مودی محترم ہیں مگر اصول توڑے نہیں جاسکتے، صدر ٹرمپ کی وضاحت
اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT
بھارت کے وزیرِاعظم نے حال ہی میں امریکا کا دورہ کیا ہے۔ دوطرفہ تعلقات کی سطح بلند کرنے اور معاشی اشتراکِ عمل کا گراف بلند کرنے کے حوالے سے اس دورے کو بہت حد تک کامیاب قرار دیا جارہا ہے۔
اس دورے میں وزیرِاعظم مودی نے بھارت کے لیے کئی اہم معاہدے کیے۔ امریکی صنعت کاروں سے ملاقات بھی خاصی بارآور ثابت ہوئی اور ایلون مسک کی کمپنی ٹیسلا نے بھارت میں انٹری دینے کی تیاری بھی شروع کردی ہے مگر پھر بھی ایک کانٹا بھارت میں سب کو بُری طرح کھٹکا ہے۔
صدر ٹرمپ نے ایلون مسک کو سرکاری محکموں اور اداروں کی کارکردگی کا گراف بلند کرنے کا ٹاسک سونپا ہے۔ سرکاری محکموں اور اداروں کی کارکردگی پر نظر رکھنے، معیار بلند کرنے اور اخراجات میں کمی کے لیے قائم کیے جانے والے ادارے کوDOGE کہا جاتا ہے۔ ایلون مسک نے بھارت میں ووٹرز کا ٹرن اوور بڑھانے کی غرض سے 21 ملین ڈالر روک لیے ہیں۔
صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ بھارتی وزیرِاعظم کا میں بہت احترام کرتا ہوں مگر اصول تو اصول ہوتے ہیں جنہیں توڑا نہیں جاسکتا۔ ایلون مسک نے بیرونی فنڈنگ میں کٹوتی کی ہے اس لیے بھارت کے لیے فنڈنگ میں بھی کٹوتی کی جارہی ہے اور یہ کٹوتی برقرار رہے گی۔
محض دو کروڑ 10 لاکھ ڈالر کی کٹوتی پر بھی بھارتی میڈیا نے بہت واویلا مچایا ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ امریکا نے تو جیسے بھارت کی معاشی شہ رگ پر چھری چلادی ہے۔ یاد رہے کہ امریکی صدر نے بھارت کے خلاف درآمدی ڈیوٹی بھی بڑھادی ہے کیونکہ بھارت نے بھی امریکی درآمدات پر ڈیوٹی ہٹانے سے انکار کیا ہے۔
بھارت کے لیے فنڈنگ میں کٹوتی کے ایگزیکٹیو آرڈر پر دستخط کرنے کے بعد صدر ٹرمپ نے کہا کہ یہ پوچھنا غیر ضروری ہے کہ ہم نے بھارت کے لیے دو کروڑ 10 لاکھ روپے کی کٹوتی کیوں کی۔ بھارت کوئی گیا گزرا ملک نہیں۔ اُس کے پاس بہت دولت ہے۔ وہ اُن چند ممالک میں سے ہیں جو غیر معمولی درآمدی ڈیوٹی وصول کرتے ہیں۔ امریکی برآمدات کو بھارت میں قدم جمانے کے حوالے سے غیر معمولی مشکلات کا سامنا ہے۔
.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: بھارت کے لیے ایلون مسک بھارت میں نے بھارت
پڑھیں:
خفیہ ایٹمی تجربہ: ٹرمپ کے بیان پر چین کا ردعمل
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
چین نے ایٹمی تجربات کرنے کے امریکی صدر کے اس دعوے کو مکمل طور پر بے بنیاد اور غیر ذمہ دارانہ قرار دیدتے ہوئے کہا کہ جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ اور تخفیفِ اسلحہ کے عمل کی حمایت جاری رکھیں گے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق چینی وزارتِ خارجہ کی ترجمان نے کہا کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے جوہری تجربات پر عائد غیر رسمی پابندیوں کی مکمل پاسداری کر رہے ہیں۔
چینی ترجمان ماؤ نِنگ نے مزید کہا کہ ایک ذمہ دار ایٹمی ملک کے طور پر چین نے جوہری تجربات معطل کرنے کے اپنے وعدے پر ہمیشہ عمل کیا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ چین پُرامن ترقی کے راستے پر گامزن ہے اور ایٹم بم کے پہلی ترجیح کے طور پر استعمال نہ کرنے کی پالیسی پر کاربند ہے۔
ترجمان نے اس بات پر بھی زور دیا کہ خود امریکا کو بھی جوہری تجربات پر عائد عالمی پابندی برقرار رکھنی چاہیے اور ایسے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے جو بین الاقوامی امن اور توازن کو نقصان پہنچائیں۔
یاد رہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے گزشتہ روز ایک انٹرویو میں الزام عائد کیا تھا کہ چین، روس، شمالی کوریا اور پاکستان خفیہ طور پر زیرِ زمین جوہری تجربات کر رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے مزید کہا تھا کہ امریکا کو اب مزید خاموش نہیں رہنا چاہیے اور اپنے جوہری تجربات کو پھر سے شروع کردینے چاہئیں۔
انھوں نے کہا کہ روس اور چین دونوں تجربات کر رہے ہیں لیکن کوئی اس پر بات نہیں کرتا اور مجھے ڈر ہے امریکا ایٹمی تجربات نہ کرنے والا واحد ملک نہ بن جائے۔
امریکا نے 1992 سے اب تک کوئی جوہری دھماکہ نہیں کیا ہے جب کہ روس نے 1990 اور چین نے 1996 کے بعد سے کوئی جوہری تجربہ نہیں کیا۔
ان تینوں ممالک کا کہنا ہے کہ وہ صرف “نظامی یا غیر جوہری تجربات” (non-critical tests) کرتے ہیں، جن میں اصل جوہری دھماکا شامل نہیں ہوتا۔
تاہم روس نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ اس نے ایک نئی جوہری طاقت سے چلنے والی کروز میزائل “بوریوسٹِنِک” اور جوہری صلاحیت رکھنے والے زیرِ آب ڈرون کا تجربہ کیا ہے۔
جس کے بعد حال ہی میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ انھوں نے وزارت دفاع کو نئے ایٹمی تجربات کرنے کی ہدایت کی ہے۔
صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو چین امریکا سے ایٹمی ہتھیاروں میں آگے نکل جائے گا۔