Daily Ausaf:
2025-07-26@22:16:07 GMT

ٹورازم انڈسٹری اور ہماری معیشت

اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT

اللہ تعالیٰ نے دنیا کو بڑا خوبصورت بنایا ہے اور اسے اس انداز سے تخلیق کیا ہے کہ اس میں دنیا کی تمام آسائشیں، راحتیں اور نعمتیں موجود ہیں۔ یہی نہیں، اسے قدرتی وسائل بھی میسر ہیں اور بہت سے حسین اور دلکش مقامات بھی،جہاں بہت زیادہ قدرتی وسائل ہوتے ہیں ان ممالک کی معیشت بھی بہت بہتر اور مضبوط رہتی ہے۔قدرت کے بنائے سرسبز پہاڑ، جھیلیں، ان کے حصار میں گہری خوبصورت وادیاں قدرت کا عظیم شاہکار ہیں،جو ممالک قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں وہ ان کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں، جس کے باعث ان ملکوں کی ترقی دن دگنی رات چوگنی ہو رہی ہے۔
دورِ جدید میں مختلف ممالک اپنی معیشت کو مضبوط بنانے کے لئے مختلف طرح کی حکمت عملی اختیار کرتے ہیں جن میں ایک اہم طریقہ یا راستہ ٹورازم (سیر و سیاحت) انڈسٹری کا فروغ بھی ہے۔کئی ممالک ٹورازم انڈسٹری سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں جس سے ان کی معیشت میں بہتری اور استحکام آیا ہے۔ملائشیا کی مثال ہمارے سامنے ہے جس کی ٹورازم انڈسٹری نے اسے دنیا کی ایک مضبوط و مستحکم معیشت بنا دیا ہے۔ ا ملائشیا اپنے ریونیو کا 14.

9فیصد سیاحت سے حاصل کرتا ہے- ملائشیا نے سیاحت کو فروغ دینے کے لیے بہت سے پرکشش طریقے استعمال کئے ہیں جو یہ ہیں:سیرو تفریح کے مقامات پر آمدورفت کے جدید ذرائع کی دستیابی،سیاحوں کے لیے سیاحتی مقامات پر الیکٹرونکس، اشیاء خوردونوش اور ضروریات زندگی کی تمام اشیاء کی ڈیوٹی فری فراہمی-کسی بھی ملک کے پاس اپنی معیشت کا بہترین ذریعہ اپنے ہاں موجود مادی اور انسانی ذرائع کا صحیح اور دانشمندانہ استعمال ہے اور یہ اس وقت ہی ممکن ہے جب ملک کی باگ ڈور تربیت یافتہ، باشعور اور مخلص افراد کے ہاتھوں میں ہو۔
ماحول دوست سیاحت کی اصطلاح دنیا بھر میں وسیع پیمانے پر استعمال کی جا رہی ہے، اس کا مطلب سیاحتی سرگرمیوں کے فروغ کے ساتھ دلکش و دلفریب مقامات کے تحفظ کو بھی یقینی بنانا ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں ماحولیاتی تبدیلیوں اور امن و امان کی خراب صورت حال کے باعث سیاحتی سرگرمیاں ماند پڑ گئی تھیں،لیکن اب ٹورازم ڈیپارٹمنٹ ان سرگرمیوں کو پھر سے بحال کرنے کی کوششوں میں ہمہ تن مصروف ہے،کوشش کی جا رہی ہے کہ نا صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک سے بھی سیاحوں کی اکثریت سیر و سیاحت کے لیے شمالی علاقہ جات کا رخ کرے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیوں اور ’’عالمی درجہ حرارت‘‘ میں اضافے کے باعث پاکستان میں بھی سیاحت کا شعبہ شدید متاثر ہے۔پاکستان کے شمالی علاقوں میں سوات، کالام، ناران، چترال اور دیر کے علاوہ بھی اور بہت سے ایسے مقامات ہیں جو دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز تھے،لیکن امن و امان کی خراب صورت حال اور دہشت گردی کے پے درپے واقعات کے باعث اب یہاں سیاحوں کی تعداد میں نمایاں کمی نوٹ کی گئی ہے اس گراوٹ سے سب سے زیادہ مقامی افراد متاثر ہوئے،کیونکہ ان کاروزگار سیاحت ہی سے وابستہ ہے۔ اب موجودہ حکومت پھر سے اپنی توجہ ٹورازم پر مرکوز کئے ہوئے ہے، تاکہ سیاحت کو فروغ حاصل ہو،جس کے باعث مقامی افراد کو بھی روزگار مل سکے۔ بین الاقوامی سطح پر سیاحت کی صنعت کا مجموعی سالانہ حجم قریبا 9 ٹریلین ڈالر سے زائد ہے۔ جو اقوام عام کے مجموعی جی ڈی پی کا دس سے گیارہ فیصد بنتا ہے۔ تاہم سیاحت کی اس عالمی صنعت میں پاکستان کا حصہ 0.05 سے بھی کم ہے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان چند ممالک میں ہوتا ہے جنہیں قدرت نے بیش بہا تفریحی مقامات اور موسموں سے نوازا ہے۔ ایسے میں حکومت کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اس اہم شعبے (سیاحت)کی ترقی اور فروغ کو اپنی ترجیحات میں شامل کرے۔ اس حوالے سے حالیہ برسوں میں حکومت نے مختلف اقدامات کئے ہیں جن میں حکومت اور پاک آرمی کے اشتراک سے گرین ٹورازم پاکستان کے نام سے ایک ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، جو سیاحت کے فروغ کے لیے اہم اقدام ہے۔ اب تک سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق یہ ادارہ ابتدائی طور پر سیاحتی مقامات پر سیاحوں کو عالمی معیار کی سہولیات فراہم کرنے کے لئے 150 ہوٹلز قائم کرے گا۔ اس ضمن میں قریباً 15 سے 20 ہوٹلوں کے قیام کا کام مکمل ہو چکا ہے اور جلد ہی ان کی لانچنگ متوقع ہے۔ پاکستان ٹورازم کارپوریشن کے تحت یہ ادارہ پہلے سے موجود ہوٹلز بھی اپنے انتظام میں لے کر ان کی دوبارہ سے تزئین و آرائش کرکے لانچ کرنے جا رہا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر ہوٹل بہت اہم سیاحتی مقامات پر موجود ہیں لیکن ان کے ڈیزائن، اندورنی تزئین و آرائش اور سب سے بڑھ کر خدمات کی فراہمی کا معیار وہ نہیں، جو ہونا چاہیے۔ پاکستان گرین ٹورازم نے اب ان ہوٹلز کو ناصرف عالمی معیار کے اداروں کی مشاورت اور مدد سے ری ڈیزائن کیا ہے بلکہ ان کی مینجمنٹ اور خدمات کی فراہمی کے معیار کو بھی عالمی معیار سے ہم آہنگ کیا ہے۔اس سلسلے میں پروفیشنل سٹاف اور مینجمنٹ کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ ان اقدامات سے نہ صرف ملک بھر سے شمالی علاقوں کا رخ کرنے والے مقامی سیاحوں کو وہ ماحول میسر آئے گا جس کی سیاحت کا تجربہ وہ دیگر ممالک کی سیاحت کے دوران کر چکے ہیں، بلکہ مذہبی سیاحت کے شعبے میں بھی بیرون ملک سے آنے والے سیاحوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آئے گا جس سے ملک کو قیمتی زرمبادلہ کے حصول کا ایک نیا اور مستقل ذریعہ میسر ہو گا۔سکھ اور ہندو کمیونٹی اپنے مذہبی مقامات کی زیارتوں کے لئے پاکستان آنے میں نا صرف دلچسپی رکھتی ہے بلکہ ان مذہبی مقامات کی زیارتوں کے سلسلے میں وہ سہولیات کی فراہمی اور دستیابی کے لئے سرمایہ کاری بھی کرناچاہتی ہے۔ اس حوالے سے سکھ کمیونٹی کے بااثر اور معتبر افراد سے جب بھی ملاقات یا بات ہوتی ہے تو سرمایہ کاری کے حوالے سے وہ اپنی دلچسپی کا اظہار ضرور کرتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ حکومت اپنی ترجیحات میں سیاحت کو سرفہرست رکھے، اس سے نہ صرف قیمتی زرمبادلہ حاصل ہو گا بلکہ مقامی افراد کو بھی روزگار کے بہترین مواقع میسر آ سکیں گے۔

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: مقامات پر سیاحوں کی سیاحت کی سیاحت کے کے باعث کے لئے کو بھی کے لیے

پڑھیں:

سانحہ دریائے سوات، انکوائری رپورٹ میں حکومتی غفلت سمیت افسوسناک حقائق سامنے آگئے

انکوائری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سانحہ سوات میں دیگر محکموں کی غفلت کے ساتھ ساتھ کے پی حکومت کی جانب سے صوبے کے سیاحتی مقامات کے لیے بھرتی کی گئی ٹورازم پولیس کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھنے لگے ہیں اسلام ٹائمز۔ سانحہ سوات کی انکوائری رپورٹ میں خیبر پختونخوا (کے پی) کی حکومت کے متعلقہ محکموں کی غفلت اور ٹورازم پولیس کی عدم موجودگی اور دفعہ 144 کے باجود بیشتر علاقوں میں پابندی یقینی نہیں بنانے کا کا انکشاف کیا گیا ہے۔ انکوائری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سانحہ سوات میں دیگر محکموں کی غفلت کے ساتھ ساتھ کے پی حکومت کی جانب سے صوبے کے سیاحتی مقامات کے لیے بھرتی کی گئی ٹورازم پولیس کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھنے لگے ہیں، وقوع کے روز ٹورازم پولیس غائب رہی، فضا گھٹ اور اطراف میں استقبالیہ کیمپ بھی موجود نہیں تھے۔ انکوائری رپورٹ کے مطابق 27 جون کو واقعے کی صبح ہوٹل کے قریب پولیس کی گاڑی موجود تھی تاہم دفعہ 144 کے تحت پابندی کے باوجود سیاحوں کو پولیس نے دریا میں جانے سے نہیں روکا اور جائے وقوع پر ٹورازم پولیس موجود نہیں تھی۔

سوات میں سانحے کے روز ٹورازم پولیس کی غیر موجودگی پر انکوائری کمیٹی نے سوال اٹھا دیے ہیں اور کمیٹی کے مطابق سیاحتی علاقوں میں ٹورازم پولیس کا کام کیا ہے؟  رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر 106 ایف آئی آرز درج ہوئیں، 14 ایف آئی آرز پولیس نے اور باقی اسسٹنٹ کمشنرز نے درج کیں۔ انکوائری رپورٹ کے مطابق پولیس ہوٹلوں کو حفاظتی ہدایات جاری کرنے سے متعلق کوئی ثبوت پیش نہ کرسکی، رپورٹس میں سفارش کی گئی ہے کہ سوات پولیس کی غفلت اور دفعہ 144 پر مکمل عمل درآمد نہ کرنے کی انکوائری اور متعلقہ افسران کے خلاف 60 دن میں کارروائی کی جائے۔

انکوائری کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ 30 دن میں قانون و ضوابط میں خامیاں دور کر کے نیا نظام وضع کیا جائے،  دریا کے کنارے موجود عمارتوں اور سیفٹی کے لیے نیا ریگولیٹری فریم ورک 30 دن میں نافذ کیا جائے اور تمام موجودہ قوانین پر سختی سے عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔ سفارش کی گئی ہے کہ پولیس کو دفعہ 144 کا سختی سے نفاذ یقینی بنانے کی ہدایات دی جائیں، حساس مقامات پر پولیس کی نمایاں موجودگی اور وارننگ سائن بورڈ نصب کیے جائیں اور ٹورازم پولیس اور ڈسٹرکٹ پولیس کے مابین نیا میکنزم بنایا جائے۔

متعلقہ مضامین

  • سانحہ دریائے سوات؛ انکوائری رپورٹ میں حکومتی غفلت سمیت افسوسناک حقائق سامنے آگئے
  • سانحہ دریائے سوات، انکوائری رپورٹ میں حکومتی غفلت سمیت افسوسناک حقائق سامنے آگئے
  • خیبرپختونخوا میں سیاحتی مقامات اور سیاحوں سے متعلق ایڈوائزری جاری
  • دشمن کو ہماری قومی یکجہتی، اتحاد سے اپنے مذموم مقاصد میں مایوسی ہو گی: ڈی جی آئی ایس پی آر
  • صدر مملکت سے سعودی سفیر کی ملاقات، تجارت، معیشت، ثقافت پر تبادلہ خیال
  • پاکستان امن پسند ملک، دشمن کو ہمیشہ مایوسی کا سامنا ہوگا، ترجمان پاک فوج
  • وزیرِ اعظم آزاد کشمیر چوہدری انوار الحق سے سردار یاسر الیاس کی ملاقات ، سیاحت کے فروغ اور سرمایہ کاری کے مواقع پر تفصیلی تبادلہ خیال
  • ایس اینڈ پی نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ بہتر کر دی، عالمی سطح پر معاشی پالیسیوں کا اعتراف
  • عالمی کریڈٹ ایجنسی ایس اینڈ پی گلوبل نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ بہتر کر دی
  • جنرل ساحر کا دورہ ترکیہ، ڈیفنس انڈسٹری فیئر میں شرکت