سعودی عرب: شاہ سلمان نے سعودی ریال کی کرنسی علامت کی منظوری دیدی
اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT
سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے سعودی ریال کی کرنسی علامت کی منظوری دے دی، جو قومی کرنسی کی شناخت کو مضبوط بنانے کی طرف تاریخی پیش رفت قرار دی جارہی ہے۔
سعودی خبر رساں ایجنسی (واس) کے مطابق، یہ اقدام سعودی مالیاتی نظام کی بڑھتی ہوئی علاقائی اور عالمی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔
سعودی مرکزی بینک (ساما) کے گورنر ایمن السياری نے کہا کہ نئی کرنسی علامت کا نفاذ فوری طور پر شروع ہو جائے گا، جو مالی اور تجارتی لین دین میں بتدریج ظاہر ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس اقدام سے قومی شناخت اور ثقافتی وابستگی کو فروغ ملے گا، جبکہ سعودی ریال کی عالمی معیشت میں اہمیت اور گروپ 20 ممالک میں مملکت کی پوزیشن کو مزید مستحکم کرے گا۔
السياري نے اس منصوبے میں شامل تمام اداروں، بشمول وزارت ثقافت، وزارت اطلاعات اور سعودی معیار و میعار اتھارٹی کی کاوشوں کو سراہا۔
کرنسی کی علامت کو اعلیٰ فنی معیار کے تحت ڈیزائن کیا گیا ہے، جو سعودی ثقافت اور روایات کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ علامت عربی خطاطی سے متاثر ہو کر (ریال) کے نام پر مبنی ہے، جو مقامی اور بین الاقوامی سطح پر مالیاتی لین دین میں سعودی ریال کی بہتر نمائندگی فراہم کرے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
سعودی ریال شاہ سلمان بن عبدالعزیز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: سعودی ریال شاہ سلمان بن عبدالعزیز سعودی ریال کی
پڑھیں:
مغربی تعلیم زوال پذیر کیوں ہے؟
ریچل مارسڈن کی تحریر سے ماخوذ
مغربی دنیا کے تعلیمی نظام کو درپیش بحران اب محض خدشہ نہیں بلکہ ایک حقیقت بنتی جا رہی ہے۔ ریچل مارسڈن، جو کہ ایک معروف کالم نگار اور سیاسی تجزیہ کار ہیں، نے اپنی حالیہ تحریر میں کینیڈا اور فرانس جیسے ممالک میں تعلیمی انحطاط کی گہرائی سے نشاندہی کی ہے۔ ان کا موقف ہے کہ ’احساسات کو مقدم رکھنے‘ والی تعلیم نے علمی معیار کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
انفرادی کارکردگی سے اجتماعی ہم آہنگی تکمارسڈن کے مطابق تعلیمی ادارے اب انفرادی کارکردگی کے بجائے ’اجتماعی تعاون‘ کو ترجیح دے رہے ہیں۔
کامیاب طلبہ کی تصاویر ہٹا کر ان کی جگہ مختلف اقلیتوں کے پرچم اور سروے نتائج لگا دیے گئے ہیں جن میں بتایا گیا کہ طلبہ بیت الخلا تک جانے میں خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔
تعلیمی اداروں کا سابقہ نعرہ ’ہم برتری کے طالب ہیں‘ اب بے معنی دکھائی دیتا ہے۔
معیار کے بجائے نرمی کا غلبہبرٹش کولمبیا (کینیڈا) جیسے علاقوں نے ریاضی، کیمیا، فزکس جیسے مضامین کے معیاری ٹیسٹ ختم کر دیے ہیں۔ ان کی جگہ صرف لٹریسی اور نمبریسی کے عمومی ٹیسٹ باقی رہ گئے ہیں۔
ٹیسٹ کے سوالات بچوں کو چیلنج کرنے کے بجائے ان کی سطح سے نیچے رکھے جا رہے ہیں۔
سوالات اتنے آسان ہیں کہ گویا 7 سال کے بچے سے پوچھے جا رہے ہوں، نہ کہ کسی یونیورسٹی میں داخلے کے امیدوار سے۔
گریڈنگ سسٹم میں تبدیلیاب گریڈز کی جگہ مختلف الفاظ نے لے لی ہے مثلاً ’ابھرتا ہوا، ترقی کرتا ہوا، ماہر، یا آگے بڑھتا ہوا، وغیرہ۔
یہ تبدیلی کسی کی کمی کو اجاگر نہ کرنے کے لیے کی گئی ہے۔ لیکن اصل دنیا میں ایسی نرمی کی کوئی جگہ نہیں۔ مارچسن کے بقول، یہی طالبعلم بعد میں سوشل میڈیا پر ’احمق‘ کہلا کر شدید تنقید کا نشانہ بنتے ہیں۔
فرانسیسی تجربہ: ناکامی کے بعد واپسیفرانس نے بھی 2019 میں ہائی اسکول کے لیے ریاضی کو نصاب سے نکال دیا، مگر نتائج اتنے خراب آئے کہ حکومت کو 2023 میں فیصلہ واپس لینا پڑا۔
حالیہ امتحانات میں ہدایات دی گئیں کہ املا اور گرامر کی غلطیوں پر مکمل نمبر نہ کاٹے جائیں بلکہ صرف سمجھ آنے پر توجہ دی جائے۔
تنقیدی سوچ کی کمیمارسڈن طنزیہ انداز میں بتاتی ہیں کہ جب طلبہ فلسفے کے پرچے میں ’ preponderant ‘ جیسے عام الفاظ کے معانی بھی نہیں سمجھ پاتے، تو پھر ان کی علمی بنیادوں پر سنجیدہ سوالات اٹھتے ہیں۔
آخر یہ طلبہ گریجویشن کے بعد کس معیار پر کھڑے ہوں گے؟
’محفوظ جگہ‘ مگر کمزور علممارسڈن کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ مغرب میں تعلیم اب حقیقت سے زیادہ احساسات کے گرد گھومنے لگی ہے۔ سختی اور معیار کو ظلم سمجھا جانے لگا ہے۔ نتیجتاً ہم ایسے گریجویٹس دیکھ رہے ہیں جو دنیا کے چیلنجز سے نمٹنے کے بجائے صرف ’سیف اسپیس‘ کی تلاش میں رہتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا برٹش کولمبیا فرانس کینیڈا مغربی تعلیم