Jasarat News:
2025-10-04@23:50:10 GMT

پیکا اور جسارت

اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT

پیکا اور جسارت

زبان بندی ایوب خان سے لے کر آج تک جاری ہے۔ ہر حکمران چاہے اس کا تعلق ووٹ سے ہو یا بندوق سے نہیں چاہتا کہ اس کی رائے کے برعکس کوئی بات کی جائے یا ہاں میں ہاں نہ ملائی جائے، یہ بندوق والے حکمران مشرق وسطیٰ میں اپنا طویل دور گزار کر جب رخصت ہوئے یا رخصت کر دیے گئے تو کوئی ان کے لیے رویا نہیں بلکہ شایانے بجائے گئے۔ زبان بندی کس دور میں نہیں ہوئی یہ تمیز کیے بغیر کہ دور جمہوریت کا تھا یا آمریت کا یہ ہر دور میں ہوئی ہے۔ جسارت کو بھی جمہوریت اور آمریت کے دور میں سچ لکھنے کی متعدد بار سزا دی گئی۔ ایوب خان، بھٹو دور، ضیاء الحق دور غرض ہر دور میں جسارت کسی سے برداشت نہیں ہوا۔ مگر جسارت‘ جسارت کرتا رہا اور اس نے جسارت کرنا نہیں چھوڑی۔ ہمیں دیگر اخبارات کے بارے میں کچھ نہیں کہنا ہاں البتہ کچھ واقعات ہیں جنہیں یاد دلانا بہت ضروری ہے۔ ان دنوں پیکا قانون کے خلاف بہت سی آراء دی جارہی ہیں بات احتجاج اور مظاہروں تک بھی جاپہنچی ہے۔ اپنے نکتہ نظر کے حق پر امن رہ کر قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے رائے عامہ ہموار کرنا، آئینی حق تسلیم کیا گیا ہے لیکن جھوٹ لکھنا، جھوٹ پھیلانا کیوں قانونی اور آئینی حق تسلیم کیا جائے، جھوٹ صرف یہی نہیں ہے کہ یہ کام اپوزیشن کے ہی حصے میں آیا ہے۔ جھوٹ حکومت بھی بول سکتی ہے۔ نائن الیون کو کیا ہوا تھا؟ ایک حکومت نے ہی بیانیہ بنایا تھا اور پوری دنیا اس نے اپنے ساتھ ملا لی۔ پاکستان کے اس وقت کے حکمران نے کہا آپ کے سارے مطالبات تسلیم کرتے ہیں حتیٰ کہ لاجسٹک سپورٹ بھی فراہم کی گئی۔ اس لاجسٹک سپورٹ کی حد کیا تھی؟ اس وقت کے حکمران کے ساتھ رہنے والے قوم کو ذرا سچ تو بتادیں کہ اس کی حد کیا تھی؟ کوئی نہیں بتائے گا۔

دنیا بھر میں یہی وتیرہ ہے کہ جھوٹ پھیلانا ہو تو سب آگے آگے ہوں گے۔ اسرائیل کیا کرتا ہے، کیا یہ سچ پھیلا رہا ہے؟ آج دنیا بھر میں دو ہی بیانیے ہیں جو سچ بھی ہیں مگر دنیا انہیں تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے اقوام متحدہ بھی اس پر توجہ دینے سے گریز کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ پہلا بیانیہ فلسطین کا ہے، حماس کا ہے، یہ بیانیہ کون خرید رہا ہے؟ پاکستان کے کتنے یوب ٹیوبرز ہیں جنہوں نے اس بیانیے کو خریدا اور دنیا کے سامنے پیش کیا؟ کتنے ہیں؟ کسی کو یاد ہیں؟ دوسرا بیانیہ مقبوضہ کشمیر کے حریت پسندوں کا ہے، ان کا بیانیہ کتنے یو ٹیوبرز نے خریدا ہے اور دنیا کے سامنے پیش کیا ہے؟ پاکستان کے بڑے بڑے یو ٹیوبرز کا نام تو لیں! کتنے ہیں جنہوں نے کشمیری حریت پسندوں کا بیانیہ خریدا ہے اور دنیا کے سامنے پیش کیا ہے؟ انہیں علم ہے اس بیانیے میں پیسا نہیں ہے اس لیے ہاتھ نہیں ڈالتے۔ ہاں جسارت نے یہ دونوں بیانیے خریدے ہیں اور اپنی بساط کی حد تک دنیا کے سامنے پیش بھی کیا ہے اور کر بھی رہا ہے۔ دنیا جان لے کہ اس جہاں میں فلسطینی مجاہدین، عفت مآب خواتین، بچوں، بزرگوں کا بیانیہ فلسطینی شہداء کا بیانیہ، اسماعیل ہانیہ کا بیانیہ ہی چلے گا۔ کشمیری مجاہدین، حریت پسندوں، سید علی گیلانی اور کشمیری شہداء کا ہی بیانیہ چلے گا۔ عالم اسلام کے اتحاد کا بیانیہ ہے یہی چلے گا۔ مسجد کے منبر اور محراب کا بیانیہ ہے یہی چلے گا۔ باقی سب بیانیے دفن ہوجائیں گے۔ اس بیانیے کے لیے دنیا میں کہاں لاجسٹک سپورٹ ہے؟ یہ ہمارا اور دنیا کا امتحان ہے یہ ہمارے اخلاق اور ہمارے ایمان کا بھی امتحان ہے یہ ہمای جرأت اور بہادی کا امتحان ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کتنے ہیں جو اس امتحان میں پورا اترنے کی کوشش میں ہیں۔

جہاں تک پیکا کا تعلق ہے پیکا سے اس شخص کو خوف کھانے کی ضرورت ہی نہیں جو سچ لکھتا ہے۔ حقائق بیان کرتا ہے سنسنی نہیں پھیلاتا۔ سچ کو تو خوف ہی نہیں ہوتا۔ ایک ماضی کا قصہ بھی سن لیجیے کہ سنسنی خیزی کیا ہوتی اور کس طرح پھیلائی جاتی ہے شبیر احمد خان اسلامی جمعیت طلبہ کے اس وقت کے ناظم اعلیٰ تھے انہیں لاہور سے پشاو جانا تھا ان کے بورڈنگ کارڈ کے لیے برادر احسن اختر ناز ان کا بریف کیس لے کر ائر پورٹ گئے اور اسکین کرایا بریف کیس میں شاید شبیر احمد خان کا لائسنس یافتہ پستول بھی رکھا تھا مگر ہوا کیا؟ ایک اخبار نے خبر دی کہ جہاز اغواء کرنے کا منصوبہ بے نقاب ہوگیا اور تفصیلات میں یہی فلاں فلاں…‘ کیا بات ہے اس اخبار کی لیکن جب اسلامی جمعیت طلبہ نے رد عمل دیا کہ یہی اخبار زمین پر لیٹ گیا اور جس کو خوش کرنا تھا اس کی بھی سبکی ہوئی۔ اگر آج پیکا لایا گیا ہے تو یہ نئی بات نہیں ہے۔ ذرائع ابلاغ کو سنسنی خیزی کے کھیل سے باہر نکلنا چاہیے اور جو سچ ہے اسے سامنے لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ آج کیا ہورہا ہے یہی تو ہورہا ہے کہ بس ایک سرا پکڑا لے کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ رہ گئی بات آزادی صحافت کی، آزادی صحافت کیا ہے؟ ایک رپورٹر کی آزادی صحافت کی سب سے پہلی رکاوٹ تو اس کا اپنا ہی ادارہ ہے۔ حکومت تو بعد میں آتی ہے۔ اگر کوئی اخبار اپنے رپورٹر کی خبر نہ شائع کرنا چاہے تو کیا رپورٹر اپنے اخبار کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کرے گا؟ دھرنا دے گا۔ بس اس سوال کا جواب دیجیے رہ گئی صحافتی تنظیمیں ان تنظیموں کو تو بس کام چاہیے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: دنیا کے سامنے پیش کا بیانیہ اور دنیا نہیں ہے کیا ہے رہا ہے

پڑھیں:

عوامی جمہوریہ چین قیام سے سپر پاور تک کا سفر

اسلام ٹائمز: یہ فقط 76 برس کے عرصے میں تباہ شدہ معاشرے سے مادی ترقی کی امتیازی حیثیت تک پہنچنے کی ایک بے مثال داستان ہے، جو چینی قوم نے اپنی ہمت، محنت اور ذہانت سے رقم کی۔ ہانک کانگ، تائیوان چین کے حصے تھے، تاہم چین نے ان دونوں خطوں کے حصول کے معاملے کو سرد خانے کے سپرد کر دیا اور قوم ایک بڑے ہدف کے لیے سرگرم عمل رہی۔ برطانیہ سے معاہدے کے نتیجے میں ہانک کانگ از خود چین کی جانب لوٹ آیا۔ تائیوان کے معاملے پر چین کوئی فعال پیشرفت تو نہیں کرتا، تاہم اپنے اصولی موقف سے بھی پیچھے نہیں ہٹتا۔ اب چین اس حیثیت میں ہے کہ وہ ممالک جو تائیوان کو ایک الگ ریاست تسلیم کرتے ہیں، چین ان سے تجارتی اور سفارتی روابط کو منقطع کر لے۔ یہی سبب ہے کہ تائیوان چین سے جدا ہونے کے باوجود آج تک ایک الگ ریاست کی حیثیت کو عالمی سطح پر نہیں منوا سکا۔ تحریر: سید اسد عباس

میری نظر میں کالم کو واضح، مدلل اور حقیقت پر مبنی ہونا چاہیئے، اگر کسی بھی کالم میں یہ خصوصیات نہیں ہیں تو وہ الفاظ کا انبار ہے، جو سوشل میڈیا کی دنیا میں ذہن پر ایک اضافی بوجھ کے سوا کچھ نہیں۔ کسی بھی سیاسی واقعہ، خبر کے بارے میں جب کچھ لکھا جائے تو اس میں ایسی بات ضرور ہونی چاہیئے، جو قاری کو سوچنے پر مجبور کرے۔ حال دل! یہ ہے کہ انسانی معاشرے کے متعدد مسائل نگاہوں کے سامنے کسی عفریت کی صورت میں آتے ہیں، دماغ ان کے حل کے بارے میں ایک رائے قائم کرتا ہے اور پھر ایک بڑا عفریت چھوٹے عفریت کی جگہ لے لیتا ہے۔ ان مسائل میں سے مسئلہ فلسطین ، امت مسلمہ کے عوام کی بے بسی، مسلم حکمرانوں کی بے حسی ایسی حقیقتیں ہیں، جن کا کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا۔ تقریباً بیس لاکھ انسان گذشتہ دو برس سے آگ، خون، بھوک، پیاس، بیماری اور جبری نقل مکانی کی لپیٹ میں ہیں اور دنیا ان کی بے بسی کا تماشہ دیکھ رہی ہے۔

دل تو چاہتا ہے کہ ٹرمپ کے امن منصوبے پر لکھوں، آٹھ مسلم ممالک کی اس معاہدے کے حوالے سے تجاویز کو زیر غور لاؤں، پاکستان میں ٹرمپ کے بیان کہ پاکستان کے وزیر اعظم اور فیلڈ مارشل اس امن منصوبے کے حامی ہیں، اس پر پیدا ہونے والی بے چینی پر غور کروں، مگر دماغ کہتا ہے کہ جو قوم اپنے آئین کی حفاظت نہیں کرسکتی، وہ کسی دوسرے کی کیا مدد کرے گی۔؟ کبھی سوچتا ہوں کہ ہمیں غزہ پر بے چینی کا کام ان اقوام پر چھوڑ دینا چاہیئے، جو کچھ کرسکنے کی حیثیت میں ہیں۔ شائد ہمارا دشمن بھی یہی سوچتا ہو کہ کھاتے قرض لے کر ہیں، اپنے ملک کی سکیورٹی سنبھالی نہیں جاتی اور چلے ہیں دنیا کے مسائل حل کرنے۔ بہرحال جیسے بھی ہو، مظلوم کی حمایت نہیں رکنی چاہیئے اور یہ حمایت بصیرت کی بنیاد پر ہو، عادت کے تحت نہیں۔ حمایت مظلوم کا رسم ہونا بھی برا نہیں ہے، تاہم اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ حمایت آپ کے اخلاق کو تو بہتر بناتی ہے، تاہم اس سے مظلوم کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

میں آج فلسطین، مسلم امہ، مسلم حکمران، صمود فلوٹیلا پر کچھ نہیں لکھ رہا، جو الفاظ ادا کیے، ان کو شقشقیہ سمجھ کر درگرز فرمائیں۔ میرا آج کا موضوع معاشروں میں انقلاب اور ان کے اسباب و اہداف ہیں۔ اس تحریر کا سبب پاکستان کے ایک موقر انگریزی روزنامے "دی نیوز" کی چند روز قبل کی اشاعت میں بیسویں صدی کے انقلابوں کے حوالے سے شائع ہونے والا ایک کالم ہے۔ کالم نویس لکھتے ہیں: "بیسویں صدی کو انقلابوں کا دور کہا جاتا ہے، جس کا آغاز 1917ء کی روسی بالشویک انقلاب سے ہوا اور بعد ازاں مارکسزم سے متاثر کئی ممالک میں سیاسی، معاشی اور ثقافتی سطح پر بڑی تبدیلیاں آئیں۔ اسی صدی میں سامراجی نظام کے خاتمے سے کئی ایشیائی و افریقی ریاستیں آزاد ہوئیں، جن میں بھارت اور پاکستان بھی شامل ہیں، تاہم عوامی جمہوریہ چین کا قیام ان سب میں ایک بڑا واقعہ ہے۔

روسی انقلاب نے سوویت یونین کو جنم دیا، جو نصف صدی تک دنیا کی ایک سپر پاور رہا، مگر 1991ء میں ختم ہوگیا۔ کیوبا کا انقلاب علامتی حیثیت ضرور رکھتا ہے، مگر آج اس کا اثر نہ ہونے کے برابر ہے۔ 1979ء کا ایرانی انقلاب ایک تاریخی موڑ تھا، جس نے مذہب کو تبدیلی کی قوت کے طور پر پیش کیا اور آیت اللہ خمینی کی واپسی نے مشرقِ وسطیٰ میں اسلامی مزاحمتی تحریکوں کو نئی جان بخشی۔" وہ مزید لکھتے ہیں: "چین کی انقلابی جدوجہد ماؤ کی قیادت میں کسانوں اور مسلح مزاحمت پر مبنی تھی۔ صدیوں پرانی تہذیب کے حامل اس ملک نے 19ویں صدی میں زوال کا سامنا کیا، لیکن 1949ء کے بعد آزادی اور خود مختاری حاصل کی۔ مغربی ناقدین ماؤ اور کمیونسٹ پارٹی کو آمریت اور انتہاء پسندی کا الزام دیتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ انہی انقلابی اقدامات نے صدیوں کی ذلت کے بعد چین کو ایک مضبوط قوم بنایا اور اقتصادی ترقی کی بنیاد رکھی۔

زرعی اصلاحات اور محنت کش صنعت کاری سے معیشت میں تیزی آئی اور 1960ء کی دہائی میں 3.4 فیصد سالانہ ترقی 1970ء کی دہائی میں 7.4 فیصد تک پہنچ گئی۔ بعد کے عشروں میں چین نے اوسطاً 10 فیصد سالانہ ترقی کے ساتھ دنیا کی دوسری بڑی معیشت، سب سے بڑا برآمد کنندہ، سب سے بڑا متوسط طبقہ اور دنیا کی سب سے بڑی فوجی قوتوں میں جگہ بنا لی۔ آج چین اقتصادی اور عسکری دونوں لحاظ سے ایک عالمی طاقت ہے۔ دنیا کی دوسری بڑی معیشت، دنیا کا سب سے بڑا صنعتی ملک جو عالمی پیداوار کا 30 فیصد فراہم کرتا ہے، دنیا کی دوسری بڑی صارف منڈی، دنیا کے سب سے بڑے متوسط طبقے کا حامل ملک، سب سے بڑا برآمد کنندہ، دوسرا بڑا درآمد کنندہ اور 140 سے زائد ممالک و خطوں کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔"

میں اس موضوع پر ایک عرصے سے سوچ رہا ہوں، چین میں بر سر اقتدار جماعت کو دیکھا جائے تو وہ سرمایہ دارانہ نظام اور سامراجیت کی مخالف جماعت ہے، چین کا مقابلہ اسی قوت سے ہے، تاہم چین نے گذشتہ 76 برسوں میں اس خاموشی سے کام کیا کہ اب کوئی اسے روکنے والا نہیں ہے۔ 90 کی دہائی کی بات ہے، میں سی این این کی نشریات باقاعدہ طور پر دیکھا کرتا تھا، امریکی نشریاتی ادارہ چین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، چین میں جمہور مخالف اقدامات کے حوالے سے باقاعدہ ڈاکومنٹریز پیش کرتا تھا۔ امریکیوں کو اندازہ تھا کہ چین مستحکم ہو رہا ہے، تاہم دوسری بڑی معیشت یا فوجی قوت بن رہا ہے، یہ شاید ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ ممکن ہے مغرب یہ سمجھتا ہو کہ چین اگر کچھ بن بھی جائے، وہ تنہا ہمارے عالمی تسلط کے لیے خطرہ نہیں ہوسکتا، کیونکہ اس کا انقلاب یا فکر نظریاتی توسیع کے بجائے قومی استعداد کے فروغ پر مرکوز ہے۔

ممکن ہے کہ بعض مغربی دانشور یہ سمجھتے ہوں کہ چین آج نہیں تو کل ضرور ہمارے مقابل آکھڑا ہوگا، تاہم ان کی بات کو زیادہ اہمیت نہ دی گئی ہو یا پھر چین کا نظام کسی بھی اقدام کو روکنے کے لیے بروقت حرکت میں آیا ہو۔ بہرحال یہ فقط 76 برس کے عرصے میں تباہ شدہ معاشرے سے مادی ترقی کی امتیازی حیثیت تک پہنچنے کی ایک بے مثال داستان ہے، جو چینی قوم نے اپنی ہمت، محنت اور ذہانت سے رقم کی۔ ہانک کانگ، تائیوان چین کے حصے تھے، تاہم چین نے ان دونوں خطوں کے حصول کے معاملے کو سرد خانے کے سپرد کر دیا اور قوم ایک بڑے ہدف کے لیے سرگرم عمل رہی۔ برطانیہ سے معاہدے کے نتیجے میں ہانک کانگ از خود چین کی جانب لوٹ آیا۔ تائیوان کے معاملے پر چین کوئی فعال پیش رفت تو نہیں کرتا، تاہم اپنے اصولی موقف سے بھی پیچھے نہیں ہٹتا۔ اب چین اس حیثیت میں ہے کہ وہ ممالک جو تائیوان کو ایک الگ ریاست تسلیم کرتے ہیں، چین ان سے تجارتی اور سفارتی روابط کو منقطع کر لے۔ یہی سبب ہے کہ تائیوان چین سے جدا ہونے کے باوجود آج تک ایک الگ ریاست کی حیثیت کو عالمی سطح پر نہیں منوا سکا۔ باقی باتیں پھر کسی تحریر میں۔(ان شاء اللہ)

متعلقہ مضامین

  • گریٹا تھنبرگ اور فلسطین
  • غزہ ، انسانیت کی شکست کا استعارہ
  • جماعت اسلامی کندھکوٹ کا اسرائیل کیخلاف احتجاج
  • محرابپور،چرواہا کینال میں ڈوب گیا
  • سجاول،سنی رابطہ کونسل کے تحت اسرائیل مردہ باد ریلی کا انعقاد
  • عوامی جمہوریہ چین قیام سے سپر پاور تک کا سفر
  • نبی کریم ﷺ کی وصیت اور آج کا چین
  • گریٹا تھن برگ: صنفِ نازک میں مردِ آہن
  • عظمیٰ بخاری کا شرمیلا فاروقی کو بیان پر مناظرے کا چیلنج
  • صحافی بیرون ملک میں پاکستان کا بیانیہ اور مثبت تشخص پیش کر رہے ہیں؛ عطا تارڑ