کراچی کا نوبیاہتا جوڑا آزاد کشمیر کے گیسٹ ہاؤس میں دم گھٹنے سے جاں بحق
اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT
کراچی سے ہنی منانے کے لیے جانے والا نوبیاہتا جوڑا آزاد کشمیر کے ایک گیسٹ ہاؤس کے کمرے میں دم گھنٹے سے زندگی کی بازی ہار گیا۔رواں ماہ نئی زندگی کی شروعات کرنے والا نوبیاہتا جوڑا سید طحہٰ اور دعا زہرہ ہنی مون بنانے آزاد کشمیر گئے تھے۔ تاہم ان کی زندگی کی شروعات کا پہلا حسین سفر ان کی زندگی کا آخری سفر ثابت ہوا۔یہ جوڑا ہنی مون کے دوران آزاد کشمیر کے آٹھ مقام کے علاقے میں واقع ایک ہوٹل میں مقیم تھا، جہاں کمرے میں دم گھٹنے سے دونوں جاں بحق ہوگئے۔متوفی شوہر سید طحہٰ مکینیکل انجینئر اور اہلیہ دعا زہرہ بی بی اے کی طالبہ تھی۔ ان کی شادی رواں ماہ 4 فروری جب کہ ولیمہ 8 فروری کو ہوا تھا۔متوفی کے اہلخانہ کے مطابق جوڑے سے آخری بار فون پر جمعہ کی رات بات ہوئی تھی۔ دونوں کو ہفتہ کی صبح گیسٹ ہاؤس سے نیلم ویلی روانہ ہونا تھا۔تاہم اگلی صبح دونوں مردہ حالت میں اپنے کمرے میں پائے گئے۔ پولیس کے مطابق گیسٹ ہاؤس کے کمرے میں سلنڈر کے استعمال سے گیس بھر گئی تھی۔متوفی میاں بیوی کی میتیں آج اسلام آباد ایئرپورٹ سے کراچی منتقل کی جائیں گی اور یہاں ان کی تدفین کی جائے گی۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
مائیکرو پلاسٹکس ہماری روزمرہ زندگی میں خاموش خطرہ بن گئے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ماہرین کے مطابق ہم بغیر محسوس کیے مسلسل مائیکرو پلاسٹکس کا استعمال بھی کر رہے ہیں اور انہیں نگل بھی رہے ہیں۔ یہ باریک ذرات کھانے، پانی اور سانس کے ذریعے ہمارے جسم میں داخل ہوتے رہتے ہیں جبکہ عام استعمال کی متعدد مصنوعات میں بھی ان چھوٹے ذرات کی موجودگی پائی گئی ہے۔
مائیکرو پلاسٹک اصل میں وہ پلاسٹک ہے جو وقت کے ساتھ ٹوٹ کر اتنے چھوٹے ٹکڑوں میں بدل جاتا ہے کہ وہ آنکھ سے دکھائی نہیں دیتے۔ کراچی یونیورسٹی کے پروگرام باخبر سویرا میں اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر وقار احمد نے بتایا کہ ہماری روزمرہ استعمال کی بے شمار چیزوں میں یہ پلاسٹک شامل ہوتا ہے لیکن ہمیں اس کی معلومات نہیں دی جاتیں۔ خواتین کے استعمال میں آنے والے فیس واش میں استعمال ہونے والے ذرات بھی دراصل مائیکرو پلاسٹکس ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر وقار احمد کے مطابق ہر ہفتے انسان تقریباً پانچ گرام تک پلاسٹک اپنے جسم میں لے جاتا ہے جو ایک کریڈٹ کارڈ کے وزن کے برابر ہے۔ جو پانی ہم پیتے ہیں، جو غذا ہم کھاتے ہیں اور جو ہوا ہم سانس کے ذریعے اپنے جسم میں لے جاتے ہیں، ان سب میں مائیکرو پلاسٹکس شامل ہیں۔ مختلف سائنسی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مارکیٹ میں دستیاب زیادہ تر بوتل بند پانی میں بھی پلاسٹک کے باریک ذرات موجود ہیں جبکہ ان میں پوشیدہ کیمیکلز بھی شامل ہوتے ہیں جو امراض قلب، ہارمون عدم توازن اور حتیٰ کہ کینسر کا بھی سبب بن سکتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف پلاسٹک ہی نہیں بلکہ ڈسپوزیبل مصنوعات جیسے ماسک، سرنجز، دستانے اور سرجیکل آلات بھی صحت کو متاثر کرتے ہیں کیونکہ یہ ایک بار استعمال کے بعد پلاسٹک کچرے میں اضافہ کرتے ہیں اور بالآخر ماحول میں ہی واپس شامل ہو جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے سائنس دان اب یہ تحقیق کر رہے ہیں کہ یہ باریک ذرات انسانی خون اور پھیپھڑوں تک کیسے پہنچتے ہیں اور ان سے بچاؤ کے مؤثر طریقے کیا ہو سکتے ہیں۔