ہمسایہ ملکوں کے تعلقات کا جائزہ لیتے ہوئے عامر رانا کہتے ہیں کہ چین نہیں چاہتا کہ پاکستان بیجنگ کے ساتھ اپنے تعلقات کا فائدہ اٹھائے اور بیک وقت واشنگٹن کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرے خاص طور پر جب پاکستان اور امریکا کے تعلقات کشیدہ ہوں۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان کے معروف تجزیہ کار عامر رانا نے صدر مملکت آصف علی زرداری کے دورہ چین کے تناظر میں پاک چین تعلقات کا جائزہ لیتے ہوئے ہمسایہ اور دو دوست ممالک کو سی پیک سمیت معاہدوں پر عمل درآمد میں درپیش مشکلات اور رکاوٹوں کا ذکر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حالیہ دورہ چین کے دوران صدر آصف علی زرداری نے چین کے ساتھ اسٹریٹجک شراکت داری کے لیے عزم کا اعادہ کیا۔ چینی رہنماؤں بالخصوص چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ ملاقاتوں میں صدرِ مملکت پاکستان نے پاک-چین اقتصاری راہداری (سی پیک) پر تعاون کے نئے دروازے کھولنے پر زور دیا۔

انہوں نے ایک اہم وقت میں دورہ کیا کہ جب پاکستان میں دہشت گردی اور سلامتی کے چیلنجز چین کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کے لیے آزمائش کا باعث بن رہے ہیں۔ اگرچہ بیجنگ کے ساتھ پاکستان کے اسٹریٹجک اور دفاعی تعلقات مضبوط ہیں لیکن اپنی خارجہ پالیسی کے مؤقف خاص طور پر امریکا و مغرب کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے سمجھوتہ کیے بغیر انہیں مضبوط بنانا مقصود ہے۔ تاہم سیکیورٹی خطرات، قرضوں کی ادائیگی کی غیر یقینی صورت حال، بیوروکریٹک مسائل اور بیوروکریسی کے مغرب کی جانب جھکاؤ کی وجہ سے چینی سرمایہ کار یہاں سرمایہ لگانے میں ہچکچا رہے ہیں۔ 

چین نے کبھی بھی پاکستان کے مغرب کے ساتھ فعال تعلقات پر اعتراض نہیں کیا جبکہ وہ واقف ہے کہ پاکستان اور امریکا کے دو طرفہ تعلقات کی ایک طویل تاریخ ہے۔ درحقیقت پاکستان کے ساتھ امریکا کے جو تعلقات ہیں وہ بیجنگ کے مفاد میں بھی ہیں جیسے مثال کے طور پر 1970ء کی دہائی میں پاکستان نے چاؤ این لائی اور ہنری کسنجر کے درمیان خفیہ ملاقات کی سہولت کاری کی تھی۔ تاہم بیجنگ کے خدشات کی وجوہات کچھ اور ہیں۔ چین نہیں چاہتا کہ پاکستان بیجنگ کے ساتھ اپنے تعلقات کا فائدہ اٹھائے اور بیک وقت واشنگٹن کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرے خاص طور پر جب پاکستان اور امریکا کے تعلقات کشیدہ ہوں۔

عامر رانا کے نزدیک محسن نقوی کے بارے میں چین کا نظریہ ہے کہ وہ پاکستان کی سویلین حکومت کا اہم حصہ ہونے کے بجائے پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے قریبی ہیں۔ اگر محسن نقوی ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریبِ حلف برداری کے دوران واشنگٹن میں موجود تھے تو چین اسے مختلف نقطہ نظر سے دیکھتا ہے یعنی اس کے نزدیک پاکستان آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ذریعے اپنی مالیاتی امداد کو برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ ان کی بنیادی تشویش یہ ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں پر پاکستان کا انحصار سی پیک کو قرضوں کی ادائیگی سے لے کر پروجیکٹ کی رازداری کو برقرار رکھنے جیسے متعدد عوامل متاثر ہوتے ہیں۔

پاکستان کو چین اور مغرب کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن قائم کرنے میں جدوجہد کا سامنا ہے۔ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے چند قریبی مشیروں بشمول سابق سفارتکاروں اور جنرلز یہ کہہ کر چین کے ساتھ قریبی تعلقات کی وکالت کرتے ہیں کہ چین کا عروج سوویت یونین کے عروج سے مختلف ہے۔ تاہم اسٹیبلشمنٹ کو محض ایک عالمی طاقت پر انحصار کرنے کے طویل مدتی نتائج اور مضمرات کا سامنا کرنا ہے خاص طور پر اس سوال کے پیش نظر کہ اس طرح کا تعلق اسٹریٹجک، سیاسی اور اقتصادی تعاون میں کیسے کارآمد ثابت ہوگا۔ طالبان حکومت اور اس کی وسیع تر اسٹریٹجک فریم ورک جیسے چیلنجز کو بھی سنگین بناتا ہے۔ ان پیچیدگیوں کے باوجود چین قراقرم ہائی وے فیز ٹو اور ایم ایل ون پر رواں سال کام کا آغاز کرے گا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کے ساتھ اپنے تعلقات پاکستان کے تعلقات کا امریکا کے پاکستان ا بیجنگ کے چین کے

پڑھیں:

ایران اور امریکی جنگی جہاز ایک بار پھر آمنے سامنے ، صورتحال کشیدہ

بحر عمان میں ایک بار پھر ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی کا واقعہ پیش آیا، جب ایرانی نیوی کا ہیلی کاپٹر اور امریکی جنگی جہاز یو ایس ایس فٹز جیرالڈ آمنے سامنے آ گئے۔ چند لمحوں کے لیے صورتحال خاصی کشیدہ ہو گئی، جو بالآخر امریکی جہاز کی جانب سے راستہ بدلنے پر ختم ہو گئی۔

ترک خبر رساں ادارے انادولو کے مطابق یہ واقعہ صبح 10 بجے کے قریب پیش آیا، جب امریکی جنگی جہاز نے مبینہ طور پر ایران کے زیر نگرانی سمندری حدود میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ اس پر ایران کے تھرڈ نیول ریجن (نابوت) کے ایئر یونٹ نے فوری ردعمل دیا۔

ایرانی میڈیا کے مطابق، ایرانی ہیلی کاپٹر نے امریکی جنگی جہاز کو ایرانی حدود کی جانب بڑھنے پر تنبیہ کی اور جہاز کے اوپر پرواز کرتے ہوئے سخت پیغام دیا کہ وہ اپنا راستہ تبدیل کرے۔

ایرانی فوج کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ دوسری تنبیہ کے بعد ایئر ڈیفنس کمانڈ نے بھی صورت حال کا نوٹس لیا اور واضح کیا کہ ایرانی ہیلی کاپٹر دفاعی حکمتِ عملی کے تحت کارروائی کر رہا ہے۔ بالآخر امریکی جنگی جہاز نے جنوبی سمت میں راستہ بدل لیا، اور ایرانی پائلٹ نے کامیابی سے اپنا مشن مکمل کر لیا۔

ابھی تک امریکی فوج کی جانب سے واقعے پر کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا اور نہ ہی ایرانی دعوؤں کی تردید کی گئی ہے۔

واضح رہے کہ جون 2025 میں ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ جنگ کے بعد امریکہ نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کیے تھے، جس پر ایران نے سخت ردعمل دیا تھا۔ اُس کشیدگی کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ دونوں ممالک براہ راست ایک دوسرے کے قریب آئے ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق یہ واقعہ خطے میں بڑھتے ہوئے تناؤ کی نشاندہی کرتا ہے، اور مستقبل میں کسی بھی غلط فہمی یا اشتعال سے بڑا تنازع پیدا ہونے کا خدشہ موجود ہے۔

Post Views: 5

متعلقہ مضامین

  • بیجنگ میں فیلڈ مارشل کی چینی وزیر خارجہ سے ملاقات، قریبی تعاون جاری رکھنے پر اتفاق
  • پاکستان اور مصر کے درمیان تجارتی تعلقات کے فروغ پر اتفاق
  • ہمت ہے توپکڑ کردکھائو،معروف ٹک ٹاکرکا پنجاب پولیس کو کھلا چیلنج، پستول کے ساتھ ویڈیو وائرل
  • وزیراعظم سے برطانوی ہائی کمشنر کی ملاقات، دو طرفہ تعلقات،علاقائی صورتحال پر تبادلہ خیال
  • گلوبل ہیلتھ فورم 2025 میں شرکت کیلیے وزیر صحت مصطفیٰ کمال بیجنگ روانہ
  • ایران اور امریکی جنگی جہاز ایک بار پھر آمنے سامنے ، صورتحال کشیدہ
  • عاشر وجاہت نے ہانیہ عامر سے دُوری کیوں اختیار کی؟
  • وزیراعظم سے برطانوی ہائی کمشنر جین میریٹ کی ملاقات، دو طرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال
  • وزیراعظم سے برطانوی ہائی کمشنر کی ملاقات، دوطرفہ تعلقات اور علاقائی صورتحال پر تبادلہ خیال
  • اسحاق ڈار کی امریکی وزیرخارجہ سے ملاقات طے، اہم امور پر بات چیت کا امکان