سپریم کورٹ میں 6 نئےججز کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
اسلام آباد : وزارت قانون و انصاف نے صدر مملکت کی منظوری کے بعد سپریم کورٹ میں 6 ججز کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔ جس کے مطابق، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کو سپریم کورٹ کا ایکٹنگ جج مقرر کیا گیا ہے، جبکہ بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جسٹس ہاشم کاکڑ کو سپریم کورٹ کا جج بنا دیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ، جسٹس عامر فاروق، جسٹس شفیع صدیقی، اور جسٹس اشتیاق ابراہیم بھی سپریم کورٹ کے ججز تعینات ہوئے ہیں۔ جسٹس صلاح الدین پنہور اور جسٹس شکیل احمد کو بھی سپریم کورٹ کا جج مقرر کردیا گیا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس کے طور پر جسٹس سرفراز ڈوگر کی تعیناتی کی گئی ہے، جبکہ بلوچستان ہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس کے طور پر جسٹس اعجاز سواتی کو مقرر کیا گیا ہے۔ سندھ ہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس کے طور پر جسٹس جنید غفار کو تعینات کیا گیا ہے۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: ہائیکورٹ کے سپریم کورٹ کورٹ کے گیا ہے
پڑھیں:
ہائیکورٹ جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا، ناانصافی پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں: سپریم کورٹ
اسلام آباد(خصوصی رپورٹر) صنم جاوید کی 9 مئی مقدمے سے بریت کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا ہے کہ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔ پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت جسٹس ہاشم خان کاکڑ کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے کی۔ حکومتی وکیل نے کہا صنم جاوید کے ریمانڈ کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر ہوئی۔ ریمانڈ کے خلاف درخواست میں لاہور ہائیکورٹ نے ملزمہ کو مقدمے سے بری کر دیا۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دئیے کہ ان کیسز میں تو عدالت سے ہدایات جاری ہو چکی ہیں کہ 4 ماہ میں فیصلہ کیا جائے۔ اب آپ یہ مقدمہ کیوں چلانا چاہتے ہیں؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ نے اپنے اختیارات سے بڑھ کر فیصلہ دیا اور ملزمہ کو بری کیا۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ میرا اس حوالے سے فیصلہ موجود ہے کہ ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں۔ اگر ہائیکورٹ کو کوئی خط بھی ملے کہ ناانصافی ہو رہی تو وہ اختیارات استعمال کر سکتی ہے۔ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔ وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ہائیکورٹ سوموٹو اختیارات کا استعمال نہیں کر سکتی، جس پر جسٹس صلاح الدین نے ریمارکس دئیے کہ کریمنل ریویژن میں ہائی کورٹ کے پاس تو سوموٹو کے اختیارات بھی ہوتے ہیں۔ صنم جاوید کے وکیل نے بتایا کہ ہم نے ہائیکورٹ میں ریمانڈ کے ساتھ بریت کی درخواست بھی دائر کی تھی۔ جسٹس اشتیاق ابراہیم نے استفسار کیا کہ آپ کو ایک سال بعد یاد آیا کہ ملزمہ نے جرم کیا ہے؟ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ شریک ملزم کے اعترافی بیان کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے آپ کو بھی معلوم ہے۔ اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس میں کہا کہ ہائی کورٹ کا جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جج نے غصے میں فیصلہ دیا۔ بعد ازاں عدالت نے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کر دی۔