اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ امید ہے ترقی یافتہ ممالک کلائمیٹ فنانسنگ کا وعدہ پورا کریں گے۔ وزیراعظم شہباز شریف سے پاکستان میں اقوام متحدہ کے ریزیڈنٹ کوآرڈینیٹر محمد یحییٰ نے ملاقات کی۔ ملاقات میں وزیراعظم نے اقوام متحدہ کی کنٹری ٹیم کی جانب سے پاکستان میں جاری کام کو سراہا۔ وزیر اعظم نے پائیدار ترقی اور موسمیاتی تبدیلی کے شعبوں میں اقوام متحدہ کے ساتھ تعاون کو مزید مضبوط بنانے پر زور دیا۔ شہباز شریف نے 2022ء کے سیلاب میں عالمی حمایت اکٹھا کرنے میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوترس کے کردار کو سراہا اور عالمی برادری اور اقوام متحدہ کے ساتھ قریبی تعاون اور شراکت داری کے عزم کا اعادہ کیا۔ وزیر اعظم نے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے مقصد کو آگے بڑھانے کے لیے پاکستان کے مضبوط سیاسی عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے کلائمیٹ فنانسنگ ایک اہم جزو ہے، امید ہے ترقی یافتہ ممالک اس سلسلے میں اپنے وعدوں کو پورا کریں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان اقوام متحدہ کے ساتھ مختلف منصوبوں پر عملدرآمد سمیت موسمیاتی تبدیلی کے شعبوں میں اہم امور پر کام جاری رکھے گا۔ وزیر اعظم نے پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کے لیے مالیاتی فرق کو دور کرنے اور عالمی مالیاتی ڈھانچے میں اصلاحات کے ذریعے مالیاتی اداروں میں ترقی پذیر ممالک کی آواز اور نمائندگی بڑھانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ 
اسلام آباد (خبر نگار خصوصی) وزیراعظم محمد شہباز شریف سے ورلڈ بینک گروپ کے نجی شعبے کی سرمایہ کاری کے ادارے انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن (IFC) کے منیجنگ ڈائریکٹر اور ایگزیکٹو نائب صدر مختار ڈیوپ کی ملاقات ہوئی جس میں پاکستان میں IFC کے جاری اور ممکنہ و متوقع اقدامات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیراعظم نے ورلڈ بینک گروپ کی پاکستان میں حال ہی میں 40 بلین امریکی ڈالر کے بے مثال عزم کے ساتھ جاری کردہ  دس سالہ کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک (2026-2035) کے اجراء کو سراہا۔ اس میں انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ ایسوسی ایشن اور بین الاقوامی بینک برائے تعمیر نو اور ترقی کے ذریعہ 20 بلین امریکی ڈالر کا آسان شرائط کا قرضہ شامل ہوگا۔  آئی ایف سی پاکستان میں نجی شعبے کی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے مزید 20 بلین امریکی ڈالر اکٹھا کرے گا۔  وزیراعظم نے پاکستان میں نجی شعبے کی سرمایہ کاری کو فروغ دینے اور پورٹ فولیو کو بڑھانے میں IFC کے کردار کو سراہا۔  وزیرِ اعظم نے آئی ایف سی کی پاکستان میں بنیادی ڈھانچے، مواصلات و آمد و رفت، بڑے ہوائی اڈوں کی آؤٹ سورسنگ، زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی، کان کنی، موسمیاتی لچک، شعبہ صحت اور پانی اور صفائی سمیت کلیدی شعبوں کے تحت اپنے تعاون کو بڑھانے کی حوصلہ افزائی کی۔ انہوں نے پاکستان کی معیشت کے پورے ایکو سسٹم کی ڈیجیٹلائزیشن کی ضرورت پر زور دیا۔ مسٹر ڈیوپ نے آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کی جاری کامیاب معاشی اصلاحات کے پروگرام کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی متحرک قیادت میں حکومت کی کوششوں سے سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے وزیراعظم کو پاکستان میں نجی شعبے کے لیے آئی ایف سی کی جانب سے حکومت کی ترجیحات سے ہم آہنگ حمایت جاری رکھنے کا بھی یقین دلایا۔ وزیراعظم نے افرادی قوت بالخصوص پاکستان کے نوجوانوں کی ترقی کو فروغ دینے کے لیے مختلف پروگرامز کو ڈیزائن کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: موسمیاتی تبدیلی اقوام متحدہ کے پاکستان میں شہباز شریف کو سراہا زور دیا کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

ترقی کی چکا چوند کے پیچھے کا منظر

اللہ بھلا کرے ہمارے ناخداؤں کا، صبح شام ہمیں یقین دلائے رکھتے ہیں کہ ملک ترقی کر رہا ہے، گھبرانا نہیں۔ بلکہ ثبوت کے طور پر کئی دعوے اور مختلف معاشی اشاریے پیش کیے جاتے ہیں کہ لو دیکھ لو، جنگل کا جنگل ہرا ہے لیکن کیا کیجیے۔ 

زمینی حقائق سے واسطہ پڑتا ہے تو بندۂ مزدور کے اوقات اسی طرح تلخ اور سوہان روح ملتے ہیں۔ ہم عوام کی یہ دہائی کون سنتا ہے لیکن جب ان اعداد وشمار کو مختلف ترتیب سے کوئی عالمی ادارہ مرتب کر کے عوام کی دہائی اور تاثر کی تائید کرے تو اس پر اعتبار کرنا بنتا ہے۔

سالہا سال سے سن، پڑھ اور دیکھ رہے ہیں کہ ترقی کی دوڑ میں ایشیاء تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ جی ڈی پی گروتھ، پیداوار، برآمدات اور ارب پتیوں کی تعداد میں دھڑادھڑ اضافہ ہو رہا ہے۔

ایسے میں معاشی بدحالی کا دھڑکا تو اصولاً نہیں ہونا چاہیے لیکن معروف عالمی ریسرچ ادارے آکسفیم کی ایشیائی ممالک کی ترقی کی بابت تازہ رپورٹ کے مطابق ترقی ہو تو رہی لیکن اس کے ثمرات کا غالب حصہ چند ہاتھوں تک محدود ہے جب کہ عوام کے حصے میں ٹریکل ڈاؤن ایفیکٹ کا لالی پاپ ہی رہتا ہے۔ یقین نہ آئے تو رپورٹ کے چیدہ نکات سنئے اور سر دھنیے…

رپورٹ کا عنوان ہے ’’An Unequal Future‘‘ یعنی ’’غیر مساوی مستقبل‘‘۔ رپورٹ کا خلاصہ یہ کہ اگر ترقی کی یہ رادھا نو من تیل کے ساتھ اسی طرح ناچتی رہی تو پورے ایشیاء میں انصاف، مساوات اور خوشحالی کا خواب بس خواب ہی رہے گا۔

آکسفیم کے مطابق، ایشیاء کے بیشتر ممالک میں دولت اور آمدنی کی تقسیم خطرناک حد تک غیر مساوی ہے۔ بظاہر ترقی کی شرح بلند ہے مگر سماجی انصاف، پائیدار روزگار اور روزمرہ کی پبلک سرورسز کی فراہمی کمزور تر ہو رہی ہے۔

یہ رپورٹ تین بڑے بحرانوں کو ایک دوسرے سے جوڑتی ہے۔ آمدنی و دولت کی ناہمواری، موسمیاتی تباہ کاری اور ڈیجیٹل خلاء (Digital Divide)۔

رپورٹ کے مطابق ایشیاء کے بڑے ممالک میں امیر ترین 10 فیصد افراد قومی آمدنی کے 60 سے 77 فیصد حصہ کے مالک ہیں۔

بھارت میں ایک فیصد اشرافیہ ملک کی کل دولت کا 40 فیصد جب کہ چین میں 31 فیصد کنٹرول کرتی ہے۔ یہ خوفناک تضاد اس حقیقت کا اظہار ہے کہ معاشی ترقی کے اعداد و شمار اور رنگ برنگے اشاریے عوامی فلاح اور متناسب سماجی ترقی کے مترادف نہیں۔ ترقی کے باوجود 18.9 فیصد آبادی اب بھی روزانہ 3.65 ڈالر سے کم پر گزارا کرتی ہے اور 50 کروڑ سے زائد لوگ غربت یا اس کے دہانے پر ہیں۔

ٹیکس کا نظام بھی بالعموم غیرمنصفانہ ہے۔ ایشیاء میں اوسطاً ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب 19 فیصد ہے جو ترقی یافتہ ممالک (OECD اوسط 34 فیصد) سے کہیں کم ہے۔ نتیجتاً حکومتوں کے پاس تعلیم، صحت اور سماجی تحفظ کے لیے وسائل ناکافی رہتے ہیں۔اے آئی، انٹرنیٹ اور موبائلز فونز کے انقلاب کے باوجود ڈیجیٹل ناہمواری بھی بڑھ رہی ہے۔ شہری علاقوں میں 83 فیصد لوگ آن لائن ہیں جب کہ دیہی علاقوں میں یہ شرح 49 فیصد ہے۔صنفی پیمانے سے جانچیں تو خواتین کی ڈیجیٹل شمولیت مردوں کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہے۔

ماحولیاتی اعتبار سے بھی عدم مساوات نمایاں ہے۔ جن طبقات کا آلودگی میں حصہ سب سے کم ہے، وہی سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ جنوبی ایشیاء میں امیر ترین 0.1 فیصد افراد ایک عام شہری کے مقابلے میں 70 گنا زیادہ کاربن خارج کرتے ہیں جب کہ غریب ترین 50 فیصد طبقہ ماحولیاتی نقصانات کا سب سے بڑا شکار ہے۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں معاشی نمو کے باوجود معاشی ناہمواری اور سماجی عدم مساوات تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اگرچہ غربت میں گاہے وقتی کمی دیکھی گئی مگر عملاً امیر اور غریب کے درمیان فاصلہ وسیع تر ہو رہا ہے۔ پاکستان میں امیر ترین 10 فیصد افراد قومی آمدنی کا تقریباً 62 فیصد حاصل کرتے ہیں جب کہ نچلے 50 فیصد عوام کے حصے میں صرف 10 فیصد آمدنی آتی ہے۔ یہ معاشی و سماجی ناہمواری وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور اشرافیہ کے ہاتھوں میں طاقت کے ارتکاز کو ظاہر کرتی ہے۔

ٹیکس کا ڈھانچہ اس خلیج کو مزید گہرا کرتا ہے۔ پاکستان کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب محض 9.5 تا 10 فیصد ہے جو خطے میں سب سے کم ہے۔ یہ مایوس کن شرح پبلک سروسز کے لیے مالی گنجائش کو مزید محدود کر دیتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں زیادہ تر محصولات بالواسطہ ٹیکسوں (پٹرول، بجلی، اشیائے ضروریہ) سے حاصل کیے جاتے ہیں، جس کا بوجھ بالآخر غریب اور متوسط طبقے پر آتا ہے۔

تعلیم اور صحت پر سرکاری خرچ بھی اسی عدم توازن کا تسلسل ہے۔ پاکستان اپنی قومی آمدنی کا صرف 2.2 فیصد تعلیم اور 1.5 فیصد صحت پر خرچ کرتا ہے۔ یہ شرح بنگلہ دیش (تعلیم 2.6÷، صحت 2.4÷) اور نیپال (تعلیم 3.4÷، صحت 2.9÷) سے کم ہے جب کہ جنوبی کوریا جیسے ممالک تعلیم پر 4.8÷ اور صحت پر 5.1÷ خرچ کرتے ہیں۔

ماحولیاتی لحاظ سے پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہے جو کلائمیٹ چینج سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ گزشتہ دہائی میں ماحولیاتی آفات کے باعث 3 کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے اور 30 ارب ڈالر سے زیادہ کا معاشی نقصان ہوا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا عالمی آلودگی میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد اگرچہ کچھ کم ہوئی، تاہم رپورٹ کے مطابق 22 فیصد آبادی اب بھی روزانہ 3.65 ڈالر سے کم پر زندہ ہے اور 50 فیصد سے زیادہ لوگ ایسے ہیں جو معمولی معاشی جھٹکے سے غربت میں جا سکتے ہیں۔

یہ تمام اعداد وشمار چیخ چیخ کر دہائی دے رہے ہیں کہ معاشی ترقی کے افسانوں میں ہم نے مساوات اور ہیومن ڈویلپمنٹ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ پاکستان کے لیے اصل چیلنج صرف معاشی نمو ہی نہیں بلکہ اس نمو کی منصفانہ تقسیم بھی ہے۔ اگروسائل، مواقع اور انصاف کی سمت درست نہ کی گئی تو دولت کے محلوں کے سائے میں غربت کی بستیاں مزید پھیلتی جائیں گی۔ فیصلہ سازوں کوتو شاید سوچنے کی مجبوری نہیں لیکن سماج کو ضرورسوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم کیسی ترقی چاہتے ہیں: اشرافیہ کے ایک محدود طبقے کے لیے یا سب کے لیے؟

متعلقہ مضامین

  • ماحولیاتی تبدیلیوں پر کوپ 30کانفرنس ، وزیراعظم نے نمائندگی کیلئے مصدق ملک کو نامز دکر دیا
  • غزہ صحافیوں کے لیے خطرناک ترین خطہ ہے، سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ
  • اسرائیل غزہ امن معاہدے کے تحت امداد پنچانے نہیں دے رہا، اقوام متحدہ
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں،متنازع علاقہ ، پاکستان
  • غزہ میں عالمی فورس کیلیے اقوام متحدہ کا مینڈیٹ ضروری ہے‘اردن ‘جرمنی
  • ترقی کی چکا چوند کے پیچھے کا منظر
  • غزہ میں عالمی فورس کیلئے اقوام متحدہ کا مینڈیٹ ضروری ہے، اردن اور جرمنی کا مقف
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، کبھی تھا نہ کبھی ہوگا، پاکستانی مندوب
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، کبھی تھا نہ کبھی ہوگا، پاکستان
  • سہیل آفریدی کو وزیراعلیٰ بننے پر مبارکباد، مل کر دہشت گردی کا مقابلہ کریں گے،وزیراعظم