Jasarat News:
2025-08-04@23:39:49 GMT

پی ایم ای ایکس میں 46،511 بلین روپے کے سودے

اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT

کراچی(کامرس رپورٹر)پا کستان مرکنٹائل ایکسچینج لمیٹڈ میں گزشتہ روز میٹلز، انرجی، کوٹس اورانڈیکس کے 46.442 بلین روپے مالیت کے سودے ہوئے جن کی مجموعی تعداد 44،852 رہی۔سب سے زیادہ سودے سونے کے ہوئے جن کی مالیت 23.607 بلین روپے رہی۔ جبکہ بذریعہ کوٹس ہونے والے سودوں کی مالیت 8.519 بلین روپے، این ایس ڈی کیو 100 کے سودوں کی مالیت 6.

723 بلین روپے، پلاٹینم کے سودوں کی مالیت 2.308 بلین روپے، چاندی کے سودوں کی مالیت 1.787 بلین روپے، ڈبلیو ٹی آئی خام تیل کے سودوں کی مالیت 1.532 بلین روپے،کاپرکے سودوں کی مالیت 779.747 ملین روپے، ڈی جے کے سودوں کی مالیت 396.515 ملین روپے، قدرتی گیس کے سودوں کی مالیت 316.794 ملین روپے، ایس پی 500 کے سودوں کی مالیت 309.520 ملین روپے، پیلیڈیم کے سودوں کی مالیت 82.383 ملین روپے، برینٹ کے سودوں کی مالیت 33.628 ملین روپے، ایلومینم کے سودوں کی مالیت 23.800 ملین روپے اورجاپان ایکیوٹی کے سودوں کی مالیت 21.711 ملین روپے رہی۔ایگریکلچرل کموڈٹیزمیں 14 لاٹس کے سودے ہوئے جن کی مالیت 68.764 ملین روپے رہی۔

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کے سودوں کی مالیت بلین روپے ملین روپے

پڑھیں:

افراط زر میں کمی؛ کیا شرح سود کو 6 فیصد تک لایا جا سکتا ہے؟

پاکستان میں حالیہ مہینوں کے دوران افراط زر میں واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے، جس کے بعد یہ سوال زیرِ بحث ہے کہ آیا اب شرحِ سود میں نمایاں کمی کا وقت ہوچکا ہے یا نہیں، بعض معاشی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ موجودہ معاشی حالات، خاص طور پر افراط زر کی سست روی، شرحِ سود کو 6 فیصد تک لانے کی گنجائش فراہم کرتے ہیں۔

تاہم، متعدد ماہرین معاشیات اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے اور محتاط مالی پالیسی جاری رکھنے کا مشورہ دیتے ہیں تاکہ کرنسی پر دباؤ، درآمدات میں اضافے اور مالیاتی عدم توازن جیسے خدشات سے بچا جا سکے۔

یہ بھی پڑھیں:

ماہرِ معیشت ڈاکٹر عابد سلہری کا کہنا ہے کہ حالیہ مہینوں میں افراط زر میں کچھ کمی ضرور آئی ہے، لیکن اس میں دوبارہ اضافہ متوقع ہے، ان کے مطابق جب افراط زر کا موازنہ پچھلے سال کی نسبت سے کیا جاتا ہے، تو ہر نئے مہینے میں معمولی سہی لیکن اضافہ ضرور نظر آتا ہے، اسی لیے یہ ضروری تھا کہ شرحِ سود کو فوری طور پر کم نہ کیا جائے۔

ڈاکٹر عابد سلہری نے واضح کیا کہ شرحِ سود کا تعلق صرف افراط زر سے نہیں بلکہ روپے کی قدر سے بھی ہے، اگر شرح سود میں اچانک اور زیادہ کمی کی گئی، تو لوگ بینکوں میں موجود اپنی بچتوں کو ڈالرز میں تبدیل کرنے کی کوشش کریں گے۔

مزید پڑھیں:

’جس سے مارکیٹ میں ڈالر کی طلب بڑھ جائے گی اور روپے پر دباؤ آئے گا، نتیجتاً، روپے کی قدر میں گراوٹ آئے گی اور زرمبادلہ کے ذخائر بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔‘

ڈاکٹر عابد سلہری کے مطابق اسٹیٹ بینک کے لیے یہ ایک نازک توازن ہے، ایک طرف شرح سود کو افراط زر پر قابو پانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، تو دوسری جانب اسے روپے کی قدر کو مستحکم رکھنے کا ذریعہ بھی بنایا جاتا ہے۔ ’اگر موجودہ حالات میں شرح سود کو کم کر کے 6 فیصد تک لایا گیا، تو اس سے روپے کی قدر کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘

مزید پڑھیں:

’میرا نہیں خیال کہ شرح سود کو اس وقت 6 فیصد تک لانے کی ضرورت ہے، مانیٹری پالیسی کو موجودہ احتیاط کے ساتھ ہی آگے لے کر چلنا چاہیے۔ جب کچھ گنجائش پیدا ہو، زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آئے، اور آئی ایم ایف کے اگلے ریویو کے بعد آر ایس ایف سے کچھ فنڈز دستیاب ہوں، تب شرحِ سود میں نرمی پر غور کیا جا سکتا ہے۔‘

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر عابد سلہری کا کہنا تھا کہ چونکہ گزشتہ برس افراط زر کی شرح کم تھی، اس لیے رواں سال جب اسی مدت سے موازنہ کیا جائے گا، تو اعداد و شمار میں افراط زر زیادہ محسوس ہوگا، اگرچہ حقیقی معاشی دباؤ اتنا نہ ہو۔

مزید پڑھیں:

معاشی ماہر راجہ کامران کے مطابق پاکستان میں اس وقت شرحِ سود یعنی پالیسی ریٹ کو ایک خاص سطح پر برقرار رکھا گیا ہے، اور اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکومت حقیقی شرحِ سود کو مثبت رکھنا چاہتی ہے۔ ’یعنی مہنگائی کی شرح کو مدنظر رکھتے ہوئے سود کی شرح میں تھوڑا سا اضافہ برقرار رہے، تاکہ سرمایہ کاری اور خرچ کرنے کے رجحانات کو متوازن رکھا جا سکے۔‘

راجہ کامران کے مطابق اگر شرحِ سود کم کی جائے تو لوگ بینکوں سے آسانی سے قرض لے کر گاڑیاں، موبائل فونز اور دیگر مہنگی درآمدی اشیا خریدنے لگتے ہیں، اس کے نتیجے میں ملک کی درآمدات بڑھ جاتی ہیں، جو تجارتی توازن کو نقصان پہنچاتی ہیں۔

مزید پڑھیں:

’چونکہ پاکستان میں بنیادی صنعتی ڈھانچہ موجود نہیں، اس لیے جب ہم گاڑیاں یا دیگر اشیاء بنانے کی کوشش کرتے ہیں، تو ان کے بیشتر پرزے بیرونِ ملک سے منگوانے پڑتے ہیں۔ اس سے نہ صرف درآمدات بڑھتی ہیں بلکہ زرمبادلہ کے ذخائر پر بھی دباؤ پڑتا ہے، جو بالآخر بیلنس آف پیمنٹ کے بحران کو جنم دے سکتا ہے۔‘

راجہ کامران سمجھتے ہیں کہ اسی وجہ سے حکومت روپے میں قرض لینے کی حوصلہ شکنی کر رہی ہے تاکہ معیشت کو ضرورت سے زیادہ دباؤ سے بچاتے ہوئے درآمدات کو قابو میں رکھا جا سکے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آئی ایم ایف افراط زر پالیسی ریٹ درآمدات ذخائر راجہ کامران زر مبادلہ شرح سود صنعتی ڈھانچہ قرض گراوٹ مالیاتی عدم توازن

متعلقہ مضامین

  • اسرائیلی حکومت نے بھی مودی سرکار کو بڑا جھٹکا دیدیا
  • چین کی خدمات کی درآمدات اور برآمدات کی کل مالیت 3887.26 بلین یوآن تک پہنچ گئی
  • بھارت کے امیرترین مسلمان خاندان کون؟ مجموعی دولت کتنی ہے ؟
  • چین کی خدمات کی درآمدات اور برآمدات کی کل مالیت 3887.26 بلین یوآن تک پہنچ گئی
  • افراط زر میں کمی؛ کیا شرح سود کو 6 فیصد تک لایا جا سکتا ہے؟
  • کراچی: حوالہ و ہنڈی میں ملوث گینگ کے دو رکن گرفتار، کروڑوں روپے کی ملکی و غیرملکی کرنسی برآمد
  • کراچی، 4 اگست کو بجلی کا شٹ ڈاؤن مجموعی طور پر 9 گھنٹوں تک جاری رہے گا
  • اسپیس ایکس: ’کریو 11‘بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پہنچ گیا، استقبال کیسا ہوا؟
  • سیمنٹ کی فروخت میں جولائی 2025 کے دوران 30.13 فیصد اضافہ
  • سپیس ایکس کا Crew-11 کامیابی سے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کے لیے روانہ، مشن کے مقاصد کیا ہیں؟