عالمی برادری میں اپنا نام اور وقار بلند رکھنے کے لیے تمام ممالک ایک دوسرے سے اچھے، دوستانہ تعلقات کے قیام کو نہایت اہمیت دیتے ہیں، بالخصوص پڑوسی ممالک کے ساتھ خوشگوار اور مربوط و مستحکم تعلقات خارجہ پالیسی کا بنیادی عامل ہوتے ہیں۔ پاکستان ایک اسلامی مملکت ہے۔
اس ناتے برادر اسلامی ملکوں سعودی عرب، یو اے ای، قطر، بحرین، ایران، بنگلہ دیش، افغانستان اور ترکیہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے پاکستان میں آنے والی تمام حکومتوں نے اپنے اپنے طور پر مثبت اقدامات اٹھائے۔ نہ صرف برادر اسلامی ممالک بلکہ چین، امریکا، بھارت، برطانیہ، روس اور دیگر ممالک کے ساتھ بھی پاکستان نے ہمیشہ اچھے مراسم کے قیام کو اہمیت دی۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاک چین دوستی کی مثالیں زبان زد عام ہے، دونوں ممالک ایک دوسرے پر حد درجہ اعتماد و اعتبار کرتے ہیں۔
برادر اسلامی ملک ترکیہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ہمیشہ سے مثالی رہے ہیں، دونوں ممالک کے سربراہان ایک دوسرے کے ملکوں کا دورہ کرتے رہے ہیں بلکہ مختلف شعبوں میں تعاون و مدد کے حوالے سے بھی باہمی معاہدات پر دستخط بھی کیے گئے اور ہر دو ممالک میں عملاً ان کا نفاذ بھی ہوتا رہا ہے۔ تجارت و ثقافت سے لے کر فوجی معاہدوں تک میں دونوں ممالک ایک دوسرے کے تعاون اور انحصار بھی کرتے ہیں۔
ابھی پانچ روز پیشتر ترکیہ کے صدر طیب اردوان نے پاکستان کا سرکاری دورہ کیا تو صدر آصف زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف بہ ذات خود ایئرپورٹ پر ترکیہ کے صدر کا استقبال کرنے کے لیے موجود تھے جو اس بات کا مظہر ہے کہ پاکستان اپنے برادر اسلامی ملک ترکیہ کے صدر کو خاص مہمان سمجھتا ہے جو پاکستان کے خلوص اور مستحکم تعلقات کی علامت ہے ترکیہ کے صدر طیب اردوان نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاؤس میں اپنے وفد کے ہمراہ صدر زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف سے نہ صرف ملاقاتیں کیں بلکہ دو طرفہ تعلقات کو مزید خوشگوار اور مستحکم بنانے کے لیے دفاع، تجارت، بینکنگ، فنانس، توانائی، زراعت، آئی ٹی، صحت اور تعلیم کے شعبوں سمیت 24 معاہدات پر دستخط کیے۔
صدر اور وزیر اعظم سے ترکیہ کے صدر کی ہونے والی ملاقاتوں میں پاکستانی فوج کے سپہ سالار جنرل عاصم منیر بھی موجود تھے۔ صدر زرداری سے ہونے والی ملاقات میں ترکیہ کے صدر نے مقبوضہ کشمیر پر پاکستانی موقف کی اصولی حمایت کی جو اس بات کی علامت ہے کہ ترکیہ خطے کے امن کو بہت اہمیت دیتا ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی بھرپور تائید و حمایت کرتا ہے۔
طیب اردوان نے صدر زرداری کو یقین دہانی کروائی کہ وہ پاکستان کے ساتھ مل کر علاقائی اور عالمی امن و استحکام کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔ بعینہ ہی وزیر اعظم شہباز شریف نے ترکیہ کے صدر طیب اردوان سے ہونے والی ملاقات میں انھیں یقین دہانی کروائی کہ پاکستان قبرص کے مسئلے پر ترکیہ کے موقف کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ پاکستان اور ترکیہ کا اعلیٰ سطح پر ایک دوسرے کی خارجہ پالیسی کے اہم معاملات یعنی کشمیر اور قبرص کے حوالے سے موقف کی تائید اور حمایت کرنا اس بات کا مظہر ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان ہر حوالے سے دوستی و تعلقات نہ صرف خوشگوار اور مستحکم ہیں بلکہ آنے والے مہ و سال میں ان میں مزید وسعت، گیرائی اور گہرائی پیدا ہوگی۔
ترکیہ کے صدر کے دورے کے موقع پر پاک ترکیہ اعلیٰ سطح اسٹرٹیجک تعاون کونسل کا ساتواں اجلاس بھی منعقد کیا گیا۔ بعدازاں جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا اس کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان تزویراتی شراکت داری کو مزید وسعت دی جائے گی اور اسے متنوع اور ادارہ جاتی بنایا جائے گا۔ اعلیٰ سطح اجلاس کی خاص بات یہ تھی کہ ترکیہ کے صدر طیب اردوان اور وزیر اعظم شہباز شریف نے مشترکہ طور پر اس کی صدارت کی جس سے اجلاس کی اہمیت اور دو طرفہ اعتماد و یقین کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ دو طرفہ تجارتی حجم کو 5 ارب ڈالر تک لے جانا چاہتے ہیں۔
انھوں نے ترکیہ سرمایہ کاروں کو یقین دہانی بھی کرائی کہ ماضی میں تاجروں اور سرمایہ کاروں کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا اب ایسا نہیں ہوگا بلکہ کمزوریوں اور خامیوں کا ازالہ کیا جائے گا۔ ترک صدر طیب اردوان نے بھی اسی عزم کا اظہار کیا کہ تجارتی حجم 5 ارب ڈالر تک لے جانے کے لیے تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہوگا۔ انھوں نے فلسطین کے حالیہ بحران کے حوالے سے واضح طور پر کہا کہ غزہ کے شہریوں کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔
عالمی سطح پر غزہ کے معصوم فلسطینیوں سے اظہار ہمدردی اور ٹرمپ نیتن منصوبے کے خلاف نفرت کے اظہار کا سلسلہ بدستور جاری ہے جس سے فلسطینیوں کو یقینا نیا حوصلہ ملے گا اور امریکی صدر ٹرمپ کے لیے غزہ سے فلسطینیوں کو بے دخل کرنا آسان نہیں ہوگا۔پاکستان ترکیہ کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کو نہایت اہمیت دیتا ہے اور اسے مزید مربوط، مستحکم اور خوشگوار بنانا چاہتا ہے، امریکا اور بھارت ترکیہ کے پاکستان کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات اور باہمی تعاون کو بڑی مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں۔ طیب اردوان کا حالیہ دورہ پاکستان بھی دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو یقینا مزید پائیدار اور مستحکم کرنے کا سبب بنے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ترکیہ کے صدر طیب اردوان وزیر اعظم شہباز شریف طیب اردوان نے اور وزیر اعظم برادر اسلامی دونوں ممالک اور مستحکم پاکستان کے تعلقات کو ایک دوسرے حوالے سے ممالک کے کے ساتھ کو یقین کے لیے
پڑھیں:
تعلقات کے فروغ پر پاک، چین، روس اتفاق
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250916-03-7
ضیاء الحق سرحدی
گزشتہ دنوں پاکستان، چین اور روس کا باہمی تعلقات کو مزید فروغ دینے پر اتفاق ہوا ہے۔ عوامی جمہوریہ چین کے صدر شی جن پنگ نے شہباز شریف سے ملاقات میں کہا کہ چین دفاعی اور اقتصادی ترقی کے تمام شعبوں میں پاکستان کی مدد جاری رکھے گا۔ خصوصاً اس وقت جب سی پیک اپنے دوسرے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور پاکستان کے کلیدی اقتصادی شعبوں پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے۔ بیجنگ کے گریٹ ہال آف دی پیپلز میں صدر شی جن پنگ ہے ملاقات وزیر اعظم نے صدر شی کو 2026ء میں پاکستان اور چین کے سفارتی تعلقات کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر پاکستان کے سرکاری دورے کی دعوت بھی دی۔ دریں اثناء بیجنگ میں وزیر اعظم شہباز شریف سے روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے ملاقات کی، ملاقات میں دو طرفہ تعلقات کے فروغ پر اتفاق کیا گیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان روس کے بھارت کے ساتھ تعلقات کا احترام کرتا ہے، لیکن پاکستان بھی روس کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے جو خطے کی ترقی اور خوشحالی کے لیے اہم ہوں گے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے بیجنگ میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے بھی ملاقات کی۔ گرمجوش مصافحے سے شروع ہونے والی اس ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے باہمی تعلقات کے فروغ پر گفتگو کی۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ دونوں ممالک کے تعلقات وقت کے ساتھ مزید مضبوط ہو رہے ہیں اور پاکستان ان روابط کو نئی بلندیوں تک لے جانا چاہتا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان خطے میں امن اور خوشحالی کا خواہاں ہے اور روس اس سلسلے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
صدر پیوٹن نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہترین قرار دیا اور کہا کہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات پر انہیں شدید افسوس ہوا ہے۔ انہوں نے وزیر اعظم شہباز شریف کو ایس سی او سمٹ میں شرکت کی دعوت بھی دی جس پر وزیر اعظم نے کہا کہ روس کا دورہ کر کے انہیں خوشی ہوگی۔ روسی صدر نے مزید کہا کہ پاکستان اور روس کو مختلف شعبوں میں مل کر آگے بڑھنا ہوگا جبکہ دونوں ممالک عالمی فورم بالخصوص اقوام متحدہ میں یکساں موقف رکھتے ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی اپنی متوازن اور آزادانہ حیثیت کے باعث عالمی سطح پر نمایاں مقام حاصل کر چکی ہے۔ شہباز شریف کی چین اور روس کے سربراہان سے ملاقاتیں اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ پاکستان عالمی طاقتوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو نہ صرف برقرار رکھنے بلکہ انہیں مزید مضبوط کرنے کے لیے پر عزم ہے۔ پاکستان اور چین کے تعلقات کی گہرائی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ دونوں ممالک نہ صرف معاشی ترقی بلکہ دفاعی شعبے میں بھی ایک دوسرے کے مضبوط شراکت دار ہیں۔ سی پیک کا دوسرا مرحلہ اس شراکت داری کو نئی بلندیوں تک لے جانے کا عزم رکھتا ہے۔ دوسری جانب پاکستان اور روس کے تعلقات میں حالیہ برسوں میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ روس کے ساتھ پاکستان کی بڑھتی ہوئی قربت نہ صرف دو طرفہ تجارت اور معاشی تعاون کے لیے اہم ہے بلکہ خطے میں امن و استحکام کے لیے بھی ایک کلیدی عنصر ہے۔
پاکستان نے ہمیشہ روس کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کا احترام کیا ہے لیکن اپنی آزادانہ پالیسی کے تحت روس کے ساتھ مضبوط تعلقات کے قیام پر زور دیا ہے۔ یہ تعلقات نہ صرف دو ممالک کے درمیان بلکہ پورے خطے کی ترقی اور خوشحالی کے لیے اہمیت رکھتے ہیں۔ روس کے صدر کی جانب سے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہترین قرار دینا اور عالمی فورم جیسے اقوام متحدہ میں مشترکہ موقف کی حمایت اس بات کا عکاس ہے کہ دونوں ممالک خطے کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کرنے کے خواہش مند ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ وہ چین، روس، اور امریکا جیسے بڑے عالمی کھلاڑیوں کے ساتھ متوازن تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان نہ تو کسی ایک عالمی طاقت کے بلاک میں شامل ہے اور نہ ہی کسی دوسرے کے خلاف وہ اپنے قومی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے تمام بڑی طاقتوں کے ساتھ تعاون کو فروغ دیتا ہے۔ پاکستان، چین اور روس کے درمیان بڑھتا ہوا تعاون خطے میں امن، معاشی ترقی، اور خوشحالی کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔ سی پیک جیسے منصوبوں کے ذریعے معاشی ترقی، روس کے ساتھ بڑھتی ہوئی دفاعی اور تجارتی شراکت داری، اور عالمی فورمز میں مشترکہ موقف خطے کو عالمی سیاست کے پیچیدہ منظر نامے میں ایک مثبت کردار ادا کرنے کے قابل بناتا ہے۔ پاکستان کی یہ سفارتی کامیابی اس بات کی غماز ہے کہ وہ نہ صرف اپنے قومی مفادات کا تحفظ کر رہا ہے بلکہ خطے کے امن و استحکام کے لیے بھی ایک ذمے دار کردار ادا کر رہا ہے۔
پاکستان اور روس کے درمیان باہمی تجارت، تعاون اور باہمی ترقی کے امکانات کے بے شمار راستے موجود ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ انہیں تلاش کیا جائے اور عمل درآمد کیا جائے۔ پاکستان سے ماسکو تک یہ پورا وسط ایشیا ایک قدرتی تجارتی بلاک کی حیثیت رکھتا ہے، لیکن عالمی استعمار اور سیاسی مفادات نے اس خطے کو تقسیم کر کے رکھا۔ اب جبکہ خطے کے تمام ممالک یا بھی تعاون اور تجارت کے فروغ کا فیصلہ کر چکے ہیں تو لازم ہے کہ ایک دوسرے کو ہر طرح کی تجارت میں ترجیح دی جائے اور باہمی مفادات کا خیال رکھتے ہوئے ایک دوسرے سے مل کر ترقی کی شاہراہ پر سفر طے کیا جائے۔ اس خطے کے تمام ممالک کی ترقی و خوشحالی ایک دوسرے سے منسلک ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاک روس بارٹر ٹریڈ معاہدہ دونوں ملکوں ہی نہیں پورے خطے کے لیے مفید ثابت ہوگا حالانکہ پاک روس تجارتی معاہدہ مارچ 2023 میں ماسکو میں طے پایا تھا۔ جس کے تحت پاکستان روس کو چاول، دوائیں، پھل اور کھیلوں کے سامان سمیت 26 اشیاء برآمد کرے گا جبکہ روس سے پٹرولیم مصنوعات ایل این جی، گندم اور دھاگے سمیت 11 اشیاء درآمد کی جائیں گی۔ بہت سے ممالک کو توانائی کے بحران کا سامنا ہے۔ توانائی کے پائیدار ذرائع آج کی دنیا میں بہت اہم ہیں، اور ان تک رسائی ہر ایک کی زندگی کے امکانات کو بہتر بنا سکتی ہے۔
کسی قوم کی ترقی کا ایک اہم جز و توانائی کا ایک قابل اعتماد ذریعہ ہے۔ متعدد اعداد وشمار سے پتا چلتا ہے کہ اگر توانائی تک سستی رسائی کو آسان بنایا جائے تو انسانی ترقی اپنے عروج پر پہنچ سکتی ہے۔ دنیا کے توانائی کے وسائل کے سنگم پر واقع پاکستان کو اسٹرٹیجک فائدہ حاصل ہے۔ اس کے باوجود، پاکستان کی توانائی کی صورتحال مثالی نہیں ہے کیونکہ ریاست درآمدات پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے اور اس کے پاس توانائی کے اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ خود کو برقرار رکھ سکے۔ توانائی کی بڑھتی ہوئی طلب اور اخراجات میں تبدیلی کے نتیجے میں درآمدی اخراجات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان گزشتہ چند دہائیوں سے توانائی کے سنگین مسئلے کا سامنا کر رہا ہے، جیسا کہ بجلی کی مسلسل بندش، گیس کی بڑھتی ہوئی لوڈ شیڈنگ، بڑھتی ہوئی قیمتیں، اور ایندھن کی خراب سپلائی سے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ توانائی قومی سلامتی کا ایک اہم جزو ہے، پاکستان کی موجودہ صورتحال توانائی کے عدم تحفظ کے طور پر سب سے بہتر ہے۔ پاکستان اپنی توانائی کی استعداد پر قابو پانے کے لیے علاقائی رابطوں کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔