طلباء پروجیکٹس مقصد کیلیے تیار کریں،ڈاکٹڑ طحہ حسین
اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT
حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر)مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی جامشورو کی جانب سے توانائی، ماحولیات اور پائیدار ترقی کے عنوان سے منعقد کی جانے والی ساتویں عالمی کانفرنس کی افتتاحی تقریب مہران یونیورسٹی میں ہوئی۔ کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مہران یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر طحہ حسین علی نے کہا کہ کانفرنس میں پیش کی جانے والی سفارشات اور تجاویز مسائل کے حل کے لیے ہوں، مسائل کی نشاندہی کرنے والی ہوں، اور ایسی سفارشات ہوں جو حکام تک پہنچا کر ان سے مسائل کے حل کے لیے مطالبہ کیا جا سکے۔ وائس چانسلر نے کہا کہ مقامی آبادی کے مسائل کے حل کے لیے سفارشات ہونا ضروری ہیں، جبکہ تحقیق صرف محقق کی ترقی کے لیے نہ ہو، بلکہ وہ لوگوں کے کام کی بھی ہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ مہران یونیورسٹی کے آخری سال کے طلباء کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اپنے فائنل ائر پروجیکٹس پائیدار ترقی کے اہداف سے کسی نہ کسی مقصد سے متعلق تیار کریں۔ وائس چانسلر نے کہا کہ حکومتی اداروں کو ماہرین اور محققین کی فراہم کردہ سفارشات پر عمل کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر طحہ حسین علی نے کہا کہ مہران میں تحقیقی گروپ بہترین کام کر رہے ہیں۔ توانائی کے شعبے کے ماہر انجینئر عرفان احمد نے کہا کہ توانائی کی ماحول دوست منتقلی ہو رہی ہے، بجلی ہوا اور شمسی توانائی سے بنائی جا رہی ہے۔ سندھ میں ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے زیادہ ہیں، اور ہوا سے پیدا ہونے والی بجلی سستی بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر آلات پاکستان میں بنیں تو منصوبوں پر خرچ کم ہو جائے گا، کیونکہ اس وقت بیشتر آلات بیرون ملک سے خریدے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں قدرتی اور فطری طریقوں سے ماحول دوست توانائی پیدا کرنے کے ذرائع اور وسائل بہت زیادہ ہیں لیکن ہم ان کا بہتر استعمال نہیں کر رہے، چائنیز اکیڈمی آف سائنسز چین کے پروفیسر ڈاکٹر پینگ وینگ (Peng Wang) نے کہا کہ چین اور پاکستان کو معاشی، توانائی، ماحولیات اور ٹیکنالوجی کے امور پر تعاون بڑھانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی ایک بڑا مسئلہ ہے جسے مل کر دیکھنا ضروری ہے، اور ہماری اکیڈمی مہران یونیورسٹی کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔ نیو کیسل (Newcastle) یونیورسٹی برطانیہ کے پروفیسر ڈاکٹر شفیق احمد اوڈھانو نے کہا کہ یہ کانفرنس سندھ صوبے میں ہو رہی ہے، اور سندھ نے ماحولیاتی تباہیوں کا زیادہ سامنا کیا ہے۔ کانفرنس کے سربراہ اور مہران یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد اسلم عقیلی نے کہا کہ مہران یونیورسٹی کا انرجی اور انوائرمنٹل انجینئرنگ ریسرچ گروپ 2009 میں تشکیل پایا۔ توانائی کے شعبے کے ڈائریکٹر انجینئر محفوظ احمد قاضی نے کہا کہ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق 2050 تک ہمارے لیے خوراک کا مسئلہ بڑا مسئلہ ہو گا ۔ 2دنوں کی اس کانفرنس میں پاکستان، چین اور ہندوستان کے توانائی اور ماحولیاتی شعبوں کے ماہرین نے اپنے تحقیقی مقالے پیش کیے، کانفرنس میں برطانیہ اور چین کے اسکالرز نے شرکت کی اور خصوصی خطاب کیا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: مہران یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر وائس چانسلر نے کہا کہ انہوں نے کے لیے
پڑھیں:
الیکٹرک گاڑیوں کیلیے چارجنگ اسٹیشنز کا قیام، شرجیل میمن کی چینی کمپنی کے حکام سے ملاقات
کراچی:سندھ کے سینیئر وزیر شرجیل انعام میمن اور صوبائی وزیر توانائی سید ناصر حسین شاہ سے چینی الیکٹرک چارجنگ کمپنی اے ای آٹو کے حکام کی ملاقات ہوئی۔
ملاقات میں صوبے بھر میں الیکٹرک گاڑیوں کے لیے چارجنگ اسٹیشنز کے قیام پر تفصیلی تبادلہ کیا گیا۔ کمپنی حکام نے سینیئر وزیر شرجیل انعام میمن اور سید ناصر حسین شاہ کو جدید چارجنگ ٹیکنالوجی سے متعلق بریفنگ دی۔
سینیئر وزیر شرجیل انعام میمن نے کمپنی حکام کو سندھ کے شہری و دیہی علاقوں میں چارجنگ پوائنٹس کے وسیع نیٹ ورک کے قیام سے متعلق اپنے منصوبے پر آگہی دی۔
شرجیل میمن کا کہنا تھا کہ ٹرانسپورٹ کا مستقبل صاف توانائی اور الیکٹرک گاڑیوں سے جڑا ہے، سندھ اس تبدیلی میں پیچھے نہیں رہ سکتا، صوبے بھر میں الیکٹرک گاڑیوں کے چارجنگ اسٹیشنز کا قیام ماحول کے تحفظ کے لیے اہم ہے۔
انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت متبادل توانائی شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیوں کو ہر ممکن تعاون اور سہولت فراہم کرے گی، ہمارا مقصد فوسل فیول پر انحصار کم کرنا، فضائی آلودگی میں کمی لانا اور گرین ٹیکنالوجی کے ذریعے معیشت میں نئے مواقع پیدا کرنا ہے۔
سید ناصر حسین شاہ کا کہنا تھا کہ توانائی اور ٹرانسپورٹ آج کی دنیا میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے شعبے ہیں، سندھ پہلے ہی قابلِ تجدید توانائی کے میدان میں نمایاں اقدامات کر چکا ہے، اب الیکٹرک موبیلٹی اگلا اہم قدم ہے۔
صوبائی وزیر توانائی کا کہنا تھا کہ الیکٹرک گاڑیوں سے نہ صرف روایتی ایندھن پر دباؤ کم ہوگا بلکہ موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج سے بھی نمٹنے میں مدد ملے گی۔