شمیم حنفی
( عظیم شاعر کی تاریخ وفات (15؍ فروری1869ء ) کی مناسبت سے ) * ہماری اجتماعی فکر کے واسطے سے ’’جدید‘‘ کی اصطلاح نے بھی خاصی غلط فہمیاں پیدا کی ہیں * غالب کے واسطے سے ’’جدید ذہن‘‘ اور ’’جدید فکر‘‘ کا مطلب تقریباً طے شدہ سمجھ لیا گیا ہے
اصطلاح میں سوچنے کا عمل بعض اوقات خطرناک ہوتا ہے اور ہمیں ایسے نتائج کی طرف لے جاتا ہے جو سرے سے غلط ہوتے ہیں۔ ہماری اجتماعی فکر کے واسطے سے ’’جدید‘‘ کی اصطلاح نے بھی خاصی غلط فہمیاں پیدا کی ہیں۔
جدید کاری (Modernization) تجدد پرستی (Modernism) اور جدیدیت (Modernity) کے مفاہیم صرف’’جدید‘‘ کے لفظ سے متعین نہیں ہوتے ۔ اسی طرح ادب میں، فلسفے میں اور سماجیات میں ’’جدید‘‘ کا مطلب ہمیشہ یکساں نہیں ہوتا۔ لیکن دشواری یہ ہے کہ غالب کے واسطے سے ’’جدید ذہن‘‘ اور ’’جدید فکر‘‘ کا مطلب تقریباً طے شدہ سمجھ لیا گیا ہے اور یہ خیال عام ہے کہ غالب نے اردو کو اپنی روایت سے آزاد ایک نیا ذہن دیا، یا یہ کہ غالب کی فکر اردو کی شعری روایت میں ’’نئے پن‘‘ کا پہلا نشان ہے اور اس نئے پن کو بھی گھما پھرا کر ہندوستان کی جدید تہذیبی نشاۃ ثانیہ، جدید سائنس اور ٹکنالوجی اور نئی عقلیت کے دائرے میں سمیٹ لیا جاتا ہے ۔
گویا کہ غالب کو بھی اٹھارویں صدی کی روشن خیالی، انیسویں صدی کی تعقل پسندی اور معاشرتی اصلاح کے ان تصورات سے جوڑدیا جاتا ہے جن کا سلسلہ عہد و سطی کے نظام اقدار و افکار کی ابتری اور انگریزوں کی آمد کے ساتھ ایک نئے نظام اقدار و افکار کی تشکیل و ترویج کے ساتھ شروع ہوا۔ اس سلسلے میں کچھ دلیلیں بار بار دی جاتی ہیں۔ مثلاً یہ کہ،
(۱) غالب نے سر سید سے بھی پہلے مغرب کے آئین نو کا قصیدہ پڑھا اور جدیدسائنسی ایجادات کا خیر مقدم کیا۔ ثبوت کے طور پر سر سید کی مرتبہ آئین اکبری (ابو الفضل) کے بارے میں غالب کی فارسی تقریظ کافی ہے ،
 پیش ایں آئیں کہ دارد روزگار
 گشتہ آئین دگر تقویم پار
(۲) غالب نے اپنے آپ کو ’’عندلیب گلشن نا آفریدہ‘‘ کہا ہے یعنی یہ کہ وہ اپنی سرشت کے لحاظ سے مستقبل بیں اور اپنی شاعری کے اعتبارسے آنے والے دنوں کے ترجمان تھے ۔
(۳) غالب کے مزاج میں تشکیک (agnosticism) کا عنصر بہت نمایاں ہے ۔ وہ کسی بھی مسلمہ حقیقت میں یقین نہیں رکھتے تھے ۔
(۴) غالب نے کائنات میں انسان کی حیثیت، انسان اور خدا کے مفروضہ تعلق، مادے کی حقیقت، اشیا اور مظاہر اور موجودات کی غایت، انسانی ہستی کے مقاصد پربہت سے سوالیہ نشان قائم کیے ہیں۔ ایک مستقل استفہامیہ انداز غالب کی پہچان ہے ،
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
 پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے ؟
غالب کے مزاج میں مہم پسندی اور تجسس کا مادہ بہت تھا۔ ایک حالت پر قانع نہیں ہوتے تھے ۔ گویا کہ ہمارے شاعروں میں سائنسی ایڈوینچراور سائنسی صداقت کی تلاش کا سودا سب سے پہلے غالب کے یہاں ملتا ہے ، سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی۔
(۵) غالب ایک نئی انسان دوستی (Humanism) کے نقیب تھے اور مذاہب کی رسمی تقسیم میں یقین نہیں رکھتے تھے ، رہرو چلے ہے راہ کو ہموار دیکھ کر۔
(۶) غالب کا ذہن بہت آزاد اور خود بیں تھا۔ اسے کہنہ پرستی، مردہ پروری اور رسمیت سے کوئی نسبت نہیں تھی۔ اس ضمن میں وہ اپنے آپ کو فرزندآذر سے مماثل قرار دیتے تھے ، ہر کس کہ شہ صاحب نظر دین بزرگاں خوش نہ کرد۔
(۷) اپنی عام زندگی میں بھی غالب جدت پسند Non-confiramistاور ایک حد تک بوہیمین تھے ۔ مذہبی شعائر کے پابند نہیں تھے ۔ معاشرتی قوانین اور امتناعات سے ڈرتے نہیں تھے ۔
(۸) مجموعی حسیت اور تخلیقی رویے کی سطح پر غالب کو اپنی عام روایات کی پیروی اور پاسداری کا شوق نہیں تھا۔ زبان کے مقابلے میں وہ اجتماعی میلانات سے زیادہ، اپنی انفرادی اور شخصی ترجیحات کے قائل تھے ۔
(۹) غالب طبیعتاً بت شکن تھے ، موروثی عقائد کے منکر۔ ان کی مذہبی فکر، تہذیبی فکر اور تخلیقی فکر پر ان کے ذاتی رویے ہمیشہ حاوی رہتے تھے ۔
(۱۰) غالب کو جدید علوم سے براہ راست استفادے کا موقعہ نہ ملا ہو، جب بھی ان علوم کی پر وردہ فکر سے وہ متاثر تھے ۔ ان کے کلام میں ایسی شہادتیں ملتی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ غالب بعض سائنسی اصولوں کی حقیقت سے آگاہ تھے ، باورآیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا۔
اس طرح کی باتیں غالب کے بارے میں نہ صرف یہ کہ عام طور پر کہی جاتی ہیں، ان کی بنیاد پر غالب کی شخصیت کا ایک تصور بھی قائم کر لیا گیا ہے ۔ اس تصور کے مطابق، غالب اردو شاعری کی روایت میں انحراف کے ایک اہم موڑ کی نشاند ہی کرتے ہیں اور انہیں بجا طور پر اردو کا پہلا جدید شاعر کہا جاسکتا ہے ۔
انیسویں صدی میں خاص کر اس وقت سے جب لارڈمیکا لے کے منصوبوں کی روشنی میں ایک نیا تعلیمی خاکہ مرتب کیا گیا اور یہ منصوبے باضابطہ طور پر بروئے کار لائے گئے ، ہماری اجتماعی فکر کے محور تیزی سے تبدیل ہونے لگے ۔ ایک خاص طرح کا نو آبادیاتی اسلوب زندگی مقبول ہونے لگا۔ سوچنے حتی کہ محسوس کرنے کی پرانی طرحیں بھی رفتہ رفتہ ترک کی جانے لگیں۔
قاموسیوں (encyclopaedists) اور مستشرقین کا ایک نیا گروہ سامنے آیا۔ معاشرتی اصلاح اور قومی تعمیر کے ترجمانوں کی اکثریت نے اس گروہ کی برتری تسلیم کرلی۔ ہمارے طرز احساس کی قیادت ہماری اپنی روایت اور اپنے ماضی کے بجائے اس گروہ کے ہاتھوں میں چلی گئی۔ اس صورت حال کا نتیجہ بالآخر وہی ہوا جو ہونا چاہیے تھا۔یعنی کہ اپنی پسپائی اورکم تری کا اعتراف زندگی کے تقریباً تمام شعبوں میں کیا جانے لگا۔
ہماری ادبی روایت، ہماراجمالیاتی نظام، ہمارا تخلیقی کلچر، ہمارے علوم، سبھی اس پسپائی کا شکار ہوتے گئے ۔ اردو کی علمی اور ادبی تاریخ کے واسطے سے دیکھا جائے تو سرسید سے لے کر محمد حسین آزاداور حالی تک، مغرب سے مرعوبیت کا ایک مستقل رویہ اور اپنی اجتماعی ہزیمت کاایک مستقل احساس سامنے آتاہے ۔ ہندوستانی نشاۃ ثانیہ کے اولین معمار راجہ رام موہن رائے نے اپنی قومی وراثت اور اپنے اجتماعی ماضی کی طرف جو رویہ اختیار کیاتھا اس کے دور رس اثرات مرتب ہوئے ۔ چنانچہ انیسویں صدی میں ہندوستان کی علاقائی زبانوں کا ادب بھی مغربی روایات اور اسالیب کی چمک دمک میں اپنی زمین سے اکھڑتا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔
میکا لے کا خیال تھا کہ ہندوستان کا تمام علمی ورثہ، انگلستان میں مغربی علوم کی کتابوں کے ایک شیلف کی جتنی قدر وقیمت بھی نہیں رکھتا۔ اصلاح معاشرت کے ہندوستانی ترجمانوں نے یہ فیصلہ نہ صرف یہ کہ قبول کرلیا، اس فیصلے کی روشنی میں اپنی روایت کو مستردکرنے کا میلان بھی زور پکڑنے لگا۔ چنانچہ نثر ونظم کی روایت کے تسلسل کی طرف سے آنکھیں پھیر لی گئیں اور بیشتر توجہ اس پر مرکوز ہوگئی کہ ایک نئی روایت کیونکر قائم کی جائے ۔ شعر وادب کے کاروباری مقاصد کو فروغ پذیر ہونے کا موقعہ اسی پس منظر نے مہیا کیا۔ حقیقت کا وہ تصور جو مشرق سے مخصوص تھا اور جس میں مادی اور مابعد الطبیعاتی عناصر کوایک ساتھ اختیار کرنے کی صلاحیت تھی، بتدریج معدوم ہوتا گیا۔اس کی جگہ حقیقت کے ایک ایسے تصور نے لے لی جس کا ظہور مشرقی حسیت کی شکست و ابتری اور مغربی افکار و اقدار کی کامرانی کے مفروضے سے ہوا تھا۔ سائنسی عقلیت نے حقائق اور مظاہرکی بابت ایک دو ٹوک قسم کے سطحی اور محدود نقطہ نظر کو راہ دی۔ سر سید، آزاد، حالی، ذکاء اللہ، نذیر احمد، ان سب کی فکر اسی نقطہ نظر کی تابع دکھائی دیتی ہے اور ہر چند کہ ان سب کے یہاں کشمکش کا ایک احساس بھی موجود ہے جو انہیں ہمیشہ بے چین رکھتا ہے ، مگر یہ اصحاب مغربی فکر اور انگریزی تعلیم کو، بہر حال، اپنی قومی نجات کا واحد ذریعہ بھی سمجھتے ہیں۔
غالب نے بے شک تبدیلیوں کی اسی فضا میں سانس بھی لی اور مغربی تہذیب کے کمالات سے متاثر بھی ہوئے ، لیکن نہ تو انہوں نے حقیقت کی اپنی تعبیر اور تصور پر آنچ آنے دی، نہ ہی اپنی روایت سے الگ کسی اور روایت کے متلاشی ہوئے ۔ اس پورے عہد میں تخلیقی اور فکری اعتبار سے جووسعت، لچک اور رواداری ہمیں غالب کی شخصیت میں نظر آتی ہے ، کہیں اور نہیں ملتی۔ غالب ہمیں ادب کے اینگلو انڈین تصور، انگریزی تعلیم، مغربی فکر اور ضابطہ حیات کی طرف سے تقریباً بے نیاز، اپنے آپ میں گم، اپنی روایت سے مربوط دکھائی دیتے ہیں،
کجء یک خط مسطر چہ تو ہم چہ یقیں
بازیچہ ٔ اطفال ہے دنیا مرے آگے
غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوئیں
سینہ جو یائے زخم کاری ہے
غالب ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوش اشک سے
بیٹھے ہیں ہم تہیۂ طوفاں کیے ہوئے
یہ صرف رواروی میں دیے گئے بیانات نہیں ہیں۔ غالب اس نوع کے مصرعوں اور اشعار کے واسطے سے کہیں اپنی حالت کا اعتراف کرتے ہیں، کہیں گردوپیش کے حال پر تبصرہ کرتے ہیں۔ اپنے تمام معاصرین میں، سب سے زیادہ ہوش مند، اپنے زمانے اوراپنی زندگی سے دوسروں کی بہ نسبت کہیں زیادہ مشروط رہنے کے باوجود، غالب ہمیں سب سے مختلف اور شاید سب سے زیادہ تنہا دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں ضمناًایک واقعے کا ذکر ضروری ہے ، یہ کہ غالب اپنے وقت میں اردو یا ہندوستان کے ہی نہیں، مغربی زبانوں کے شعرا میں بھی سب سے سر بلند تھے ۔ فرانس کے انحطاط پرستوں، جرمنی کے اثبات پسندوں اورانگلستان کے رومانیوں میں ہمیں بصیرت کی وہ گہرائی اور فکر کی وہ کشادگی نظر نہیں آتی، جو غالب کی شاعری میں نظر آتی ہے ۔
 میرا خیال ہے کہ انیسویں صدی کی عام فکر اور تہذیبی نشاۃ ثانیہ کے حوالے سے غالب کے ذہنی سفر، غالب کی طبیعت کے تجسس، ان کے شعور کی سرگرمی اور تحرک کو تو سمجھا جاسکتا ہے ، لیکن غالب کی شاعری کو نہیں سمجھا جاسکتا۔ تخلیقی اور فنی بصیرت کا سفر، اجتماعی نصب العین اور سماجی تاریخ کے سفر سے بالعموم مختلف ہوتا ہے ۔ غالب کی شاعری ہمیں مشرق کی تہذیبی جینٔس (Genius) کے نقطہ ٔ عروج تک لے جاتی ہے ۔ نشاۃ ثانیہ کے سحر میں گم ہونے ، اس سے مغلوب ہونے کے بجائے ، ا س سحر کو توڑتی ہے ۔ اپنی روایت سے منقطع یامنحرف نہیں ہوتی، اس روایت کی توسیع کرتی ہے ، اس روایت کو ایک نیا طول دیتی ہے ۔
اسی سلسلے میں ایک اور بات جس کی طرف توجہ دینا ضروری ہے ، یہ ہے کہ غالب کے زمانے میں عہد و سطی کی تہذیبی اور تخلیقی توانائی نے ، ان کی شاعری میں درجہ ٔ کمال کو پہنچنے کے باوجود، بتدریج بکھرنا بھی شروع کردیاتھا۔ ایک بے روح اور سپاٹ نثریت رفتہ رفتہ چاروں طرف پھیلتی جارہی تھی اور زندگی کے تقریباً تمام شعبے اس کے حصار میں آتے جارہے تھے ۔ غالب نے ۱۸۵۷سے پہلے ہی شاعری سے جو اپنا ہاتھ تقریباً کھینچ لیاتھا تو شاید اسی لیے کہ وہ اپنے عہد کے بڑھتے ہوئے تخلیقی اضمحلال اور نشاۃ ثانیہ کی تاجرانہ اور کاروباری طاقت میں ترقی کے رمز سے بھی اپنے تمام ہم عصروں کے مقابلے میں زیادہ واقف تھے ۔۔۔ سیاسی، تہذیبی، معاشرتی اور فکری سطح پر جس قسم کے حالات کا اس وقت غالب کو سامنا تھا، ان میں اپنے داخلی نظم کو برقرار رکھنا آسان نہیں تھا۔ غالب کے بیشتر معاصرین نے ان حالات کے بارے میں سوچنا ہی تقریباً ترک کردیا۔
غالب کے لیے ، ان کی مخصوص افتاد طبع کے پیش نظر، یہ ممکن نہ تھا، کیونکہ ہر بڑے شاعر کی طرح غالب کے یہاں بھی نہ تو جذبات آگہی سے الگ تھے ، نہ آگہی جذبے سے خالی۔ ان حالات میں غالب نے اپنے ہیجانات کی جس طرح تہذیب کی، تصادم اور آویزش کی فضا کو جس طرح اپنے لیے قابل قبول بنایا، مذہب، تاریخ، روایت کے سہاروں سے محرومی کو جس طرح اپنے اعصاب اور دماغ پر مسلط ہونے سے بازرکھا، اس سے غالب کے شعور کی طاقت کا کچھ اندازہ کیا جاسکتا ہے ،
اپنی ہستی ہی سے ہو جوکچھ ہو
 آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی
اس ایقان کو ہم غالب کاذاتی منشور بھی کہہ سکتے ہیں اور اسی انداز فکر کی سطح پر غالب اپنی گم ہوتی ہوئی اجتماعی تاریخ، ایک بجھتے ہوئے ماضی میں ہمیں موجود بھی دکھائی دیتے ہیں اور اس سے آگے جاتے ہوئے بھی۔ انہوں نے پرانے ، آزمودہ اور فرسودہ لفظوں کے نئے مناسبات ڈھونڈ نکالے ۔ پرانے استعاروں کی مدد سے تجربے اور احساس کی نئی صورتیں وضع کرلیں۔ ماضی اور حال میں ایک نیا تخلیقی رابطہ پیدا کرلیا۔ یہ اعلی بے جوڑ چیزوں میں ایک نقطہ ٔ اتحاد کی جستجو بھی تھی او ر اسی جستجو کے ذریعے غالب نے اپنی شخصیت کو تقسیم ہونے سے بچائے رکھا۔
موج خمیازہ ٔ یک نشہ چہ اسلام چہ کفر
یہاں غالب اپنا نقشہ کھینچ رہے ہیں یا اپنے زمانے کا یا وقت کے ازلی اور ابدی تماشے کا؟ شاید ان میں سے ہر سوال کا جواب ایک ساتھ اثبات میں دیاجاسکتا ہے ۔ جس طرح دنیا بظاہر ایک دوسرے سے بے ربط، متضاد اور مختلف حقیقتوں سے بھری ہوئی ہے ، اسی طرح غالب کی اپنی ہستی بھی نیرنگیوں کا ایک نگار خانہ تھی، ایک کائنات اصغر۔ محدود لیکن مکمل۔ تکمیل ذات کا یہی پہلو غالب کی شخصیت اور شعور پر کوئی حد قائم نہیں ہونے دیتا۔
غالب کی شخصیت اور شعور میں ہمیں ان کے بعد آنے والے وجودی مفکروں کا اندوہ اورجلال ایک نقطے پر مرکوز نظر آتے ہیں۔ نشاۃ ثانیہ سے پہلے کی قدروں، ماقبل نو آباد یاتی (Pre.                
      
				
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: غالب کی شخصیت انیسویں صدی کے واسطے سے نشاۃ ثانیہ ہے کہ غالب جاسکتا ہے سے زیادہ کی شاعری میں ایک کی دنیا غالب نے ایک نیا ہیں اور غالب کے غالب کو فکر اور کا ایک ہے اور کی طرف اور اس
پڑھیں:
آج کا دن کیسا رہے گا؟
حمل:
21 مارچ تا 21 اپریل
مثبت: یہ رکاوٹ یا الجھن آپ کی زندگی کو آسان بنانے کا موقع ہے۔ اپنے اردگرد کے مناظر میں غرق ہوجائیں، غروب آفتاب اور اڑتے ہوئے پرندوں کو دیکھیں، پانی کی چھوٹی چھوٹی لہروں کو دیکھیں، ان چیونٹیوں کو دیکھیں جو اپنے گھروں تک کھانا لے کر جارہی ہیں۔ اور اپنے آپ سے پوچھیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں جو آپ کے پاس پہلے سے نہیں ہے؟ اور جب آپ محسوس کریں گے کہ آپ کے پاس سب کچھ موجود ہے، تو آپ ان ترجیحات پر بھی توجہ مرکوز کریں گے جنہیں زندگی کی بے قابو دوڑ میں شاید نظرانداز کر دیا گیا ہو۔
منفی: آپ کو یہ محسوس ہو سکتا ہے کہ آپ کنٹرول کھو رہے ہیں۔
اہم خیال: ہم سب محبت کو جس طرح جانتے ہیں اسی طرح محبت کرتے ہیں، اور ہم مختلف شکلوں میں محبت کو قبول کرتے ہیں۔
ثور:
22 اپریل تا 20 مئی
مثبت: فطرت میں وقت گزاریں، شاور میں پانچ منٹ زیادہ وقت لیں، سیب کھاتے ہوئے اس کے ذائقے اور آوازوں پر توجہ دیں، ہوا کی آہستہ آواز سنیں۔ یہ سادہ طریقے ہیں جن سے آپ فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہوسکتے ہیں اور اپنی روزمرہ کی زندگی میں بھی جاری رکھ سکتے ہیں۔ آپ اپنی زندگی، اپنے مقاصد اور بعض اوقات اپنے آپ سے بھی دوری محسوس کررہے ہیں، یہ صرف اس حقیقت کا عکس ہے کہ آپ باریک طریقوں سے محبت تلاش کررہے ہیں اور آہستہ آہستہ، اپنی شروعات کو اختتام تک یا ان کی اگلی سطح کی ترقی تک پرورش دے کر آپ جو کچھ بھی کریں گے اس میں محبت ڈالیں گے، اور کائنات اسے آپ پر واپس لوٹائے گی۔
منفی: آپ کو اپنی زندگی، اپنے مقاصد اور بعض اوقات اپنے آپ سے بھی دوری محسوس ہوسکتی ہے۔
اہم خیال: خوشگوار یادیں اپنے قریب رکھیں تاکہ آپ جو کچھ بھی کریں اس میں خوشی شامل ہوسکے۔
جوزا:
21 مئی تا 21 جون
مثبت: دوسروں کے انتخاب اور اس بات پر توجہ دینے کے بجائے کہ دوسرے آپ کو کیسے دیکھتے ہیں، جو کام آپ نے شروع کیا ہے اسے مکمل کرنے پر توجہ دیں۔ ابھی خوش محسوس کرنے کےلیے ان تمام طریقوں کے بارے میں سوچیں جن میں آپ نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ آپ کہیں پہنچ جائیں گے لیکن تقریباً جیسے کہ کسی جادوئی چھڑی کی لہر سے آپ بالکل وہیں پہنچ گئے جہاں آپ کو ہونا چاہیے تھا۔ اگر آپ کے خیالات اور ارادے خالص ذہن سے پیدا ہوتے ہیں تو کوئی بھی شخص، جگہ یا چیز آپ کے راستے میں نہیں آسکتی، کیونکہ کائنات خالص روح سے محبت کرتی ہے۔ آپ شاید یہ نہیں جانتے کہ آج آپ کو کیا کرنا چاہیے، سوائے اس کے کہ اسے آنے دیں، لیکن ہمیں یقین ہے کہ کل آپ سورج سے زیادہ روشن چمکیں گے۔
منفی: آپ کو یہ محسوس ہوسکتا ہے کہ آپ مختلف چیزوں میں الجھن محسوس کررہے ہیں۔
اہم خیال: اپنے آپ کو ’’الگ اور منفرد‘‘ ہونے کےلیے معاف کردیں۔
سرطان:
مثبت: آپ کی خدمت اور اتحاد کی فطری جبلت درست ہے۔ جب آپ بہت کچھ دیتے ہیں تو کائنات آپ کو ان لوگوں سے جوڑتی ہے جو آپ کےلیے قیمتی ہیں اور جو آپ کو اہمیت دیتے ہیں۔ یہ توازن تمام زندگی کو برقرار رکھنے کےلیے ضروری ہے۔ اپنے مشیر، ساتھیوں اور دوسروں پر بہت زیادہ انحصار کرنے کے بجائے، اپنی منصوبہ بندی پر قائم رہنے کی کوشش کریں اور اپنے اندرونی ستارے کی پیروی کریں جس نے آپ کو کبھی بھی گمراہ نہیں کیا۔ کائنات اور آپ کی روشنی آپ کے سوال کا جواب بڑے ’’اثبات‘‘ میں دیتی ہے۔ بے خوفی سے آگے بڑھیں۔
منفی: آپ اپنے مشیرین، ساتھیوں اور دوسروں پر بہت زیادہ انحصار کر سکتے ہیں۔
اہم خیال: اپنے اندر سب سے بہترین دیکھیں تاکہ دوسروں میں بھی بہترین دیکھ سکیں۔
اسد:
24 جولائی تا 23 اگست
مثبت: زیادہ پانی پیئیں۔ پریشان ہیں؟ پانی پیئیں۔ تھکے ہوئے ہیں؟ پانی پیئیں۔ فکرمند ہیں؟ پانی پیئیں۔ آج چاہے آپ کا مسئلہ کچھ بھی ہو، زیادہ پانی پینا حل ہے۔ ایک اور پیغام جسے آپ کو آج یاد رکھنا چاہیے وہ یہ ہے کہ جب تک آپ خود کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کےلیے تیار نہیں ہوں گے آپ یہ نہیں جانیں گے کہ آپ کس چیز کے بنے ہیں، اور آپ کائنات کو آپ کو حیران کرنے کا موقع نہیں دیں گے۔ آپ کی تخلیقی صلاحیتیں بہنے کا انتظار کر رہی ہیں، کیا آپ صرف اپنے آپ کا ایک احسان کریں گے اور اسے ایک منصفانہ موقع دیں گے؟ آپ کے پاس یہ موقع موجود ہے۔
منفی: آپ خود کو دنیا کے سامنے پیش کرنے سے گریز کرسکتے ہیں۔
اہم خیال: زندہ رہنے کے لیے متجسس رہیں۔
سنبلہ:
24 اگست تا 23 ستمبر
مثبت: آپ کے خاندان یا حلقے میں کوئی بزرگ، جس نے آپ کی زندگی پر ایک مضبوط اثر ڈالا ہو، شاید آپ کی حفاظت کا ذریعہ رہا ہو، وہ روحانی دنیا سے آپ کو محبت بھیج رہے ہیں۔ اگر آپ اپنے آپ پر شک کر رہے ہیں، اگر آپ اپنے ہر قدم پر سوالات کر رہے ہیں، اگر آپ اپنے آپ کو زیادہ دھکیل رہے ہیں لیکن ہر رکاوٹ کے آغاز میں اپنے آپ کو بکھیر رہے ہیں، تو آپ کا یونیکورن انہیں جادوئی روشنی اور کھیل کود بھیجتا ہے۔ ان کی جادوئی شاخوں کے بغیر ان کے پاس کوئی طاقت نہیں ہے، اسی طرح آپ کے خیالات اور عقائد بھی آپ کی حمایت کے بغیر کوئی طاقت نہیں رکھتے ہیں۔ اس کا فائدہ اٹھائیں اور اپنی روشنی کو وہاں مرکوز کریں جہاں آپ تخلیق کرنا چاہتے ہیں۔
منفی: آپ اپنے آپ پر شک کرسکتے ہیں، ہر قدم پر خود کو سوالات پوچھ سکتے ہیں اور ہر چھوٹی سی رکاوٹ پر اپنے آپ کو بکھیر سکتے ہیں۔
اہم خیال: آپ باصلاحیت ہیں، اس میں کوئی کم یا زیادہ نہیں ہے۔
میزان:
24 ستمبر تا 23 اکتوبر
مثبت: آپ کی زندگی کی سمت تیزی سے بدل رہی ہوگی، اور اگرچہ یہ سب کچھ تھوڑا سا غیر مانوس لگتا ہے، لیکن آپ کے دل میں ایک نرم آواز ہے جو آپ کو آگے بڑھنے کا اشارہ دے رہی ہے۔ تصور کریں کہ آپ واقعی اس دنیا میں رہ رہے ہیں جس کا آپ اتنی واضح طور پر تصور کرسکتے ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کس کی مدد کرتے ہیں اور کیسے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کسی نے آپ کو بتایا ہے کہ آپ قابل نہیں ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ آپ اپنے اندرونی احساسات کو قبول کریں، اور انہیں بغیر کسی فیصلے کے قبول کریں، کم از کم اپنے فائدے کےلیے۔ وہ بن جائیں جو آپ دنیا کے بتانے سے پہلے تھے کہ آپ کو کون بننا چاہیے۔
منفی: آپ کو یہ محسوس ہو سکتا ہے کہ آپ کنٹرول کھو رہے ہیں۔
اہم خیال: جیسے آپ ہیں خود کو پیار کریں، کیونکہ آپ جیسے ہیں قابل احترام ہیں۔
عقرب:
24 اکتوبر تا 22 نومبر
مثبت: تخلیقی سوچ اور دوسروں کے ساتھ مل کر کام کرنے سے آپ کو امید سے کہیں آگے لے جائے گا، اس میدان میں آپ پہلے سے ہی کچھ تجربہ حاصل کرچکے ہیں۔ آپ نے شاید اپنے دن کی شروعات ایک جوش و خروش کے ساتھ کی ہو، ایک واضح تصویر یا خیال کے ساتھ، اور جب آپ اس کے گرد کام کر رہے ہوں گے، تو دوسروں سے حمایت حاصل کرنا مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ فطرت کے جوہر سے ہم آہنگ ہوں، اپنے اردگرد کی چیزوں، ان افراد اور شوق سے جو آپ کو زندہ محسوس کراتے ہیں، آج صرف اپنے یونیکورن کی پیٹھ پر سوار ہوں اور افسانوی رنگین دنیا اور سونے کے برتنوں کو دریافت کریں۔ آپ کے ارادے ہی آپ کو جادوئی دنیا کی طرف لے جاتے ہیں، صرف آپ کی کوشش نہیں۔
منفی: آپ اپنے آپ کو محدود محسوس کر سکتے ہیں۔
اہم خیال: اپنے ذہن میں برپا شور کو خاموش کرائیں اور اپنے اندر جھانکیں۔
قوس:
23 نومبر تا 22 دسمبر
مثبت: آپ سفر کے ایک اہم موڑ پر پہنچ گئے ہیں اور اب یہ فیصلہ کرنے کا وقت آ گیا ہے کہ آپ کس طرف جانا چاہتے ہیں۔ آپ تبدیلی لانے کےلیے پیدا ہوئے ہیں، آپ ایک فطری شفا یاب ہیں اور اس کے لیے، آپ کو صرف ’’روحانی‘‘ تحائف حاصل کرنے یا انہیں متحرک کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ جس طرح چاہیں شفا لانا شروع کرسکتے ہیں۔ اختیارات کے درمیان الجھن میں پڑے ہوئے، یہ وقت ہے کہ آپ اپنی بنیادی خواہشات کا دوبارہ جائزہ لیں اور پھر ایک ایسی سمت کا انتخاب کریں جو سب سے زیادہ مناسب محسوس ہوتی ہے۔ جو چلا گیا وہ اب چلا گیا، جب بھی آپ مناسب محسوس کریں اس پر واپس آئیں۔ اس کے بجائے اپنے مستقبل کےلیے واضح طور پر اپنا وژن تشکیل دیں اور اس راستے پر چلنا شروع کریں۔
منفی: آپ مختلف اختیارات کے درمیان الجھن میں پڑ سکتے ہیں۔
اہم خیال: آپ کے پاس دوسروں کی مدد اور شفا دینے کی طاقت ہے، اسے دانشمندی سے استعمال کریں۔
جدی:
23 دسمبر تا 20 جنوری
مثبت: کیا یہ سادہ چیزیں نہیں ہیں جو آپ کو ہر صبح جگاتی ہیں۔ آپ کی ورزش جو آپ کے جسم کو زندہ محسوس کرتی ہے، سورج کی روشنی جو آپ کی جلد کو چومتی ہے، ہر روز جو چھوٹے لیکن اہم انتخاب آپ کرتے ہیں، آپ کے پیارے جو آپ کی زندگی میں خوشی لاتے ہیں، آپ کے پودے جو ہر بار جب آپ ان سے بات کرتے ہیں تو حرکت کرتے ہیں۔ آپ کےلیے بہت کچھ ہے اور آپ کو دنیا کے دباؤ میں آنے کی بہت کم وجہ ہے۔ اپنے اور دنیا کے درمیان ایک تصوراتی لکیر کھینچیں تاکہ سمجھ سکیں کہ کون سی توانائی آپ کی ہے اور کون سی کسی اور کی ہے۔
منفی: آپ دنیا کے دباؤ میں آ سکتے ہیں۔
اہم خیال: ایک گہری سانس لیں اور تمام تر تفکرات کو ذہن سے باہر نکال دیں۔
دلو:
21 جنوری تا 19 فروری
مثبت: آج اپنی پلے لسٹ میں ایسے گانے شامل کریں جن میں سکون ہوں۔ اور اس نرم یاد دہانی کے ساتھ ان فکروں کو دور بھگائیں کہ آخر میں سب ٹھیک ہو جاتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ آپ کچھ نیا آزمانے کی کوشش کریں، آپ ایک مختلف راستہ اختیار کریں۔ اگر آپ جلے ہوئے پل اور بصیرت کی چمک پر توجہ دینے جارہے ہیں جو آپ کو بعد میں حاصل ہوتی ہے، تو آپ ماضی میں پھنسے رہیں گے۔ جو کچھ بھی آپ کو نیچے کھینچ رہا ہے وہ اٹھ جائے گا اور کل ایک اور دن ہے۔ لہٰذا سورج کو ڈوبنے دیں، ستارے آپ کےلیے طلوع ہوں تاکہ آپ ایک ایسی خواہش کرسکیں جو سب کچھ بدل دے۔
منفی: آپ کا ذہن ماضی میں الجھا رہ سکتا ہے۔
اہم خیال: مختلف ہونا ٹھیک ہے۔
حوت:
20 فروری تا 20 مارچ
مثبت: ہر الوداع کے بعد ایک سلام آتا ہے اور ہر سلام آخرکار ایک الوداع کی طرف جاتا ہے، تاہم، اہم بات یہ یاد رکھنی ہے کہ ہر سفر کے آغاز اور اختتام کے درمیان جو وقت گزارا جاتا ہے وہی اصل ہے۔ آپ کے یونیکورن پرجوش اور سرشار توانائی کے ساتھ دوڑتے ہیں اور آپ کو ’’اگر میں آپ ہوتا، تو میں بھی خود ہی بننا چاہتا‘‘ جیسے خیال کی پیروی کرنے کا کہتے ہیں اور اپنے آپ سے محبت کا کھیل پڑھاتے ہیں۔ شکرگزار ہونے کے لیے بہت کچھ ہے تو ان چھوٹی سی رکاوٹوں پر کیوں پریشان ہوں جو آپ کو عارضی طور پر حواس باختہ کر رہی ہیں؟ آپ کےلیے خوشگوار حیرت کا انتظار ہے۔ وہ تتلی جو آپ کے راستے سے گزرتی ہے، وہ پر جو آپ کے کندھے پر گرتی ہے، وہ قوس قزح جو کہیں سے بھی نمودار ہوتی ہے، یہاں تک کہ وہ بادل جو آپ کے پسندیدہ جانور کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ آپ کے اردگرد ہر چیز میں جادو ہے۔ لہٰذا آرام سے بیٹھ کر جائزہ لیجئے اور اس سب کا لطف اٹھائیں۔
منفی: آپ بہت حساس ہوسکتے ہیں اور دوسروں کی توانائی کو بہت آسانی سے جذب کر سکتے ہیں۔
اہم خیال: کچھ بہت اچھا ہونے والا ہے۔
(نوٹ: یہ عام پیش گوئیاں ہیں اور ہر ایک پر لاگو نہیں ہوسکتی ہیں۔)