بیجنگ(نیوز ڈیسک)چین نے سکڑتی ہوئی آبادی کا مسئلہ حل کرنے کیلئے ملک بھر میں شادی مہم کا آغاز کردیا۔ شادی کی ترغیب دلانے کیلئے نوجوان جوڑوں کو تحفےمیں نقد رقم دینے کا اعلان کردیا۔

غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق چین کے شہر لولیناگ کا شمار ان متعدد شہروں میں ہوتا ہے جہاں کی مقامی انتظامیہ شادی کرنے پر 1500 یوان یعنی 205 ڈالر انعام کے طور پر دے رہی ہے،لولیناگ کے رہائشیوں ژانگ گانگ اور وینگ لنبن نے شادی کی تقریب کے کچھ دیر بعد چینی حکومت کے نشان کے سامنے تصویر کچھوائی جس میں انہوں نے ہاتھ میں نقد کیش کا سرٹیفیکیٹ بھی تھام رکھا تھا۔

چین کی آبادی میں گزشتہ 3 سالوں سے مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے جبکہ نوجوانوں کے مقابلے میں عمر رسیدہ افراد کی شرح زیادہ ہے،لولیناگ میں نوبیاہتے جوڑوں کے لیے مختص 1500 یوان کی رقم دراصل ایک ماہ کی اوسط اجرت کے نصف کے برابر ہے۔

شہری ژانگ گانگ کا کہنا ہے کہ حکومت کی یہ پالیسی شادی کی ترغیب دلانے کے لیے کافی مؤثر ہے تاہم اس کے باوجود نوجوان شادی کرنے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے۔ماہرین کے مطابق بچوں کی پرورش، تعلیم کے اخراجات اور نئے گریجویٹس کے لیے روزگار کے بڑھتے ہوئے چیلنجز ایسے عوامل ہیں جو شادیاں کرنے یا بچے پیدا کرنے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں،شہریوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے دی جانے والی رقم شادی جیسی ایک بڑی تبدیلی کے لیے ناکافی ہے۔

لولیناگ کی مقامی انتظامیہ نے بچے کی پیدائش پر میڈیکل انشورنس دینے کا بھی اعلان کیا ہے,پہلے بچے کی پیدائش پر 2 ہزار یوان جبکہ دوسرے پر 5 ہزار اور تیسرے پر 8 ہزار یوان شادی شدہ جوڑوں کو دیئے جاتے ہیں۔

یکم جنوری کو جب انتظامیہ نے شادی کے عوض نقد رقم دینے کا اعلان کیا تھا، تب سے شہر کے رجسٹری آفس میں نئے جوڑوں کو تواتر سے آتے دیکھا جا سکتا ہے۔

رجسٹری آفس میں ایک عہدیدار نے بتایا کہ نئے سال کے آغاز سے اب تک 400 جوڑے صرف اس دفتر میں اپنی شادی رجسٹر کروا چکے ہیں,36 سالہ وانگ یانلانگ نے بتایا کہ شادی کے بعد جب انعامی رقم لینے آئے تو رجسٹری آفس کے پاس رقم ختم ہو چکے تھے۔

دوسری جانب میچ میکر یعنی رشتے کروانے والی خاتون فینگ یوپنگ کا کہنا ہے کہ ’خواتین اب مستحکم آمدنی کما رہی ہیں اور شاید شادی کرنے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتیں اور بہت اچھے مرد بھی نہیں ہیں۔
طویل خشک سالی، راولپنڈی میں پانی کا بحران، ایمرجنسی نافذ، الرٹ جاری

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: دینے کا کے لیے

پڑھیں:

چینی صدر کا مصنوعی ذہانت کی نگرانی کا عالمی ادارہ قائم کرنے پر زور

چینی صدر شی جن پنگ نے ہفتے کے روز ایشیا پیسیفک اکنامک کوآپریشن (ایپیک) کے رہنماؤں کے اجلاس میں نمایاں کردار ادا کرتے ہوئے مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی نگرانی کے لیے ایک عالمی ادارہ قائم کرنے کی تجویز پیش کی، جس کے ذریعے چین خود کو تجارت کے میدان میں امریکا کے متبادل کے طور پر پیش کر رہا ہے۔

نجی اخبار میں شائع برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق یہ صدر شی کے اس منصوبے کے بارے میں پہلے تبصرے تھے، جسے بیجنگ نے اس سال متعارف کرایا ہے، جب کہ امریکا نے بین الاقوامی اداروں کے ذریعے مصنوعی ذہانت کے ضابطے بنانے کی کوششوں کو مسترد کر دیا ہے۔

ایپیک 21 ممالک پر مشتمل ایک مشاورتی فورم ہے، جو دنیا کی نصف تجارت کی نمائندگی کرتا ہے، جن میں امریکا، چین، روس اور جاپان شامل ہیں، اس سال کا سربراہی اجلاس جنوبی کوریا میں منعقد ہوا ہے، جس پر بڑھتی ہوئی جیو پولیٹیکل کشیدگی اور جارحانہ معاشی پالیسیوں (جیسے کہ امریکی محصولات اور چین کی برآمدی پابندیاں) کے سائے چھائے رہے جنہوں نے عالمی تجارت پر دباؤ ڈال رکھا ہے۔

شی جن پنگ نے کہا کہ ’ورلڈ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کوآپریشن آرگنائزیشن‘ کے قیام سے نظم و نسق کے اصول طے کیے جا سکتے ہیں، اور تعاون کو فروغ دیا جا سکتا ہے، تاکہ مصنوعی ذہانت کو ’بین الاقوامی برادری کے لیے عوامی مفاد‘ بنایا جا سکے۔
یہ اقدام بیجنگ کو خاص طور پر تجارتی تعاون کے میدان میں واشنگٹن کے متبادل کے طور پر پیش کرتا ہے۔

چین کے سرکاری خبر رساں ادارے ’شِنہوا‘ کے مطابق، شی نے مزید کہا کہ مصنوعی ذہانت مستقبل کی ترقی کے لیے انتہائی اہمیت رکھتی ہے، اور اسے تمام ممالک اور خطوں کے لوگوں کے فائدے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔

چینی حکام نے کہا ہے کہ یہ تنظیم چین کے تجارتی مرکز شنگھائی میں قائم کی جا سکتی ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایپیک سربراہی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے، بلکہ شی جن پنگ کے ساتھ ملاقات کے بعد سیدھا واشنگٹن واپس چلے گئے۔

دونوں رہنماؤں کی بات چیت کے نتیجے میں ایک سالہ معاہدہ طے پایا ہے، جس کے تحت تجارت اور ٹیکنالوجی پر عائد کچھ پابندیاں جزوی طور پر ہٹائی جائیں گی، جنہوں نے دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ کیا تھا۔

جہاں کیلیفورنیا کی کمپنی ’این ویڈیا‘ کے جدید چپس مصنوعی ذہانت کے عروج کی بنیاد بنے ہیں، وہیں چین کی کمپنی ’ڈیپ سِیک‘ نے کم لاگت والے ماڈلز متعارف کرائے ہیں، جنہیں بیجنگ نے ’الگورتھمک خودمختاری‘ کے فروغ کے لیے اپنایا ہے۔

شی نے ایپیک کو ’گرین ٹیکنالوجی کی آزادانہ گردش‘ کو فروغ دینے پر بھی زور دیا، ایسی صنعتیں جن میں بیٹریز سے لے کر سولر پینلز تک کے شعبے شامل ہیں، اور جن پر چین کا غلبہ ہے۔

ایپیک کے رکن ممالک نے اجلاس میں ایک مشترکہ اعلامیہ اور مصنوعی ذہانت کے ساتھ ساتھ عمر رسیدہ آبادی کے چیلنج پر معاہدے کی منظوری دی۔

چین 2026 میں ایپیک سربراہی اجلاس کی میزبانی کرے گا، جو شینزین میں منعقد ہو گا، یہ شہر ایک بڑا صنعتی مرکز ہے، جو روبوٹکس سے لے کر برقی گاڑیوں کی تیاری تک کے میدان میں نمایاں ہے۔

شی نے کہا کہ یہ شہر، جس کی آبادی تقریباً ایک کروڑ 80 لاکھ ہے، کبھی ایک ماہی گیر بستی تھا، جو 1980 کی دہائی میں چین کے پہلے خصوصی اقتصادی زونز میں شامل ہونے کے بعد تیزی سے ترقی کر کے یہاں تک پہنچا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • نانبائیوں کا 5 نومبر سے تندور غیر معینہ مدت کیلئے بند کرنے کا اعلان
  • کراچی میں ای چالان کے خلاف درخواست پر سندھ حکومت سے جواب طلب
  • پنجاب حکومت کا اینفورسمنٹ اینڈ ریگولیشنز اتھارٹی کو مزید خودمختاری دینے کا فیصلہ
  • خدمات اور وفاداری کا اعتراف، عمان کی جانب سے 45 افراد کو شہریت دینے کا شاہی فرمان جاری
  • چین نے پنجاب حکومت کو چینی سرمایہ کاروں کیلئے بلٹ پروف گاڑی دیدی
  • پورٹ قاسم پر چینی کمپنی کو شپ یارڈ کیلئے تیار جیٹی دینے کا فیصلہ
  • گلے ملنے کی ویڈیو وائرل: امریکی نائب صدر اور ایریکا کرک کی شادی کی خبریں گردش کرنے لگیں
  •  اسلام آباد: ٹریفک پولیس کا ناکوں پر لرنر پرمٹ بنا کر دینے کا اعلان
  • جج ہمایوں دلاور کیخلاف سوشل میڈیا مہم کیس؛ جسٹس انعام امین کی سماعت سے معذرت
  • چینی صدر کا مصنوعی ذہانت کی نگرانی کا عالمی ادارہ قائم کرنے پر زور