Islam Times:
2025-09-18@17:29:44 GMT

ٹرمپ، عمران خان کی رہائی کی کال کب دیں گے؟

اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT

ٹرمپ، عمران خان کی رہائی کی کال کب دیں گے؟

اسلام ٹائمز: ہمیں جمہوریت کے لیے جنگ خود لڑنی ہے۔ تاہم یہ احساس کہ انتخابات میں ان کا مینڈیٹ چوری کیا گیا اور بنیادی حقوق چھین لیے گئے ہیں، نے بیرون ملک مقیم بہت سے پاکستانیوں کو انتہائی حدود تک جانے کے لیے جواز فراہم کیا ہے۔ یقیناً بیرونی مداخلت کو دعوت دینے کی کوئی وضاحت پیش نہیں کی جاسکتی لیکن قصور کسی حد تک اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یافتہ حکومت کا بھی ہے جس نے حالات ہی اس طرح کے پیدا کردیے کہ عوام کا نظام پر سے اعتماد مکمل طور پر اٹھ گیا۔ آمرانہ طرزِ حکمرانی نے پاکستان کی خودمختاری کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ تحریر: زاہد حسین

ڈونلڈ ٹرمپ کی جس کال کا بےصبری سے انتظار کیا جارہا ہے وہ ابھی دی نہیں گئی ہے یا شاید وہ کال کبھی دی بھی نہیں جائے گی۔ تاہم پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حامیوں نے ہمت نہیں ہاری ہے اور وہ پُرامید ہیں کہ امریکی قانون سازوں کی جانب سے پاکستان پر عمران خان کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالا جائے گا۔ حالیہ ہفتوں میں کچھ پاکستانی-امریکی گروپس، سینیٹرز اور کانگریس اراکین کے ساتھ روابط میں تیزی لے کر آئے ہیں اور انہوں نے زور ڈالا ہے کہ وہ پاکستان میں انسانی حقوق اور جمہوریت کے لیے مضبوط مؤقف اختیار کریں۔ دورہِ امریکا کے دوران سابق صدر مملکت عارف علوی بھی اس مہم کا حصہ بنے جہاں کپیٹل ہل میں انہوں نے ایک اجلاس منعقد کیا۔ خبریں سامنے آئیں کہ انہوں نے درجن سے زائد امریکی قانون سازوں کو پاکستان کی سیاسی صورت حال سے متعلق بریفنگ دی۔

گمان ہوتا ہے کہ ان کی یہ کوششیں کامیاب ہوگئیں کیونکہ چند کانگریس اراکین نے بیانات جاری کرکے پاکستانی حکومت سے سابق وزیراعظم کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ گزشتہ ہفتے امریکی کانگریس رکن جو ولسن جوکہ متعدد مواقع پر پی ٹی آئی لیڈر کی رہائی کا مظالبہ کرچکے ہیں، نے اس سلسلے میں اسٹیٹ سیکریٹری سے ملاقات کی لیکن اب تک ایسی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی جس سے یہ اشارہ ملے کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستانی حکومت کے سامنے اس معاملے کو اٹھائے گی۔ یقیناً انسانی حقوق اور جمہوریت کا تحفظ ڈونلڈ ٹرمپ کی اس خارجہ پالیسی میں ترجیح نہیں جوکہ امریکی حمایت کے بدلے امریکا کے لیے کچھ کرنے کی ٹرمپ سوچ کی تابع ہے یا پی ٹی آئی نے شاید ڈونلڈ ٹرمپ کی عمران خان کے لیے پسندیدگی کو غلط پیرایے میں لے لیا ہے۔ جو بھی ہو چند امریکی کانگریس اراکین کی جانب سے بیانات نے پاکستانی حکومت کو پریشان کردیا ہے۔

پی ٹی آئی کی کوششوں پر جوابی اقدامات لیتے ہوئے وزیر داخلہ عجلت میں دورہِ واشنگٹن پر پہنچے۔ رپورٹس کے مطابق امریکی قانون سازوں سے اپنی ملاقات میں انہوں نے حکومت کا پالیسی ایجنڈا ان کے سامنے رکھا۔ دوسری جانب واشنگٹن میں پاکستانی سفیر نے بھی کپیٹل ہل میں اجلاس منعقد کیے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی اندرونی سیاسی جنگ کا دائرہ امریکا تک پھیل چکا ہے جبکہ امریکا میں موجود پاکستانی ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے واشنگٹن کی جانب سے متحرک کردار ادا کرنے اور امریکی حمایت کے حصول کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی اقتدار میں واپسی کے بعد سے ان کی کوششوں میں واضح طور پر تیزی آئی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر نے امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت اس لیے کی کیونکہ انہیں لگتا تھا کہ وہ عمران خان کی اقتدار سے برطرفی میں جو بائیڈن انتظامیہ کے مبینہ کردار کے پی ٹی آئی الزامات کو بہتر انداز میں سمجھیں گے۔

نام نہاد سائفر جس میں پاکستانی سفیر اور امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے سینیئر اہلکار ڈونلڈ لو کے درمیان تفصیلی گفتگو تھی، عمران خان عوامی حمایت سمیٹنے کے لیے اس سائفر کا استعمال کیا۔ انہوں نے اپنی حکومت جانے کے لیے بائیڈن انتظامیہ کو موردِ الزام ٹھہرایا۔ انہوں نے کہا تھا، ’ہم کوئی غلام ہیں؟‘۔ ان پاپولسٹ نعروں نے عوام میں امریکا مخالف جذبات کو ہوا دی اور اس سے عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ اس مؤقف کی وجہ وہ ایک ایسے قومی رہنما کے طور پر سامنے آئے جنہوں نے بیرونی دراندازی کے خلاف مزاحمت کی۔ قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے کی وجہ سے پی ٹی آئی کی برطرف حکومت کے حامیوں کا ماننا ہے کہ یہ تمام منصوبہ بندی بائیڈن انتظامیہ کی تھی جسے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی حاصل تھی۔ بیرون ملک مقیم بہت سے پاکستانیوں نے اس مؤقف پر یقین کیا۔

امریکا میں مقیم پاکستانی شہریوں میں عمران خان بہت طویل عرصے سے انتہائی مقبول ہیں۔ ان کی مقبولیت صرف اس لیے نہیں کہ انہوں نے پاکستان کو کرکٹ کا عالمی چیمپیئن بنایا بلکہ لوگ ان کے فلاحی کاموں کے بھی معترف ہیں۔ سیاست میں آنے کے بعد ان کی مقبولیت میں نمایاں اضافہ ہوا جس کی سب سے بڑی وجہ عوام کا مرکزی دھارے کی دو بڑی جماعتوں پر بڑھتا عدم اعتماد تھا جو دہائیوں سے اقتدار پر براجمان ہیں۔ شاید یہی وہ وجہ ہوسکتی ہے جس کی بنا پر ماضی میں بیرونِ ملک پاکستانیوں کے ایک نمایاں حصے نے آمرانہ حکومتوں کی حمایت کی لیکن اسٹیبلشمنٹ کی روایتی حمایت اس وقت ختم ہوگئی جب عمران خان اور دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی حلقوں میں بڑے پیمانے پر یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ 8 فروری 2024ء کے انتخابات میں غیرسیاسی قوتیں ملوث تھیں جنہوں نے پی ٹی آئی کی جیت کو تسلیم نہیں کیا اور مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی (پی پی پی) کو اقتدار دیا۔

اسٹیبلشمنٹ مخالف جذبات بڑھتے گئے جن کی جھلک بیرونِ ملک مقیم پاکستان کے تعلیم یافتہ پیشہ ور اور تعلیم یافتہ طبقے میں نظر آتی ہے۔ گزشتہ موسمِ گرما میں امریکا اور کینیڈا کے دورے کے دوران میں نے جب پاکستانیوں سے گفتگو کی تو مجھے یہ تبدیلی واضح طور پر محسوس ہوئی۔ عوام میں جو عدم اعتماد آج پایا جاتا ہے، ہمیں ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بہت سے بیرونِ ملک مقیم پاکستانی عمران خان کی رہائی اور پاکستان میں جمہوری حقوق کی بحالی کے لیے مہم میں متحرک کردار ادا کررہے ہیں۔ اس کے لیے وہ واشنگٹن کی حمایت حاصل کرنے سے بھی دریخ نہیں کررہے جنہیں وہ ماضی میں عمران خان کے دشمن قرار دیتے تھے۔ بہت سے بااثر پاکستانی نژاد امریکی شہری عمران خان کی رہائی کے لیے لابنگ کررہے ہیں۔ ان کی بڑی تعداد پاکستانی امریکیوں کی سیاسی سرگرمیوں کی کمیٹی میں شامل ہیں جسے پاک پیک کہا جارہا ہے۔

اس کمیٹی نے پاکستان میں انسانی حقوق کی بدتر ہوتی صورت حال اور حزب اختلاف کے رہنماؤں کے خلاف کریک ڈاؤن پر کانگریس اور سینیٹ اراکین سے اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں وہ گروپ جو اپنے آپ کو غیرجانبدار کہتا تھا، بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے سب سے طاقتور اور بااثر گروہ کے طور پر سامنے آیا ہے۔ انہوں نے حالیہ ہفتوں میں کپیٹل ہل میں کئی میٹنگز کا انعقاد کیا ہے اور چند کانگریس اراکین کی جانب سے عمران خان کی رہائی کے مطالبے نے انہیں کسی حد تک کامیابی بھی دلوائی ہے۔ انہوں نے پاکستان کی متزلزل معاشی صورت حال اور ملک کو درپیش دیگر چیلنجز کو بھی امریکی قانون سازوں کے سامنے اٹھایا ہے۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی، ملک میں رائج آمرانہ طرزِ حکمرانی کے خلاف جتنی مضبوط لابنگ کررہے ہیں، اتنی مضبوط لابنگ ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھی لیکن وہ اب تک ٹرمپ انتظامیہ سے کسی طرح کا ردعمل حاصل نہیں کرپائے ہیں۔

شاید کوئی ردعمل آئے بھی نہیں کیونکہ چند تجزیہ کاروں نے نشاندہی کی ہے کہ واشنگٹن، پاکستان پالیسی میں امریکا اپنی قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کو ترجیح دے گا جبکہ اسے جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے کوئی خدشات نہیں ہوں گے۔ ملکی اندرونی معاملات میں بیرونی مداخلت کو دعوت دینا پاکستان کے مفادات کے حق میں اچھا نہیں ہوگا۔ امریکا پاکستان کے اندرونی سیاسی معاملات میں اپنا کردار ادا کرچکا ہے بالخصوص آمرانہ حکومتوں میں۔ ہمیں جمہوریت کے لیے جنگ خود لڑنی ہے۔ تاہم یہ احساس کہ انتخابات میں ان کا مینڈیٹ چوری کیا گیا اور بنیادی حقوق چھین لیے گئے ہیں، نے بیرون ملک مقیم بہت سے پاکستانیوں کو انتہائی حدود تک جانے کے لیے جواز فراہم کیا ہے۔ یقیناً بیرونی مداخلت کو دعوت دینے کی کوئی وضاحت پیش نہیں کی جاسکتی لیکن قصور کسی حد تک اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یافتہ حکومت کا بھی ہے جس نے حالات ہی اس طرح کے پیدا کردیے کہ عوام کا نظام پر سے اعتماد مکمل طور پر اٹھ گیا۔ آمرانہ طرزِ حکمرانی نے پاکستان کی خودمختاری کو ٹھیس پہنچائی ہے۔

اصل تحریر:
https://www.

dawn.com/news/1892944/waiting-for-trumps-call

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: امریکی قانون سازوں عمران خان کی رہائی ملک مقیم پاکستانی ملک مقیم پاکستان کانگریس اراکین اسٹیبلشمنٹ کی ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابات میں پاکستان کی نے پاکستان سے پاکستان کی جانب سے پی ٹی ا ئی انہوں نے کی حمایت نہیں کی بہت سے کیا ہے کے لیے

پڑھیں:

پاکستانی سعودی دفاعی معاہدہ: کس کا کردار کیا؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 ستمبر 2025ء) دونوں ممالک کے مابین طے پانے والے اس معاہدے کے بعد یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آیا واقعی ایک ملک پر حملہ دوسرے پر حملہ تصور کیا جائے گا اور اگر ایسا ہوا، تو دونوں ممالک ایک دوسرے کی کس کس طرح مدد کر سکیں گے؟ مثلاﹰ پاکستان کی بھارت کے ساتھ پرانی رقابت ہے، تو کیا بھارت کی طرف سے کسی ممکنہ حملے کی صورت میں سعودی عرب بھی اپنی افواج کو پاکستان بھیجے گا؟ اس کے علاوہ، کیا یہ معاہدہ خلیج کے خطے میں موجودہ کشیدگی کے تناطر میں کیا گیا ہے؟

پس منظر سے متعلق بڑھتی غیر یقینی صورتحال

خلیج کا خطہ اس وقت کئی محاذوں پر کشیدگی کا شکار ہے۔

ایک جانب غزہ پٹی میں اسرائیلی فوجی کارروائیاں مسلسل جاری ہیں تو دوسری طرف اسرائیل نے دیگر ممالک کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔

(جاری ہے)

ماہرین کے مطابق قطر پر اسرائیل کے حالیہ فضائی حملے کے بعد صورتحال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔ کئی خلیجی ممالک، جن میں سعودی عرب بھی شامل ہے، نے ماضی میں اپنی سکیورٹی کے لیے زیادہ تر امریکہ پر انحصار کیا ہے۔

لیکن حالیہ واقعات نے اس اعتماد کو کمزور کر دیا ہے۔

بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکٹر قندیل عباس کہتے ہیں، ''امریکہ کی سکیورٹی گارنٹی اب وہ حیثیت نہیں رکھتی جو ماضی میں تھی، قطر پر اسرائیلی حملے اس بات کی علامت ہیں کہ امریکی موجودگی کے باوجود خطہ مکمل طور پر محفوظ نہیں۔ ایسے میں سعودی عرب کو خطے کے اندر نئے اتحادی تلاش کرنا پڑ رہے ہیں، اور پاکستان اس عمل میں سب سے نمایاں ملک کے طور پر سامنے آیا ہے۔

‘‘

ان کے مطابق اس کی ایک وجہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ جنگ بھی ہے، جس میں پاکستان کی کارکردگی نے دنیا کو حیران کر دیا تھا۔

ڈاکٹر قندیل عباس کا مزید کہنا تھا کہ خلیجی ممالک نے آپس میں گلف کوآپریشن کونسل کے تحت بھی ایک دوسرے کی حفاظت کے معاہدے کر رکھے ہیں، لیکن قطر پر حملے کے بعد سبھی ممالک اس کا کوئی جواب دینے سے قاصر نظر آئے۔

ڈاکٹر قندیل عباس کا کہنا تھا کہ اسرائیلی حملہ خلیجی ریاستوں کی نظر میں امریکی رضامندی کے بغیر ممکن نہیں تھا اور یہ بھی ایک وجہ ہے کہ یہ عرب ریاستیں اس کا کوئی جواب دینے سے قاصر نظر آئیں۔ معاہدے میں پاکستان کا کردار اور افادیت

تجزیہ کاروں کے مطابق کسی بھی جنگ کی صورت میں اس معاہدے کے تحت زیادہ نمایاں کردار پاکستان ہی کو ادا کرنا پڑے گا کیونکہ سعودی عرب جنگ لڑنے کی ویسی صلاحیت نہیں رکھتا جیسی پاکستان کے پاس ہے۔

جیو پولیٹیکل تجزیہ کار کاشف مرزا کہتے ہیں کہ ایک طرح سے اگر کوئی جنگ لڑنا پڑے، تو وہ پاکستان کو ہی لڑنا پڑے گی کیونکہ حالیہ واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ خلیجی ممالک تمام تر وسائل ہونے کے باوجود کوئی جنگ لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

کاشف مرزا کے بقول، ''پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان معاہدے کو ایک طرح سے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب نے اپنی حفاظت کے لیے پاکستان کی خدمات لی ہیں۔

‘‘ لیکن ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو بھی بہرحال اس سے کافی فائدہ ہو سکتا ہے کیونکہ کوئی بھی ایسا معاہدہ مالی تعاون کے بغیر کوئی حیثیت نہیں رکھتا اور یقیناﹰ سعودی عرب پاکستان میں دفاع اور دیگر مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کرے گا۔ ''اب ان امکانات سے کیسے مستفید ہونا ہے، اس کا انحصار پاکستان پر ہو گا۔‘‘ ماضی میں بھی پاکستان نے سعودی عرب کا دفاع کیا؟

دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان اور سعودی عرب کی باہمی شراکت داری کوئی نئی بات نہیں۔

سعودی افواج کے سینکڑوں افسران نے پاکستان میں تربیت حاصل کی ہے۔ میجر جنرل ریٹائرڈ انعام الحق کے مطابق ماضی میں پاکستانی بریگیڈز سعودی عرب میں تعینات رہی ہیں۔ لیکن اس معاہدے نے اس تعلق کو ایک نئی جہت دے دی ہے، جس میں نہ صرف خطرات کے خلاف ردعمل بلکہ ایک مشترکہ حکمت عملی اور اس کا طریقہ کار بھی شامل ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے معاملے میں بھارت اور اسرائیل کو مشترکہ خطرہ سمجھا جائے گا۔

لیکن بالخصوص اس وقت تو کوئی بھی ''خود کو اسرائیل سے محفوظ‘‘ نہیں سمجھ رہا۔ ان کا کہنا تھا، ''اس معاہدے کا تناظر صرف اسی حد تک محدود نہیں بلکہ امریکہ اور اسرائیل کے ایران پر حملوں اور اس کے بعد اسرائیل کے قطر پر حالیہ حملے کو بھی اس معاہدے کے پس منظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ فوجی طاقت اور دفاعی ساز و سامان رکھنے کے باوجود قطر اسرائیل کو خود پر حملہ کرنے سے نہ روک سکا۔

‘‘

میجر جنرل ریٹائرڈ انعام الحق کہتے ہیں، ''یہ معاہدہ پاکستان کے لیے معاشی فوائد بھی لا سکتا ہے۔ سعودی عرب دفاعی ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کرے گا، جس سے پاکستان کو نہ صرف جدید ٹیکنالوجی ملے گی بلکہ اپنی دفاعی صنعت کو بہتر بنانے کا بھی موقع ملے گا۔‘‘

پاکستان کے لیے ممکنہ مشکلات

عالمی امور کے ماہر سمجھتے ہیں کہ یہ معاہدہ خطے میں طاقت کے توازن پر گہرے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔

بھارت اور اسرائیل تو سعودی عرب اور پاکستان کے اس باہمی تعاون کو تشویش کی نظر سے دیکھیں گے ہی، لیکن اس پر امریکہ اور ایران کا ردعمل بھی سامنے آ سکتا ہے۔

کاشف مرزا کہتے ہیں کہ پاکستان گو کہ اس معاہدے کو سعودی عرب کے ساتھ کثیر الجہتی دفاعی تعاون کو مستحکم کرنے، مشترکہ تربیت اور دفاعی پیداوار کے ذریعے ممکنہ طور پر تعاون کو وسعت دینے کے طور پر دیکھتا ہے، لیکن یہ مختلف ممالک کے بدلے ہوئے اتحاد کی عکاسی بھی کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا، ''معاہدے کی زبان امریکہ میں تفکر کی وجہ بن سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اس میں پاکستان کے لیے سعودی عرب کی علاقائی دشمنیوں کا حصہ بننے کا خطرہ بھی موجود ہے۔ ممکنہ اسرائیلی کارروائیوں کی روک تھام اس معاہدے کے تحت غیر واضح ہے۔ اس لیے کہ جب ہم اسرائیل کی بات کرتے ہیں، تو اس میں امریکہ کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

ادارت: مقبول ملک

متعلقہ مضامین

  • فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے پر برطانوی وزیراعظم سے متفق نہیں ہوں، ڈونلڈ ٹرمپ
  • پاکستانی سعودی دفاعی معاہدہ: کس کا کردار کیا؟
  • نیتن یاہو نے ٹرمپ کو قطر حملے سے پہلے آگاہ کیا یا نہیں؟ بڑا تضاد سامنے آگیا
  • پاکستان کی انٹربینک مارکیٹ میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں اضافہ ریکارڈ
  • شہباز شریف کی آج محمد بن سلمان سے ملاقات
  • پی ٹی آئی کے اندر منافق لوگ موجود ہیں، ایک دن بھی ایسا نہیں کہ بانی کی رہائی کیلئے کوشش نہ کی ہو،علی امین گنڈاپور
  • امریکی کانگریس میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ذمہ دار پاکستانی حکام پر پابندیوں کا بل
  • اسرائیل قطر میں دوبارہ حملہ نہیں کرے گا: ٹرمپ
  • قطر ہمارا اتحادی، اسرائیل دوحہ پر دوبارہ حملہ نہیں کرے گا: امریکی صدر کی یقین دہانی
  • قطر ہمارا اتحادی ملک ہے، اسرائیل دوبارہ اس پر حملہ نہیں کریگا، ڈونلڈ ٹرمپ