Express News:
2025-11-04@05:26:03 GMT

غریب ملک کی غریب قیدی: عافیہ صدیقی

اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT

7فروری2025 کو پاکستان وزارتِ خارجہ کے ترجمان، شفقت علی خان، نے ہفتہ وار بریفنگ کے دوران صحافی کے ایک سوال کا جواب دیتے ہُوئے کہا: ’’سابق امریکی صدر، جو بائیڈن، امریکی جیل میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رحم کی اپیل مسترد کر چکے ہیں۔ اپیل مسترد ہونے کے بعد امریکی محکمہ انصاف نے یہ کیس بند کر دیا ہے ۔

اب ڈاکٹر عافیہ صدیقی اپنے وکلا کے ذریعے کسی بھی وقت رحم کی نئی اپیل کر سکتی ہیں۔‘‘ افسوس ، صد افسوس!!سابق امریکی صدر ، جوبائیڈن، چار سال حکومت کرکے امریکی اقتدار سے غائب ہو چکے ہیں ۔ اُن کی جگہ اب ڈونلڈ ٹرمپ آ گئے ہیں ۔ ہم سبھی پاکستانی چار سال منتظر اور کوشش کرتے رہے کہ امریکی ریاست ، ٹیکساس، کی بدنامِ زمانہ جیل (Carswell) میں86 سال کی ناجائز سزا بھگتنے والی پاکستانی سائنسدان ، محترمہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی، کو رہائی مل جائے گی ۔ مگر ہماری توقعات ،خواہشات اور کوششیں اکارت اور بے ثمر ہی رہیں ۔

ہمارے وزیر اعظم ، جناب شہباز شریف،نے جو بائیڈن کے نام پاکستان سرکار کے سرکاری پَیڈ پر خط بھی لکھا اور گزارش کی کہ عافیہ صدیقی نمانی کی سزا معاف کرکے باعزت رہا کر دیا جائے۔ امریکی صدر نے مگر ہمارے وزیر اعظم صاحب کی گزارش مسترد کرکے اہلِ پاکستان کو سخت مایوس کیا ہے۔امریکی حکمرانوں کے سامنے ہمارے حکمرانوں کی اہمیت اور حیثیت بھی سامنے آ گئی ہے۔

اگر امریکی صدر ، جو بائیڈن ، چاہتے تو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی سزا بآسانی معاف کر سکتے تھے ۔ موصوف نے اقتدار سے رخصت ہوتے وقت 2500امریکی قیدیوں کی سزاؤں میں تخفیف بھی کی اور درجنوں کی سزائیں معاف بھی کیں۔ امریکی اخبار (Huff Post) نے خبر دی ہے کہ جو بائیڈن نے امریکی صدارت سے رخصت ہونے سے چند گھنٹے قبل امریکا کے ایک ایسے پرانے قیدی کی سزا بھی ختم کر دی جو پچھلے50سال سے جیل میں تھا ۔ اِس قیدی کا نام Leonard Peltierبتایا جاتا ہے ۔ وہ اصل امریکی (ریڈ انڈین)ہے۔ اس پر الزام تھا کہ اُس نے FBIکے دو اہلکاروں کو قتل کیا تھا ۔

عدالت میں مگر اُس کا قتل ثابت نہیں ہو سکا ۔ اس کے باوجود اُسے50سال سے جیل میں رکھا گیا تھا ۔ شائد اس لیے کہ وہ برسر عام کہتا اور تبلیغ کرتا تھا کہ امریکیوں نے اُس کا اصل امریکا  اُن کے آبا سے چھین لیا ہے ۔ جو بائیڈن اگر قاتل کو معاف کرکے گھر بھیج سکتے تھے تو عافیہ صدیقی کی سزا معاف کرنا کونسا مشکل تھا؟ مگر غریب پاکستان کی ایک غریب اور بے نوا قیدی کی کون فریاد سُنتا؟

20جنوری2025 سے ایک دن قبل تک عافیہ صدیقی کے وکیل (Clive Stafford Smith)  نے ہم سب پاکستانیوں کو یقین دلایا تھا کہ عافیہ صدیقی کو صدارتی معافی مل جائے گی ۔ یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ موصوف نے76500الفاظ کا ایک ڈوزئر بھی جو بائیڈن کے محکمہ انصاف کو بھیجا ہے کہ عافیہ بے گناہ ہیں ، معاف کر دیا جائے۔ پاکستان کی جماعتِ اسلامی کے سابق سینیٹر ( مشتاق احمد خان ) بھی صدقِ دل کے ساتھ ہم سب پاکستانیوں کو دلاسا دیتے رہے کہ20جنوری سے قبل عافیہ صدیقی کو امریکی صدر معاف کردیں گے ۔ سب دُعا کریں۔ مگر : اُلٹی ہو گئیں سب تدبیریں ، کچھ نہ ’’ دُعا ‘‘نے کام کیا ! جو بائیدن کی سفاکی سے سب پاکستانیوں کا دل دُکھا ہے ۔ عافیہ صدیقی کو محض مسلمان ہونے کے ناتے معاف نہیں کیا گیا ۔

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ عافیہ صدیقی کو امریکی صدر نے صرف اس لیے معاف نہیں کیا کیونکہ پاکستان نے ’’غدارِ وطن ‘‘ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو پاکستانی جیل سے رہا کرنے سے انکار کردیا تھا ( شکیل آفریدی نے مبینہ طور پر امریکی فورسز اور خفیہ اداروں کو اسامہ بن لادن تک پہنچنے کی راہ ہموار کی تھی ) یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر امریکا نے شیخ عمر عبدالرحمن کی سزا معاف نہیں کی تو عافیہ کو کیسے معاف کر دیا جائے ؟( مصری شیخ عمر عبدالرحمن امریکی ورلڈ ٹرید سینٹر پر حملے کے مجرم گردانے جاتے ہیں ۔ اُنہیں طویل سزا سنائی گئی ۔ رحم کے لیے شیخ صاحب کے رشتہ داروں اور مصر کی درخواستیں بھی نہ مانی گئیں ۔ شیخ صاحب امریکی جیل ہی میں وفات پا گئے )۔

حال ہی میں سابق ہونے والے امریکی صدر، جو بائیڈن ، نے اپنے اقتدار کے آخری لمحات میں امریکی جیلوں میں قید پانچ بڑے مجرمان کی سزائیں بھی معاف کر دی تھیں ۔ مگر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی باری اُن کے ہاتھ میں رعشہ آگیا ۔ عافیہ صدیقی صاحبہ کو جیل گزارتے ہوئے16سال ہو چکے ہیں ۔ وزیر اعظم شہباز شریف صاحب نے13اکتوبر2024 کو جو بائیڈن سے استدعا کی تھی کہ ’’عافیہ صدیقی شدید بیمار بھی ہیں ، انھیں معافی ملنی چاہیے ۔‘‘ مگر ہمارے چیف ایگزیکٹو کا ترلا منت بھی نہ مانا گیا ۔

باون سالہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ ’’القاعدہ‘‘کی رکن رہی ہیں ۔ اور یہ کہ اُنھوں نے افغانستان میں امریکی فوجی پر حملہ کیا تھا ۔ سب بکواس! شام میں’’القاعدہ‘‘ کے نامور جنگجو رہنما ، احمد الشرع، پر امریکی اور مغربی ممالک جی جان سے واری صدقے جا رہے ہیں ۔داعش و القاعدہ کے سابق مبینہ رکن احمد الشرع(جو اب از خود شامی صدر بھی بن چکے ہیں) کو امریکا اس لیے سینے سے لگا رہا ہے کہ اُس نے شام میں بشارالاسد کی حکومت کا خاتمہ کیا ہے ۔ یہ ہے امریکا کا دہشت گردی اور داعشیوں و القاعدہ کے خلاف اصول۔ کیا ایسے ’’اصول پسند‘‘ امریکا کی عافیہ کے مبینہ جرم بارے منطق تسلیم کی جا سکتی ہے ؟

 امریکی صدر، جو بائیڈن، نے اپنی صدارت کے آخری لمحات میں اپنے ہی خاندان کے کئی افراد کی سزائیں بھی معاف کر دیں ۔ معافی نامے میں اُن کے دو بھائی ( جیمز بی بائیڈن اور فرانسس ڈبلیو بائیڈن) ایک بہن( ویلری بائیڈن اوونز) اور اُن کے شوہر( جان ٹی اوونز) اور بھابھی سارہ جونز بائیڈن شامل ہیں۔اِن معافیوں کے ساتھ جاری ایک بیان میں سبکدوش ہونے والے صدر نے کہا :’’میرے خاندان کو مسلسل حملوں اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔اِن کا مقصد صرف مجھے نقصان پہنچانا رہاہے۔

یہ بدترین قسم کی جانبدارانہ سیاست تھی۔ مَیں قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتا ہُوں اور پُراُمید ہوں کہ ہمارے قانونی اداروں کی طاقت بالآخر سیاست پر غالب آئے گی۔مگر بے بنیاد اور سیاسی محرکات پر مبنی نشانہ بنائے گئے افراد اور اُن کے اہلِ خانہ کی زندگیوںاور مالی تحفظ کو یہ سیاسی محرکات تباہ کرتے ہیں‘‘۔ اپنی باری آئی تو اپنے مجرموں کی سب بد اعمالیاں قابلِ عفو اور عافیہ کی باری آئی تو ناکردہ گناہ بھی قابلِ گردن زدنی ! یعنی : تمہاری زُلف میں پہنچی تو حُسن کہلائی / وہ تیرگی جو مرے نامئہ سیاہ میں تھی !!

اب امریکی اقتدار ڈونلڈ ٹرمپ کے قبضے میں ہے۔ کیا اُن سے توقع رکھی جائے کہ وہ عافیہ صدیقی کی سزا معاف فرما دیں گے ؟ معاف کردیں تو اُن کی مہربانی ہوگی ، مگر توقع عبث ہے ۔ مسلمانوں کے بارے موصوف جو خیالات و نظریات رکھتے ہیں ، ان کے پس منظر میں یہ اُمید نہیں کی جا سکتی کہ وہ عافیہ پر رحم کریں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار میں آتے ہی 1500 مجرم امریکیوں کی سزائیں بیک جنبشِ قلم موقوف کر دی ہیں ۔ امریکی عدالتوں سے سزا یافتہ یہ ڈیڑھ ہزار افراد وہ تھے جنھوں نے ٹرمپ کے حق میں (اور جو بائیڈن کے خلاف) 6جنوری2021ء کو مرکزی امریکی حکومت کے نشان(Capitol Hill) پر باقاعدہ دھاوا بول دیا تھا۔

اِس حملے میں نصف درجن امریکی مارے گئے اورکئی پولیس اہلکار زخمی ہُوئے تھے ۔ٹرمپ نے تخت سنبھالتے ہی سزا یافتہ ایک اور بڑے مجرم (Ross Ulbricht) کی سزا بھی ختم کر دی ہے۔ اس شخص پر کئی ملین ڈالرز کی منشیات فروشی کا الزام تھا۔اور بیگناہ بیچاری عافیہ صدیقی کا تو نام بھی سننے کو ٹرمپ تیار نہیں ہیں ۔ کیا اس لیے کہ وہ ایک غریب ملک کی غریب قیدی ہے؟؟  

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ڈاکٹر عافیہ صدیقی عافیہ صدیقی کو عافیہ صدیقی کی کی سزا معاف امریکی صدر معاف کر دی کی سزائیں جو بائیڈن نہیں کی چکے ہیں تھا کہ اس لیے کر دیا

پڑھیں:

فلسطینی قیدی پر اسرائیلی تشدد؛  ویڈیو لیک کرنے پر 2 اعلیٰ افسران گرفتار

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسرائیلی فوجیوں کی فلسطینی قیدی کے ساتھ غیر انسانی سلوک اور بہیمانہ تشدد کی ویڈیو لیک کرنے کے اسکینڈل پر چیف پراسیکیوٹر اور ملٹری لا آفیسر کو حراست میں لے لیا گیا۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیلی فوج کے چیف پراسیکیوٹر کرنل ماتن سولوموش پر الزام تھا کہ انھوں نے فوجی قانونی سربراہ میجر جنرل یفعات تومر یروشلمی کا کردار چھپانے میں مدد کی تھی۔

میجر جنرل یفعات تومر یروشلمی نے فلسطینی قیدیوں پر اسرائیلی فوجیوں کے تشدد کی سی سی ٹی وی فوٹیجز کو لیک کرنے کی اجازت دی تھی اور اپنے اس جرم کا اعتراف کرتے ہوئے عہدے سے استعفیٰ بھی دیدیا تھا۔

یہ ویڈیو اسرائیل کے سدے تیمن کے فوجی حراستی مرکز کی تھی جس میں اہلکاروں کو چند قیدیوں پر تشدد کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ ویڈیو میڈیا کو فراہم کی گئی تھی۔

اسرائیلی پولیس کا کہنا ہے کہ چیف پراسیکیوٹر سولوموش کو گزشتہ رات مستعفی ہونے والی تومر یروشلمی کے ساتھ گرفتار کیا گیا۔

عدالت میں پولیس کے نمائندے نے بتایا کہ چیف پراسیکیوٹر سولوموش کو پہلے سے علم تھا کہ ویڈیو لیک کرنے میں ملٹری لا آفیسر تومر یروشلمی ملوث ہیں لیکن انھوں نے اس حقیقت کو چھپانے کی کوشش کی۔

جس پر چیف پراسیکیوٹر سولوموش کے وکیل ناتی سمخونی نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کے مؤکل کو اس بات کا علم اپنا بیان جمع کرانے کے کافی بعد میں ہوا تھا۔

وکیل کا مزید کہنا تھا کہ سولوموش اُس ٹیم کا حصہ بھی نہیں تھے جو تومر یروشلمی نے واقعے کی ابتدائی تحقیقات کے لیے بنائی تھی جس میں بریگیڈیئر جنرل گل اسائل اور ڈپٹی اسٹیٹ پراسیکیوٹر آلون آلٹمین شامل تھے۔

اُن کے بقول اس ٹیم نے 25 ستمبر کو اسرائیلی سپریم کورٹ میں ویڈیو لیک سے متعلق رپورٹ جمع کرائی تھی، جس میں تومر یروشلمی کا نام شامل نہیں کیا گیا تھا۔ اس وقت سولوموش اپنی مدتِ ملازمت مکمل کر کے عہدے سے جا چکے تھے۔

پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ اگر سولوموش کو رہا کیا گیا تو وہ جاری تحقیقات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ عدالت نے ان کی حراست بدھ دوپہر تک بڑھا دی۔

اسی طرح، پولیس نے تومر یروشلمی کی حراست میں پانچ دن کی توسیع کی درخواست کی تھی، تاہم تل ابیب مجسٹریٹ کورٹ کی جج شیلی کوٹین نے اسے تین دن تک محدود کر دیا۔

تومر یروشلمی پر فراڈ، اعتماد شکنی، شواہد میں رکاوٹ ڈالنے اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات ہیں۔

تومر یروشلمی کے وکیل ڈوری کلاگسبلاد نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ ان کی موکلہ بے گناہ ہیں اور پولیس کے پاس پہلے ہی دیگر مشتبہ افراد سے حاصل کردہ کافی شواہد موجود ہیں۔

پس منظر:

یہ تنازع اس وقت شروع ہوا جب اسرائیلی میڈیا میں سدے تیمن فوجی حراستی مرکز کی وہ ویڈیو لیک ہوئی جس میں مبینہ طور پر اسرائیلی فوجی غزہ کے قیدی کو تشدد کا نشانہ بنا رہے تھے۔

ویڈیو کے منظرعام پر آنے کے بعد اسرائیل میں فوجی طرزِ عمل پر سخت تنقید ہوئی، اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسے فوجی زیادتیوں کا ثبوت قرار دیا۔

تومر یروشلمی، جو اُس وقت فوجی ایڈووکیٹ جنرل کے عہدے پر فائز تھیں، نے بعد ازاں اعتراف کیا کہ ویڈیو انھوں نے خود لیک کی تاکہ فوجی زیادتیوں کو بے نقاب کیا جا سکے۔

جس کے بعد تومر یروشلمی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور اب انھیں حراست میں لے لیا گیا ہے۔

پولیس اس بات کی تحقیقات کر رہی ہے کہ آیا فوج کے دیگر اعلیٰ افسران، خصوصاً سولوموش، نے اس عمل کو چھپانے یا کم کرنے کی کوشش تو نہیں کی۔

ویب ڈیسک مرزا ندیم بیگ

متعلقہ مضامین

  • فلسطینی قیدی پر تشدد کی ویڈیو لیک کرنے کے الزام میں اعلیٰ اسرائیلی فوجی افسر گرفتار
  • فلسطینی قیدی پر اسرائیلی تشدد؛  ویڈیو لیک کرنے پر 2 اعلیٰ افسران گرفتار
  • اسرائیلی فوج نے فوجی پراسیکیوٹر کو ہٹا دیا
  • فلسطینی قیدی پر تشدد کی ویڈیو افشا ہونے کے بعد اسرائیلی فوجی استغاثہ لاپتہ
  • فلسطینی قیدی سے اجتماعی زیادتی کی ویڈیو لیک کرنیوالی اسرائیلی فوج کی اعلیٰ وکیل مستعفی
  • آج والدین اپنے بچوں کو مار نہیں سکتے: عدنان صدیقی
  • غلطی نہیں کی تو جرمانہ نہیں لگے گا، تصدیق کے بعد چالان معاف ہونگے، آئی جی سندھ
  • ای چالان سسٹم کیخلاف ایڈووکیٹ راشد رضوی کی سندھ ہائی کورٹ میں آئینی پٹیشن داخل
  • پنجاب میں اب کسی غریب اور کمزور کی زمین پرقبضہ نہیں ہوگا، وزیر اطلاعات پنجاب
  • فلسطینی قیدی پر تشدد کی ویڈیو لیک ہونے پر اسرائیلی خاتون جنرل مستعفی