پاکستان کو شکست دینے والی امریکی کرکٹ ٹیم نے ایک اور ریکارڈ بنا ڈالا
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
امریکا نے عمان کو 122 رنز کے تعاقب میں 57 رنز سے شکست دے کر بین الاقوامی کرکٹ میں کم ترین ہدف کے دفاع کا ریکارڈ بنا دیا۔
العامرات میں کھیلے گئے آئی سی سی مینز کرکٹ ورلڈ کپ لیگ 2 کے 54 ویں میچ میں عمان نے ٹاس جیت کر اسپن ٹریک پر امریکا کو پہلے بیٹنگ کی دعوت دی اور مہمان ٹیم کو 122 رنز تک محدود رکھا۔
امریکا کی جانب سے ملنگ کمار 47 رنز ناٹ آؤٹ بنا کر نمایاں رہے۔ ایرون جونز 16، سنجے کرشنامورتی 16، آندریز گوس 14، ہرمیت سنگھ 10، جسدیپ سنگھ 3، یاسر محمد 2، سیتیجا مکاملا 2 رنز بنا کر جبکہ کپتان منانک پٹیل، نُستوش کنیگے اور سمت پٹیل بغیر کھاتا کھولے پویلین لوٹے۔
عمان کی جانب سےصرف اسپنرز سے بولنگ کروائی گئی۔ شکیل احمد نے 3، عامر کلیم اور سمے شریواستو نے 2، 2 جبکہ جے اوڈیدرا اور سدھارتھ بُکاپٹنم نے 1، 1 وکٹ حاصل کی۔
جواب میں امریکا کے صرف چار اسپنرز نے عمان کی پوری ٹیم کو 65 رنزپر پویلین کی راہ دِکھائی اور کم ہدف کے دفاع کا ریکارڈ بنا ڈالا۔
عمان کی جانب سے حماد مرزا 29 رنز بنا کر نمایاں رہے۔ ان کے علاوہ کوئی بھی بیٹر سنگل فیگر عبور نہ کر سکا۔ حاشر دفعدار 9، کپتان جتندر سنگھ 7، عامر کلیم 5، ونایک شکلا 5 اور جیتن رمانندی 2 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے جبکہ سفیان محمود، شکیل احمد، جے اوڈیدرا اور سدھارتھ بُکاپٹنم کوئی رن نہ بنا سکے۔
امریکا کی جانب سے نُستوش کنیگے نے 5 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ یاسر محمد اور ملند کمار نے 2، 2 جبکہ ہرمیت سنگھ نے 1 وکٹ حاصل کی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کی جانب سے
پڑھیں:
کیا امریکا نے تجارتی جنگ میں فیصلہ کُن پسپائی اختیار کرلی؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں ایک بات تو پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے اور وہ یہ کہ اُن کے بارے میں کوئی بھی بات پورے یقین سے نہیں کہی جاسکتی۔ وہ کب کیا کر بیٹھیں کچھ اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ پالیسی کے حوالے سے اُن کے بہت سے اقدامات نے انتہائی نوعیت کی کیفیت راتوں رات پیدا کردی اور پھر اُنہوں نے یوں پسپائی اختیار کی کہ دنیا دیکھتی ہی رہ گئی۔
بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے اُن کی سوچ انتہائی متلون ہے۔ وہ کسی بھی وقت کچھ بھی کہہ جاتے ہیں اور عواقب کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ انتہائی غیر یقینی شخصیت ہیں اور اِس وصف کے ذریعے امریکا کے لیے مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں۔
ٹیرف کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ اُنہوں نے پہلے تو چین، کینیڈا اور میکسیکو سمیت بارہ سے زیادہ ممالک پر بھاری درآمدی ڈیوٹی تھوپ دی۔ اُن کا خیال تھا کہ درآمدات کو امریکی صارفین کے لیے مہنگا کرکے وہ ملکی صںعتوں کو زیادہ تیزی سے پنپنے کا موقع فراہم کریں گے مگر جو کچھ ہوا وہ اِس کے برعکس تھا۔ جب دوسرے ملکوں نے بھی جوابی ٹیرف کا اعلان کیا تو امریکی مصنوعات اُن ملکوں کے لیے صارفین کے لیے مہنگی ہوگئیں اور یوں امریکی معیشت کو شدید دھچکا لگا۔
صدر ٹرمپ نے جب دیکھا کہ اُن کا اٹھایا ہوا قدم شدید منفی اثرات پیدا کر رہا ہے تو اُنہوں نے قدم واپس کھینچ لیا۔ یوں امریکا نے ٹیرف کے محاذ پر واضح پسپائی اختیار کی۔ اِس پسپائی نے ثابت کردیا کہ امریکا اب من مانی نہیں کرسکتا۔ وہ کوئی یک طرفہ اقدام کرکے کسی بھی ملک کے لیے بڑی الجھن پیدا کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہا۔ دھونس دھمکی کا زمانہ جاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ امریکا کو مذاکرات کی میز پر آنا پڑ رہا ہے۔
طاقت کا معاملہ بھی “وڑتا” دکھائی دے رہا ہے۔ چین اور روس ڈٹ کر میدان میں کھڑے ہیں۔ اُنہوں نے ثابت کردیا ہے کہ اب امریکی فوج کے لیے کہیں بھی کچھ بھی کرنا آسان نہیں رہا۔ منہ توڑ جواب دینے والے میدان میں کھڑے ہیں۔ دور افتادہ خطوں کو زیرِنگیں رکھنے کی امریکی حکمتِ عملی اب ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ افریقا میں بھی بیداری کی لہر دوڑ گئی ہے۔ یورپ کی ہچکچاہٹ نے امریکا کی مشکلات مزید بڑھادی ہیں۔
ہمارے سامنے اب ایک ایسی دنیا تشکیل پارہی ہے جس میں امریکا اور یورپ ہی سب کچھ نہیں۔ پوری دنیا کو مٹھی میں بند کرکے دبوچے رکھنے کا زمانہ جاچکا ہے۔ بہت سے ممالک نے خود کو عسکری اعتبار سے مضبوط بنایا ہے۔ پاکستان کو انتہائی کمزور سمجھا جارہا تھا مگر اُس نے فضائی معرکہ آرائی میں بھارت کو ناکوں چنے چبواکر امریکا اور یورپ کو پیغام دے دیا کہ اُسے تر نوالہ نہ سمجھا جائے۔ دنیا بھر میں بھارت کی جو سُبکی ہوئی ہے اُس نے یہ بھی واضح اور ثابت کردیا کہ بھارت عالمی طاقت تو کیا بنے گا، وہ علاقائی طاقت بننے کے قابل بھی نہیں ہے۔
یہ تمام تبدیلیاں دیکھ کر امریکی قیادت بھی سوچنے پر مجبور ہے کہ ٹیرف یا کسی اور معاملے میں من مانی سے گریز ہی بہتر ہے۔ صدر ٹرمپ نے چند ہفتوں کے دوران جو طرزِ فکر و عمل اختیار کی ہے وہ اِس بات کی غماز ہے کہ اب سب کچھ امریکا کے حق میں نہیں رہا۔