Islam Times:
2025-06-11@23:17:31 GMT

تارکین وطن اور گوانتاناموبے

اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT

تارکین وطن اور گوانتاناموبے

اسلام ٹائمز: ان لوگوں کو رکھنے کیلئے گوانتاناموبے کا انتخاب کرنے کی ایک واضح وجہ موجود ہے۔ امریکہ کے پاس قیدیوں کو رکھنے کیلئے جیلوں کی کمی نہیں ہے، لیکن وہ گوانتاناموبے میں کچھ قیدیوں کو رکھنے پر اس لیے اصرار کرتا ہے، کیونکہ یہاں پر امریکہ کے شہری انصاف کے قوانین نافذ نہیں ہوتے اور یہ جزیرہ امریکی نظام انصاف کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ یہاں پر امریکی فوجی ان قیدیوں کیساتھ جیسا چاہیں سلوک کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 11 ستمبر 2001ء کے حملوں میں مشکوک افراد کو اس جیل میں رکھا گیا تھا۔ تحریر: امیر علی ابوالفتاح

بدنام زمانہ گوانتانامو بے جیل میں کچھ غیر قانونی تارکین وطن کو منتقل کرنے کے پہلے مرحلے میں امریکی حکومت نے دس خطرناک غیر قانونی تارکین وطن کو اس جیل میں بھیجا ہے۔ امریکی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ ایسے افراد کو جنوب مشرقی کیوبا میں واقع گوانتاناموبے کی جیل میں بھیجنے کے منصوبے کا یہ پہلا مرحلہ ہے۔ یاد رہے کہ اس جزیرے پر امریکیوں کا ایک بحری اڈہ ہے۔ نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امریکی محکمہ دفاع کو کہا گیا ہے کہ وہ گوانتاناموبے کی جیل کو 30,000 نئے قیدیوں کے لیے تیار کریں، تاکہ غیر قانونی تارکین وطن کی ملک بدری کے عمل کو تیز کیا جا سکے۔ ٹرمپ نے امریکہ میں تمام غیر قانونی تارکین وطن کو ملک بدر کرنے اور تمام غیر قانونی تارکین وطن کو امریکہ میں داخل ہونے سے روکنے کا وعدہ کیا ہے۔

اس سلسلے میں، امریکی حکومت نے ان ممالک کو بھی خبردار کیا ہے، جہاں سے غیر قانونی تارکین وطن امریکہ داخل ہوتے ہیں۔ ٹرمپ نے کہا ہے کہ یہ ممالک اپنے شہریوں کو امریکہ آنے سے روکنے کے لئے سکیورٹی اور سرحدی کنٹرول کو بہتر کریں اور اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں قبول کریں۔ کہا جارہا ہے کہ تمام غیر قانونی تارکین وطن کو امریکہ سے ملک بدر نہیں کیا جائے گا بلکہ وہ اپنے ملکوں کو واپس جائیں گے۔ ٹرمپ انتظامیہ گوانتاناموبے میں کچھ لوگوں کو حراست میں لینے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ٹرمپ نے ان لوگوں کے بارے میں کہا ہے کہ ان میں سے کچھ اتنے برے ہیں کہ ہم انہیں رکھنے کے لیے ان کے اپنے ممالک پر بھروسہ نہیں کرسکتے، کیونکہ ہم جانتے کہ وہ پھر واپس آجائیں گے۔ اس خطرے کے پیش نظر ہم انہیں گوانتانامو بے بھیج رہے ہیں۔

ان لوگوں کو رکھنے کے لیے گوانتاناموبے کا انتخاب کرنے کی ایک واضح وجہ موجود ہے۔ امریکہ کے پاس قیدیوں کو رکھنے کے لیے جیلوں کی کمی نہیں ہے، لیکن وہ گوانتاناموبے میں کچھ قیدیوں کو رکھنے پر اس لیے اصرار کرتا ہے، کیونکہ یہاں پر امریکہ کے شہری انصاف کے قوانین نافذ نہیں ہوتے اور یہ جزیرہ امریکی نظام انصاف کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ یہاں پر امریکی فوجی ان قیدیوں کے ساتھ جیسا چاہیں  سلوک کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ  ہے کہ 11 ستمبر 2001ء کے حملوں میں مشکوک افراد کو اس جیل میں رکھا گیا تھا۔ حراست میں لیے گئے ان افراد کو گوانتاناموبے  میں انتہائی سخت پوچھ گچھ اور تشدد کے مرحلوں سے گزرنا پڑا۔

اس آزادی نے امریکی حکومت اور گوانتانامو نیول بیس پر قائم فوجی عدالت کے ججوں کو بھی اجازت دی کہ وہ بعض قیدیوں کو طویل عرصے تک قید میں رکھیں۔ ان کو بغیر کسی الزام کے جیل میں رکھا گیا۔ یہاں تک کہ بعض پر کوئی مقدمہ بھی نہیں چلایا گیا۔ ان میں سے کچھ 23 سال سے گوانتاناموبے میں قید ہیں۔ لیکن ابھی تک ان پر کوئی الزام نہیں لگایا گیا ہے۔ گوانتاناموبے میں اس طرح کے قیدیوں کے ساتھ اب غیر قانونی تارکین وطن کو بھی گوانتاناموبے بھیجنے کی باتیں کی جا رہی ہیں، جس نے کئی خدشات کو جنم دیا ہے۔

کچھ مجرمانہ غیر قانونی تارکین وطن جو اتنے خطرناک ہیں کہ ان کے ساتھ سخت سلوک کو جائز قرار دیا جا سکتا ہے، لیکن ٹرمپ تو گوانتاناموبے میں کم از کم 30,000 افراد کو رکھنا چاہتے ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ امریکی بحریہ کے اس اڈے میں اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو سمیٹنے کی گنجائش ہوگی یا نہیں اور اس قید خانے کی مالی امداد کیسے کی جائے گی۔ تاہم اس بات کا خدشہ ہے کہ عام غیر قانونی تارکین وطن، یعنی عام لوگوں کو بھی گوانتاناموبے میں بھیجا جائے گا، جنہیں سخت حفاظتی دباؤ کا نشانہ بنایا جائے گا اور وہ کئی سالوں تک سلاخوں کے پیچھے پڑے رہیں گے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: غیر قانونی تارکین وطن کو گوانتاناموبے میں قیدیوں کو رکھنے امریکی حکومت امریکہ کے افراد کو انصاف کے لوگوں کو جیل میں یہاں پر میں کچھ کے لیے کو بھی

پڑھیں:

اسرائیل کیخلاف بات نہ کرو، دنیا کے ممالک سے امریکہ کی فرمائش

اپنے ایک خط میں امریکی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ جو ممالک فلسطین کانفرنس کے اختتام پر اسرائیل کیخلاف اقدامات اٹھائیں گے انہیں امریکی خارجہ پالیسی کا مخالف تصور کیا جائے گا۔ اسلام ٹائمز۔ واشنگٹن نے دنیا کے ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ اگلے ہفتے نیویارک میں فلسطین کے حوالے سے اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت نہ کریں اور اسرائیل کے خلاف موقف نہ اپنائیں۔ امریکہ کی جانب سے 10 جون کو جاری ہونے والے خط کے مطابق، جو ممالک مذکورہ کانفرنس کے اختتام پر اسرائیل کے خلاف اقدامات اٹھائیں گے انہیں امریکی خارجہ پالیسی کا مخالف تصور کیا جائے گا، جس سے انہیں ممکنہ امریکی سفارتی نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ واشنگٹن یکطرفہ طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے کسی بھی یکطرفہ اقدام کی مخالفت کرے گا۔ قبل ازیں فرانس کا دعویٰ تھا کہ وہ نیویارک میں 17 سے 20 جون تک ہونے والی کانفرنس میں برطانیہ اور اپنے دیگر یورپی اتحادیوں کو فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لئے قائل کرنا چاہتا ہے۔ طے یہ ہے کہ یہ کانفرنس سعودی عرب اور فرانس کی میزبانی میں منعقد ہو گی جس میں فلسطین کے دو ریاستی حل کے بارے میں تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ تازہ ترین صورت حال کے مطابق، فرانس اپنی بات سے مُکر گیا ہے۔ بعض ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ اس کانفرنس میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے بجائے اس کے لیے فضاء ساز گار بنانے پر بات کی جائے گی۔

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل کیخلاف بات نہ کرو، دنیا کے ممالک سے امریکہ کی فرمائش
  • بلی تھیلے سے باہر آگئی
  • فلسطینی ریاست کے لیے کسی مسلم ملک سے زمین نکالی جا سکتی ہے، امریکہ
  • فلسطینی ریاست ہماری زندگی میں ممکن نہیں، امریکی سفیر ہکابی
  • امریکی حکومت کی تارکین وطن مخالف پالیسی امریکہ کے تاریخی ترقیاتی عمل کے منافی ہے، سروے نتائج
  • امریکہ میں انارکی کی اجازت نہیں دی جائے گی، صدر ٹرمپ کا دوٹوک اعلان
  • امریکی صدر کا 12 ملکوں کے شہریوں کے امریکہ آنے پر پابندی کا فیصلہ نافذ العمل
  • ٹرمپ انتظامیہ نے طاقت کا غلط استعمال کر کے تشدد کو ہوا دی، امیگریشن ایڈوکیسی گروپ
  • امدادی کشتی پر اسرائیلی حملہ دہشت گردی ہے، اقوام متحدہ اور امریکی مسلم تنظیم کا شدید ردعمل 
  • لاس اینجلس، غیر قانونی تارکین وطن آپریشن، ٹرمپ نے ہر جگہ فوج تعینات کرنے کی دھمکی دیدی