Express News:
2025-09-18@14:48:22 GMT

آرمی چیف کی طلبا کے ساتھ نشست

اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT

آرمی چیف سید عاصم منیر کی طلبا کے ساتھ گفتگو کا کچھ حصہ میڈیا میں آیا ہے۔ ویسے تو میرے علم ہے کہ آرمی چیف نے اپنے تمام کمانڈنگ آفیسرز کو ہدایت کی ہوئی ہے کہ وہ کم از کم ایک ماہ میں دو بار طلبا کے ساتھ ملاقات کریں، ان کے ساتھ گفتگو کریں، سوال و جواب کریں۔ جہاں تک مجھے انداذہ ہے اس ملاقات میں بھی سوال و جواب ہوئے ہوںگے۔

لیکن میڈیا کو جاری نہیں کیے گئے۔ اس لیے جب سب تمام کمانڈنگ آفیسرز یونیو رسٹیوں میں جا کر طلبا کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔ تو آرمی چیف نے بھی کی ہے۔ اگر سوال و جواب بھی میڈیا میں سامنے آجاتے تو زیادہ دلچسپ ہوتا۔ لیکن بہر حال جتنی وڈیو جاری کی گئی ہے۔ اس نے بھی سوشل میڈیا پر کافی طوفان مچا دیا ہے۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کیا یہ اچھی پالیسی ہے۔ میں سمجھتا ہوں بہت اچھی پالیسی ہے۔ ملک کے نوجوان کے ساتھ ڈائیلاگ ہونا چاہیے۔ جب تک ملک کے پڑھے لکھے نوجوان کے ساتھ ڈائیلاگ نہیں کریں گے۔ اس سے بات نہیں کریں گے، تب تک اس کے ذہن میں موجود غلط باتیں ختم کیسے ہوںگی۔ کسی جھوٹے بیانیہ کو بھی ڈائیلاگ سے ہی شکست دی جا سکتی ہے۔

ڈائیلاگ ہی کسی بھی صحت مند معاشرہ کی بنیا دہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں ہماری یونیورسٹیوں کے پڑھے لکھے بچوں کے ساتھ ڈئیلاگ ہونا چاہیے۔ ہمیں بھی کرنا چاہیے۔ اسی سے فوج کو ان کی سوچ اور ان کو فوج کی سوچ سمجھنے کا موقع ملے گا۔

اب جہاں تک آرمی چیف کی گفتگو کا تعلق ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ویسے تو تحریک انصاف کہتی ہے کہ ہم فوج کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔ کہتے ہیں بات بھی صرف فوج سے ہی کرنی ہے۔ لیکن آرمی چیف کے کلپس کی جتنی تکلیف تحریک انصاف کے دوستوں کو ہوئی ہے۔ اس کی بھی کوئی مثال نہیں ملتی۔ مثال کے طور پر آرمی چیف نے اس تین منٹ کے کلپ میں فتنہ و خوارج یعنی طالبان کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام نے عورت کو بہت عزت دی ہے۔

ہمارے مذہب اسلام نے عورت کو حقوق دیے ہیں۔ عورت ماں، بہن ،بیٹی اور بیوی تمام رشتوں میں قابل احترام ہے۔ اب جہاں تک مجھے کلپ دیکھ کر سمجھ آئی ہے کہ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے دہشت گرد بھی خواتین کی تعلیم کے خلاف ہیں۔ وہ معاشرے میں خواتین کے کسی بھی قسم کے کردار کے خلاف ہیں۔ لیکن آرمی چیف کہہ رہے ہیں کہ یہ اسلام کی درست تشریح نہیں ہے۔ اور انھوں نے کہا کہ آپ لوگ کون ہیں، یہ غلط تشریح کرنے والے ۔

بس یہ کلپ ہمارے تحریک انصاف کے دوستوں کو بہت چبھ گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر ویسے عمومی طو ر پر تحریک انصاف کی بڑی قیادت تو خاموش ہی رہی ہے۔ لیکن پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا نے بہت طوفان مچایا ہے۔ انھوں نے نو مئی میں ملوث خواتین کی گرفتاری کی وڈیوز لگا کر کیس بنانے کی کوشش کی ہے کہ یہ بھی خواتین ہیں۔

ان کا بھی احترام ضروری ہے۔ اب پہلی بات تو آرمی چیف فتنہ خوارج اور ان کے باطل نظریات کی بات کر رہے تھے۔ کب سے تحریک انصاف کے یہ سوشل میڈیا حامی خود کو فتنہ خوارج سمجھنے لگے ہیں۔ دوسری بات اسلام میں کہاں ہے کہ اگر خاتون کوئی جرم کرے گی تو اس کو گرفتار نہیں کیا جائے گا؟ جو خواتین نو مئی کے واقعات میں ملوث ہیں۔ ان کی گرفتاری قانون کے مطابق ہوئی ہے۔ اور ان کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک ہوا ہے۔

یہ تو بانی تحریک انصاف نے پراپیگنڈا کیا تھا کہ ان کے ساتھ دوران حراست زیادتی ہوئی ہے۔ جس کی ان خواتین نے واضح تردید کی تھی اور کہا تھا کہ ان کے ساتھ کوئی برا سلوک نہیں کیا گیا۔ بلکہ ان کے ساتھ قانون نافذکرنے والے ادارے احترام کے ساتھ پیش آئے ہیں۔ کسی خاتون کا ملٹری ٹرائل نہیں کیا گیا۔ پھر شور کیسا؟

تحریک انصاف کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان کے دور میں پاکستان کی خواتین صحافیوں نے حکومتی ہراسمنٹ کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ تب ہمارے یہ سوشل میڈیا کے دوست ان خواتین صحافیوں کا مذاق اڑاتے تھے۔ اب بھی وزیر اعلیٰ مریم نواز کے خلاف جس قدر گھٹیا مہم چلائی جاتی ہے، وہ کیا کسی سیاسی جماعت کو زیب دیتی ہے۔ پھر اس مہم کا یہ لوگ حصہ بھی بنتے ہیں۔ دیدہ دلیری ساتھ اس پر وی لاگ بھی کرتے ہیں۔ اور پھر اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔

لیکن میرے نزدیک زیادہ اہم بات وہ تھی جہاں آرمی چیف نے کہا قوم فوج کے ساتھ ہے۔اب بانی تحریک انصاف کے خطوط کا تو محور ہی یہی تھا کہ فوج اور عوام کے درمیان خلیج بڑھ گئی ہے۔اور صرف تحریک انصاف ہی یہ خلیج ختم کر سکتی ہے۔ جب آرمی چیف نے کہہ دیا ہے کہ قوم اور فوج کے درمیان کوئی خلیج نہیں۔ اور قوم فوج کے ساتھ ہے۔ اور قوم کے اسی ساتھ کی وجہ سے پاک فوج روز قربانیاں دی رہی ہے۔

تو مجھے تو سارے خطوط کے جواب بھی اسی بات میں مل گئے۔ دیکھا جائے تو عمران خان کے خطوط کا بنیادی نقطہ یہی تھاکہ فوج اور عوام کے درمیان خلیج بڑھ گئی ہے۔ اور صرف وہی پورے پاکستان میں واحد شخصیت ہیں جو یہ خلیج ختم کر سکتے ہیں۔لیکن جب آرمی چیف کہہ رہے ہیں کہ قوم پاک فوج کے ساتھ کھڑی ہے تو یہ بنیادی نقطہ ختم ہوگیا۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمیں آپ کی کوئی ضرورت نہیں۔ آپ اپنا مشورہ اپنے پاس رکھیں۔

اس کلپ میں یہ بات بھی ہے کہ ریاست کے سامنے سرنڈر کریں تب ہی ریاست آپ کے ساتھ رحم کا سوچ سکتی ہے۔ بنیادی طو رپر انھوں نے یہ بات ان دہشت گردوں کے لیے کی ہے جنھوں نے ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں۔ وہ ریاست کے سامنے ہتھیار سرنڈر کر دیں، پھر ان سے رحم کی بات کی جا سکتی ہے، جب تک انھوں نے ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں تب تک رحم کی کوئی بات نہیں۔ پھر جنگ ہوگی۔ لیکن اس میں تحریک انصاف کے دوستوں کے لیے بھی پیغام ہے۔ نو مئی کے مبینہ ماسٹر مائنڈ کے لیے بھی پیغام ہے۔ وہ بھی پہلے سرنڈر کریں۔ معافی مانگیں پھر ہی ریاست رحم کی بات کر سکتی ہے۔ معافی کے بغیر بات آگے نہیں بڑھ سکتی۔

مجھے امید ہے کہ یہ ایک لمبی نشست ہوئی ہوگی۔ ہمیں تو بس تین منٹ کا ایک کلپ ہی ملا ہے۔ نوجوانوں نے بھی بہت دلچسپ سوال کیے ہوںگے۔ کافی اور دلچسپ جواب بھی ہوںگے جو ہم تک نہیں پہنچے۔ میں نے ایسی ایک نشست کور کمانڈر کوئٹہ کے ساتھ دیکھی تھی۔ اس کو شوٹ بھی کیا تھا۔ نوجوان کھل کر سوال کرتے ہیں اور تند و تیز سوال کرتے ہیں۔ اور تحمل سے جواب سنتے بھی ہیں۔ اس لیے یہاں بھی کافی دلچسپ سوال ہوئے ہوںگے۔ بہر حال نوجوانوں کے ساتھ ڈئیلاگ وقت کی ضرورت بھی ہے۔ انھیں بیانیوں کے چکر سے نکالنے کی ضرورت ہے۔ حقائق کی دنیا میں لانے کی ضرورت ہے۔ اور اس کا واحد طریقہ ڈائیلاگ ہی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: تحریک انصاف کے طلبا کے ساتھ ا رمی چیف نے فوج کے ساتھ سوشل میڈیا ان کے ساتھ کرتے ہیں انھوں نے کہ ان کے ہوئی ہے سکتی ہے کے خلاف جہاں تک ہے کہ ا اب بھی اور ان

پڑھیں:

دریا کو بہنے دو، ملیر اور لیاری کی گواہی

کراچی میں بارشوں کا موسم آتے ہی ایک ہڑبونگ مچ جاتی ہے۔ اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز پر ہر طرف بس اس ہی سے متعلق خبریں نظر آتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر خوف اور واویلا بپا ہوتا ہے کہ شہر ڈوب رہا ہے، قیامت آگئی ہے، سب کچھ تباہ ہوگیا ہے، ہر بار یہی منظر نامہ دہرایا جاتا ہے۔ میں یہ سوال اٹھانے پر مجبور ہوں کہ کیا بارش اور دریا واقعی آفت ہیں؟ یا آفت وہ ہے جو ہم نے اپنے ہی ہاتھوں سے پیدا کی ہے؟

میں نے اس موضوع پر پہلے بھی لکھا ہے۔ جب لاہور میں دریائے راوی کو بلڈرز اور طاقتور طبقوں نے اپنے مفاد کی خاطر نوچ ڈالا، اس کے کنارے پر پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنائیں اور دریا سے بہنے کا حق چھین لینے کی کوشش کی تو میں نے تب بھی دل گرفتہ ہو کر قلم اٹھایا تھا۔ آج جب کراچی کے لوگوں کو ملیر اور لیاری ندیوں کے بہاؤ سے خوفزدہ دیکھتی ہوں تو دل اور زیادہ اداس ہوتا ہے۔ یہ اداسی اس وقت اور گہری ہو جاتی ہے جب میں اپنے ہی شہر کے باسیوں کی بے بسی اور بے خبری دیکھتی ہوں۔

کراچی کے بزرگوں سے پوچھیے تو وہ بتائیں گے کہ ملیر اور لیاری موسمی دریا صدیوں سے اس خطے کے دھڑکتے ہوئے دل تھے۔ یہ وہ ندیاں ہیں جنھوں نے اس شہر کے وجود کو سنوارا۔ جب برسات کے موسم میں بادل کھل کر برستے تھے تو یہ ندیاں زندگی کا گیت گاتی ہوئی بہتی تھیں، ان کا شور تباہی نہیں بلکہ حیات کی ایک نغمگی تھی۔ مچھیرے،کاشتکار، عام شہری سب ان ندیوں کے ساتھ جیتے تھے، ان سے ڈرتے نہیں تھے بلکہ ان کے بہاؤ کو اپنی زندگی کا حصہ سمجھتے تھے۔

میں نے اپنی آنکھوں سے ملیر کی ندیاں بہتی دیکھی ہیں۔ مول (Mol) تھڈو (Thaddo) سکن (Sukhan)، لنگیجی (Langheji) یہ سب برسات کے دنوں میں اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ بہتی تھیں، ان کا شور افراتفری نہیں تھا بلکہ فطرت کا سنگیت تھا۔

پھر ہم نے کیا کیا؟ ہم نے ان ندیوں کو کچرے کے ڈھیر میں بدل دیا، ان کے کنارے پر پارکنگ پلازہ بنا دیے، ہم نے ان کے راستے میں کنکریٹ کے جنگل اگا دیے۔ ہم نے یہ سوچے بغیر زمین بیچ ڈالی کہ پانی بھی اپنی راہ چاہتا ہے۔یہی اصل آفت ہے۔ بارش آفت نہیں، دریا آفت نہیں، آفت وہ بے حسی ہے جو ہم میں سرایت کرگئی ہے۔ ہم نے فطرت کے ساتھ دشمنی مول لی ہے اور اب جب فطرت اپنا راستہ تلاش کرتی ہے تو ہم چیخ اٹھتے ہیں کہ تباہی آگئی۔

مجھے یاد ہے کہ لاہورکے راوی کے ساتھ بھی یہی ظلم ہوا۔ بلڈرز نے خواب بیچنے کے نام پر دریا کی سانس روک دی۔ لوگ اپنی زندگی کی جمع پونجی لگا کرگھر بنانے گئے اور آج وہ سیلاب کا شکار ہیں۔ میں نے اس وقت بھی لکھا تھا، دریا کو بہنے دو، کیونکہ اگر ہم دریا کا راستہ روکیں گے تو وہ ایک دن اپنی پرانی پگڈنڈی ڈھونڈ لے گا، فطرت کی یاد داشت انسان سے کہیں زیادہ گہری ہے۔

کراچی کی ملیر اور لیاری ندیاں بھی یہی پیغام دے رہی ہیں۔ یہ ہمیں یاد دلا رہی ہیں کہ شہرکی بنیادیں فطرت کی شرائط پر رکھی گئی تھیں، ہمارے لالچ اور بدنظمی پر نہیں۔ آج یہ ندیاں ہمیں یہ سبق دے رہی ہیں کہ تم چاہے کتنے ہی اونچے پل، فلائی اوور یا ہاؤسنگ اسکیمیں بنا لو، پانی اپنا راستہ ڈھونڈ لیتا ہے۔

لیاری ندی کے کنارے کبھی بستیاں تھیں، ماہی گیروں کے گاؤں تھے۔ بچے ان کے پانی میں کھیلتے تھے، آج وہی لیاری ندی کچرے، گندگی اور زہریلے پانی سے بھرا ایک خوفناک نالہ بن چکا ہے اور جب بارش کے دنوں میں یہ اپنے پرانے جلال کے ساتھ بہنے لگتی ہے تو شہری چیخنے لگتے ہیں کہ شہر ڈوب رہا ہے۔ نہیں شہر ڈوب نہیں رہا شہر کو ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے غرق کیا ہے۔میں جب یہ سب دیکھتی ہوں تو دل پر بوجھ سا بڑھ جاتا ہے۔ لکھنے کو دل چاہتا ہے اور ساتھ ہی یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ کتنی بار لکھوں کسے جھنجھوڑوں؟ لیکن پھر بھی قلم اٹھانا پڑتا ہے کیونکہ خاموش رہنا ممکن نہیں۔

یہ ندیاں ہمیں یہ سبق دیتی ہیں کہ فطرت دشمن نہیں ہے۔ دشمن وہ نظام ہے جس نے ہماری آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہے، جو ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ زمین کو بیچ ڈالو، پانی کے راستے پر قبضہ کر لو، ہر چیز کو منافع میں تول دو۔ اسی نظام نے ہمارے شہروں کو قبرستان بنا دیا ہے۔

کراچی کے لوگ بارش سے ڈرتے ہیں۔ وہ لیاری اور ملیر کے بہاؤ سے خوفزدہ رہتے ہیں لیکن وہ یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ اصل ڈر ان حکمرانوں سے ہونا چاہیے جنھوں نے اس شہر کا سانس گھونٹ دیا ہے۔ اصل ڈر ان بلڈرز اور لینڈ مافیا سے ہونا چاہیے جنھوں نے دریا کی زمین کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ اصل ڈر اس اندھے ترقی کے تصور سے ہونا چاہیے جو فطرت کو روند کر آگے بڑھنا چاہتی ہے۔

ملیر اور لیاری کی ندیاں ہمارے خلاف نہیں، ہمارے ساتھ ہیں۔ وہ ہمیں یہ یاد دلاتی ہیں کہ زندگی کی بقا کے لیے فطرت کے ساتھ چلنا ہوگا، اس کے خلاف نہیں۔ بارش ہو یا دریا کا بہاؤ یہ آفت نہیں یہ ایک آئینہ ہے جس میں ہم اپنی لالچ، بدنظمی اور کوتاہی دیکھ سکتے ہیں۔ یہ ہمیں بار بار سمجھاتی ہیں کہ تم نے اگر اپنے راستے درست نہ کیے تو ایک دن تمہاری بستیاں، تمہاری عمارتیں اور تمہاری سڑکیں سب پانی کی لپیٹ میں آجائیں گی۔

یہ دریا ہمیں سبق دیتے ہیں کہ ہمیں اپنی شہری منصوبہ بندی پر نظرثانی کرنی ہوگی۔ ہمیں کچرے کے ڈھیروں کو ختم کرنا ہوگا۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ یہ ندیاں ہماری دشمن نہیں بلکہ ہماری زندگی کی ضامن ہیں۔ میں آج پھر یہی دہرا رہی ہوں یہ کوئی تباہی نہیں ہے، یہ فطرت کی یاد دہانی ہے۔ یہ وہ دستک ہے جو ہمیں جگا رہی ہے۔ کاش کہ ہم جاگ جائیں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ کے مغربی کنارے کو ضم کرنے پر یو اے ای اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کی سطح کم کر سکتا ہے .رپورٹ
  • ڈی جی آئی ایس پی آر کا آزاد کشمیر کے مختلف تعلیمی اداروں کا دورہ، طلبہ، اساتذہ کیساتھ گفتگو
  • مسلمان مشرقی یروشلم کے حقوق سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گے، ترک صدر
  • پنجاب یونیورسٹی میں مظاہرہ، پولیس نے متعدد طلبا گرفتار کرلیے
  • ڈی جی آئی ایس پی آر کی آزاد کشمیر کے تعلیمی اداروں کے طلبہ اور اساتذہ کیساتھ خصوصی نشست
  • مشاہد حسین سید کا پاکستان کو بھارت کے ساتھ نہ کھیلنے کا مشورہ
  • ڈی جی آئی ایس پی آر کی آزاد کشمیر کے تعلیمی اداروں کے طلبہ اور اساتذہ کیساتھ نشست
  • دریا کو بہنے دو، ملیر اور لیاری کی گواہی
  • پنجاب اسمبلی میں سرکاری و نجی اسکولز میں موبائل فون پر پابندی کی قرارداد منظور
  • افغانستان کے لوگوں کو نکالنے سے دہشتگردی ختم نہیں ہوگی، عمران خان