غریب ملک کی غریب قیدی: عافیہ صدیقی
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
7فروری2025 کو پاکستان وزارتِ خارجہ کے ترجمان، شفقت علی خان، نے ہفتہ وار بریفنگ کے دوران صحافی کے ایک سوال کا جواب دیتے ہُوئے کہا: ’’سابق امریکی صدر، جو بائیڈن، امریکی جیل میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رحم کی اپیل مسترد کر چکے ہیں۔ اپیل مسترد ہونے کے بعد امریکی محکمہ انصاف نے یہ کیس بند کر دیا ہے ۔
اب ڈاکٹر عافیہ صدیقی اپنے وکلا کے ذریعے کسی بھی وقت رحم کی نئی اپیل کر سکتی ہیں۔‘‘ افسوس ، صد افسوس!!سابق امریکی صدر ، جوبائیڈن، چار سال حکومت کرکے امریکی اقتدار سے غائب ہو چکے ہیں ۔ اُن کی جگہ اب ڈونلڈ ٹرمپ آ گئے ہیں ۔ ہم سبھی پاکستانی چار سال منتظر اور کوشش کرتے رہے کہ امریکی ریاست ، ٹیکساس، کی بدنامِ زمانہ جیل (Carswell) میں86 سال کی ناجائز سزا بھگتنے والی پاکستانی سائنسدان ، محترمہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی، کو رہائی مل جائے گی ۔ مگر ہماری توقعات ،خواہشات اور کوششیں اکارت اور بے ثمر ہی رہیں ۔
ہمارے وزیر اعظم ، جناب شہباز شریف،نے جو بائیڈن کے نام پاکستان سرکار کے سرکاری پَیڈ پر خط بھی لکھا اور گزارش کی کہ عافیہ صدیقی نمانی کی سزا معاف کرکے باعزت رہا کر دیا جائے۔ امریکی صدر نے مگر ہمارے وزیر اعظم صاحب کی گزارش مسترد کرکے اہلِ پاکستان کو سخت مایوس کیا ہے۔امریکی حکمرانوں کے سامنے ہمارے حکمرانوں کی اہمیت اور حیثیت بھی سامنے آ گئی ہے۔
اگر امریکی صدر ، جو بائیڈن ، چاہتے تو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی سزا بآسانی معاف کر سکتے تھے ۔ موصوف نے اقتدار سے رخصت ہوتے وقت 2500امریکی قیدیوں کی سزاؤں میں تخفیف بھی کی اور درجنوں کی سزائیں معاف بھی کیں۔ امریکی اخبار (Huff Post) نے خبر دی ہے کہ جو بائیڈن نے امریکی صدارت سے رخصت ہونے سے چند گھنٹے قبل امریکا کے ایک ایسے پرانے قیدی کی سزا بھی ختم کر دی جو پچھلے50سال سے جیل میں تھا ۔ اِس قیدی کا نام Leonard Peltierبتایا جاتا ہے ۔ وہ اصل امریکی (ریڈ انڈین)ہے۔ اس پر الزام تھا کہ اُس نے FBIکے دو اہلکاروں کو قتل کیا تھا ۔
عدالت میں مگر اُس کا قتل ثابت نہیں ہو سکا ۔ اس کے باوجود اُسے50سال سے جیل میں رکھا گیا تھا ۔ شائد اس لیے کہ وہ برسر عام کہتا اور تبلیغ کرتا تھا کہ امریکیوں نے اُس کا اصل امریکا اُن کے آبا سے چھین لیا ہے ۔ جو بائیڈن اگر قاتل کو معاف کرکے گھر بھیج سکتے تھے تو عافیہ صدیقی کی سزا معاف کرنا کونسا مشکل تھا؟ مگر غریب پاکستان کی ایک غریب اور بے نوا قیدی کی کون فریاد سُنتا؟
20جنوری2025 سے ایک دن قبل تک عافیہ صدیقی کے وکیل (Clive Stafford Smith) نے ہم سب پاکستانیوں کو یقین دلایا تھا کہ عافیہ صدیقی کو صدارتی معافی مل جائے گی ۔ یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ موصوف نے76500الفاظ کا ایک ڈوزئر بھی جو بائیڈن کے محکمہ انصاف کو بھیجا ہے کہ عافیہ بے گناہ ہیں ، معاف کر دیا جائے۔ پاکستان کی جماعتِ اسلامی کے سابق سینیٹر ( مشتاق احمد خان ) بھی صدقِ دل کے ساتھ ہم سب پاکستانیوں کو دلاسا دیتے رہے کہ20جنوری سے قبل عافیہ صدیقی کو امریکی صدر معاف کردیں گے ۔ سب دُعا کریں۔ مگر : اُلٹی ہو گئیں سب تدبیریں ، کچھ نہ ’’ دُعا ‘‘نے کام کیا ! جو بائیدن کی سفاکی سے سب پاکستانیوں کا دل دُکھا ہے ۔ عافیہ صدیقی کو محض مسلمان ہونے کے ناتے معاف نہیں کیا گیا ۔
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ عافیہ صدیقی کو امریکی صدر نے صرف اس لیے معاف نہیں کیا کیونکہ پاکستان نے ’’غدارِ وطن ‘‘ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو پاکستانی جیل سے رہا کرنے سے انکار کردیا تھا ( شکیل آفریدی نے مبینہ طور پر امریکی فورسز اور خفیہ اداروں کو اسامہ بن لادن تک پہنچنے کی راہ ہموار کی تھی ) یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر امریکا نے شیخ عمر عبدالرحمن کی سزا معاف نہیں کی تو عافیہ کو کیسے معاف کر دیا جائے ؟( مصری شیخ عمر عبدالرحمن امریکی ورلڈ ٹرید سینٹر پر حملے کے مجرم گردانے جاتے ہیں ۔ اُنہیں طویل سزا سنائی گئی ۔ رحم کے لیے شیخ صاحب کے رشتہ داروں اور مصر کی درخواستیں بھی نہ مانی گئیں ۔ شیخ صاحب امریکی جیل ہی میں وفات پا گئے )۔
حال ہی میں سابق ہونے والے امریکی صدر، جو بائیڈن ، نے اپنے اقتدار کے آخری لمحات میں امریکی جیلوں میں قید پانچ بڑے مجرمان کی سزائیں بھی معاف کر دی تھیں ۔ مگر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی باری اُن کے ہاتھ میں رعشہ آگیا ۔ عافیہ صدیقی صاحبہ کو جیل گزارتے ہوئے16سال ہو چکے ہیں ۔ وزیر اعظم شہباز شریف صاحب نے13اکتوبر2024 کو جو بائیڈن سے استدعا کی تھی کہ ’’عافیہ صدیقی شدید بیمار بھی ہیں ، انھیں معافی ملنی چاہیے ۔‘‘ مگر ہمارے چیف ایگزیکٹو کا ترلا منت بھی نہ مانا گیا ۔
باون سالہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ ’’القاعدہ‘‘کی رکن رہی ہیں ۔ اور یہ کہ اُنھوں نے افغانستان میں امریکی فوجی پر حملہ کیا تھا ۔ سب بکواس! شام میں’’القاعدہ‘‘ کے نامور جنگجو رہنما ، احمد الشرع، پر امریکی اور مغربی ممالک جی جان سے واری صدقے جا رہے ہیں ۔داعش و القاعدہ کے سابق مبینہ رکن احمد الشرع(جو اب از خود شامی صدر بھی بن چکے ہیں) کو امریکا اس لیے سینے سے لگا رہا ہے کہ اُس نے شام میں بشارالاسد کی حکومت کا خاتمہ کیا ہے ۔ یہ ہے امریکا کا دہشت گردی اور داعشیوں و القاعدہ کے خلاف اصول۔ کیا ایسے ’’اصول پسند‘‘ امریکا کی عافیہ کے مبینہ جرم بارے منطق تسلیم کی جا سکتی ہے ؟
امریکی صدر، جو بائیڈن، نے اپنی صدارت کے آخری لمحات میں اپنے ہی خاندان کے کئی افراد کی سزائیں بھی معاف کر دیں ۔ معافی نامے میں اُن کے دو بھائی ( جیمز بی بائیڈن اور فرانسس ڈبلیو بائیڈن) ایک بہن( ویلری بائیڈن اوونز) اور اُن کے شوہر( جان ٹی اوونز) اور بھابھی سارہ جونز بائیڈن شامل ہیں۔اِن معافیوں کے ساتھ جاری ایک بیان میں سبکدوش ہونے والے صدر نے کہا :’’میرے خاندان کو مسلسل حملوں اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔اِن کا مقصد صرف مجھے نقصان پہنچانا رہاہے۔
یہ بدترین قسم کی جانبدارانہ سیاست تھی۔ مَیں قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتا ہُوں اور پُراُمید ہوں کہ ہمارے قانونی اداروں کی طاقت بالآخر سیاست پر غالب آئے گی۔مگر بے بنیاد اور سیاسی محرکات پر مبنی نشانہ بنائے گئے افراد اور اُن کے اہلِ خانہ کی زندگیوںاور مالی تحفظ کو یہ سیاسی محرکات تباہ کرتے ہیں‘‘۔ اپنی باری آئی تو اپنے مجرموں کی سب بد اعمالیاں قابلِ عفو اور عافیہ کی باری آئی تو ناکردہ گناہ بھی قابلِ گردن زدنی ! یعنی : تمہاری زُلف میں پہنچی تو حُسن کہلائی / وہ تیرگی جو مرے نامئہ سیاہ میں تھی !!
اب امریکی اقتدار ڈونلڈ ٹرمپ کے قبضے میں ہے۔ کیا اُن سے توقع رکھی جائے کہ وہ عافیہ صدیقی کی سزا معاف فرما دیں گے ؟ معاف کردیں تو اُن کی مہربانی ہوگی ، مگر توقع عبث ہے ۔ مسلمانوں کے بارے موصوف جو خیالات و نظریات رکھتے ہیں ، ان کے پس منظر میں یہ اُمید نہیں کی جا سکتی کہ وہ عافیہ پر رحم کریں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار میں آتے ہی 1500 مجرم امریکیوں کی سزائیں بیک جنبشِ قلم موقوف کر دی ہیں ۔ امریکی عدالتوں سے سزا یافتہ یہ ڈیڑھ ہزار افراد وہ تھے جنھوں نے ٹرمپ کے حق میں (اور جو بائیڈن کے خلاف) 6جنوری2021ء کو مرکزی امریکی حکومت کے نشان(Capitol Hill) پر باقاعدہ دھاوا بول دیا تھا۔
اِس حملے میں نصف درجن امریکی مارے گئے اورکئی پولیس اہلکار زخمی ہُوئے تھے ۔ٹرمپ نے تخت سنبھالتے ہی سزا یافتہ ایک اور بڑے مجرم (Ross Ulbricht) کی سزا بھی ختم کر دی ہے۔ اس شخص پر کئی ملین ڈالرز کی منشیات فروشی کا الزام تھا۔اور بیگناہ بیچاری عافیہ صدیقی کا تو نام بھی سننے کو ٹرمپ تیار نہیں ہیں ۔ کیا اس لیے کہ وہ ایک غریب ملک کی غریب قیدی ہے؟؟
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ڈاکٹر عافیہ صدیقی عافیہ صدیقی کو عافیہ صدیقی کی کی سزا معاف امریکی صدر معاف کر دی کی سزائیں جو بائیڈن نہیں کی چکے ہیں تھا کہ اس لیے کر دیا
پڑھیں:
دھمکی نہیں دلیل
اسلام ٹائمز: امریکی تجزیہ نگار لکھتے ہیں: امریکیوں نے ایران کو ایک اور اہم رعایت دی، جو ایران کو اپنے جوہری ڈھانچے کو برقرار رکھنے کی اجازت دینا تھی اور اسی وجہ سے مذاکرات کا سلسلہ مکمل قطع نہیں۔ایران دھمکیوں اور دباؤ کی بجائے صلح و دوستی کی فضا میں یورینیم کی افزودگی اور اسکے ذخیرہ کرنے کی مقدار میں نظرثانی کرسکتا ہے، لیکن دھونس، دھاندلی نہ پہلے ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکی ہے اور نہ آئندہ ایسا ممکن ہے۔ ایران اپنی لوجک اور مضبوط دلائل کے ساتھ سفارتی میدان میں مخالفین کے خلاف نبرد آزما ہے۔ تحریر: احسان احمدی
امریکی حکام نے برسوں سے اپنے آپ کو دھوکہ دے رکھا ہے کہ وہ ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کرکے اس کے جوہری پروگرام میں رکاوٹ پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ خلاصہ ہے امریکی محکمہ خارجہ کے ایک سابق اہلکار اور ایک سینیئر امریکی ماہر رے ٹیکیکی کے الفاظ کا۔ رے ٹیکیکی نے ہفتے کے روز پولیٹیکو ویب سائٹ پر واشنگٹن اور تہران کے درمیان بالواسطہ بات چیت کے بارے میں ایک مضمون شائع کیا تھا۔ مغربی میڈیا کے معمول کے پروپیگنڈے کے برعکس رے ٹیکیکی نے اپنے مضمون کا مرکز اس حقیقت پر رکھا کہ جس چیز کی وجہ سے ایران اور امریکہ کے درمیان مختلف ادوار میں مذاکرات ہوئے، وہ ایران کے خلاف پابندیوں کا دباؤ نہیں تھا بلکہ امریکہ کو ایران کی جوہری پیش رفت سے خطرے کا احساس تھا۔
یہ نقطہ نظر، میڈیا کی تشہیر سے ہٹ کر، مختلف امریکی حکومتوں کے حکام کے الفاظ میں اشاروں کنایوں میں درک کیا جاسکتا ہے۔ ان اہلکاروں میں سابق امریکی وزیر خارجہ جان کیری بھی شامل ہیں۔ اپنی ایک رپورٹ Every Day Is Extera میں وہ واضح کرتا ہے کہ اوباما انتظامیہ نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ ایران کی مقامی افزودگی کو تسلیم کیے بغیر اس کے ساتھ بات چیت کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس کتاب میں، جان کیری لکھتے ہیں: "اس بات سے قطع نظر کہ ایران کو افزودگی کا "حق" حاصل ہے یا نہیں۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ جب تک ہم احتیاط سے طے شدہ حدود کے تحت ایران کی افزودگی جاری رکھنے کے امکان کے بارے میں بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے، تب تک ایران کے ایٹمی پروگرام تک رسائی، شفافیت اور حقائق کے حصول کا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔ افزودگی کے حق کو تسلیم کرکے ہی اس بات کو یقینی بنایا جا سکتا ہے کہ ایران فوجی جوہری پروگرام کو آگے بڑھا رہا ہے یا نہیں۔
سابق امریکی سفارت کار نے مزید کہا ہے کہ ایران میں اوسط ہر دوسرا فرد اس خیال سے ناراض ہوگا کہ ان کا ملک وہ نہیں کرسکتا، جو دوسرے آزاد ممالک (افزودگی) کرتے ہیں، کیونکہ امریکہ ایسا کرنا چاہتا ہے۔ ایرانیوں کے نزدیک یہ انداز امریکہ کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے مساوی ہوگا۔ وہ امریکی جنہوں نے ان کے خیال میں شاہ کے دور میں ان کی آزادی اور خودمختاری میں کافی عرصے تک مداخلت کی تھی۔ اس کتاب میں کیری نے انکشاف کیا کہ سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے بھی خفیہ طور پر ایران میں مقامی افزودگی کو قبول کرنے کی ضرورت کے خیال کو قبول کر لیا تھا۔
وہ اس کتاب میں لکھتے ہیں کہ میں نے ان سے اپنی نجی گفتگو سے یہ درک کیا کہ بش انتظامیہ کے بظاہر عوامی موقف کے باوجود، اس انتظامیہ نے خفیہ طور پر اور نجی طور پر (ایرانی افزودگی کے) خیال سے اتفاق کر لیا تھا، حالانکہ وہ کبھی اس نتیجے پر نہیں پہنچے تھے کہ ایٹمی ڈھانچہ یا سطح (افزودگی) کیا ہونی چاہیئے۔ اپنے مضمون میں رے ٹیکیکی نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ٹرمپ کی پہلی انتظامیہ کے دوران زیادہ سے زیادہ دباؤ کا منصوبہ ایران کے جوہری پروگرام کو کنٹرول کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ ایران کے ساتھ مذاکرات کا آغاز، حتیٰ کہ اوباما کے دور میں بھی، واشنگٹن کی جانب سے تہران کو دی جانے والی اہم مراعات کا نتیجہ تھا۔
"اوباما کی زیادہ دوستانہ پالیسی تبھی آگے بڑھی، جب واشنگٹن نے (تہران) کو ایک کلیدی رعایت دی یعنی "ایران کو افزودہ کرنے کا حق،" امریکی تجزیہ نگار لکھتے ہیں۔ امریکیوں نے ایران کو ایک اور اہم رعایت دی، جو ایران کو اپنے جوہری ڈھانچے کو برقرار رکھنے کی اجازت دینا تھی اور اسی وجہ سے مذاکرات کا سلسلہ مکمل قطع نہیں۔ ایران دھمکیوں اور دباؤ کی بجائے صلح و دوستی کی فضا میں یورینیم کی افزودگی اور اس کے ذخیرہ کرنے کی مقدار میں نظرثانی کرسکتا ہے، لیکن دھونس، دھاندلی نہ پہلے ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکی ہے اور نہ آئندہ ایسا ممکن ہے۔ ایران اپنی لوجک اور مضبوط دلائل کے ساتھ سفارتی میدان میں مخالفین کے خلاف نبرد آزما ہے۔