Jasarat News:
2025-04-25@09:45:24 GMT

صہیونیت کے نئے عزائم

اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT

صہیونیت کے نئے عزائم

غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کے بعد یہ امید پیدا ہوچلی تھی کہ 15 ماہ تک اسرائیل کی وحشیانہ بمباری اور جنگی جرائم کے نتیجے میں ہولناک تباہی اور ہلاکتوں کے بعد بے بس فلسطینیوں کو سکھ کا سانس لینے کا موقع ملے گا، اب یہاں امن کی صورتحال بہتر ہوگی، تعمیر ِ نو کا کام شروع ہوگا، تعلیمی ادارے دوبارہ کھل جائیں گے،کاروبارِ زندگی معمول پر آجائے گا اور زندگی پھر سے سانس لینے لگے گی، مگراس معاہدے کی سیاہی ابھی خشک بھی نہ ہونے پائی تھی کہ امریکی صدر نے اپنی زبنیل ِ عیاری سے وہ ترپ کا وہ پتا پھینکا جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ’’ہم غزہ پر قبضہ کر لیں گے‘‘۔ اب اسی نوع کی چال نیتن یاہو چلنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اْسی پرانے بیانیے کی جگالی کر رہے ہیں جو ماضی میں دیتے رہے ہیں، کہتے ہیں سعودی عرب کے پاس بہت زمین ہے وہاں فلسطینیوں کو آباد کر کے ایک الگ فلسطینی ریاست بنادی جائے، 7 اکتوبر 2023 کے بعد فلسطینی ریاست کا تصور ختم ہوگیا ہے، فلسطینی ریاست کا قیام اسرائیل کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے، دو ریاستی حل تسلیم نہیں۔ نیتن یاہو کے اس بیان پر سعودی عرب، پاکستان، ترکی، مصر، اردن، ایران نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے قابل ِ مذمت، اشتعال انگیز اور بین الاقوامی قوانین اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی صریحاً خلاف ورزی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ فلسطینیوں کو ایک آزاد و خود مختار ریاست کے قیام کا حق حاصل ہے۔ سعودی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کا فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کا بیان غزہ میں سنگین جنگی جرائم سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے، فلسطینیوں کی جبری بے دخلی منظور نہیں، فلسطینیوں کو ان کا جائز حق مل کر رہے گا، یہ ان سے کوئی نہیں چھین سکتا، سابق سعودی انٹیلی جنس چیف شہزادہ ترکی الفیصل نے بھی اس امر کا ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر فلسطینیوں کو غزہ سے منتقل کرنا ہے تو اْن کے آبائی علاقوں جافا، حیفہ اور دیگر مقامات پر بھیجا جائے جہاں ان کے زیتون کے باغات تھے اور انہیں اسرائیل نے ان علاقوں سے زبردستی بے دخل کردیا تھا۔ اس بیان سے پیدا ہونے والی صورتحال پر 27 فروری کو عرب سربراہ اجلاس طلب کرلیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بے پناہ طاقت کے استعمال کے باوجود اسرائیل غزہ میں اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے، حماس کو گھٹنے ٹکوانے کے بلند و بانگ دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں، حماس آج بھی ایک زندہ عسکری حقیقت ہے، جو اس کے لیے سوہانِ روح اور ڈراؤنا خواب ہے، جب کہ قیدیوں کے تبادلے کے موقع پر حماس نے جو حکمت ِ عملی مرتب کی ہے اس کے نتیجے میں پوری دنیا ہی نہیں خود اسرائیل میں اس کے دعوؤں کی بھد اُڑائی جارہی ہے، جدید ترین اسلحے، توپ، ٹینک اور عسکری طاقت کے باوجود غزہ اسرائیل کی حربی ٹیکنالوجی کے قبرستان کا منظر پیش کر رہا ہے، اس کھلی ناکامی کے خود اسرائیلی حکام بھی معترف ہیں، اسرائیلی آرمی چیف کا اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے عہدے سے مستعفی ہونا اس امر کا کھلا ثبوت ہے، اسرائیلی عوام بھی قومی سلامتی اور تحفظ کے اقدامات پر سوال اٹھا رہے ہیں، اسے داخلی اور خارجی سطح پر دباؤ کا سامنا ہے، اس تناظر میں اس نوع کے بیانات کے ذریعے اسرائیل اپنی ذمے داریوں سے فرار کی راہ تلاش کر رہا ہے۔ انسانی تاریخ اس امر کی حقیقت پر دال ہے کہ جارح قوت اپنی تمام تر طاقت اور آلات ضرب و حرب کے باوجود بھی جب مخالف فریق کو جنگی میدان میں زیر نہیں کرپاتی تو وہ اعصابی و نفسیاتی حربے استعمال کرنا شروع کردیتی ہے، علامتی فتوحات (Symbolic Victories) کی حکمت عملی مرتب کی جاتی ہے، امریکا اور اسرائیل اپنے اپنے جارحانہ تجربات سے اس امر میں طاق ہو چکے ہیں اور اپنی خفت مٹانے کے لیے اسی حربے کو بروئے کار لا رہے ہیں، مغرب سیاست میں میکاولی کے جس نظریے پر عمل پیرا تھا اسرائیل بھی اسی نظریہ پر گامزن ہے جس کے تحت ریاست کے مفادات اور طاقت کے تحفظ کے لیے اخلاقی اصولوں اور ظالمانہ اقدامات بھی روا رکھے جاتے ہیں۔ نیتن یاہو کے جارحانہ بیانات، رعونت پر مبنی لب و لہجہ اور غیر حقیقت پسندانہ عزائم کا اظہار دراصل جارحانہ سفارت کاری کی اس جنگی حکمت ِ عملی کا حصہ ہے جس کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ مخالف فریق کو دباؤ میں رکھا جاسکے اور اپنی برتری ظاہر کی جاسکے۔ اس حکمت ِ عملی پر امریکا نے عراق، کیوبا، شمالی کوریا اور دیگر ممالک کے خلاف عمل درآمد کیا، جس کی اتباع میں اب اسرائیل یہی حربے آزما رہا ہے، تاہم خوش آئند امر یہ ہے کہ حماس ایسے کسی دباؤ میں نہیں آئے گی۔ غزہ جنگ کے موقع پر جب اسرائیل نے غزہ کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والے نیٹزاریم کوریڈور پر قبضہ کر کے اپنی کامیابی کے طور پر پیش کیا تو حماس کی بالغ نظر دور اندیش قیادت نے اس ’’علامتی فتح‘‘ کو عراق جنگ کے دوران امریکی حکمت ِ عملی کو ’’علامتی فتوحات‘‘ سے تعبیر کیا اور صاف لفظوں میں کہا کہ وہ ان چالوں میں نہیں آئے گی اور مزاحمت جاری رہے گی اور یہی ہوا۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ فلسطینی اپنی تاریخی اور ثقافتی وابستگی سے کسی صورت دست بردار نہیں ہوں گے، اپنے حقوق کی پامالی انہیں برداشت نہیں، سعودی عرب سمیت کسی بھی خطے میں فلسطینیوں کی آبادکاری کسی طور نافذ ِ عمل نہیں ہوسکتی، اس عمل سے خطہ جو پہلے ہی جنگ کے الاؤ سے دہک رہا ہے مزید شعلہ بار ہوگا، کشیدگی بڑھے گی۔ غزہ پر قبضے کے بیانات کے بعد عرب دنیا میں ایک سراسیمگی اور اضطراب کی سی کیفیت ہے، اس مسئلے پر تمام عرب شیوخ ایک پیج پر نظر آرہے ہیں، نیتن یاہو کے بیان کے بعد تو عرب سربراہ اجلاس بھی طلب کرلیا گیا ہے مگر اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے، کے مصداق تلخ حقیقت یہ ہے کہ اس ضمن میں مسلم حکمرانوں بالخصوص عرب رہنماؤں کی مجرمانہ خاموشی کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا، جو طاقت کے آگے زیر ہوگئے، جنہوں نے ملی مفادات کا سودا کیا، پہلے دو ریاستی فارمولے پھر اسرائیل کو تسلیم کیا، اس سے سفارتی اور تجارتی تعلقات استوار کیے، معاہدہ اوسلو پر راضی ہوئے، المیہ یہ ہے کہ غزہ جنگ کے موقع پر بھی جو اجلاس منعقد کیا گیا اس میں بھی کوئی موثر آواز بلند نہیں کی گئی، رسمی مذمت کے ساتھ یہ اجلاس نشستند، گفتند، برخاستند ثابت ہوئی، عالمی طاقتوں نے خلافت ِ عثمانیہ کے خلاف اسی دن کے لیے سازشیں تیار کی تھیں، معاہدہ سائیکس، پیکو کے تحت مشرقِ وسطیٰ کی بندربانٹ کا منصوبہ بھی اسی لیے بنایا تھا کہ قومی ریاستیں قائم کر کے ان پر اپنے پٹھوؤں کو بٹھاکر مسلم وحدت و قوت کو پارہ پارہ کیا جاسکے، آج کی صورتحال اسی عاقبت نا اندیشانہ عمل کا ثمر ہے، تاریخ کے اس المناک باب کے اوراق پلٹ کر کیسے گزرا جاسکتا ہے جس میں درج ہے کہ ان عرب شیوخ کے آبائو اجداد نے اپنی عرب ریاست کے قیام کی لالچ میں مسلم وحدت پر کاری ضرب لگائی تھی۔ پیش آمدہ صورتحال سے عہدہ برآ ہونے کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں کہ مسلم حکمران اس مسئلے پر مشترکہ موقف اختیار کریں، اسرائیل سے ہر قسم کے تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کریں، عملی، ٹھوس اور سنجیدہ اقدامات کریں، آزادی کی جدوجہد کرنے والے فلسطینیوں کی کھل کر نا صرف اخلاقی، وسفارتی بلکہ عسکری مدد بھی کریں تاکہ اسرائیل اپنے عزائم سے باز رہ سکے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: فلسطینیوں کی فلسطینیوں کو نیتن یاہو یہ ہے کہ رہے ہیں طاقت کے کے لیے کے بعد رہا ہے جنگ کے

پڑھیں:

لازم ہے کہ فلسطین آزاد ہو گا

یہودی ایک انتہا پسند، شرپسند، تخریب کار اور دہشت گرد قوم ہے، جن کے ساتھ ہماری جنگ روز اول سے روز آخر تک رہے گی۔ امن و سکون کے ساتھ زندگی گزارنا یہودیت کی سرشت میں نہیں۔ قرآن کریم کی آیات اس پر شاہد ہیں کہ یہودیوں نے اپنی قوم اور نسل سے آنے والے انبیائے کرامؑ کو بھی سکون سے جینے نہیں دیا، ان کی نافرمانیاں کیں، مذاق اڑایا حتیٰ کہ بہت سے انبیاء کو شہید کیا۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ یہودیت بربریت کا دوسرا نام ہے اور یہودی بربریت کے قصے تاریخ کے ابواب میں محفوظ ہیں، مگر آج یہودیوں کی بربریت کے ساتھ ان کے سہولت کار امت کے غداروں کے پوسٹ مارٹم کا ارادہ ہے۔

یہود، نصریٰ کی آشیرباد سے ارض مقدس پر انسانی حقوق کی پامالیوں میں ہر حد پار کرچکے ہیں، جس کی مثال تاریخ انسانی میں نہیں ملتی۔ رمضان المبارک میں جنگ بندی کے باوجود پاگل یہودی بربریت سے باز نہیں آئے۔ عید کے دن بھی مظلوم فلسطینیوں کو خون میں نہلایا گیا۔ مساجد محفوظ ہیں نہ گھر۔ گھر ملبے کے ڈھیر اور مساجد شہید ہوچکی ہیں۔

اسپتال، اسکول، پناہ گزین کیمپ حتیٰ کہ قبرستان بھی یہودی بربریت سے محفوظ نہیں رہے۔ غزہ کو اہل غزہ سے خالی کروانا گریٹر اسرائیل کے قیام کے خاکے میں رنگ بھرنے کی ابتداء ہے۔ یہودیت کے اس ناپاک و غلیظ منصوبے کی راہ میں صرف حماس کے مجاہدین سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر پوری ایمانی غیرت کے ساتھ کھڑے ہیں، حالانکہ گریٹر اسرائیل منصوبہ تو پورے مڈل ایسٹ کے نقشے کے ساتھ دنیا کے نظام کو بھی تہس نہس کر دے گا۔ اگر ایسا ہوا تو عرب ریاستیں گریٹر اسرائیل کی اس ناپاک دلدل میں غرق ہو جائیں گی، لیکن صرف اہل فلسطین ڈٹ کر کھڑے ہیں اور اب تک 55 ہزارسے زائد فلسطینی یہودی بربریت کی بھینٹ چڑھ کر اللہ کی عدالت میں اپنا مقدمہ لے کر مسلم امہ کی بے حسی کا نوحہ سنا رہے ہیں۔

آج کے لبرلز برملا اور مسلمان حکمران اپنے طرز عمل سے یہ پیغام دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جنگوں سے ملک تباہ ہو جاتے ہیں اور بظاہر ان کی سوچ صحیح بھی لگتی ہے لیکن اگر زمینی حقائق پر غور کریں تو گزشتہ دو صدیوں سے امریکا مسلسل جنگوں میں مصروف ہے اور ان کے ناجائز بغل بچہ اسرائیل اپنے قیام سے لے کر آج تک مسلسل حالت جنگ میں ہے مگر وہ تو تباہ نہیں مضبوط ہو رہے ہیں جب کہ جنگ سے بھاگنے والے عرب ممالک دن بدن کمزور ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ گزشتہ صدی میں سب سے طویل اور خوفناک جنگیں جاپان جرمنی اور کوریا نے لڑیں لیکن پھر بھی یہی ممالک ترقی میں سب سے آگے نکل گئے۔ تاریخ پر نظر ڈالیں تو مسلمان کئی صدیوں تک مسلسل جہاد (جنگوں) میں مصروف رہے اور اس دوران تمام عالمی طاقتیں ان کے سامنے سرنگوں اور مسلمان سب سے ترقی یافتہ اور طاقتور رہے۔

اے مسلمان حکمرانوں اور سپہ سالاروں کیا ہوگیا آپ لوگوں کو؟ جہاد فی سبیل اللہ کا حکم تو قرآن پاک میں سیکڑوں دفعہ آیا ہے، جہاد ہمارے ایمان کا حصہ اور حکم ربانی ہے، مگر جب سے مسلمانوں کو جنگوں سے ڈرنا اور بزدلی کا سبق پڑھایا گیا ہے مسلمان غربت کا شکار اور ترقی میں پیچھے رہ کر ذلیل وخوار ہوگئے ہیں۔

ماضی میں جب بربریت کے علمبرداروں نے الاقصیٰ پر قبضہ کیا تو شیخ زین الاسلام الھراوی ثانیؒ جیسے عالم دین مدرسے میں پڑھنے پڑھانے کے عمل کو موقوف کرکے خلیفہ وقت کے ضمیر کو جھنجھوڑنے نکلے اور خلیفہ وقت کے خطبہ جمعہ کے دوران کھڑے ہو کر خلیفہ وقت کے سامنے بہتی آنکھوں اور درد سے کی گئی تقریر نے خلیفہ وقت کے دل کی دنیا بدل ڈالی اور صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں بیت المقدس کی فتح ہوئی۔

آج عرب و عجم کے ہزاروں علماء شیخ زین الاسلام الھراوی ثانیؒ بن کر مسلمان حکمرانوں کو پکار رہے ہیں اور سلطان صلاح الدین ایوبی ثانی کی تلاش میں ہیں۔ گزشتہ دنوں اسلام آباد میں مفتی اعظم پاکستان شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمٰن نے بھی اسرائیل کے خلاف جہاد کی فرضیت کا فتویٰ دیا۔ مگر افسوس کہ اس فتوے کے بعد سوشل میڈیا پر ان کی کردار کُشی اور بہتان تراشی کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ پاکستان میں یہودی ہیں نہ ہم فلسطین کے پڑوسی ہیں اس کے باوجود ہمارے ملک میں اسرائیل کے جتنے ہمدرد اور سہولت کار سامنے آئے، الامان الحفیظ۔ تاریخ گواہ ہے کہ جہاد کے لفظ سے کفار سے زیادہ منافقین کو تکلیف ہوئی ہے۔

اسرائیل کے ساتھ ہمدردی کا تو کوئی مسلمان سوچ بھی نہیں سکتا۔ پاکستان کے مسلمان تو بحیثیت قوم دستوری اور آئینی طور پر اسرائیل سے نفرت کرتے ہیں جو ایمان کے ساتھ پاکستانیت کی نشانی ہے۔ پچھلے ڈیڑھ سال میں غزہ میں اسرائیلی بربریت اور مسلمان حکمرانوں کی بے حسی اپنی انتہا کو پہنچ گئی ہے۔ پاکستان میں مذہبی سیاسی جماعتوں کو چھوڑ کر تقریباً تمام بڑی سیاسی جماعتیں اسرائیل کے خلاف احتجاج تو دور کی بات کوئی اپنے کارکنوں کو جاندار مذمتی بیانیہ بھی نہیں دے سکے نتیجتاً اسرائیل کے لیے ان جماعتوں میں موجود لبرلز کے دلوں میں پہلے سے موجود نرم گوشہ اسرائیل کو تسلیم کرانے کے دلائل میں بدل رہا ہے۔

اسپیکر ایاز صادق نے غزہ پر بمباری روکنے کے لیے رکن قومی اسمبلی شازیہ مری کو قرار داد پیش کرنے کی اجازت دی تو اصولًا، عقلاً اور شرعاً یہ متفقہ طور پر منظور ہونا چاہیے تھی لیکن سابق اسپیکر اسد قیصر کی جانب سے اس قرارداد کو بلڈوز کرنے کی حرکت نے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا، انھوں کہا کہ "اگر اس ایوان میں عمران خان کے حق میں قرار داد پیش نہیں ہوگی تو فلسطینیوں کے حق میں بھی قرار داد پیش نہیں ہوگی۔" پاکستانیوں یہ ہے پی ٹی آئی کا وہ چہرہ جس کے بارے میں مولانا فضل الرحمٰن نے قوم کو خبردار اور ڈاکٹر اسرار احمدؒ و حکیم سعیدؒ نے پیش گوئیاں کی تھیں۔

اسرائیل کے غزہ میں مظالم نے امت مسلمہ میں واضح لکیر کھینچ دی ہے جس کے ایک طرف فلسطین کے حامی اور دوسری طرف یہود پرست ہوں گے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ "پاکستان تو فلسطین سے ہزاروں کلومیٹر دور ہے ہم کیسے اسرائیلی بربریت کے لیے ان کا ساتھ دے سکتے ہیں؟" انھیں کون سمجھائے کہ فلسطین ہزاروں کلومیٹر دور مگر مسجد الاقصیٰ تو ہمارے دل کی دھڑکنوں اور خون کے رگوں میں ہے تو پھر مسجد الاقصیٰ کے سربکف محافظوں کو کون ہمارے دلوں سے دور کرسکتا ہے؟ قصہ مختصر علماء کرام نے اپنی ذمے داری پوری کردی، اب امت حکمرانوں کی طرف دیکھ رہی ہے، ہم بھی ان حکمرانوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

 ان حکمرانوں کی طرف جن کے حکم سے پی ایس ایل میں فلسطین کا پرچم لہرانے کی اجازت نہیں، ان حکمرانوں کی طرف جن کے حکم سے اسرائیل مخالف ریلیوں پر لاٹھی چارج اور شرکاء کو گرفتار کیا جاتا ہے، ان حکمرانوں کی طرف جن کا امریکن جیوش کانگریس نے اسرائیل سے متعلق ایک قرار داد میں اہم تبدیلیوں کا خیرمقدم کیا اور اسرائیل کے خلاف او آئی سی کے موقف کو نرم بنانے پر شکریہ ادا کیا، ان رویوں کو دیکھتے ہوئے تو لگتا ہوگا کہ ہم احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں کہ یہ اسرائیل کے پنجوں سے معصوم فلسطینیوں کو بچائیں گے مگر ہم مایوس نہیں، انشاء اللہ احادیث مبارکہ میں دی گئی بشارت نبوی کے مطابق وہ وقت ضرور آئے گا جب بیت المقدس آزاد ہو جائے گا۔ اس وقت امت کے غدار یہود پرست گھر کے رہیں گے نہ گھاٹ کے۔

متعلقہ مضامین

  • امریکہ سب سے بڑا دہشت گرد ہے، حافظ نعیم الرحمان
  • غزہ میں فلسطینیوں کیخلاف بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہئے، ترکیہ
  • افواج پاکستان مودی سرکار کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے کے لئے ہمہ وقت تیار ہیں، حسین شاہ
  • بھارتی اقدامات کا مقصد پاکستان کیخلاف اپنے مذموم عزائم کو تقویت دینا ہے، احسن اقبال
  • سندھ طاس معاہدہ اور بھارت کے ناپاک مذموم عزائم
  • لازم ہے کہ فلسطین آزاد ہو گا
  • فلسطینی صحافی نے امداد جمع کرنیوالی پاکستانی تنظیموں کو بے نقاب کر دیا
  • غزہ کے بچوں کے نام
  • صیہونی وزیراعظم اور ڈونلڈ ٹرامپ کے درمیان ٹیلیفونک گفتگو
  • میں نے نتین یاہو کیساتھ ایران سے متعلق بات کی، امریکی صدر