لاہور ہائیکورٹ نے آوارہ کتوں کو مارنے کی اجازت دے دی
اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT
لاہور:
لاہور ہائیکورٹ نے آوارہ کتوں کو مارنے کی اجازت دیتے ہوئے تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔
عدالت نے کہا کہ لاعلاج کتوں کو بہتر طریقے سے اور آرام دہ موت دی جائے۔ جسٹس جواد حسن نے چھ صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا جس میں ہدایت دی گئی کہ کتوں کو پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی گائیڈ لائنز کے مطابق مارا جائے۔
یہ فیصلہ شہری انیلا عمیر اور دیگر درخواست گزاروں کی درخواست پر سنایا گیا جنہوں نے راولپنڈی میں آوارہ کتوں کے خلاف جاری آپریشن روکنے کی استدعا کی تھی۔ درخواست گزاروں کا مؤقف تھا کہ متعلقہ حکام کو کتوں کو مارنے کے خلاف درخواستیں دی گئیں لیکن اس پر عمل نہیں ہوا۔ عدالتی فیصلے کے مطابق متعلقہ حکام نے عدالت کو بتایا کہ شہریوں کی شکایات پر آوارہ کتوں کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا۔
ویٹرنری آفیسر راولپنڈی نے عدالت کو آگاہ کیا کہ آوارہ کتوں کے کاٹنے کی متعدد شکایات موصول ہوئیں جس کے باعث یہ آپریشن شروع کیا گیا۔ ویٹرنری آفیسر نے مزید کہا کہ آوارہ کتوں سے صحت، مذہبی اور دیگر سنگین نوعیت کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں جبکہ یہ شہریوں پر حملے بھی کرتے ہیں جس سے عوام کو شدید پریشانی کا سامنا ہے۔
وکیل درخواست گزاروں کا کہنا تھا کہ حکومت کتوں کے کاٹنے کے مسئلے کے حل کے لیے متبادل طریقہ کار اپنا سکتی ہے۔ ان کے مطابق آوارہ کتے خوراک کی قلت کے باعث لوگوں کو کاٹتے ہیں، اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ ان کتوں کے لیے خوراک کی فراہمی کو یقینی بنائے، بجائے اس کے کہ انہیں مارا جائے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ حکومت اور دیگر متعلقہ فریقین جانوروں کے حقوق، عوامی مفاد اور حفاظت کی پالیسی پر سختی سے عمل کریں۔ مزید برآں لاعلاج کتوں کو بہتر اور آرام دہ طریقے سے مارا جائے تاکہ غیر ضروری تکلیف سے بچا جا سکے۔ عدالت نے ہدایت دی کہ اس عمل کو پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی گائیڈ لائنز کے مطابق سرانجام دیا جائے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: آوارہ کتوں کے مطابق کتوں کو کتوں کے
پڑھیں:
مبینہ جعلی پولیس مقابلوں کیخلاف روزانہ درجنوں درخواستیں آرہی ہیں، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ
لاہور ہائیکورٹ میں کاؤنٹر کرائم ڈیپارٹمنٹ (سی سی ڈی) کی جانب سے مبینہ جعلی پولیس مقابلے کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی جس میں عدالتی حکم پر آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور عدالت میں پیش ہوئے۔
درخواست گزار فرحت بی بی کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ فرحت بی بی کا بیٹا غضنفر حسن پولیس مقابلے میں مارا گیا اور اب وہ اپنے دوسرے بیٹے کے تحفظ کے لیے عدالت سے رجوع کر رہی ہیں۔ وکیل نے عدالت کو بتایا کہ سی سی ڈی کے آنے کے بعد ایک ہی طرز کے پولیس مقابلے ہو رہے ہیں جن پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیے: جعلی پولیس مقابلہ: فیصل آباد پولیس کے 3 اہلکاروں کو سزائے موت کا حکم
چیف جسٹس نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عدالت میں جذباتی باتیں نہ کریں، یہاں قانون اور شواہد کی بنیاد پر فیصلے ہوتے ہیں۔ انہوں نے آئی جی پنجاب سے مکالمے میں کہا کہ ایس ایچ او عدالت کو مطمئن نہیں کر سکا، اس لیے آپ کو بلایا گیا۔
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے پولیس کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ پر اظہارِ تشویش کرتے ہوئے کہا کہ رپورٹ کے مطابق ملزم کی ریکوری کے بعد جب اسے لے جایا جا رہا تھا تو گاڑی کا ٹائر پنکچر ہوا اور ساتھیوں نے حملہ کر دیا۔ اگر واقعی گاڑی پر فائرنگ ہوئی تھی تو گولی سیدھی ملزم کو ہی کیوں لگی؟ گاڑی کو یا کانسٹیبل کو کیوں نقصان نہیں پہنچا؟
یہ بھی پڑھیے: سی سی ڈی کے خوف نے بڑے بڑے غنڈوں کو معافیاں مانگنے پر مجبور کردیا: مریم نواز
چیف جسٹس نے کہا کہ اب جو رپورٹ پیش کی گئی ہے اس سے کیس کے حقائق بالکل مختلف نظر آتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ روزانہ درجنوں درخواستیں عدالت میں آ رہی ہیں، جن میں مبینہ جعلی پولیس مقابلوں کی شکایت کی جاتی ہے۔
چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب کو ہدایت کی کہ سی سی ڈی کے تحت ہونے والے تمام پولیس مقابلوں کا تفصیلی جائزہ لیں اور متعلقہ پولیس افسران کے ساتھ بیٹھ کر پالیسی وضع کریں تاکہ آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کی جا سکے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں