Jasarat News:
2025-06-06@08:14:31 GMT

پیکا اور جسارت

اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT

پیکا اور جسارت

زبان بندی ایوب خان سے لے کر آج تک جاری ہے۔ ہر حکمران چاہے اس کا تعلق ووٹ سے ہو یا بندوق سے نہیں چاہتا کہ اس کی رائے کے برعکس کوئی بات کی جائے یا ہاں میں ہاں نہ ملائی جائے، یہ بندوق والے حکمران مشرق وسطیٰ میں اپنا طویل دور گزار کر جب رخصت ہوئے یا رخصت کر دیے گئے تو کوئی ان کے لیے رویا نہیں بلکہ شایانے بجائے گئے۔ زبان بندی کس دور میں نہیں ہوئی یہ تمیز کیے بغیر کہ دور جمہوریت کا تھا یا آمریت کا یہ ہر دور میں ہوئی ہے۔ جسارت کو بھی جمہوریت اور آمریت کے دور میں سچ لکھنے کی متعدد بار سزا دی گئی۔ ایوب خان، بھٹو دور، ضیاء الحق دور غرض ہر دور میں جسارت کسی سے برداشت نہیں ہوا۔ مگر جسارت‘ جسارت کرتا رہا اور اس نے جسارت کرنا نہیں چھوڑی۔ ہمیں دیگر اخبارات کے بارے میں کچھ نہیں کہنا ہاں البتہ کچھ واقعات ہیں جنہیں یاد دلانا بہت ضروری ہے۔ ان دنوں پیکا قانون کے خلاف بہت سی آراء دی جارہی ہیں بات احتجاج اور مظاہروں تک بھی جاپہنچی ہے۔ اپنے نکتہ نظر کے حق پر امن رہ کر قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے رائے عامہ ہموار کرنا، آئینی حق تسلیم کیا گیا ہے لیکن جھوٹ لکھنا، جھوٹ پھیلانا کیوں قانونی اور آئینی حق تسلیم کیا جائے، جھوٹ صرف یہی نہیں ہے کہ یہ کام اپوزیشن کے ہی حصے میں آیا ہے۔ جھوٹ حکومت بھی بول سکتی ہے۔ نائن الیون کو کیا ہوا تھا؟ ایک حکومت نے ہی بیانیہ بنایا تھا اور پوری دنیا اس نے اپنے ساتھ ملا لی۔ پاکستان کے اس وقت کے حکمران نے کہا آپ کے سارے مطالبات تسلیم کرتے ہیں حتیٰ کہ لاجسٹک سپورٹ بھی فراہم کی گئی۔ اس لاجسٹک سپورٹ کی حد کیا تھی؟ اس وقت کے حکمران کے ساتھ رہنے والے قوم کو ذرا سچ تو بتادیں کہ اس کی حد کیا تھی؟ کوئی نہیں بتائے گا۔

دنیا بھر میں یہی وتیرہ ہے کہ جھوٹ پھیلانا ہو تو سب آگے آگے ہوں گے۔ اسرائیل کیا کرتا ہے، کیا یہ سچ پھیلا رہا ہے؟ آج دنیا بھر میں دو ہی بیانیے ہیں جو سچ بھی ہیں مگر دنیا انہیں تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے اقوام متحدہ بھی اس پر توجہ دینے سے گریز کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ پہلا بیانیہ فلسطین کا ہے، حماس کا ہے، یہ بیانیہ کون خرید رہا ہے؟ پاکستان کے کتنے یوب ٹیوبرز ہیں جنہوں نے اس بیانیے کو خریدا اور دنیا کے سامنے پیش کیا؟ کتنے ہیں؟ کسی کو یاد ہیں؟ دوسرا بیانیہ مقبوضہ کشمیر کے حریت پسندوں کا ہے، ان کا بیانیہ کتنے یو ٹیوبرز نے خریدا ہے اور دنیا کے سامنے پیش کیا ہے؟ پاکستان کے بڑے بڑے یو ٹیوبرز کا نام تو لیں! کتنے ہیں جنہوں نے کشمیری حریت پسندوں کا بیانیہ خریدا ہے اور دنیا کے سامنے پیش کیا ہے؟ انہیں علم ہے اس بیانیے میں پیسا نہیں ہے اس لیے ہاتھ نہیں ڈالتے۔ ہاں جسارت نے یہ دونوں بیانیے خریدے ہیں اور اپنی بساط کی حد تک دنیا کے سامنے پیش بھی کیا ہے اور کر بھی رہا ہے۔ دنیا جان لے کہ اس جہاں میں فلسطینی مجاہدین، عفت مآب خواتین، بچوں، بزرگوں کا بیانیہ فلسطینی شہداء کا بیانیہ، اسماعیل ہانیہ کا بیانیہ ہی چلے گا۔ کشمیری مجاہدین، حریت پسندوں، سید علی گیلانی اور کشمیری شہداء کا ہی بیانیہ چلے گا۔ عالم اسلام کے اتحاد کا بیانیہ ہے یہی چلے گا۔ مسجد کے منبر اور محراب کا بیانیہ ہے یہی چلے گا۔ باقی سب بیانیے دفن ہوجائیں گے۔ اس بیانیے کے لیے دنیا میں کہاں لاجسٹک سپورٹ ہے؟ یہ ہمارا اور دنیا کا امتحان ہے یہ ہمارے اخلاق اور ہمارے ایمان کا بھی امتحان ہے یہ ہمای جرأت اور بہادی کا امتحان ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کتنے ہیں جو اس امتحان میں پورا اترنے کی کوشش میں ہیں۔

جہاں تک پیکا کا تعلق ہے پیکا سے اس شخص کو خوف کھانے کی ضرورت ہی نہیں جو سچ لکھتا ہے۔ حقائق بیان کرتا ہے سنسنی نہیں پھیلاتا۔ سچ کو تو خوف ہی نہیں ہوتا۔ ایک ماضی کا قصہ بھی سن لیجیے کہ سنسنی خیزی کیا ہوتی اور کس طرح پھیلائی جاتی ہے شبیر احمد خان اسلامی جمعیت طلبہ کے اس وقت کے ناظم اعلیٰ تھے انہیں لاہور سے پشاو جانا تھا ان کے بورڈنگ کارڈ کے لیے برادر احسن اختر ناز ان کا بریف کیس لے کر ائر پورٹ گئے اور اسکین کرایا بریف کیس میں شاید شبیر احمد خان کا لائسنس یافتہ پستول بھی رکھا تھا مگر ہوا کیا؟ ایک اخبار نے خبر دی کہ جہاز اغواء کرنے کا منصوبہ بے نقاب ہوگیا اور تفصیلات میں یہی فلاں فلاں…‘ کیا بات ہے اس اخبار کی لیکن جب اسلامی جمعیت طلبہ نے رد عمل دیا کہ یہی اخبار زمین پر لیٹ گیا اور جس کو خوش کرنا تھا اس کی بھی سبکی ہوئی۔ اگر آج پیکا لایا گیا ہے تو یہ نئی بات نہیں ہے۔ ذرائع ابلاغ کو سنسنی خیزی کے کھیل سے باہر نکلنا چاہیے اور جو سچ ہے اسے سامنے لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ آج کیا ہورہا ہے یہی تو ہورہا ہے کہ بس ایک سرا پکڑا لے کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ رہ گئی بات آزادی صحافت کی، آزادی صحافت کیا ہے؟ ایک رپورٹر کی آزادی صحافت کی سب سے پہلی رکاوٹ تو اس کا اپنا ہی ادارہ ہے۔ حکومت تو بعد میں آتی ہے۔ اگر کوئی اخبار اپنے رپورٹر کی خبر نہ شائع کرنا چاہے تو کیا رپورٹر اپنے اخبار کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کرے گا؟ دھرنا دے گا۔ بس اس سوال کا جواب دیجیے رہ گئی صحافتی تنظیمیں ان تنظیموں کو تو بس کام چاہیے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: دنیا کے سامنے پیش کا بیانیہ اور دنیا نہیں ہے کیا ہے رہا ہے

پڑھیں:

متوقع بدترین تباہ کن اور مہلک ترین جنگ عظیم

گرد و پیش کے حالات واضح طور پر بتا رہے ہیں کہ دنیا تباہی کےدہانے پر ہے۔ تقسیم شدہ دنیا جو آنکھوں کے سامنے بکھرنے کا عندیہ دے رہی ہے، ہم ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں۔ جہاں آج کی دنیا خطرناک حد تک تقسیم ہو چکی ہے۔ معیشت، سیاست، عسکریت، اور روحانیت ہر سطح پر۔ عظیم عالمی طاقتیں امریکہ، برطانیہ، اور یورپ اندرونی طور پر متزلزل ہو چکی ہیں۔دوسری عالمی جنگ کے بعد قائم ہونے والا عالمی نظام بکھر رہا ہے۔ہربراعظم میں بے یقینی، خوف، اور عدم استحکام بڑھتا جا رہا ہے۔یہ اشارے اب چھپے ہوئے نہیں، بلکہ کھلے، خوفناک اور عالمگیر ہو چکے ہیں۔ مغرب میں اقتصادی زوال اور سیاسی مایوسی نمایاں ہور ہی ہے،برطانیہ مییں مہنگائی بلند ترین سطح پر۔ عوامی سہولیات زوال پذیر، NHS کی سروس تاخیر اور مالی بدنظمی ، بے گھر افراد میں اضافہ۔ نوجوان طبقے میں بے روزگاری اور مایوسی۔ امير افراد كا برطانیہ سے اپنی دولت سمیت دوسرے ممالک خاص كدوبئ ميں منتقل ہونا، فوج خفیہ طور پر بڑی جنگ کی تیاری میں مصروف اور اب پریس نے بھی بڑی جنگ کے آغاز كے تبصرے لکھنے شروع کردیئے ہیں اور برطانوی وزیر اعظم نے اپنے بیان میں واضح طور پر کہا کہ ہم جنگی تیاری کررہے ہیں امریکہ شدید سیاسی تقسیم ،قوم اندرونی خلفشار میں مبتلا۔ ٹرمپ کی واپسی کے ساتھ تجارتی جنگیں، تنہا پسندی، اور تعصب کاظہور۔ یورپ و برطانیہ سے تعلقات میں تناؤ۔ اخلاقی اقدار، خاندانی نظام اور سماجی اعتماد کا زوال۔یورپ میںکورونا و یوکرین جنگ کے بعد جمود، توانائی بحران، عوامی احتجاج اور اقتصادی دباو ميں، قوم پرستی اور پاپولزم میں اضافہ۔ نیٹو میں اندرونی اختلافات، فوجی اخراجات معیشت پر بوجھ۔جنگ و خونریزی۔ یوکرین، غزہ اور مشرقِ وسطیٰ، یوکرین-روس طویل جنگ ، امن کا کوئی امکان نہیں، لاکھوں اموات۔ حاليہ یو کرین حملہ نے روس کو اشتعال دے کر جوابی بڑے حملے پر مجبور کیا تاکہ برطانیہ اور یورپ کو روس کے خلاف کھلے اعلان جنگ کا جواز مل جائے۔ غزہ میں اسرائیلی نسل کشی 55000 شہادتیں،بستیاں راکھ کا ڈھیر بنا دیں ، ہسپتالوں مسجدوں گرجا گھروں سکولوں تک کو صہيونی افواج نے تباہ برباد کردیا، مگرعالمی ضمیر خاموش اور مغربى ممالک خاص كر امریکہ ، برطانیہ اور یورپ نے اسلحہ اور اپنی شرمناک حمايت اسرائیل کے وحشيانہ اور غير قانونی و غير انسانی اقدامات كکے ساتھ رکھی۔ اب چند دن سے اسرائیل سے جنگ روکنے کو کہنا شروع کیا حالانکہ بین الاقوامی اداروں اور اعلیٰ قانونی عدالت کے اسرائیلی حکومت کے خلاف فیصلوں کو بھی نظر انداز كرديا۔ ایران پر حملے کی اسرائیلی دھمکیوں سے پورے خطے کو آگ میں جھونکنے کا خطرہ جس سے شام، عراق، حتیٰ کہ كپاکستان متاثر ہو سکتے ہیں۔ایشیاء میں کشیدگی بھارت-پاکستان، کشمیر بدستور ایٹمی فلیش پوائنٹ پر، بھارتی حکومتی مذہبی انتہا پسندی، کسی بھی غلطی سے جنگ کا اندیشہ ہے۔ چین، عالمی برتری کی جانب گامزن، تائیوان پر کشیدگی، انڈو پیسفک میں عسکری سرگرمیاں۔ اخلاقی بحران۔ دنیا اپنی روح کھو چکی ہے۔ دینی ادارے کمزور یا کرپشن کا شکار۔ مادّہ پرستی، شہوت پرستی، اسکرین کی دنیا میں گمشدگی۔ سچائی بے قیمت، جھوٹ، پروپیگنڈا، اور طاقت کا راج۔ فطرت کا انتقام ، آفات، ماحولیاتی تبدیلیاں، انسانی ظلم کا نتیجہ۔یہ صرف سیاسی بحران نہیں بلکہ روح کا زوال ہے۔مثبت مثال صرف ترکیہ کا مصالحتی عالمی کردار قابل تحسین ہے کہ اس عالمی افراتفری کے دوران، ترکیہ نے ایک روشن، مثبت غير جانب دارانہ اور مصالحتی کردار روس و یوکرین میں ادا کیا ہے۔ ترکیہ نے روس-یوکرین تنازع میں ثالثی، ایران اور مغرب کے درمیان نرمی پیدا کرنے، اور مسلم دنیا و مغربی طاقتوں کے درمیان پل بننے کی بھرپور کوشش کی۔یہ تمام مثبت کوششیں صدر رجب طیب اردوان کی قیادت، حکمت اور عالمی سطح پر امن کی خواہش کا مظہر ہیں جنہیں عالمی سطح پر سراہا جانا چاہیے۔کیا ہم آرمگیڈن کے دہانے پر ہیں؟ ابھرتی طاقتیں، مغرب کی زوال پذیر بالادستی،مذہبی جنگیں،جدید مہلک ہتھیاروں کی دوڑ، عالمی مدبرانہ قیادت، وحدت، اور حکمت کا فقدان یہ سب کچھ اس ممکنہ انجام کی طرف اشارہ کرتا ہے جسے دنیا ’’آرمگیڈن‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔الہامی کتب اور احادیث ایک فیصلہ کن جنگ کی پیشگوئی کرتی ہیں جو دنیا کو جلا کر راکھ کر دے گی اور بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری ہوگی۔ کچھ نشانیاں سامنے آ چکی ہیں، اور باقی تیزی سے نمودار ہو رہی ہیں۔پھر بھی۔۔۔ اُمید باقی ہے’’اور تیرا رب کسی بستی کو ناحق ہلاک نہیں کرتا جب تک کہ اس کے رہنے والے اصلاح کرنے والے ہوں‘‘ (سورۃ ہود، 11:117)اگر دل جاگ جائیں، اگر قیادت مدبرانہ مل جائےجوانصاف کو چنے،اگر انسانیت خدا کی طرف پلٹے —تو تباہی کو روکا جا سکتا ہے۔جو ایک عالمی روحانی اور انسانی بیداری کی صدا هہے یہ وقت ہے اجتماعی توبہ کا، اخلاص کا، حکمت کااور ظلم و ناانصافی اور جھوٹ کے خلاف سچ کی صدا بلند کرنے کا، ظلم کے مقابلے میں مظلوم کا ساتھ دینے کا، نفرت کے بجائے محبت کے پل بنانے کاآئیے ہتھیار نہیں — دعا کے لئے ھاتھ اٹھائیں جنگی اسلحہ کی فیکٹریاں نہیں بلکہ امن کے ستون کھڑے کریں اللہ ہمیں بیداری، ہدایت، اور امن و حفاظت عطا فرمائے،آرمگیڈن کا دروازہ کھٹک رہا ہے کیا ہم جاگ سکیںگے اور اس فتنہ کبریٰ سے نمٹنے کی تدبیر کرسکیں گے ؟ عامتہ المسلمین كکےلئے استغفار کا ربانی حفاظتی قلعہ موجود ہے۔ جسکی ضمانت الله تعالیٰ خود سورۃ انفال ميں اعلان فرمائی ہے۔ سورۃ ؟ ’’ اور اللہ ان کو عذاب نہیں دے گا جب تک کہ وہ استغفار کرتے ہوں‘‘۔ آئیے استغفار كو اپنا مستقل معمول بنا لیں۔دعاوُں سے محفوظ هو جائیں۔

متعلقہ مضامین

  • ایم کیو ایم لوڈشیڈنگ پر بڑا فیصلہ کرنے جا رہی ہے: خالد مقبول صدیقی
  • چینی اقتصادی پیش رفت کے خلاف ایٹمی جنگ کا بیانیہ
  • اسلام آباد ہائیکورٹ: پیکا ایکٹ: وزارت قانون سمیت دیگر کو جواب داخل کرانے کیلئے آخری مہلت
  • سمبڑیال کے عوام نے بانی کا ریاست مخالف بیانیہ مسترد کیا، عظمیٰ بخاری
  • بھارتی بیانیہ دفن: سلامتی کونسل کی انسداد دہشتگردی کمیٹی کی نائب صدارت پاکستان کو مل گئی
  • پیکا ایکٹ کیس؛ وزارت قانون، ایف آئی اے سمیت دیگر کو جواب داخل کرانے کیلیے آخری مہلت
  • متنازع پیکا ایکٹ ،وزارت قانون، آئی ٹی، ایف آئی اے ،پی ٹی اے کو جواب داخل کروانے کیلئے آخری مہلت
  • متنازع پیکا ایکٹ، جواب داخل کروانے کی آخری مہلت
  • متوقع بدترین تباہ کن اور مہلک ترین جنگ عظیم
  • سی پی این ای نے 2024-2025 میں صحافیوں پر حملوں اور مقدمات درج ہونے کی رپورٹ جاری کردی