’’تارے زمین پر‘‘ 2007ء کی ایک بھارتی فلم تھی جس کے پروڈیوسر عامر خان تھے۔اس میں آٹھ سالہ درشیل سفاری بطور ایک طالب علم جبکہ عامرخان اس کے استاد کے طور پرجلوہ گر ہوئے تھے۔ اس کے لکھاری امول گپتا تھے۔ایسی فلمیں بہت کم بنتی ہیں جن میں معاشرتی مسائل اور ان کے حل سے متعلق توجہ دلائی جائے۔ فلم تارے زمین پر انہیں فلموں میں سے ایک بہترین فلم ہے جس میں بچوں کی تعلیم و تربیت کی جانب بھرپور توجہ دلائی گئی۔ 2007 میں ریلیز ہونے والی یہ فلم کا مرکزی کردار ایشان (درشیل سفاری) آٹھ سال کا بچہ جو کہ ڈسلکشیا (پڑھنے لکھنے میں دشواری) میں مبتلا دکھایا گیا تھا۔ جس کی وجہ سے استاد اور والدین کی ڈانٹ ڈپٹ اور مار پٹائی کا شکار رہتا ہے، سکول کے باقی بچے اس کی اس کمی کا مذاق بناتے ہیں اور اسے شدیت ذلت آمیز رویے کا سامنا کرنا پڑتا۔وہ بچہ اساتذہ کا سخت رویہ برداشت کرتا ہے وہیں اس کا ٹیچر اس کے مرض کی تشخیص کرتا ہے۔ اس کے ٹیچر کی کوشش اور محنت سے نہ صرف ایشان ٹھیک سے پڑھنے لکھنے لگتا ہے بلکہ خود میں مخفی صلاحیت یعنی پینٹنگ کے ذریعے ایشان نہ صرف اپنی صلاحیت سے واقف ہوتا ہے بلکہ دوسروں میں بھی خود کو منوا لیتا ہے۔
دوستو مدعا فلم ’’تارے زمین پر‘‘ نہیں بلکہ وہ طالب علم ہیں جو اپنی کسی کمی یا خامی کی بنیاد پر دوسرے طلبا سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔اساتذہ اور ساتھی طلبا کے طنز تنگ آکر یاتو وہ تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں یا پھر مایوس ہوکر دنیا کو ہی چھوڑ جاتے یعنی خود کشی کرلیتے ہیں۔ افسوس صد افسوس لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ جنوبی ایشیا خاص طور پر بھارت اور پاکستان میں اگر کوئی طالب علم ناکام ہوتا ہے یا کم نمبر لیتا ہے توشدید تنقید کی زد میں آتا ہے اور درد ناک انجام مایوسی اور اس کی موت پر ہوتا ہے اور والدین کے ہاتھ بس ا یک خط آتا ہے۔
کچھ عرصہ قبل بھارت میں ایک طالبہ نے انجینئرنگ یونیورسٹی میں داخلے کے لیے ہونے والے ٹیسٹ میں ناکامی پر دل برداشتہ ہوکر خودکشی کی۔ بھارتی میڈیا کے مطابق 18 سالہ طالبہ کی لاش اس کے ہاسٹل کے کمرے سے ملی تھی۔ جہاں ٹیسٹ کی تیاری کے لیے مقیم تھی۔تاہم اس واقعے میں سبق آموزکمرے سے ملنے والی ایک تحریر تھی،اس میں طالبہ نے لکھا تھا کہ ممی پاپا، پلیز مجھے معاف کردیں، میں کامیاب نہیں ہو پائی۔ یہ ہمارے رشتے کا اختتام ہے۔ آپ دونوں رونا نہیں۔ آپ نے مجھے بہت پیار دیا لیکن میں آپ کے خوابوں کو پورا نہ کر پائی۔ افسوس۔۔ صد افسوس۔ وہ طالبہ زندگی کا خاتمہ کرنے سے قبل ایک بار صرف ایک بار والدین سے شیئر تو کرتی شائد کوئی متبادل آپشن مل جاتا، شائداس کے والدین اوراس کے خواب ادھورے نہ رہتے۔
ناکامی، اکثر ایک مشکل اور مایوس کن تجربہ ہوتی ہے، لیکن حقیقت میں یہ کامیابی کے راستے کی پہلی سیڑھی بن سکتی ہے۔ جب ہم ناکامی کا سامنا کرتے ہیں، تو یہ دراصل ہمیں سکھاتی ہے کہ ہم کہاں غلط ہو سکتے ہیں، ہمیں کس چیز کی ضرورت ہے، اور کس طریقے سے ہم اپنی کوششوں کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ناکامی انسان کو بہت کچھ سکھاتی ہے۔ ناکامی کے بعد اٹھنا اور دوبارہ کوشش کرنا انسان کی ہمت اور عزم کو مزید مضبوط کرتا ہے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ کامیابی صرف مستقل محنت اور کوشش کا نتیجہ ہوتی ہے۔ تھامس ایڈیسن کو عموماً بابائے ایجادات کہا جاتا ہے۔ اس عظیم امریکی سائنسدان نے اپنی ناکامیوں کو کامیابی کی طرف بڑھنے کے موقع کے طور پر استعمال کیا۔ ایڈیسن نے 1000 بار بجلی کے بلب کو بنانے میں ناکامی کا سامنا کیا، مگر انہوں نے کہامیں باربار ناکام نہیں ہوا بلکہ میں نے صرف 1000 طریقے تلاش کیے جو کام نہیں کرتے۔ اس کا مطلب تھا کہ ہر ناکامی دراصل کامیابی کے قریب پہنچنے کا ایک قدم ہے۔
 صاحبو قابل ذکر بات یہ ہے کہ ماہرین کے مطابق ناکامی کا خوف اور کامیابی کی توقعات میں اضافہ طلبا پر شدید دباؤ ڈالتا ہے۔ خاص طور پر ایسے نوجوان جو تعلیمی نتائج پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ جب وہ ان توقعات پر پورا نہیں اتر پاتے، تو وہ خود کو مایوس اور بے وقعت محسوس کرتے ہیں، جس سے ذہنی صحت کے مسائل جنم لیتے ہیں۔ اس صورتحال میں والدین، اساتذہ اور دیگر متعلقہ افراد کا اہم کردار ہے کہ وہ طلبا کی مدد کریں، ان کی ذہنی صحت کا خیال رکھیں اور انہیں ناکامی کو کامیابی کے راستے کی ایک اہم تعلیم سمجھنے کی ترغیب دیں۔
قدرت نے اپنے تمام نظاموں کے لیے ایک مخصوص وقت اور ترتیب بنائی ہے۔ درخت کے بیج کا پھل بننے تک، انسان کا بچپن سے نوجوانی اور پھر بلوغت تک کا سفر، ہر چیز کے لیے قدرت کا ایک وقت متعین ہے۔ اسی طرح، ہماری زندگی میں بھی قدرت کے ٹائم زون کی اہمیت ہے۔ہم جتنا جلدی یا جلدی نہیں بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں، اتنا ہی ہم اپنے قدرتی راستے سے ہٹ سکتے ہیں۔قدرت کا ٹائم زون ہمیں سکھاتا ہے کہ ہر چیز کا اپنا وقت ہوتا ہے۔ ہم جب وقت کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر کام کرتے ہیں تو کامیابی خود بخود حاصل ہوتی ہے۔ جیسے زمین پر کاشت کیا گیا بیج دھیرے دھیرے بڑھتا ہے، ویسے ہی ہماری محنت اور عزم بھی وقت کے ساتھ نتیجہ دیتی ہے۔ کامیابی ہمیشہ ایک دن میں نہیں آتی، بلکہ یہ مسلسل کوشش، صبر اور وقت کی ضرورت ہوتی ہے۔
قدرت کے ٹائم زون کو سمجھنا یہ بھی سکھاتا ہے کہ زندگی میں تبدیلیاں قدرتی عمل ہیں۔ ہمیں ان تبدیلیوں کو قبول کرنا سیکھنا ہوگا۔ کبھی ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا سفر رک چکا ہے یا ہم کامیابی کے قریب نہیں پہنچ رہے، لیکن قدرت کا قانون یہ ہے کہ ہر چیز کا اپنا وقت ہوتا ہے، اور اس وقت کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔کامیابی صرف محنت کا نتیجہ نہیں، بلکہ اس کا ایک اہم عنصر یہ ہے کہ صحیح وقت پر صحیح موقع پر محنت کی جائے۔ اس لیے قدرت کے وقت کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر کام کرنا کامیابی کا راز ہے۔ اگر آپ درخت لگانے کا سوچیں، تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں اسے چند دنوں میں پھل دینے کا حکم دوں گا۔ آپ اسے وقت دیں گے اور قدرت کے عمل کو تسلیم کریں گے کہ درخت وقت کے ساتھ بڑھتا اور پھل دیتا ہے۔ بالکل اسی طرح، زندگی میں ہماری محنت بھی وقت لیتی ہے۔ کبھی کبھار ہمیں جلدی یا فوری نتائج کا خواہش ہوتی ہے، لیکن اگر ہم قدرت کے اصولوں کو تسلیم کریں اور اس کے مطابق چلیں، تو کامیابی خود بخود آئے گی۔قدرت کا ٹائم زون ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ کامیابی کا کوئی مقررہ وقت نہیں ہوتا، مگر یہ ضروری ہے کہ ہم اس کے آنے کے وقت کو تسلیم کریں اور قدرت کے اصولوں کے مطابق اپنی کوششیں جاری رکھیں۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: وقت کے ساتھ کامیابی کے کے مطابق کرتے ہیں ٹائم زون ہوتا ہے ہوتی ہے قدرت کا قدرت کے کرتا ہے اور اس کے لیے
پڑھیں:
مذاکرات پاکستان کی کمزوری نہیں، خواہش ہے…افغانستان کو سنجیدہ کردار ادا کرنا ہوگا!!
پاک افغان تعلقات کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ کاروں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر ارم خالد
(ڈین فیکلٹی آف سوشل اینڈ بیہوئرل سائنسز، جامعہ پنجاب)
پاک افغان تنازعہ نیا نہیں ہے مگر اس کی جہت نئی ہے۔ اس وقت بہت کوشش کی جا رہی ہے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری آسکے تاہم سوال یہ ہے کہ اس کیلئے کتنی قربانی دی جاسکتی ہے؟ پاکستان کے معاشرتی استحکام کیلئے ضروری ہے کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئے اور تعاون جاری رہے۔
پہلے صرف ریاست فیصلہ کرتی تھی اور عوام کو بتا دیتی تھی۔ عصر حاضر میں ذرائع ابلاغ بدل چکے ہیں، اب حکومت اکیلئے فیصلہ نہیں کرتی بلکہ عوام بھی پرزور انداز میں اپنی رائے دیتے ہیں۔ اگر 2025ء میں یہ سوال کیا جائے کہ کیا ریاست اپنے طور پر مسئلہ افغانستان حل کر سکتی ہے تو جواب ہوگا نہیں، بلکہ اب ریاست کو اس مسئلے میں عوام کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ اس معاملے پر معاشرے کے مختلف گروہوں میں اطمینان ضروری ہے۔ ہمیں دنیا پر واضح کرنا چاہیے کہ پاکستان کو مسئلہ افغانستان سے نہیں بلکہ وہاں موجود دہشت گرد گروہوں سے ہے جو ہمیں نقصان پہنچا رہے ہیں۔
سیاسی جماعتوں اور قیادت کو چاہیے کہ پارلیمنٹ میں باقاعدہ قرارداد لا کر دنیا کو دو ٹوک پیغام دیا جائے تاکہ اختلافات اور افواہیں ختم ہوں اور ایک موقف کے ساتھ ملک میں استحکام لایا جاسکے۔یہ سب کی یکساں ذمہ داری ہے کہ ملکی استحکام کو دوام بخشنے کیلئے ایک موقف اپنائیں۔ بارڈر پر دی جانے والی قربانیوں کا فائدہ اس وقت ہی ہوگا جب سب متحد ہوں۔ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے اور ہماری نوجوان نسل میں تصدیق کا عمل ختم ہوگیا ہے۔
انہیں یہ سکھانا ہے کہ جب بھی کوئی خبر آئے اس کی تصدیق کر لیں، اس کا سورس لازمی دیکھیں۔ ہمارے لیے سوچ بدلنا بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ ہم نے اپنی نسلوں کو اس بیانیے پر پروان چڑھایا کہ افغانستان برادر اسلامی ملک ہے جس پر دشمن قابض ہے لہٰذا ہمیں ہر حال میں اس کا ساتھ دینا ہے۔
اب اس نسل کو یہ سمجھانا مشکل ہے کہ ہم پہلے ٹھیک تھے یا اب۔ بھارت نے ہمیں آزمائش میں ڈال رکھا ہے جس کی تیاری کیلئے ہمیں بہت سارے پہلوؤں پر سوچنا ہوگا، اس کیلئے اندرونی اتحاد اور پاک افغان اعتماد بحال کرنا بہت ضروری ہے۔ یہ بھی اہم ہے کہ حکومت کی طرف سے اس مسئلے پر ذمہ دارانہ بیانات دیے جائیں۔ جذباتی بیانات کے نتائج قوموں کو بھگتنا پڑتے ہیں۔
افغانستان کے ساتھ ہمارا بھائی چارے کا تعلق ہے، وہاں چند عناصر ہیں جو ہمیں نقصان پہنچا رہے ہیں، اس کا ذمہ دار پورے افغانستان کو نہیں ٹہرایا جاسکتا۔ ہمیں بھارت کے ہاتھوں میںکھیلنے والوں کو بہترین حکمت عملی سے ڈیل کرنا ہے۔ ہمیں ایسا کوئی کام نہیں کرنا جس سے لوگ مشتعل ہوں، ہم نیا محاذ کھولنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ ہمیں تمام عناصر کا سمجھداری سے مقابلہ کرنا ہے۔ میرے نزدیک پاک افغان معاملے پر ریاست کو ذمہ دارانہ بیانات دینے چاہئیں۔ سب سے پہلے ہمیں اندرونی استحکام لانا ہے، ہمارے ادارے، حکومت اور افواج پاکستان ملک کو ہر طرح سے محفوظ بنانے اور استحکام لانے کیلئے تیار ہیں، تمام سیاسی جماعتوں اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کو اعلانیہ طور پر غلط چیزوں کی مذمت کرنی چاہیے، سب کو واضح ہونا چاہیے ہمارا ملک بھی ایک ہے اور دشمن بھی سب کا ہے۔
بریگیڈیئر (ر) سید غضنفر علی
(دفاعی تجزیہ کار)
میڈیا اور سوشل میڈیا پر زیادہ تر جنگ کی بات ہوتی ہے، ایسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں جن میں ٹکراؤ کا عنصر زیادہ ہوتا ہے اور امن کی بات کم۔ میرے نزدیک ’افغانستان کو کھلی دھمکی‘ جیسے الفاظ سے پاکستان کی عالمی ساکھ متاثر ہوتی ہے، ہمیں پاک افغان مذاکرات کے معاملے میں اشتعال انگیز بیانات کے بجائے امن کے پیغام کو اجاگر کرنا چاہیے۔ پاکستان امن کا خواہاں ہے اور اس لیے ہی مذاکرات بھی کر رہا ہے۔
پاک افغان تعلقات کبھی بھی مثالی نہیں رہے، ان میں اتار چڑھاؤ آتا رہا۔ ستمبر 1947ء میں افغانستان نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی مخالفت کی اور پھر اکتوبر میں پاکستان کو بطور ملک تسلیم کر لیا۔ افغانستان کی طرف سے پاکستان میں دہشت گردی کا پہلا واقعہ لیاقت علی خان کی شہادت ہے۔ امریکی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے کی آرکائیوز میں یہ موجود ہے کہ لیاقت علی خان کے قتل میں سی آئی اے کا ہاتھ تھا کیونکہ وہ امریکا کی مرضی کے خلاف جا رہے تھے۔ سی آئی اے نے افغانستان سے شوٹر لیے اور اپنا کام کروا لیا۔ پاک افغان اور پاک بھارت تعلقات میں بہت کچھ مشترک ہے۔
بھارت نے بھی آزادی سے پہلے ہی پاکستان کیلئے مسائل پیدا کیے۔ آزادی کے بعد بھی یہی سب چل رہا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ سب کے سامنے ہے۔ اسی طرح فیروزپور اور گرداسپور میں مسیحیوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا، 51 فیصد ووٹ ہونے کے باوجود علاقہ بھارت کو دے دیا گیا۔ بھارت کی بنیاد میں دہشت گردی پوشیدہ ہے۔ اس وقت بھارت اور افغانستان کا گٹھ جوڑ ہے اور دونوں ہی شروع دن سے پاکستان کے مخالف ہیں۔افغانستان کے بادشاہ عبدالرحمن نے ڈیورنڈ لائن کو عالمی سرحد تسلیم کیا لیکن اب افغانستان اسے نہیں مانتا۔ بھارت خطے میں مسائل پیدا کر رہا ہے اور پاک افغان تعلقات میں مزید خرابیاں پیدا کرنی کی کوشش میں ہے۔
آر ایس ایس ، اجیت دوول، ششی تھرور و دیگر اشتعال انگیز سیاست کر رہے ہیں۔ فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ امریکا افغانستان میں 7.2 ارب ڈالر کا اسلحہ چھوڑ کر چلا گیا جو وہاں طالبان اور دوسرے دہشت گرد گروہوں کے ہاتھوں میں ہے۔ وہاں اسلحہ کی فروخت اور سمگلنگ بھی ہو رہی ہے۔یہ جدید اسلحہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں استعمال ہو رہا ہے۔
بی ایل اے جاوید مینگل گروپ کے پاس جدید ہتھیار ہیں، یہ اسلحہ انہیں افغان لیڈرز نے دیا ہے۔ پاکستان ایٹمی طاقت ہے اور امریکا کو بھی مستحکم پاکستان پسند نہیں ہے۔امریکا جب افغانستان میں تھا تو ہم نے اسے یہاں سے کور دیا تاکہ دہشت گردی کی کارروائیاں نہ ہوں مگر آپریشن ضرب عضب میں ہمیں دھوکا دیا گیا۔ جب طالبان نے ٹیک اوور کیا تو وہاں کی جیلوں سے پانچ ہزار قیدیوں کو رہا کر دیاجنہوں نے خود کو دوبارہ سے منظم کر لیا۔ گلبدین حکمت یار، منگل باغ و دیگر کی کہانی سب کے سامنے ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت افغانستان میں 33 دہشت گرد تنظیمیں کام کر رہی ہیں جنہیں افغان حکومت کی سرپرستی حاصل ہے،وہاں بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسی ’’موساد‘‘ بھی کام کر رہی ہیں۔سانحہ آرمی پبلک سکول کے پیچھے بھارت ہے، دہشت گرد’’را‘‘ کے ساتھ رابطے میں تھے، پاکستان نے اقوام متحدہ کو بھی شواہد دیے ہیں۔ بھارت نے افغان حکومت کو فنڈز دیے ہیں، یہی وجہ ہے کہ افغان حکومت کا رویہ غیر لچکدار ہے۔افغانستان میں ’’را‘‘ کا دفتر بھی ہے، اب وہاں بھارتی سفارتخانہ بھی کھولا جا رہا ہے ۔
افغانستان کی جانب سے پاکستان کی دو تشکیلوں پر حملہ کیا گیا۔ ایف سی پر حملے میں ملوث پانچ افراد میں سے تین افغانی تھے جو وہاں بیان ریکارڈ کرو ا کر آئے تھے۔پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ میں 70 ہزار سول ملٹری شہادتیں دیں اور اربوں ڈالرز کا نقصان بھی اٹھایا۔ پاکستان نے خطے میں سٹرٹیجک رسٹرینٹ کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہم نے افغانستان پر کبھی حملہ نہیں کیا، اب بھی صرف جوابی کارروائی کی ہے۔ اس سے پہلے جب چمن بارڈر پر افغانستان کی طرف سے حملہ ہوا تھا تو اس کا جواب دیا، پاکستان نے افغان بارڈ پر باڑ لگائی اور انٹرنیشنل بارڈر کو یقینی بنایا۔ گزشتہ مہینے افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی ہوئی اور پاکستان نے جوابی کارروائی کی۔
افغان حکومت کہتی ہے کہ اس کا دہشت گردوں پر کنٹرول نہیں ہے تو پھر دہشت گرد کہاں سے آئے؟ جب پاکستان نے افغان چیک پوسٹوں پر حملہ کیا تو وہاں افغان فورسز اور خوارج دونوں موجود تھے جو پاکستان کے ساتھ مل کر لڑ رہے تھے۔ پاکستان نے بھرپور جواب دیا جس کے بعد جنگ بندی ہوئی۔افغانستان بھارت گٹھ جوڑ بے نقاب ہو چکا ہے۔ استنبول میں ہونے والے پاک افغان مذاکرات میں ترکیہ کی خفیہ ایجنسی نے کالیں ٹریس کی تو معلوم ہوا کہ مذاکرات میں شریک افغان نمائندوں کا رابطہ بھارت میں اجیت دوول کے ساتھ ہے۔ طالبان قندھا ر اور کابل کے درمیان پھنسے ہیں۔ افغان حکومت چاہتی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کوبھی مذاکرات میں شامل کیا جائے، پاکستان اس پر تیار نہیں ہے۔
افغانستان یہ مان نہیں رہاکہ وہاں دہشت گرد موجود ہیں جبکہ پاکستان نے ترکیہ کے سامنے ویڈیو ثبوت بھی پیش کیے ہیں۔ مذاکرات میں پاکستان کا یک نکاتی ایجنڈہ ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ ہواور افغانستان کی سرزمین سے پاکستان میں کوئی دہشت گردی کی کارروائی نہ ہو، پاکستان افغانستان کے ساتھ جنگ کی طرف نہیں جائے گا، کوشش ہوگی کہ مذاکرات سے معاملہ حل ہو لیکن اگرمعاملہ حل نہ ہوا تو پھر دنیا نے جو ’’نیو نارمل‘‘ سیٹ کیا ہے کہ دور رہ کر کارروائی کرکے اپنے دشمنوں کا خاتمہ کریں تو پاکستان بھی یہ طریقہ استعمال کر سکتا ہے۔
محمد مہدی
(ماہر امور خارجہ)
پاک افغان تعلقات کی تاریخ پاکستان کی تحریک آزادی سے منسلک ہے۔ آزادی کے وقت آزاد پختونستان کی باتیں تھیں اور آج بھی یہ سوچ مسئلہ ہے۔ پاکستان نے شروع دن سے ہی کوشش کی کہ افغانستان کے ساتھ معاملات حل بہتر رہیں۔ آزادی کے بعد پہلے افغانستان نے پاکستان کی مخالفت کی اور بعدازاں تسلیم کر لیا۔ 65ء کی جنگ میں افغانستان نے مہمند پر حملہ کیا۔
71ء میں بنگلہ دیش کے بننے پر کابل میں بڑا جشن منایا گیا۔ 1998ء میں طالبان کے پہلے دور میں برٹش انڈیا معاہدے کے 100 سال مکمل ہوئے، اس وقت طالبا ن کا پہلا دور تھا۔ پاکستان کا خیال تھا کہ اس کی توثیق کی جائے گی لیکن طالبان نے نہیں کی۔ اسی طرح جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں افغان حکومت کے ساتھ استنبول میں مذاکرات ہوئے۔ صدرپاکستان آصف علی زرداری کے سابق دور میں بھی استنبول میں سہ فریقی مذاکرات ہوئے لیکن دونوں کا کوئی فائدہ نہیں ہو۔
دوحہ مذاکرات کے بعد خیال تھا کہ طالبان ہمارے احسان مند ہوں گے لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ طالبان نے کہا کہ پاکستان سے مذاکرات ہوئے ہی نہیں۔ اب استنبول میں پاکستان اور افغانستان کے مذاکرات ہوئے جن سے فی الحال کچھ نہیں نکلا۔ پاکستان کہتا ہے کہ افغانستان دہشت گردی کو سپورٹ کر رہا ہے اور باقاعدہ ثبوت دکھا رہا ہے جبکہ طالبان کہتے ہیں کہ ہمارے پاس دہشت گرد نہیں ہیں، ہم لکھ کر کیوں دیں۔ اس وقت بھارت افغانستان کی مدد کر رہا ہے۔ فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے کاکول اکیڈمی میں دیے گئے بیان میں واضح کیا کہ اگر بھارت اور افغانستان نے مل کر ہمیں انگیج کرنے کی کوشش کی تو ملکی دفاع میں ہر حد تک جائیں گے۔
خطے کے دیگر ممالک کی بات کریں تو چین نے افغانستان کے ساتھ سڑک تعمیر کی لیکن تجارت نہیںکھلی، چین چاہتا ہے کہ تجارت ہوں ۔ اس وقت خطے کے تقریباََ ہر ملک کو طالبان سے مسئلہ ہے۔ طالبان کی پالیسی ہے کہ ہر ملک کیلئے مسائل پیدا کرو تاکہ وہ گھبرا کر ان سے تعلق قائم کریں اور پھر یہ اپنی بات منوا سکیں۔ فیلڈ مارشل نے بارڈر سمگلنگ کا خاتمہ کر دیا ہے جس سے افغانستان کی معیشت کو نقصان ہوا ۔ افغانستان میں بھوک بڑھ رہی ہے۔ اگر پاکستان نے تمام افغان مہاجرین واپس بھیج دیے تووہاں بھوک کی صورتحال بدترین ہو جائے گی۔ طالبا ن قیادت کے اپنے بچے دوسرے ممالک میںرہتے ہیں۔
سہیل شاہین کے بچے قطر میں رہتے ہیں، ان لوگوں کو تو کوئی مسئلہ نہیںہے۔ پہلے قطر اور اب ترکی میں مذاکرات ہوئے، پاکستان جو چاہتا تھا وہ نہیں نکلا۔ افغانستان پر اس وقت دنیا کی توجہ ہے اور کچھ قوتیں متحرک بھی نظر آتی ہیں۔ جنرل احسان نے کہا ہے کہ دنیا میں بات ہو رہی ہے کہ اب افغانستان میں استحکام نہیں آئے گا۔ ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ دنیا افغانستان کی تقسیم پر غور کر رہی ہے، اگر امریکا اور چین دونوں اس پر متفق ہوجاتے ہیں تو یہ کام ہوسکتا ہے۔ افغانستان کا معاملہ سادہ نہیں ہے لہٰذا پاکستان کو احتیاط اور سفارتی محاذ پر بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمیں صرف ٹرمپ اور امریکا پر ہی توجہ نہیں دینی چاہیے دیگر ممالک کے ساتھ بھی تعلقات کو مزید مضبوط کرنا چاہیے ۔ ہمیں دنیا کو یہ پیغام دینا ہے کہ پاکستان امن پسند ہے اور افغانستان میں بھی امن چاہتا ہے۔ TAPI گیس پائپ لائن منصوبہ اہم ہے۔ اس میں ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور بھارت شامل ہیں۔ گیس ہم تک آنی ہے اور کرایہ افغانستان کو ملنا ہے۔ افغانستان کے مسائل کی وجہ سے وسط ایشیائی ممالک تک درست رسائی نہیں ہوسکی۔ پاکستان کو سفارتی محاذ پر محتاط تو رہنا ہے لیکن خاموش نہیں، ہمیں امن اور دفاع کا واضح پیغام دینا چاہیے۔
Tagsپاکستان