حیدرآباد اور اندرون سندھ کے محنت کش کم از کم اجرت کے قوانین سے محروم
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
نیشنل لیبر فیڈریشن سندھ کے صدر شکیل احمد شیخ ، سینئر نائب صدر تشکیل احمد صدیقی، جنرل سیکرٹری محمد عمر شر، سینئر جوائنٹ سیکرٹری طاہر محمود بھٹی، حیدرآباد زون کے صدر عبد القیوم بھٹی، سینئر نائب صدر مبین راجپوت، جنرل سیکرٹری اعجاز حسین، انفارمیشن سیکرٹری محمد احسن شیخ اور دیگر نے حکومت سندھ کی محنت کشوں کے خلاف منظم سازش اور اقربا پروری کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی محکمہ لیبر حکومت سندھ کی ہٹ دھرمی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بار بار خطوط وزیر محنت اور سیکرٹری محنت کو ارسال کیے کہ سندھ کے محنت کشوں کو کم از کم اجرت کے قوانین پر فیکٹری مالکان عمل درآمد کرنے میں تاخیری ہربے اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہے ہیں جس کی تازہ مثال سندھ آباد گار شوگر ملز کی موجود ہے کہ انتظامیہ نے CBAیونین کو با قاعدہ منع کر دیا کہ کم از کم اجرت 37 ہزار روپے ہم ادا نہیں کر سکتے جس کو چاہیں ہماری شکایت کردیں۔ اس پر NLFسندھ نے صوبائی وزیر محنت کو سیکرٹری محنت کو اور دیگر اعلیٰ حکام کو خطوط ارسال کیے لیکن یہ تمام افسران وزیر محنت کے ساتھ خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں انہیں غریب محنت کشوں کی آہوں فریاد، ظلم و زیادتی کی کوئی پرواہ نہیں ہے وہ صرف مالکان سے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے محنت کشوں کے خون پسینہ کو استعمال کر رہے ہیں۔ سندھ میں مظلوم محنت کشوں نے صنعتوں کے پہیے چلانے کے لیے بارہ بارہ گھنٹے کام کر رہے ہیں لیکن فیکٹریوں پر لیبر قوانین کا کوئی اطلاق نہیں ہو رہا۔ محکمہ لیبر قانونی اقدامات اٹھانے سے قاصر ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ صنعتکاروں کے حوصلے اتنے بلند ہو چکے ہیں کہ سندھ آبادگارشوگر ملز میں تا حال محنت کشوں کو 37 ہزار روپے ادائیگی کے لیے محکمہ لیبر نے کوئی اقدامات نہیں کیے جس سے فیکٹری کی انتظامیہ کے حوصلہ بلند ہو چکے ہیں اسی طرح حیدرآباد سائٹ کی موٹر سائیکل انڈسٹری کے ملازمین بھی مالکان کی ظلم و زیادتی کا شکار ہیں۔ اس موقع پر شکیل احمد شیخ نے کہا کہ سوشل سیکورٹی کے افسران اور EOBI کے فیلڈ افسران بھتہ لینا بند کریں اور فیکٹری کے غریب محنت کشوں کو حقیقی معائنوں میں رجسٹرڈ کریں اور کم از کم قوانین کی اجرت پر لیبر ڈیپارٹمنٹ اپنا کردار قانونی طور پر ادا کرے بصورت دیگر نیشنل لیبر فیڈریشن سندھ کے مظلوم اور محروم طبقہ کی حمایت سے تحریک چلانے پر مجبور ہوگی اور محکمہ لیبر کی تمام سوئی ہوئی بیورو کریسی کو جھنجوڑنے پر مجبور ہوگی ۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: محکمہ لیبر سندھ کے رہے ہیں
پڑھیں:
پروفیسر عبدالغنی بٹ کے نماز جنازہ میں شرکت سے محروم رکھنا ناقابل برداشت اقدام ہے، مولوی محمد عمر فاروق
گزشتہ روز علیحدگی پسند تنظیم کل جماعتی حریت کانفرنس کے سابق چیئرمین پروفیسر عبدالغنی بٹ مختصر علالت کے بعد اپنی رہائشگاہ واقع شمالی کشمیر کے سوپور میں انتقال کرگئے۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین اور میرواعظ کشمیر مولوی محمد عمر فاروق نے کہا کہ حکام نے مجھے پروفیسر عبدالغنی بٹ کے نماز جنازہ میں شرکت کرنے کی اجازت نہیں دی اور مجھے اپنے گھر کے اندر بند رکھا گیا۔ میرواعظ محمد عمر فاروق نے ایکس پر لکھا کہ میں یہ دکھ اور تکلیف الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا کہ حکام نے پروفیسر بٹ کے اہل خانہ کو ان کی نماز جنازہ جلدی ختم کرنے پر مجبور کیا۔ انہوں نے کہا "مجھے اپنے گھر کے اندر بند کر دیا گیا اور ان کے آخری سفر میں جنازہ کے ساتھ چلنے کے حق سے بھی محروم رکھا گیا"۔
انہوں نے مزید لکھا کہ میں نے پروفیسر بٹ کے ساتھ 35 برس دوستی اور رہنمائی کے گزارے ہیں اور ہماری دوستی 35 برس پر محیط تھی اور بہت سے افراد تھے جو ان کی نماز جنازہ میں شرکت کرنے کے لئے بے چین تھے۔ ان کے جنازہ میں شرکت کی اجازت نہ دینا اور آخری الوداعی سے بھی محروم رکھنا ناقابل برداشت ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز آزادی پسند تنظیم کل جماعتی حریت کانفرنس کے سابق چیئرمین پروفیسر عبدالغنی بٹ مختصر علالت کے بعد اپنی رہائشگاہ واقع شمالی کشمیر کے سوپور میں انتقال کر گئے۔ پروفیسر بٹ کئی دہائیوں تک کشمیر کی علیحدگی پسند سیاست میں متحرک رہے۔
پروفیسر بٹ کے انتقال پر جموں و کشمیر کے سیاسی، سماجی اور علحیدگی پسند رہنماؤں نے گہرے دکھ اور صدمہ کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ عمر عبدللہ نے پروفیسر بٹ کی وفات پر ایکس پر اپنا تعزیتی پیغام شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ مجھے سینیئر کشمیری سیاسی رہنما اور ماہر تعلیم پروفیسر بٹ کے انتقال کی خبر سن کر دکھ ہوا، ہمارے سیاسی نظریات ایک دوسرے سے الگ تھے لیکن میں انہیں ہمیشہ ایک انتہائی معزز انسان کے طور پر یاد رکھوں گا۔