پاکستان میں سب سے زیادہ غیر قانونی سمز انگلینڈ کی استعمال ہورہی ہیں، ایف آئی اے کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم وقارالدین سید نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ غیر قانونی سمز انگلینڈ کی استعمال ہورہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کا غیرقانونی سمز کیخلاف ایکشن، مرحلہ واربندش کا آغاز
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم وقارالدین سید نے کہا کہ پاکستان میں سب سے زیادہ سمز انگلینڈ کی غیر قانونی استعمال ہورہی ہیں، یوکے کی سمز یہاں پر باآسانی مارکیٹ میں دستیاب ہیں، جو سستی بھی ہیں اور پہلے سے ایکٹو بھی ہیں۔ ’یعنی آپ سمز لیتے ہیں، کوڈ انٹر کرتے ہیں اور آپ کی سم ایکٹیویٹ ہوجاتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ جرائم پیشہ لوگ اپنی شناخت چھپانے کے لیے یہ سمز استعمال کرتے ہیں، لوکل سمز پر پی ٹی اے نے بڑا کام کیا ہے، ہمارے ٹیلی کام آپریٹرز نے بھی بڑا کام کیا ہے، بہت سے رولز ریگولیشنز موجود ہیں، سمز کی بائیومیٹرک ہوتی ہے، شناختی کارڈ نمبر کے اندراج کے بعد سم ایشو ہوتی ہے، اس کے بعد او ٹی بی بھیجتے ہیں، پھر مسیج بھیج کر سم ایکٹو ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی اے کا 5 شہروں میں سموں کے غیر قانونی اجرا پر کریک ڈاؤن
’مقامی سمز جس بندے کے نام ہوتی ہیں، اس کی آئی ڈی کسی بھی صورت چھپی نہیں رہ سکتی، لہذا جرائم پیشہ افراد نے اپنی آئی ڈیز کو چھپانے کے لیے انٹرنیشنل سمز کا استعمال شروع کردیا ہے، یہ کیسے خریدی جاتی ہیں تو اس کے لیے ٹک ٹاک جیسی ایس پر ایڈ چلتے ہیں، آپ آن لائن خریدتے ہیں، ہفتہ دس دن میں وہ آپ کو پہنچ جاتی ہے، اس کے بعد آپ سم موبائل میں ڈالتے ہیں اور اس کا استعمال شروع کردیتے ہیں۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news انگلینڈ ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے پاکستان پی ٹی اے سائبر کرائم سمز وقارالدین سید.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: انگلینڈ ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف ا ئی اے پاکستان پی ٹی اے وقارالدین سید ایف ا ئی اے کے لیے
پڑھیں:
پاکستان میں 6 ہزارسے زیادہ ادویاتی پودے پائے جاتے ہیں، ماہرین
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 17 ستمبر2025ء) وفاقی اردو یونیورسٹی آف آرٹس، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ضابطہ خان شنواری نے کہا ہے کہ پاکستان میں6ہزارسے زیادہ ادویاتی پودے پائے جاتے ہیں جن کا روایتی استعمال صدیوں پر محیط ہے جبکہ یہ قدرتی وسائل ملک کی پائیدار ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ روایتی جڑی بوٹیوں کے علم کا امتزاج نینو ٹیکنالوجی کے جدید سائنسی شعبے کے ساتھ ہی قدرتی ادویات کا مستقبل ہے۔ نینو ٹیکنالوجی ایک کثیرالجہتی میدان ہے جو حیاتیات، انجینئرنگ، فزکس اور کیمسٹری سمیت مختلف شعبوں کے انضمام پر مبنی ہے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار جامعہ کراچی کے بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی اور حیاتیاتی علوم (آئی سی سی بی ایس) جامعہ کراچی میں قائم یونیسکو چیئر برائے میڈیسنل اینڈ بائیو آرگینک نیچرل پراڈکٹ کیمسٹری کے زیرِ اہتمام منگل کی شامادویاتی پودوں اور نینوٹیکنالوجیکے موضوع پر منعقدہ ایک خصوصی لیکچر کے دوران کیا۔(جاری ہے)
لیکچر میں طلبا، محققین اور اساتذہ کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ آئی سی سی بی ایس کے ڈائریکٹر اور یونیسکو چیئر ہولڈر پروفیسر ڈاکٹر محمد رضا شاہ نے تقریب کے آغاز میں تعارفی کلمات پیش کیے۔پروفیسر ضابطہ خان شنواری نے کہا کہ دنیا میں محفوظ، مثر اور قدرتی علاج کی مانگ میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، اور جدید سائنسی تحقیق کی بدولت روایتی علم اور حیاتیاتی تنوع کے درمیان خلا پر ہو رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس یہ موقع ہے کہ جڑی بوٹیوں کو نینو ٹیکنالوجی کے ساتھ ملا کر معاشی اور صحت کے شعبوں میں مثبت نتائج حاصل کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہربل میڈیسن کی عالمی مارکیٹ کا حجم2030تک532ارب امریکی ڈالر تک پہنچنے کا تخمینہ ہے جبکہ دنیا بھر میں80فیصد آبادی جڑی بوٹیوں کو استعمال کرتی ہے اور ترقی پذیر ممالک میں یہ شرح95فیصد تک ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ادویاتی پودوں پر تحقیق کے میدان میں صنعت بڑے پیمانے پر پیداوار کے لیے ٹیکنالوجی فراہم کر سکتی ہے جبکہ جامعات کا کردار قیمتی حیاتیاتی مرکبات کی شناخت اور استخراج پر مرکوز ہونا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہربل کلینیکل ٹرائل انسٹیٹیوٹ کا قیام پاکستان میں جڑی بوٹیوں پر مبنی ادویات کو فروغ دینے کے مشن کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جڑی بوٹیوں پر مبنی کلینیکل ٹرائلز صحت کے شعبے میں ترقی اور شواہد پر مبنی طریقہ علاج کے فروغ کے لیے نہایت اہم ہیں۔ قرشی اور اردو یونیورسٹی کلینک کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے اسے فلاح و بہبود کا ایک نیا ماڈل قرار دیا۔ کینسر کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ دنیا بھر میں اموات کی ایک بڑی وجہ ہے جس کے باعث2015میں 88لاکھ افراد جاں بحق ہوئے، پاکستان میں2020میں صرف بریسٹ کینسر کی178,388نئے کیس رپورٹ ہوئے جبکہ تقریبا40,000خواتین ہر سال اس بیماری سے جاں بحق ہو جاتی ہیں یعنی اوسطا ہر24گھنٹوں میں109خواتین موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہر آٹھویں خاتون بریسٹ کینسر کا شکار ہے۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ تحقیقی برادری کو چاہیے کہ وہ باہمی تعاون کے ذریعے جامع صحت اور علمی معیار کی ثقافت کو فروغ دے، اور ملک میں تشخیصی و تحقیقی صلاحیتوں کو آگے بڑھائے۔