سوویت افواج کے انخلاء کو 36 سال مکمل، افغانستان میں 15 فروری کو عام تعطیل ہوگی
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
افغانستان(نیوز ڈیسک)افغانستان سے سویت افواج کے انخلاء کو کل (15 فروری کو) 36 برس مکمل ہورہے ہیں، طالبان حکومت نے اس دن کو قومی افتخار کا دن قرار دیدیا، عام تعطیل ہوگی۔امارت اسلامیہ افغانستان کی جانب سے جاری سرکاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ سوویت افواج کے انخلاء کو 36 برس ہوگئے، اس دن کو قومی افتخار کا دن قرار دیا گیا ہے۔
اعلامیہ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ افغان قوم کسی بھی بیرونی سازش کا شکار نہ ہوں اور افغانستان کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں۔سویت افواج افغانستان میں 10 برس کی جنگ کے بعد 15 فروری 1989ء کو پسپائی پر مجبور ہوئی تھیں۔افغان مجاہدین کے ہاتھوں اس وقت کے طاقتور سوویت اتحاد کی شکست عالمی سطح پر ایک بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی اور بعد میں خود سوویت یونین کے انہدام کی بھی وجہ بنی۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
مقبوضہ کشمیر میں چھوٹا افغانستان
مقبوضہ جموں و کشمیر کا صحت افزا مقام پہلگام، جو سیاحوں کے لئے جنت تصور کیا جاتا تھا 22 اپریل 2025 ء کی دوپہر 2بج کر 50منٹ پر اچانک جہنم بن گیا، 6 سے 7 مسلح افراد نے پہلگا م کے علاقے بیسرن میں ایک اونچے پہاڑی میدان میں موجود ٹورسٹس کو نشانہ بنایا، اس حملے میں 26 سیاح مارے گئے اور 15 زخمی ہو ئے۔ ابتدا میں کہا گیا کہ مرنے والوں میں ایک اسرائیلی اور ایک اطالوی بھی شامل تھا، لیکن بعد میں یہ دعوی سامنے آیا کہ ہلاک شدگان میں ایک نیپالی اور باقی تمام ہندوستانی ہیں۔ بھارتی حکومت کا موقف ہے کہ یہ حملہ لشکر طیبہ کے نئے گروپ دی ریزسٹنس فرنٹ نے کیا ہے، جبکہ کچھ ہندوستانی اخبارات کا دعوی ہے کہ حملہ آور جنگجو دی ریزسٹنس فرنٹ کے نئے ونگ ’’فالکن اسکواڈ‘‘یعنی عقابی غول کے رکن تھے۔ جو قابض بھارتی فوج کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا رہا ہے۔ لشکر طیبہ کے ڈپٹی کمانڈر سیف اللہ قصوری کو اس حملے کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا جا رہا ہے جو مقبوضہ جموں و کشمیر کے علاقے پیر پنجال میں عسکریت پسندوں کی اس ’’سلطنت‘‘کا بے تاج بادشاہ قرار دیا جاتا ہے، کہ جسے ایک چھوٹا افغانستان بھی کہتے ہیں، جبکہ کچھ بھارتی ذرائع یہ دعوی کر رہے ہیں کہ سیف اللہ قصوری آج کل پیر پنجال میں نہیں کیونکہ وہ کسی چھلاوے کی طرح اپنی اس محفوظ جنت سے اچانک غائب ہو جاتا ہے اور اس چھوٹے افغانستان سے باہر نکل کر اکثر نیپال ، برما، بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان آتا جاتا رہتا ہے۔
بھارتی انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق پیر پنجال میں مجموعی طور پر ڈیڑھ سو سے زائد جنگجو موجود ہیں جن میں سے 65غیر ملکی اور باقی لوکل کشمیری ہیں، لیکن مقامی ذرائع کے مطابق پیر پنجال میں افغان اسٹائل گوریلا جنگ میں شریک عسکریت پسندوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے، جن میں پانچ سے سات سو کشمیری نوجوان ہیں جن کی دو تہائی تعداد مقامی بکروال اور گوجر قبیلوں سے بھرتی کیئے جانے والے نئے ریکروٹس پر مشتمل ہے، جبکہ باقی مقبوضہ جموں و کشمیر کے دیگر اضلاع سے تعلق رکھنے والے پرانے کشمیری مجاہدین ہیں، غیر ملکی جنگجو ڈیڑھ سے دو سو کے قریب بتائے جاتے ہیں۔ پہلگام میں خون کی جو ہولی کھیلی گئی اسے بہت سے مبصرین ایک فالس فلیگ آپریشن بھی قرار دے رہے ہیں کہ جسے خود قابض بھارتی فوج اور مودی سرکار کے پاکستان پر دبائو بڑھانے کے ایجنڈے سے جوڑا جا رہا ہے، بھارتی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ حملہ آوروں کی تعداد چھ یا سات تھی، جو پیر پنجال کے پہاڑی سلسلے سے نکل کر آئے اور لرزہ خیز کارروائی کے بعد وہیں واپس جا کر روپوش ہو گئے۔ ہندوستانی میڈیا ان مبینہ حملہ آوروں کے کچھ نام بھی لے رہا ہے، تین مقامی جنگجووں میں عادل گوری اننت ناگ، آصف شیخ سو پور جبکہ ابو موسی راولاکوٹ کا رہائشی بتایا جا رہا ہے، غیر ملکیوں میں سلیمان شاہ عرف یونس، آصف فوجی عرف موسی اور ابوطلحہ شامل بتائے جاتے ہیں، لیکن یہ سب مبینہ دعوے ہیں، اصل حقیقت تاحال کسی کے علم میں نہیں۔ پیر پنجال مقبوضہ جموں و کشمیر کے جنوبی سرے سے شروع ہو کر آزاد کشمیر تک پھیلا ہوا وہ پہاڑی سلسلہ ہے، جہاں کشمیری حریت پسندوں نے افغان اسٹائل گوریلا وار شروع کرتے ہوئے تین چار سال سے نہ صرف اپنے ہائیڈ آٹس قائم کر رکھے ہیں بلکہ کئی نوگو ایریاز بھی بنا لئے ہیں۔ جہاں بھارتی فوج داخل نہیں ہو سکتی۔ یہ سلسلہ 2021 میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد مزید خطرناک ہو گیا۔ کیونکہ اس کے بعد جہادی نیٹ ورکس کو نئی زندگی ملی اور افغانستان میں طویل عرصے تک جاری گوریلا جنگ میں تربیت یافتہ عسکریت پسندوں کی ایک بڑی تعداد نے مقبوضہ جموں و کشمیر کو اپنی اگلی پراکسی وار کے لئے منتخب کر لیا۔
امریکہ جو جدید ترین اسلحہ افغانستان چھوڑ کر گیا تھا اس کا ایک بڑا حصہ اس چھوٹے افغانستان میں بھی پہنچ چکا ہے۔ پیر پنجال میں اس وقت کئی عسکریت پسند تنظیمیں سرگرم ہیں، جن میں لشکر طیبہ، جیش محمد، حزب المجاہدین، البدر، دی ریزسٹنس فرنٹ و دیگر شامل ہیں، مقامی کشمیری نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کے ساتھ ساتھ کچھ پاکستانی ، افغان، چیچن، تاجک اور ازبک غیر ملکی جنگجو بھی پیر پنجال میں مورچہ زن بتائے جاتے ہیں۔ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں اور میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان، نیپال، بنگلہ دیش، برما اور چین کے راستے جعلی کرنسی، اسلحہ اور منشیات کی جو اسمگلنگ ہوتی ہے، یہ جنگجو اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت میں داخل ہوتے ہیں اور اپنے مقامی سہولت کاروں کے ذریعے پیر پنجال میں قائم اس چھوٹے افغانستان میں پہنچ جاتے ہیں۔ یہ کہا جاتا ہے کہ نیپال، برما اور چین کے دشوار گزار جنگلات اور پہاڑی سلسلے وہ سرحدی راستے ہیں جو اس گھاتک نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔ بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں میں ناگا باغی، منی پوری علیحدگی پسند، اور آسام کے عسکریت پسند برسوں سے متحرک ہیں۔ ان گروہوں کو بعض ہمسایہ ممالک کی خاموش سرپرستی بھی حاصل ہے۔
دوسری جانب، نکسلائٹ ما باغی، بھارت کی کئی وسطیٰ اور جنوبی ریاستوں میں اپنے نوگو ایریاز قائم کئے بیٹھے ہیں، جہاں حکومت کی عملداری نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان ریاستوں میں چھتیس گڑھ، جھارکھنڈ، اوڈیشہ، مہاراشٹر، آندھرا پردیش، تلنگانہ، بہار اور مدھیہ پردیش شامل ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کا علاقہ پیر پنجال اب محض ایک پہاڑی سلسلہ نہیں، بلکہ ایک نئی جنگ کا سلگتا ہوا محاذ بن چکا ہے۔ مودی سرکار کے لئے پاکستان ایک آسان ہدف ہے اس لئے پہلگام دہشت گردی یا فالس فلیگ آپریشن کی آڑ میں اس نے پاکستان پر بڑا معاشی حملہ کرتے ہوئے سندھ طاس معاہدے پر عملدرآمد معطل کر دیا ہے۔ حالانکہ یہ تلخ حقیقت خود بھارت کے بھی علم میں ہے کہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد تو خود پاکستان خوفناک دہشت گردی کا شکار ہے کہ جس میں افغانستان میں چھوڑا گیا جدید ترین امریکی اسلحہ اور افغانستان میں تربیت یافتہ جنگجو استعمال ہو رہے ہیں، مودی سرکار نہ تو افغانستان، چین، نیپال، برما اور بنگلہ دیش کا نام لیتی ہے اور نہ ہی ان کے خلاف ویسا شدید ردعمل ظاہر کرتی ہے جس کا پاکستان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، حالانکہ عسکریت پسندوں کیلئے جدید اسلحہ اور نئے جنگجو ان ممالک کے راستے بھی داخل ہو رہے ہیں، صاف ظاہر ہے کہ ’’وچوں گل کوئی ہور اے‘‘