’’روشن خیال اعتدال‘‘ پسندی کے ناکارہ بم
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
اسرائیل کو پاکستان سے تسلیم کرانا ایک ایسا عالمی ایجنڈا ہے جس کی تکمیل کی خاطر پاکستان کو مدتوں سے زخم دیے جا رہے ہیں۔ اس کی وجہ پاکستان کا مسلمان دنیا میں ایک نمایاں مقام تھا۔ عرب دنیا بھی پاکستان کے اسی مقام کے پیچھے چھپ کر اسرائیل سے تعلقات کی نارملائزیشن سے پہلو تہی کرتی رہی۔ پھر یوں ہوا کہ پاکستان سے یہ نمایاں مقام چھیننے کا ہی فیصلہ ہوا۔ اب پاکستان دہشت گردی کا نشانہ بننے کے ساتھ ساتھ معاشی طور پر دیوالیہ پن کی دہلیز پر ہی کھڑا ہے۔ مہنگائی کرکے پاکستان کو رسمی طور پر دیوالیہ ہونے سے بچایا گیا ہے وگرنہ تمام علامتیں اور نشانیاں ایسی ہی ہیں جو معاشی طور پر دیوالیہ ہونے والے ملکوں کی ہوتی ہیں۔ اسرائیل یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کے پاسپورٹ پر اسرائیل کے نام کی اضافی مہر حقیقت میں صہیونی ریاست کی بدترین تذلیل ہے اور اس تذلیل کا بدلہ لینے کی سوچ کہاں کہاں موجود ہوگی؟ یہ بات زیادہ محتاج وضاحت نہیں۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی نارملائزیشن کا مطلب ایک ملک سے تعلق استوار کرنا نہیں بلکہ موجودہ حالت میں اس کا مطلب یہ ہے کہ فلسطینیوں پر اسرائیل کے مظالم، عملی اور نظری قبضے کو نارملائزیشن کا جامہ پہنانا ہے۔ اسی لیے وقفے وقفے سے پاکستان میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی نارملائزیشن کی آوازیں اُٹھتی ہیں۔
حقیقت میں ان میں اکثر آوازیں بیرونی پروجیکٹس ہوتی ہیں یا ان پروجیکٹس کے زیر اثر۔ ایسا ہی ایک پروجیکٹ دوہزار کی دہائی میں بننے والی نیشنل صوفی کونسل بھی تھی۔ جو اس مقصد کے تحت قائم کی گئی تھی کہ دنیا میں دہشت گردی کی جڑ سعودی عرب میں قائم مکاتب فکر ہیں جنہیں سلفی ازم اور وہابی ازم کہا جارہا تھا۔ اس کی جگہ اگر مسلمان دنیا میں صوفی اسلام کو فروغ دیا جائے تو دہشت گردی کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے اور مسلمانوں کے اندر ریڈیکلائزیشن کے جراثیم کو بڑھنے اور پنپنے سے روکا جا سکتا ہے۔ جب یہ ڈول ڈالا جا رہا تھا تو نائن الیون کا واقعہ تازہ تازہ رونما ہوچکا تھا اور امریکا مسلمان دنیا سے سارے حساب بے باق کرنے کی راہ پر گامزن تھا۔ جنرل پرویزمشرف امریکی جنگ کی بندوق اپنے کندھے پر رکھ کر اگلے مورچے کے اگلے سپاہی کا کردار ادا کررہے تھے۔ امریکی ڈالروں کی پاکستان پر برسات ہوتی تھی۔ ڈرون حملوں کے ڈالر، ڈرون کی راہنمائی کرنے والی چِپ کے ڈالر، طالبان کو گرفتار کرنے اور مارنے کے ڈالر، اس سے بھی مہنگے شکار القاعدہ والوں کو گرفتار کرکے حوالے کرنے کے ڈالر غرض یہ کہ گنگا جمنا بہتی چلی جارہی تھی۔ اس ماحول میں جنرل پرویز مشرف کو صوفی کونسل بنانے کا خیال آیا اور 2006 میں روشن خیال اعتدال پسندی کے ذیلی پروجیکٹ کے طور پردھوم دھام کے ساتھ پاکستان میں صوفی اسلام کی ترویج واشاعت کے لیے اس کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جنرل پرویزمشرف اس کے سرپرست اعلیٰ بنے اور چودھری شجاعت حسین کو چیرمین بنایا گیا۔ یہ جنرل پرویز مشرف کی مہربانی تھی کہ انہوں نے چودھری شجاعت حسین کی شراکت داری قبول کرلی وگرنہ وہ چاہتے تو سرپرست اعلیٰ کے ساتھ ساتھ چیرمین بھی خود ہی بنتے۔ ان سے کس کو پوچھنا تھا۔ یہ وہی دور تھا جب یہودیوں کے روحانی پیشوا جنرل پرویز مشرف کی درازیٔ عمر کے لیے دعائیں کرتے تھے اور وہ امریکی یہودیوں کی تقریبات میں شرکت کرتے تھے۔ اسی ورثے کا ایک بم برسوں بعد ایک بار پھر اسرائیل میں جا پھٹا اور جہاں وہ اسرائیل اور پاکستان کے تعلقات کی نارملائزیشن بہ الفاظ دیگر فلسطینیوں کی بربادی اور بے زمینی اور بے گھری کی نارملائزیشن کا مقدمہ لڑتے ہوئے پائے گئے۔
اسرائیل کے اخبار یروشلم پوسٹ نے پاکستان کے ایک ماڈرن صوفی صاحب کے دورہ ٔ اسرائیل کی کہانی بیان کی جو صرف ایک فرد نہیں بلکہ صوفی کونسل کے چیرمین ہیں۔ ان کا نام پیر سید مدثر نذر شاہ بانی سچ انسٹی ٹیوٹ۔ یروشلم پوسٹ کے مطابق صوفی صاحب بلوچستان میں پیدا ہوئے اور پنجاب میں صوفی سلسلے کے سرپرست ہیں۔ اخبار نے پیر نذر شاہ کے اسرائیل کے مختلف مقامات کی تصویروں سے مزین اس اسٹوری میں ان سے انٹرویو بھی کیا ہے۔ وہ اپنی کہانی بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ کہانی 2004 میں شروع ہوئی جب پاکستان دہشت گردی کے خوفناک حملوں کا شکار تھا۔ خانقاہیں اور مقدس مقامات مذہبی لیڈر سب ان حملوں کی زد میں تھے اس وقت ہم نے ڈی ریڈیکلایزیشن کے منصوبے پر کام کا آغاز کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اسرائیل کے حوالے سے سخت گیری بڑھ رہی ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں اس ریجیڈٹی کی وجہ سلفی ازم اور اخوان ازم ہے۔ اسی انٹرویو میں اخبار پاکستان کا تعارف یوں کراتا ہے کہ پاکستان اسرائیل کے بارے میں منفی خیالات رکھنے والے ملکوںمیں سے ایک ہے۔ یہ جیوش اسٹیٹ کو تسلیم نہیں کرتا۔ پاکستانی پاسپورٹ اس جملے کے حوالے سے بدنام ہے جو اس کے بیک کور پر یوں درج ہے ’’اسرائیل کے سوا تمام ملکوں کے لیے کارآمد ہے‘‘۔
پیر نذر شاہ حالات کی نارملائزیشن پر Whispers in the Stone (پتھروں میں سرگوشیاں) کے عنوان سے کتاب بھی لکھ چکے ہیں۔ رواں ماہ انہوں نے اسرائیل کا دورہ کیا اور ساٹھ اسرائیلی اسکالرز کے ساتھ بات چیت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام اسرائیلی پاکستان سے تعلقات کی نارملائزیشن چاہتے ہیں۔ یہ دورہ اسرائیل کے یروشلم سینٹر فار سیکورٹی اینڈ فارن افیرز کے زہر اہتمام ہوا۔ یوں جنرل پرویز مشرف کی لیگسی آج بھی کسی نہ کسی انداز سے اپنا جلوہ دکھا رہی ہے۔ ٹی وی پر بولنے والے احمد قریشی بھی اسی دور سے اسکرینوں پر نمودار ہوئے اور آخر کار وہ بھی ایک شام تل ابیب سے جا برآمد ہوئے اور اب جنرل پرویزمشرف کے چھوڑے ہوئے ورثے صوفی کونسل کے سربراہ بنفس نفیس اسرائیل میں گھومتے گھامتے پائے گئے۔ صوفی کونسل کے سرپرست اعلیٰ اس دنیا سے چلے گئے اس کے چیرمین اب بستر علالت پر ہیں مگر اس کے ناکارہ سمجھے جانے والے بم اب بھی زمین کی تہہ میں وقفے وقفے سے پھٹتے ہیں۔ پیر مدثر نذر شاہ اسرائیل میں ظہور وورود بھی ایسے ہی بم کا ایک دھماکا ہے۔ گویا کہ پہنچے وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر ہو۔ پاکستان پر ستر برس سے کیسے کیسے تجربات ہو رہے ہیں، کوئی صاحب اسلامائزیشن کے نعرے لگا کر اپنے دن گزارتے ہیں اور کوئی صاحب روشن خیال اعتدال پسند کو عین تقاضائے وقت اور مصلحت قرار دے کر اپنے دن پورے کرتے ہیں اور سب کے لیے ان کی بات اور ان کی ضرورت ہی قومی مفاد قرار پائی ہے۔ تھوڑا کھرچنا شروع کریں تو دونوں کے ڈانڈے جا کر کہیں اور ملتے ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: تعلقات کی نارملائزیشن جنرل پرویز مشرف پاکستان کے کہ پاکستان اسرائیل کے صوفی کونسل ہیں اور نذر شاہ کے ڈالر کے ساتھ کے لیے خیال ا
پڑھیں:
وزیر اعظم شہباز شریف دو روزے دورے پر ترکیہ پہنچ گئے
شہباز شریف دورے کے دوران ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان سے دو طرفہ تعلقات پر تفصیلی تبادلہ خیال کریں گے اور خطے اور اس سے باہر کی حالیہ پیش رفت پر تبادلہ خیال کریں گے۔ اسلام ٹائمز۔ وزیر اعظم شہباز شریف ترک صدر رجب طیب اردوان کی دعوت پر 2 روزہ دورے پر ترکیہ پہنچ گئے۔ سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی کے مطابق وزیر اعظم کے ہمراہ وزیر خارجہ اسحاق ڈار، وزیر اطلاعات عطاء تارڑ اور معاون خصوصی طارق فاطمی بھی موجود ہیں۔ انقرہ ایئرپورٹ پر ترک وزیر دفاع نے شہبازشریف کا استقبال کیا، جبکہ ڈپٹی گورنر، پاک ترک کلچرل ایسوسی ایشن اور اعلیٰ حکام بھی موجود تھے۔ وزیر اعظم شہباز شریف دورے کے دوران ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان سے دو طرفہ تعلقات پر تفصیلی تبادلہ خیال کریں گے اور خطے اور اس سے باہر کی حالیہ پیش رفت پر تبادلہ خیال کریں گے۔