مخدوش سیکورٹی صورتحال اور امریکی دباو پاک چین تعلقات کے لئے چیلنج ہے، عامر رانا
اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT
ہمسایہ ملکوں کے تعلقات کا جائزہ لیتے ہوئے عامر رانا کہتے ہیں کہ چین نہیں چاہتا کہ پاکستان بیجنگ کے ساتھ اپنے تعلقات کا فائدہ اٹھائے اور بیک وقت واشنگٹن کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرے خاص طور پر جب پاکستان اور امریکا کے تعلقات کشیدہ ہوں۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان کے معروف تجزیہ کار عامر رانا نے صدر مملکت آصف علی زرداری کے دورہ چین کے تناظر میں پاک چین تعلقات کا جائزہ لیتے ہوئے ہمسایہ اور دو دوست ممالک کو سی پیک سمیت معاہدوں پر عمل درآمد میں درپیش مشکلات اور رکاوٹوں کا ذکر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حالیہ دورہ چین کے دوران صدر آصف علی زرداری نے چین کے ساتھ اسٹریٹجک شراکت داری کے لیے عزم کا اعادہ کیا۔ چینی رہنماؤں بالخصوص چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ ملاقاتوں میں صدرِ مملکت پاکستان نے پاک-چین اقتصاری راہداری (سی پیک) پر تعاون کے نئے دروازے کھولنے پر زور دیا۔
انہوں نے ایک اہم وقت میں دورہ کیا کہ جب پاکستان میں دہشت گردی اور سلامتی کے چیلنجز چین کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کے لیے آزمائش کا باعث بن رہے ہیں۔ اگرچہ بیجنگ کے ساتھ پاکستان کے اسٹریٹجک اور دفاعی تعلقات مضبوط ہیں لیکن اپنی خارجہ پالیسی کے مؤقف خاص طور پر امریکا و مغرب کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے سمجھوتہ کیے بغیر انہیں مضبوط بنانا مقصود ہے۔ تاہم سیکیورٹی خطرات، قرضوں کی ادائیگی کی غیر یقینی صورت حال، بیوروکریٹک مسائل اور بیوروکریسی کے مغرب کی جانب جھکاؤ کی وجہ سے چینی سرمایہ کار یہاں سرمایہ لگانے میں ہچکچا رہے ہیں۔
چین نے کبھی بھی پاکستان کے مغرب کے ساتھ فعال تعلقات پر اعتراض نہیں کیا جبکہ وہ واقف ہے کہ پاکستان اور امریکا کے دو طرفہ تعلقات کی ایک طویل تاریخ ہے۔ درحقیقت پاکستان کے ساتھ امریکا کے جو تعلقات ہیں وہ بیجنگ کے مفاد میں بھی ہیں جیسے مثال کے طور پر 1970ء کی دہائی میں پاکستان نے چاؤ این لائی اور ہنری کسنجر کے درمیان خفیہ ملاقات کی سہولت کاری کی تھی۔ تاہم بیجنگ کے خدشات کی وجوہات کچھ اور ہیں۔ چین نہیں چاہتا کہ پاکستان بیجنگ کے ساتھ اپنے تعلقات کا فائدہ اٹھائے اور بیک وقت واشنگٹن کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرے خاص طور پر جب پاکستان اور امریکا کے تعلقات کشیدہ ہوں۔
عامر رانا کے نزدیک محسن نقوی کے بارے میں چین کا نظریہ ہے کہ وہ پاکستان کی سویلین حکومت کا اہم حصہ ہونے کے بجائے پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے قریبی ہیں۔ اگر محسن نقوی ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریبِ حلف برداری کے دوران واشنگٹن میں موجود تھے تو چین اسے مختلف نقطہ نظر سے دیکھتا ہے یعنی اس کے نزدیک پاکستان آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ذریعے اپنی مالیاتی امداد کو برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ ان کی بنیادی تشویش یہ ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں پر پاکستان کا انحصار سی پیک کو قرضوں کی ادائیگی سے لے کر پروجیکٹ کی رازداری کو برقرار رکھنے جیسے متعدد عوامل متاثر ہوتے ہیں۔
پاکستان کو چین اور مغرب کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن قائم کرنے میں جدوجہد کا سامنا ہے۔ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے چند قریبی مشیروں بشمول سابق سفارتکاروں اور جنرلز یہ کہہ کر چین کے ساتھ قریبی تعلقات کی وکالت کرتے ہیں کہ چین کا عروج سوویت یونین کے عروج سے مختلف ہے۔ تاہم اسٹیبلشمنٹ کو محض ایک عالمی طاقت پر انحصار کرنے کے طویل مدتی نتائج اور مضمرات کا سامنا کرنا ہے خاص طور پر اس سوال کے پیش نظر کہ اس طرح کا تعلق اسٹریٹجک، سیاسی اور اقتصادی تعاون میں کیسے کارآمد ثابت ہوگا۔ طالبان حکومت اور اس کی وسیع تر اسٹریٹجک فریم ورک جیسے چیلنجز کو بھی سنگین بناتا ہے۔ ان پیچیدگیوں کے باوجود چین قراقرم ہائی وے فیز ٹو اور ایم ایل ون پر رواں سال کام کا آغاز کرے گا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کے ساتھ اپنے تعلقات پاکستان کے تعلقات کا امریکا کے پاکستان ا بیجنگ کے چین کے
پڑھیں:
صدر ٹرمپ پر نفرت کا الزام لگانے والا امریکا صحافی معطل
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امریکا میں اِس وقت ایسا بہت کچھ ہو رہا ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوا۔ امریکا کو صحافتی آزادی کے علم برداروں میں نمایاں سمجھا جاتا ہے۔ امریکی ادارے دنیا بھر میں صحافتی آزادی جانچتے رہتے ہیں مگر خود امریکا میں اس حوالے سے جو کچھ ہو رہا ہے وہ شرم ناک ہے۔
امریکی میڈیا گروپ اے بی سی کے رپورٹر ٹیری مورن کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اُن کے معاون اسٹیفن ملر کو اول درجے کے نفرت پھیلانے والے قرار دینے کی پاداش میں معطل کردیا گیا ہے۔ ٹیری مورن نے ایک ایک ٹوئیٹ میں کہا تھا کہ امریکی صدر جو کچھ کر رہے ہیں اُس کے نتیجے میں امریکا اور امریکا سے باہر نفرت پھیل رہی ہے۔ ایسی کیفیت کو برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔
ٹیری مورن نے جو کچھ کہا وہ امریکا میں کسی بھی سطح پر حیرت انگیز نہیں۔ حکومتی شخصیات پر غیر معمولی تنقید امریکی صحافت کا طرہ امتیاز رہی ہے۔ ڈیموکریٹس پر بہت زیادہ تنقید کی جاتی رہی ہے مگر اُنہوں نے کبھی اِس نوعیت کے اقدامات نہیں کیے۔ سابق صدر جو بائیڈن پر غیر معمولی تنقید کی جاتی رہی مگر اُنہوں نے کسی بھی بات کو پرسنل نہیں لیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا مزاج بہت الگ، بلکہ بگڑا ہوا ہے۔ وہ امریکی معاشرے اور ثقافت کی بنیادیں ہلانے والے اقدامات کر رہے ہیں۔ میڈیا کو دباؤ رکھنا بھی اُن کے مزاج اور پالیسیوں کا حصہ ہے۔
ٹیری مورن کے خلاف کی جانے والی کارروائی پر امریکا میں میڈیا کے ادارے جُزبُز ہیں۔ اُن کا استدلال ہے کہ اِس نوعیت کے اقدامات سے ٹرمپ انتظامیہ میڈیا کے اداروں کو دباؤ میں رکھنے کی کوشش کر رہی ہے مگر یہ سب کچھ برداشت نہیں کیا جائے گا اور شہری آزادیوں کے تحفظ کے علم بردار اداروں اور تنظیموں کے پلیٹ فارم سے شدید احتجاج کیا جائے گا۔