Jasarat News:
2025-09-18@14:24:04 GMT

صہیونیت کے نئے عزائم

اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT

صہیونیت کے نئے عزائم

غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کے بعد یہ امید پیدا ہوچلی تھی کہ 15 ماہ تک اسرائیل کی وحشیانہ بمباری اور جنگی جرائم کے نتیجے میں ہولناک تباہی اور ہلاکتوں کے بعد بے بس فلسطینیوں کو سکھ کا سانس لینے کا موقع ملے گا، اب یہاں امن کی صورتحال بہتر ہوگی، تعمیر ِ نو کا کام شروع ہوگا، تعلیمی ادارے دوبارہ کھل جائیں گے،کاروبارِ زندگی معمول پر آجائے گا اور زندگی پھر سے سانس لینے لگے گی، مگراس معاہدے کی سیاہی ابھی خشک بھی نہ ہونے پائی تھی کہ امریکی صدر نے اپنی زبنیل ِ عیاری سے وہ ترپ کا وہ پتا پھینکا جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ’’ہم غزہ پر قبضہ کر لیں گے‘‘۔ اب اسی نوع کی چال نیتن یاہو چلنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اْسی پرانے بیانیے کی جگالی کر رہے ہیں جو ماضی میں دیتے رہے ہیں، کہتے ہیں سعودی عرب کے پاس بہت زمین ہے وہاں فلسطینیوں کو آباد کر کے ایک الگ فلسطینی ریاست بنادی جائے، 7 اکتوبر 2023 کے بعد فلسطینی ریاست کا تصور ختم ہوگیا ہے، فلسطینی ریاست کا قیام اسرائیل کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے، دو ریاستی حل تسلیم نہیں۔ نیتن یاہو کے اس بیان پر سعودی عرب، پاکستان، ترکی، مصر، اردن، ایران نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے قابل ِ مذمت، اشتعال انگیز اور بین الاقوامی قوانین اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی صریحاً خلاف ورزی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ فلسطینیوں کو ایک آزاد و خود مختار ریاست کے قیام کا حق حاصل ہے۔ سعودی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کا فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کا بیان غزہ میں سنگین جنگی جرائم سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے، فلسطینیوں کی جبری بے دخلی منظور نہیں، فلسطینیوں کو ان کا جائز حق مل کر رہے گا، یہ ان سے کوئی نہیں چھین سکتا، سابق سعودی انٹیلی جنس چیف شہزادہ ترکی الفیصل نے بھی اس امر کا ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر فلسطینیوں کو غزہ سے منتقل کرنا ہے تو اْن کے آبائی علاقوں جافا، حیفہ اور دیگر مقامات پر بھیجا جائے جہاں ان کے زیتون کے باغات تھے اور انہیں اسرائیل نے ان علاقوں سے زبردستی بے دخل کردیا تھا۔ اس بیان سے پیدا ہونے والی صورتحال پر 27 فروری کو عرب سربراہ اجلاس طلب کرلیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بے پناہ طاقت کے استعمال کے باوجود اسرائیل غزہ میں اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے، حماس کو گھٹنے ٹکوانے کے بلند و بانگ دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں، حماس آج بھی ایک زندہ عسکری حقیقت ہے، جو اس کے لیے سوہانِ روح اور ڈراؤنا خواب ہے، جب کہ قیدیوں کے تبادلے کے موقع پر حماس نے جو حکمت ِ عملی مرتب کی ہے اس کے نتیجے میں پوری دنیا ہی نہیں خود اسرائیل میں اس کے دعوؤں کی بھد اُڑائی جارہی ہے، جدید ترین اسلحے، توپ، ٹینک اور عسکری طاقت کے باوجود غزہ اسرائیل کی حربی ٹیکنالوجی کے قبرستان کا منظر پیش کر رہا ہے، اس کھلی ناکامی کے خود اسرائیلی حکام بھی معترف ہیں، اسرائیلی آرمی چیف کا اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے عہدے سے مستعفی ہونا اس امر کا کھلا ثبوت ہے، اسرائیلی عوام بھی قومی سلامتی اور تحفظ کے اقدامات پر سوال اٹھا رہے ہیں، اسے داخلی اور خارجی سطح پر دباؤ کا سامنا ہے، اس تناظر میں اس نوع کے بیانات کے ذریعے اسرائیل اپنی ذمے داریوں سے فرار کی راہ تلاش کر رہا ہے۔ انسانی تاریخ اس امر کی حقیقت پر دال ہے کہ جارح قوت اپنی تمام تر طاقت اور آلات ضرب و حرب کے باوجود بھی جب مخالف فریق کو جنگی میدان میں زیر نہیں کرپاتی تو وہ اعصابی و نفسیاتی حربے استعمال کرنا شروع کردیتی ہے، علامتی فتوحات (Symbolic Victories) کی حکمت عملی مرتب کی جاتی ہے، امریکا اور اسرائیل اپنے اپنے جارحانہ تجربات سے اس امر میں طاق ہو چکے ہیں اور اپنی خفت مٹانے کے لیے اسی حربے کو بروئے کار لا رہے ہیں، مغرب سیاست میں میکاولی کے جس نظریے پر عمل پیرا تھا اسرائیل بھی اسی نظریہ پر گامزن ہے جس کے تحت ریاست کے مفادات اور طاقت کے تحفظ کے لیے اخلاقی اصولوں اور ظالمانہ اقدامات بھی روا رکھے جاتے ہیں۔ نیتن یاہو کے جارحانہ بیانات، رعونت پر مبنی لب و لہجہ اور غیر حقیقت پسندانہ عزائم کا اظہار دراصل جارحانہ سفارت کاری کی اس جنگی حکمت ِ عملی کا حصہ ہے جس کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ مخالف فریق کو دباؤ میں رکھا جاسکے اور اپنی برتری ظاہر کی جاسکے۔ اس حکمت ِ عملی پر امریکا نے عراق، کیوبا، شمالی کوریا اور دیگر ممالک کے خلاف عمل درآمد کیا، جس کی اتباع میں اب اسرائیل یہی حربے آزما رہا ہے، تاہم خوش آئند امر یہ ہے کہ حماس ایسے کسی دباؤ میں نہیں آئے گی۔ غزہ جنگ کے موقع پر جب اسرائیل نے غزہ کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والے نیٹزاریم کوریڈور پر قبضہ کر کے اپنی کامیابی کے طور پر پیش کیا تو حماس کی بالغ نظر دور اندیش قیادت نے اس ’’علامتی فتح‘‘ کو عراق جنگ کے دوران امریکی حکمت ِ عملی کو ’’علامتی فتوحات‘‘ سے تعبیر کیا اور صاف لفظوں میں کہا کہ وہ ان چالوں میں نہیں آئے گی اور مزاحمت جاری رہے گی اور یہی ہوا۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ فلسطینی اپنی تاریخی اور ثقافتی وابستگی سے کسی صورت دست بردار نہیں ہوں گے، اپنے حقوق کی پامالی انہیں برداشت نہیں، سعودی عرب سمیت کسی بھی خطے میں فلسطینیوں کی آبادکاری کسی طور نافذ ِ عمل نہیں ہوسکتی، اس عمل سے خطہ جو پہلے ہی جنگ کے الاؤ سے دہک رہا ہے مزید شعلہ بار ہوگا، کشیدگی بڑھے گی۔ غزہ پر قبضے کے بیانات کے بعد عرب دنیا میں ایک سراسیمگی اور اضطراب کی سی کیفیت ہے، اس مسئلے پر تمام عرب شیوخ ایک پیج پر نظر آرہے ہیں، نیتن یاہو کے بیان کے بعد تو عرب سربراہ اجلاس بھی طلب کرلیا گیا ہے مگر اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے، کے مصداق تلخ حقیقت یہ ہے کہ اس ضمن میں مسلم حکمرانوں بالخصوص عرب رہنماؤں کی مجرمانہ خاموشی کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا، جو طاقت کے آگے زیر ہوگئے، جنہوں نے ملی مفادات کا سودا کیا، پہلے دو ریاستی فارمولے پھر اسرائیل کو تسلیم کیا، اس سے سفارتی اور تجارتی تعلقات استوار کیے، معاہدہ اوسلو پر راضی ہوئے، المیہ یہ ہے کہ غزہ جنگ کے موقع پر بھی جو اجلاس منعقد کیا گیا اس میں بھی کوئی موثر آواز بلند نہیں کی گئی، رسمی مذمت کے ساتھ یہ اجلاس نشستند، گفتند، برخاستند ثابت ہوئی، عالمی طاقتوں نے خلافت ِ عثمانیہ کے خلاف اسی دن کے لیے سازشیں تیار کی تھیں، معاہدہ سائیکس، پیکو کے تحت مشرقِ وسطیٰ کی بندربانٹ کا منصوبہ بھی اسی لیے بنایا تھا کہ قومی ریاستیں قائم کر کے ان پر اپنے پٹھوؤں کو بٹھاکر مسلم وحدت و قوت کو پارہ پارہ کیا جاسکے، آج کی صورتحال اسی عاقبت نا اندیشانہ عمل کا ثمر ہے، تاریخ کے اس المناک باب کے اوراق پلٹ کر کیسے گزرا جاسکتا ہے جس میں درج ہے کہ ان عرب شیوخ کے آبائو اجداد نے اپنی عرب ریاست کے قیام کی لالچ میں مسلم وحدت پر کاری ضرب لگائی تھی۔ پیش آمدہ صورتحال سے عہدہ برآ ہونے کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں کہ مسلم حکمران اس مسئلے پر مشترکہ موقف اختیار کریں، اسرائیل سے ہر قسم کے تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کریں، عملی، ٹھوس اور سنجیدہ اقدامات کریں، آزادی کی جدوجہد کرنے والے فلسطینیوں کی کھل کر نا صرف اخلاقی، وسفارتی بلکہ عسکری مدد بھی کریں تاکہ اسرائیل اپنے عزائم سے باز رہ سکے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: فلسطینیوں کی فلسطینیوں کو نیتن یاہو یہ ہے کہ رہے ہیں طاقت کے کے لیے کے بعد رہا ہے جنگ کے

پڑھیں:

پاکستان کے خلاف بھارتی جارحانہ عزائم

ریاض احمدچودھری

مودی کا جنگی جنون بے قابو ہے جب کہ بھارت مزید جنگی ہتھیاروں کی خریداری میں مصروف ہے۔ آپریشن سندور کی ناکامی کے بعد سیاسی بحران میں ڈوبی مودی سرکار کے نت نئے حربے ناکام ہو رہے ہیں جب کہ معرکہ حق میں پاکستان کے ہاتھوں 6 رافیل طیاروں کی تباہی کے بعد نئے طیارے بھارت کی مجبوری ہیں۔بھارتی اخبار دی ٹریبیون کے مطابق انڈین ائیر فورس نے دفاعی معاہدے میں مزید 114رافیل لڑاکا طیاروں کی خریداری پر زور دیا ہے، بھارتی فضائیہ نے مزید 114 رافیل طیاروں کی خریداری کی تجویز وزارت دفاع کو پیش کی، بھارتی فضائیہ ایسے طیارے چاہتی ہے جو ملٹی رول آپریشنز کے قابل ہوں۔
بھارتی وزارت دفاع ٹینڈر کی بجائے براہ راست فرانسیسی رافیل کا انتخاب کرے گی، جیٹ طیارے "میڈ ان انڈیا” اسکیم کے تحت ہندوستان میں بنائے جائیں گے، رافیل بنانے والی کمپنی ڈیسالٹ ایوی ایشن ایک ہندوستانی فرم کی شراکت میں ہے، جس پر تقریباً 2 کھرب روپے سے زیادہ کی لاگت متوقع ہے جو بھارت کے بڑے دفاعی سودوں میں سے ایک ہوگا۔طیاروں میں مختلف ہتھیار اور 60 فیصد تک دیسی مواد ہو سکتا ہے، Mـ88 انجن بنانے والی سافران کمپنی نے حیدرآباد میں انجن مرکز کا اعلان کیا ہے، بھارتی فضائیہ کو فوری طور پر نئے جیٹ طیاروں کی ضرورت ہے۔نئے طیاروں کی خریداری ، پاکستان کے ہاتھوں رافیل طیاروں کی تباہی کا اعتراف ہے، مودی سرکار جنگی ہتھیاروں کی خریداری کے ذریعے عوام کا پیسہ اپنی ناکامیاں چھپانے میں لگا رہی ہے۔
آپریشن سندور میں پاکستان کے ہاتھوں بدترین شکست کے باوجود مودی سرکار کا جنگی جنون کم نہیں ہوا اور بی جے پی سرکار دفاعی حکمت عملی کے نام پر جدید ہتھیاروں کی خریداری میں مصروف ہے۔ مودی حکومت نے ایئر بورن ارلی وارننگ اینڈ کنٹرول طیاروں کی خریداری کا معاہدہ کیا ہے، جو دراصل پاکستان کے خلاف پیشگی جارحیت کی سازش ہے۔ بھارت نے اے 321 پلیٹ فارم پر مبنی 6 اے ای ڈبلیو اینڈ سی (AEW&C) طیاروں کی خریداری کا فیصلہ کیا ہے۔ 19,000 کروڑ روپے کی لاگت سے تیار کیے جانے والے تمام 6 طیارے34 ـ2033 تک فراہم کر دیے جائیں گے۔ 300 ڈگری تک راڈار کوریج فراہم کرنے کے لیے اسپین میں نئے A اے ای ڈبلیو اینڈ سی طیاروں میں بہتری کی جائے گی۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کو آپریشن سندور میں اپنی شکست اور پاکستان کی بھرپور صلاحیت کو یاد رکھنا چاہیے۔ پاکستان کی مستحکم دفاعی پوزیشن کا اعتراف کرتے ہوئے بھارت نے 6 جدید طیاروں کی خریداری کو جواز بنایا ہے۔ مودی کا جنگی جنون نہ صرف پاکستان کے لیے بلکہ خطے کے امن کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکا ہے۔
نریندر مودی نے جنگی سازوسامان کی خریداری کیلیے ہزاروں کروڑ کے فنڈز کی منظوری دیدی ہے۔ بھارتی وزارت دفاع نے87 ہیوی ڈیوٹی مسلح ڈرونز اور 110 سے زائد براہموس سپر سونک کروز میزائلز کی خریداری کی منظوری دی ہے۔ جنگی سازوسامان کی مجموعی طور پر مالیت 67ہزار کروڑ روپے بنتی ہے۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ بھارتی فوج کے لیے تھرمل امیجر پر مبنی ڈرائیور نائٹ سائٹ کی خریداری کی منظوری بھی دے دی گئی ہے۔ بھارتی بحریہ کے لیے خود مختار سطحی جہاز، براہموس فائر کنٹرول سسٹم اور لانچر کی بھی منظوری دی گئی ہے اسی طرح بھارتی فضائیہ کے لیے ماونٹین ریڈار کی خریداری اور اسپائڈر ہتھیار کے نظام کی اپ گریڈیشن کی بھی منظوری دی گئی ہے۔” دی ٹائمز آف انڈیا” نے اپنی رپورٹ میں مزید انکشاف کیا کہ بھارت نے ریموٹلی پیلٹڈ ایئرکرافٹ خریدنیکی تجویز بھی منظور کر لی ہے۔ اس کے علاوہ Cـ17 اور Cـ130J کی دیکھ بھال کے لیے بھی فنڈز منظور کر لیے گئے ہیں جب کہ بھارت نے Sـ400 طویل رینج ایئر ڈیفنس میزائل سسٹم کے لیے سالانہ دیکھ بھال کی بھی منظوری دے دی ہے۔” آپریشن سندور ”کے دوران ہوا سے زمین پر مار کرنے والے میزائلوں کی کمی محسوس کی گئی۔ انٹیلی جنس، نگرانی اور ہتھیار اٹھانے کی صلاحیت والے 87ڈرونز کی لاگت 20ہزار کروڑ روپے ہو گی۔
مودی سرکار خطے کو ایک بار پھر جنگ میں دھکیلنے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ ہندو انتہا پسند جماعت بی جے پی کی کٹھ پتلی مودی سرکار کا جنگی جنون نئے جنگی ہتھیاروں کی خریداری سے عیاں ہو رہا ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ نریندر مودی کی حکومت خطے کو ایک بار پھر جنگ میں دھکیلنے کی تیاریاں کررہی ہے۔مہلک ہتھیاروں کا مجموعہ تشکیل دینا مودی سرکارکی آپریشنل تیاریوں میں ناکامی کا اعتراف ہے۔ Sـ400ائیر ڈیفنس سسٹم کی مینٹیننس جنگ میں پاکستان کے ہاتھوں بڑی تباہی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جنگی ہتھیاروں کی بھر مار کر کے مودی پاکستان پر ایک بار پر جارحیت کی تیاری میں مشغول ہے۔اپنی جنگی جنونیت کے عملی اظہار پر پاکستان سے ہزیمت اٹھانے اور دنیا بھر میں اپنی رسوائیوں کا اہتمام کرنے کے باوجود بھارتی جنونی توسیع پسندانہ عزائم میں کوئی کمی نہیں آئی۔ بھارتی جنونیت کا بھارتی خبر رساں ادارے دی پرنٹ کی اس رپورٹ سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے جس کے مطابق بھارتی بحریہ کی نیول کمانڈ کی بحری جنگی مشقیں جاری ہیں جو علاقائی امن کے لئے خطرہ بنتی جا رہی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بھارتی اشتعال انگیز تعیناتیاں خطے میں اثر و رسوخ بڑھانے کی مذموم کوشش ہے جس سے طاقت کے ذریعے خطے پر برتری حاصل کرنے کے بھارتی ارادے بے نقاب ہو گئے ہیں۔ مودی سرکار کا جنگی جنون خطے کو غیر مستحکم کر رہا ہے اور اس کی جنگی پالیسی خطے کے امن و ترقی اور خوشحالی کے لئے براہ راست خطرہ ہے۔ اگر بھارتی میڈیا بھی خطے کے امن و سلامتی کے لئے خطرے کی گھنٹی بجانے والے بھارتی جنگی جنونی عزائم کو بے نقاب کرنا ضروری سمجھ رہا ہے تو اس سے یہی مراد ہے کہ بھارت اس پورے خطے کی ترقی اور امن و سلامتی کے لئے حقیقی خطرہ بن چکا ہے جس کے ہاتھ روکنا بہر حال امن کے ضامن عالمی اداروں اور قیادتوں کی ذمہ داری ہے۔
٭٭٭

متعلقہ مضامین

  • فلسطینیوں کی نسل کشی اور جبری بیدخلی
  • اسرائیل کیجانب سے غزہ میں زمینی کارروائی کا مقصد فلسطینیوں کی جبری مہاجرت ہے، اردن
  • اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کُشی کا مرتکب، تحقیقاتی کمیشن
  • اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کو مٹانے کے لیے نسل کشی کر رہا ہے، اقوام متحدہ
  •  اسرائیل غزہ میں فلسطینی عوام کے خلاف نسل کشی کر رہا ہے، اقوام متحدہ 
  • پاکستان کے خلاف بھارتی جارحانہ عزائم
  • اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم سے عالمی امن کو شدید خطرہ لاحق ہے: ترک صدر
  • صیہونی عہدیداروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے، رجب طیب اردگان
  • اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم مشرق وسطیٰ اور عالمی امن کیلئے شدید خطرہ ہیں، ترک صدر
  • ہم اپنی خودمختاری کے دفاع کیلئے جوابی اقدام کیلئے پُرعزم ہیں، امیر قطر