں اور اپنی خفت مٹانے کے لیے اسی حربے کو بروئے کار لا رہے ہیں، مغرب سیاست میں میکاولی کے جس نظریے پر عمل پیرا تھا اسرائیل بھی اسی نظریہ پر گامزن ہے جس کے تحت ریاست کے مفادات اور طاقت کے تحفظ کے لیے اخلاقی اصولوں اور ظالمانہ اقدامات بھی روا رکھے جاتے ہیں۔ نیتن یاہو کے جارحانہ بیانات، رعونت پر مبنی لب و لہجہ اور غیر حقیقت پسندانہ عزائم کا اظہار دراصل جارحانہ سفارت کاری کی اس جنگی حکمت ِ عملی کا حصہ ہے جس کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ مخالف فریق کو دباؤ میں رکھا جاسکے اور اپنی برتری ظاہر کی جاسکے۔ اس حکمت ِ عملی پر امریکا نے عراق، کیوبا، شمالی کوریا اور دیگر ممالک کے خلاف عمل درآمد کیا، جس کی اتباع میں اب اسرائیل یہی حربے آزما رہا ہے، تاہم خوش آئند امر یہ ہے کہ حماس ایسے کسی دباؤ میں نہیں آئے گی۔ غزہ جنگ کے موقع پر جب اسرائیل نے غزہ کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والے نیٹزاریم کوریڈور پر قبضہ کر کے اپنی کامیابی کے طور پر پیش کیا تو حماس کی بالغ نظر دور اندیش قیادت نے اس ’’علامتی فتح‘‘ کو عراق جنگ کے دوران امریکی حکمت ِ عملی کو ’’علامتی فتوحات‘‘ سے تعبیر کیا اور صاف لفظوں میں کہا کہ وہ ان چالوں میں نہیں آئے گی اور مزاحمت جاری رہے گی اور یہی ہوا۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ فلسطینی اپنی تاریخی اور ثقافتی وابستگی سے کسی صورت دست بردار نہیں ہوں گے، اپنے حقوق کی پامالی انہیں برداشت نہیں، سعودی عرب سمیت کسی بھی خطے میں فلسطینیوں کی آبادکاری کسی طور نافذ ِ عمل نہیں ہوسکتی، اس عمل سے خطہ جو پہلے ہی جنگ کے الاؤ سے دہک رہا ہے مزید شعلہ بار ہوگا، کشیدگی بڑھے گی۔ غزہ پر قبضے کے بیانات کے بعد عرب دنیا میں ایک سراسیمگی اور اضطراب کی سی کیفیت ہے، اس مسئلے پر تمام عرب شیوخ ایک پیج پر نظر آرہے ہیں، نیتن یاہو کے بیان کے بعد تو عرب سربراہ اجلاس بھی طلب کرلیا گیا ہے مگر اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے، کے مصداق تلخ حقیقت یہ ہے کہ اس ضمن میں مسلم حکمرانوں بالخصوص عرب رہنماؤں کی مجرمانہ خاموشی کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا، جو طاقت کے آگے زیر ہوگئے، جنہوں نے ملی مفادات کا سودا کیا، پہلے دو ریاستی فارمولے پھر اسرائیل کو تسلیم کیا، اس سے سفارتی اور تجارتی تعلقات استوار کیے، معاہدہ اوسلو پر راضی ہوئے، المیہ یہ ہے کہ غزہ جنگ کے موقع پر بھی جو اجلاس منعقد کیا گیا اس میں بھی کوئی موثر آواز بلند نہیں کی گئی، رسمی مذمت کے ساتھ یہ اجلاس نشستند، گفتند، برخاستند ثابت ہوئی، عالمی طاقتوں نے خلافت ِ عثمانیہ کے خلاف اسی دن کے لیے سازشیں تیار کی تھیں، معاہدہ سائیکس، پیکو کے تحت مشرقِ وسطیٰ کی بندربانٹ کا منصوبہ بھی اسی لیے بنایا تھا کہ قومی ریاستیں قائم کر کے ان پر اپنے پٹھوؤں کو بٹھاکر مسلم وحدت و قوت کو پارہ پارہ کیا جاسکے، آج کی صورتحال اسی عاقبت نا اندیشانہ عمل کا ثمر ہے، تاریخ کے اس المناک باب کے اوراق پلٹ کر کیسے گزرا جاسکتا ہے جس میں درج ہے کہ ان عرب شیوخ کے آبائو اجداد نے اپنی عرب ریاست کے قیام کی لالچ میں مسلم وحدت پر کاری ضرب لگائی تھی۔ پیش آمدہ صورتحال سے عہدہ برآ ہونے کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں کہ مسلم حکمران اس مسئلے پر مشترکہ موقف اختیار کریں، اسرائیل سے ہر قسم کے تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کریں، عملی، ٹھوس اور سنجیدہ اقدامات کریں، آزادی کی جدوجہد کرنے والے فلسطینیوں کی کھل کر نا صرف اخلاقی، وسفارتی بلکہ عسکری مدد بھی کریں تاکہ اسرائیل اپنے عزائم سے باز رہ سکے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: فلسطینیوں کی فلسطینیوں کو نیتن یاہو یہ ہے کہ رہے ہیں طاقت کے کے لیے کے بعد رہا ہے جنگ کے

پڑھیں:

ایشوریا رائے ایسا کیا کرتی ہیں کہ 52سال کی عمر میں بھی ان کے حسن کا چرچا برقرار ہے؟

بالی ووڈ کی سپر اسٹار اور 1994 کی مس ورلڈ ایشوریا رائے آج اپنی 52ویں سالگرہ منارہی ہیں۔ فلم دل چاہتا ہے اور دیوداس جیسے سپر ہٹ پروجیکٹس سے شہرت حاصل کرنے والی ایشوریا نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

ایشوریا رائے نے بھارتی فلم انڈسٹری میں نہ صرف بڑے اعزازات حاصل کیے بلکہ انہیں بین الاقوامی سطح پر بھی پہچان ملی، یہاں تک کہ فرانسیسی حکومت نے انہیں آرڈر آف آرٹس اینڈ لیٹرز کا اعزاز بھی دیا۔

یہ بھی پڑھیں: طلاق کی افواہوں کی تردید، ایشوریا رائے کی ابھیشیک بچن کے ساتھ نئی پوسٹ وائرل

ایشوریا کی کامیابی صرف اُن کی خوبصورتی کا نتیجہ نہیں، بلکہ اُن کا پُراعتماد انداز، باوقار شخصیت اور فنکارانہ مہارت بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ ایک ہی وقت میں کامیاب اداکارہ، ماں اور بیوی کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں۔

52 برس کی عمر میں بھی ان کی کشش اور تازگی نئی اداکاراؤں کے لیے چیلنج بنی ہوئی ہے۔

 

View this post on Instagram

 

A post shared by AishwaryaRaiBachchan (@aishwaryaraibachchan_arb)

ایک بین الاقوامی میگزین کو دیے گئے تازہ انٹرویو میں ایشوریا نے اپنی لازوال خوبصورتی کا راز بتاتے ہوئے کہا کہ مصروف زندگی میں خود پر توجہ دینے کا وقت بہت کم ملتا ہے اور یہی مسئلہ زیادہ تر خواتین کو درپیش ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ خواتین دن بھر مختلف ذمہ داریاں نبھاتی ہیں اور اکثر اپنی جلد کا خیال نہیں رکھ پاتیں، مگر اس کا حل نہایت سادہ ہے۔

ایشوریا کے مطابق صفائی اور نمی برقرار رکھیں، خود کو صاف رکھیں، پانی پئیں، باقی سب خود ہوجائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: جیا بچن کی کس بات پر ایشوریا رائے سب کے سامنے آبدیدہ ہو گئیں؟

انہوں نے مزید بتایا کہ چاہے گھر پر ہوں یا سیٹ پر، وہ موئسچرائز کرنا کبھی نہیں بھولتیں اور یہ عادت ان کے کیریئر کے آغاز سے آج تک برقرار ہے۔

ایشوریا نے زور دیا کہ جلد کے لیے نمی اتنی ہی ضروری ہے جتنی سانس لینا، زیادہ پانی پئیں، جلد صاف رکھیں اور سب سے اہم بات یہ کہ خود سے محبت کریں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news آرڈر آف آرٹس اینڈ لیٹرز ابھیشک بچن ایشوریا رائے بچن بالی ووڈ تازگی حسن دل چاہتا ہے سالگرہ مس ورلڈ

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل امن معاہدہ پھر سوالوں کی زد میں( تازہ حملوں میں 7 افراد شہید)
  • ’تنہا ماں‘۔۔۔ آزمائشوں سے آسانیوں تک
  • ’’سوشل میڈیا کے شور میں کھویا ہوا انسان‘‘
  • اسرائیل جنگ بندی کی مکمل پاسداری کرے،غزہ کا نظم و نسق فلسطینیوں کو دیا جائے: استنبول اجلاس کا اعلامیہ
  • امریکا کو مشرق وسطیٰ میں اپنی مداخلت کو بند کرنا ہوگا، آیت اللہ خامنہ ای
  • اسرائیل کی غزہ اور لبنان میں سیز فائر معاہدے کی سنگین خلاف ورزیاں، تازہ حملوں میں 7 افراد شہید
  • غزہ میں مسلسل اسرائیل کی جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں جاری ہیں، بلال عباس قادری
  • کس پہ اعتبار کیا؟
  • ایشوریا رائے ایسا کیا کرتی ہیں کہ 52سال کی عمر میں بھی ان کے حسن کا چرچا برقرار ہے؟
  • غزہ میں اسرائیل فضائی حملے کے دوران نوجوان فلسطینی باکسر شہید