Nai Baat:
2025-07-26@09:23:23 GMT

زوال کا سفر!

اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT

زوال کا سفر!

ابن خلدون پچھلے ایک ہزار سال سے فلسفہ تاریخ اور سماجیات کے بانی اور امام تصور کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنی مشہور تصنیف مقدمہ میں تاریخ، سیاست، معیشت اور تہذیبوں کے عروج و زوال پر گہرے نظریات پیش کیے اور یہ نظریات آج بھی مشرق و مغرب کی یونیورسٹیوں میں پڑھے پڑھائے جاتے ہیں۔ انہوں نے تاریخ کو محض واقعات کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک سائنسی اور تجزیاتی علم کے طور پر پیش کیا۔ ابن خلدون کے نزدیک طاقتور قومیں جدوجہد، نظریات اور اصولوں کو اپناتی ہیں جبکہ زوال پذیر قومیں عیش و عشرت، موسیقی اور غیر اخلاقی سرگرمیوں میں پناہ ڈھونڈتی ہے۔ مسلمان قوم نے اندلس میں 800 سال تک شاندار تہذیب قائم کی تھی جو پورے یورپ میں علم، فن، روشنی اور ترقی کا مرکزسمجھی جاتی تھی مگر جب اندلس کے مسلم حکمران موسیقی، رقص اور عیش و عشرت کے رسیا ہوئے تو وہ اپنی فوجی اور سیاسی طاقت کھو بیٹھے۔ قرطبہ اور غرناطہ کے درباروں میں گانے بجانے اور رنگ رلیوں کو اعلیٰ ثقافت سمجھا جانے لگا تھا اور اہل علم و فن کی جگہ گویوں اور رقاصاؤں کو زیادہ اہمیت دی جانے لگی تھی۔ بدقسمتی سے پاکستان میں بھی زوال پذیر قوموں کے کلچر اور طرز زندگی کو پروان چڑھایا جا رہا ہے اور اس کی پوری ایک تاریخ ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان کی ثقافت مذہبی اور مشرقی اقدار پر مبنی تھی حتیٰ کہ 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں فلم، ڈرامے اور موسیقی کا ایک مخصوص دائرہ تھا جو مشرقی روایات اور اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے پروان چڑھ رہا تھا۔ لیکن 1990 اور 2000 کی دہائی میں نجی ٹی وی چینلز اور گلوبلائزیشن کے باعث مغربی ثقافت کو غیر معمولی فروغ ملا اور کئی نئے رجحانات نے جنم لیا۔ ہمارے کلچر میں مغنیوں اور روپ بدل کر اداکاری کرنے والوں کو ناپسند کیا جاتا اور کمتر سمجھا جاتا تھا۔ انہیں محفلوں میں محض تفریح کا ذریعہ گردانا جاتا تھا اور اس پیشے کو معزز پیشوں میں شامل نہیں کیا جاتا تھا۔ لیکن آج وہی گانے والے اور گانے والیاں سلیبریٹی کہلاتے ہیں۔ ان کے چاہنے والے لاکھوں نہیں کروڑوں میں ہیں۔ سوشل میڈیا نے ان کے اثر و رسوخ کو مزید بڑھا دیا ہے۔ وہ نوجوان جو کبھی استاد، ڈاکٹر، فلسفی، رائٹر یا شاعر بننے کے خواب دیکھتے تھے اب میوزک انڈسٹری میں
جگہ بنانے کے خواہشمند ہیں۔

اسی طرح ایک وقت تھا جب روپ بدل کر اداکاری کرنے کو کمتر، حقیر اور عزت نفس کے خلاف پیشہ تصور کیا جاتا تھا، علامہ اقبال نے اس پر لمبی چوڑی تنقید کی تھی۔ تھیٹر اور فلموں میں کام کرنے والوں کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ انہیں وہ عزت حاصل نہیں تھی جو کسی استاد، ڈاکٹر، جج، فلسفی، عالم، سیاستدان یا سرکاری افسر کو دی جاتی تھی۔ لیکن آج صورتحال مختلف ہے، اداکاروں کو نہ صرف سلیبرٹی سمجھا جاتا ہے بلکہ انہیں قوم کے ہیرو کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ لوگ ان کی زندگیوں کو آئیڈیلائز کرتے ہیں، ان کی طرح لباس پہننے، ان جیسے بال بنانے اور ان کی چال ڈھال کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا نے اس رجحان کو مزید ہوا دی ہے۔ کسی زمانے میں والدین اپنے بچوں کو اداکاری جیسے پیشے سے دور رہنے کی تلقین کرتے تھے مگر آج وہی والدین اپنے بچوں کو اس میدان میں کامیاب ہوتا دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔ یہی معاملہ جسم کی نمائش کے ساتھ پیش آیا ہے۔ چند دہائیاں قبل خواتین اور مردوں کا لباس ایک خاص معیار پر پورا اترتا تھا جس میں حیا اور روایات کو مقدم رکھا جاتا تھا۔ جسم کی نمائش کو ناپسندیدہ سمجھا جاتا تھا اور معاشرہ اس پر تنقید کرتا تھا۔ لیکن آج فیشن کی دنیا نے اس سوچ کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ لباس کی وہ تمام شکلیں جو پہلے معیوب سمجھی جاتی تھیں اب فیشن کے طور پر اپنائی جاتی ہیں۔ جسم کی نمائش اب معاشرتی مقام اور جدیدیت کی علامت سمجھ لی گئی ہے۔ میڈیا، فلم، ڈرامے اور سوشل میڈیا نے اس تبدیلی کو مزید ہوا دی ہے۔ مشرقی روایات جن پر کبھی فخر کیا جاتا تھا وہ اب دقیانوسی قرار دی جا رہی ہیں۔ پاکستان میں 2000 سے 2023 تک فیشن انڈسٹری میں 300 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

ٹک ٹاک، انسٹاگرام، فیس بک اور یوٹیوب جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے نسل نو کے ہیروز بدل دئیے ہیں۔ آپ کسی نوجوان سے پوچھیں اسے قومی ہیروز کے بارے میں علم نہیں ہو گا لیکن وہ کسی معروف یوٹیوبر، ٹک ٹاکر یا انفلوئنسر کو ضرور جانتا ہو گا۔ رہی سہی کسر ہمارے تعلیمی اداروں نے پوری کر دی ہے۔ یونیورسٹیز اور کالجز میں آزادانہ ماحول اور اختلاط نے سنجیدگی، گہرائی اور فکری وسعت کو ختم کر دیا ہے۔ طلبہ محنت اور علم کے بوجھ کو اٹھانے کے بجائے شارٹ کٹ راستے سے مشہور ہونا چاہتے اور اسی کو کامیابی تصور کرتے ہیں۔ اس سے بڑا المیہ یہ ہوا کہ پیسے کو کامیابی کا واحد معیار سمجھ لیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا سے کمائی کا جنون اس قدر بڑھ گیا ہے کہ لوگ حلال و حرام کی تمیز کیے بغیر پیسہ کمانے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ وائرل ہونے کے لیے غیر اخلاقی حرکات، جھوٹا مواد پھیلانے اور سنسنی خیز ویڈیوز بنا کر پیسا کمانے کو کامیابی سمجھ لیا گیا ہے۔ وائرل ہونے کے شوق اور شہرت کے لیے عزت، اقدار حتیٰ کہ دین کو بھی قربان کیا جا رہا ہے۔ آج ہر نوجوان کی زبان پر یہ الفاظ ہیں کہ فلاں ٹک ٹاکر لاکھوں کما رہا ہے، فلاں یوٹیوبر کی اتنی آمدنی ہے اور فلاں انسٹاگرامر اتنی دولت کما رہا ہے۔ شہرت اور پیسے کی اس دوڑ میں علم، شعور اور تہذیب پس منظر میں جا چکے ہیں۔ ہماری حکومتیں بھی اس غلط ٹرینڈ کو پروموٹ کر رہی ہیںاور جو سالانہ ایوارڈ دئیے جاتے ہیں اس میں مغنی، اداکار، ٹک ٹاکر، یوٹیوبر اور کھلاڑی تو شامل ہوتے ہیں لیکن ان میں کوئی نوجوان فلسفی، رائٹر، شاعر اور عالم شامل نہیں ہوتا۔ ایک دور تھا جب ’’عزت‘‘ کا مطلب اخلاقی پاکیزگی اور نیک نامی تھا مگر آج معاشرے میں عزت کا مطلب شہرت اور دولت سے وابستہ ہو چکا ہے۔ ’’کامیابی‘‘ محنت، ایمانداری اور حصولِ علم سے جڑی ہوتی تھی مگر اب یہ صرف زیادہ پیسہ کمانے تک محدود ہو چکی ہے۔
سوشل میڈیا کے اثر و رسوخ نے ہماری لغت اور اقدار کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ لازم ہے کہ ہم اپنی روایات، اخلاقی اصولوں اور اقدار کا تحفظ کریں۔ اپنے اصل ہیروز کو پہچانیں، اسلام میں معیوب سمجھنے جانے والے پیشوں کی شناخت کو واضح کریں اور نسل نو کو غلط پیشے اختیار کرنے سے بچائیں۔ نژاد نو کی انسپائریشن کے مراکز کو بدلیں اور فحاشی و عریانی کو گلیمرائز کرنے کے بجائے حیا و پاکدامنی کے تصور کو فروغ دیں۔ اگر ہم یہ نہیں کریں گے تو قوموں کے عروج و زوال کے جو اصول اندلس اور دنیا کے دیگر خطوں اور قوموں پر اپلائی ہوئے ہیں ہم بھی ان کی زد میں آئیں گے اور دنیا کی کوئی طاقت ہمیں ذلت و زوال سے نہیں بچا سکے گی۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: سوشل میڈیا سمجھا جاتا جاتا تھا کیا جاتا کیا جا دیا ہے لیکن ا رہا ہے

پڑھیں:

16 سال سے کم عمر بچوں نے سوشل میڈیا اکاؤنٹ بنایا تو کتنی سزا ہوگی؟

 سینیٹ میں ’سوشل میڈیا (ایج رجسٹریشن فار یوزرس  ) بل 2025‘ پیش کیا گیا ہے، جس کے تحت 16 سال سے کم عمر بچوں پر سوشل میڈیا اکاؤنٹ بنانے کی پابندی عائد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

اس بل کا مقصد بچوں کو سائبر بُلئنگ، ہراسانی، ذہنی دباؤ اور فحش مواد جیسے خطرات سے بچانا ہے۔

 بل میں واضح کیا گیا ہے کہ اگر کوئی سوشل میڈیا پلیٹ فارم اس پابندی کی خلاف ورزی کرے گا تو اس پر کم از کم 50 ہزار روپے جبکہ زیادہ سے زیادہ 50 لاکھ روپے تک جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، اگر کوئی فرد نابالغ کو اکاؤنٹ بنانے میں مدد فراہم کرے گا تو اسے 6 ماہ قید کی سزا دی جا سکے گی۔

اس قانون کے نفاذ کے لیے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (PTA) کو ذمہ داری سونپی گئی ہے، جو نابالغ صارفین کے اکاؤنٹس بند کرنے اور پلیٹ فارمز کے لیے ضوابط بنانے کی مجاز ہوگی۔

یہ بھی پڑھیے کم عمر صارفین کی سوشل میڈیا تک رسائی پر پابندی، سینیٹ میں بل پیش

بل پیش کرنے والوں کے مطابق دنیا کے دیگر ممالک، خصوصاً آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں بھی اس نوعیت کی قانون سازی کی جا چکی ہے، جہاں نابالغوں کی سوشل میڈیا تک رسائی محدود کی جا رہی ہے۔

اس حوالے سے آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قانون پر عمل درآمد ایک بڑا چیلنج ہوگا، کیونکہ بچوں کی درست عمر کی تصدیق کے لیے کوئی مؤثر نظام موجود نہیں، اور کئی بچے جعلی تاریخ پیدائش دے کر پابندی کو بائی پاس کر سکتے ہیں۔ مزید برآں، اس قانون کے اطلاق سے آزادی اظہار اور پرائیویسی کے حوالے سے بھی سوالات پیدا ہو رہے ہیں۔

ماضی میں کمسن بچوں کے تحفظ کے حوالے سے قوانین بنانے میں معاونت کرنے والے وکیل شرافت علی کا کہنا تھا کہ بچوں کی حفاظت کے نام پر ایسا قانون لانا جس کا نفاذ عملی طور پر ممکن نہ ہو، صرف کاغذی کارروائی بن کر رہ جائے گا۔ اگر حکومت واقعی سنجیدہ ہے تو اسے پہلے عمر کی تصدیق کے موثر اور محفوظ نظام، والدین کی تربیت اور ڈیجیٹل لٹریسی جیسے اقدامات کو بنیاد بنانا چاہیے۔ بصورت دیگر، یہ قانون صرف نمائشی حیثیت رکھے گا اور بچے باآسانی عمر چھپا کر پلیٹ فارمز تک رسائی حاصل کر سکیں گے۔

انہوں نے زور دیا کہ ایسے قوانین بنانے سے پہلے پارلیمانی مشاورت، تکنیکی ماہرین کی رائے، اور انسانی حقوق کمیشن کی شمولیت ضروری ہے تاکہ قانون سازی متوازن ہو، مؤثر بھی رہے اور آئینی حدود سے متجاوز بھی نہ ہو۔

’میری ذاتی رائے میں پاکستان میں سوشل میڈیا کا استعمال جہاں بچوں کے لیے سیکھنے، اظہارِ خیال اور کمانے کے نئے مواقع پیدا کر رہا ہے، وہیں اس کے ساتھ جڑے خطرات کہیں زیادہ اور سنگین ہیں۔ اس پلیٹ فارم کے بے لگام استعمال سے معاشرے میں کئی نئے سماجی، نفسیاتی اور اخلاقی مسائل جنم لے رہے ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی قانون بچوں کو ان نقصانات سے محفوظ رکھنے کے لیے متعارف کروایا جاتا ہے تو ممکن ہے کہ یہ ایک مثبت سماجی رجحان قائم کرنے میں مددگار ثابت ہو۔‘

واضح رہے کہ بل کو اب سینیٹ کی متعلقہ کمیٹی کو بھیج دیا گیا ہے جہاں اس پر مزید غور کیا جائے گا، اور منظوری کے بعد یہ قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیے برازیل کی سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ، سوشل میڈیا کمپنیوں کو صارفین کے مواد پر جوابدہ ٹھہرایا جا سکتا ہے

قرۃ العین راولپنڈی میں ایک نجی بینک میں ملازم ہیں۔ اور 3 بچوں کی ماں ہیں۔ جنہوں نے اس حوالے سے بتایا ’ماں ہونے کے ناتے میں روز یہ دیکھتی ہوں کہ ہمارے بچے کس حد تک سوشل میڈیا کے زیرِ اثر آ چکے ہیں۔ ان کے خیالات، عادتیں اور یہاں تک کہ نیند کا شیڈول بھی سوشل میڈیا سے متاثر ہو رہا ہے۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ 12 یا 14 سال کا بچہ ابھی جذباتی اور ذہنی طور پر اتنا پختہ نہیں ہوتا کہ وہ آن لائن ہراسانی، فحش مواد یا غلط معلومات کا سامنا کر سکے۔‘

کپتی ہیں کہ ان کے نزدیک اگر حکومت سوشل میڈیا پر عمر کی حد مقرر کر رہی ہے تو یہ قدم بچوں کی فلاح کے لیے ہے، نہ کہ ان کی آزادی سلب کرنے کے لیے۔ ہاں، اس پر عمل درآمد ایک چیلنج ہو سکتا ہے، مگر بحیثیت والدین ہمیں بھی اپنی ذمے داری ادا کرنی ہوگی۔ صرف قانون پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم خود اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر ان کو سوشل میڈیا کے فائدے اور نقصانات سمجھائیں، ان کی آن لائن سرگرمیوں پر نرمی سے نظر رکھیں، اور وقتاً فوقتاً ان سے بات کریں۔

’ کیونکہ آج کل سوشل میڈیا کی وجہ سے جو حالات ہو چکے ہیں۔ اگر اس طرح کے اقدامات نہ کیے گئے تو نسلوں کی نسلیں تباہ ہو جائیں گی۔‘

کون سے ممالک میں اس قسم کے قوانین موجود ہیں؟

 امریکا

امریکا میں 13 سال سے کم عمر بچوں کے لیے سوشل میڈیا پر اکاؤنٹ بنانا قانونی طور پر ممنوع ہے۔ یہ پابندی ’چلڈرنز آن لائن پرائیویسی پروٹیکشن ایکٹ‘  (COPPA) کے تحت نافذ ہے، جو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو پابند کرتا ہے کہ وہ نابالغ صارفین کی معلومات والدین کی اجازت کے بغیر جمع نہ کریں۔ اسی قانون کی وجہ سے پلیٹ فارمز جیسے فیس بک، انسٹاگرام، اور یوٹیوب پر 13 سال سے کم عمر افراد کے اکاؤنٹس بنانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔

 برطانیہ

برطانیہ نے ’ایج اپروپریئیٹ ڈیزائن کوڈ‘ کے نام سے بچوں کے آن لائن تحفظ کے لیے ایک جامع ضابطہ اخلاق متعارف کروایا ہے، جو بچوں کے لیے استعمال ہونے والے تمام پلیٹ فارمز کو اس بات کا پابند بناتا ہے کہ وہ صارف کی عمر کا درست اندازہ لگائیں اور پرائیویسی کو ترجیح دیں۔ یہاں بھی کم از کم عمر کی حد 13 سال ہے۔

 یورپی یونین

یورپی یونین میں جنرل ڈیٹا پروٹیکشن ریگولیشن (GDPR) کے تحت بچوں کے لیے ڈیجیٹل خدمات تک رسائی 16 سال کی عمر سے مشروط ہے، تاہم رکن ممالک اس حد کو کم کر کے 13 سال بھی مقرر کر سکتے ہیں۔ اس قانون کے مطابق سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بچوں کی معلومات والدین کی اجازت کے بغیر جمع نہیں کر سکتے۔

آسٹریلیا

آسٹریلیا نے حال ہی میں 16 سال سے کم عمر بچوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ بنانے پر مکمل پابندی کا فیصلہ کیا ہے، جس کا نفاذ 2025 کے اختتام تک متوقع ہے۔ اس پابندی کے ساتھ حکومت عمر کی تصدیق کے سخت نظام بھی متعارف کروانے جا رہی ہے تاکہ بچے جعلی تاریخ پیدائش کے ذریعے پلیٹ فارمز تک رسائی حاصل نہ کر سکیں۔

یہ بھی پڑھیے کم عمری میں اسمارٹ فون کا استعمال ذہنی صحت کے لیے نقصان دہ، تحقیق

 نیوزی لینڈ

نیوزی لینڈ میں فی الحال 13 سال کی عمر کی حد نافذ ہے، تاہم حکومتی سطح پر یہ تجویز زیر غور ہے کہ بچوں کے لیے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بنانے کی عمر 16 سال تک بڑھا دی جائے۔ اس کے ساتھ ہی بچوں کے آن لائن ڈیٹا اور پرائیویسی کے تحفظ کے لیے اضافی قوانین پر بھی کام جاری ہے۔

چین

چین میں بچوں کی آن لائن سرگرمیوں پر سخت ترین کنٹرول موجود ہے۔ 18 سال سے کم عمر بچوں کو رات 10 بجے کے بعد سوشل میڈیا اور گیمنگ پلیٹ فارمز استعمال کرنے کی اجازت نہیں۔ علاوہ ازیں، چین میں ’ریئل نیم رجسٹریشن‘ اور چہرے کی شناخت جیسے نظام بھی رائج کیے گئے ہیں تاکہ بچوں کی رسائی کو محدود کیا جا سکے۔

سنگاپور

سنگاپور میں 13 سال سے کم عمر بچوں کے لیے سوشل میڈیا پر اکاؤنٹ بنانا منع ہے، اور پلیٹ فارمز پر لازم ہے کہ وہ بچوں کے ڈیٹا کو اکٹھا کرنے سے قبل والدین کی رضامندی حاصل کریں۔ پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن ایکٹ کے تحت عمر کی تصدیق کے اقدامات بھی متعارف کروائے گئے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سوشل میڈیا بل 2025

متعلقہ مضامین

  • جنسی درندے، بھیڑیئے اور دین کا لبادہ
  • آنے والوں دنوں میں 5 اہم تہوار جن کا سب کو انتظار ہے
  • ایک اور معروف ٹک ٹاکر گھر میں مردہ پائی گئیں؛ 2 افراد گرفتار
  • مذاکرات کا عمل آگے نہیں بڑھ سکا لیکن اب بہتری کی طرف جانا چاہیے، بیرسٹر گوہر
  • پی ٹی آئی نے اپنے گرفتار کارکنان کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا
  • سوشل میڈیا اور ہم
  • 16 سال سے کم عمر بچوں نے سوشل میڈیا اکاؤنٹ بنایا تو کتنی سزا ہوگی؟
  • کون ہارا کون جیتا
  • جبر و فسطائیت کا عالم یہ ہے کہ مجھے وضو کے لیے جو پانی دیا جاتا ہے وہ تک گندہ ہوتا ہے
  • واٹس ایپ گروپس میں فحش مواد دکھا کر بلیک میلنگ، نیشنل سرٹ نے الرٹ جاری