Express News:
2025-11-03@19:55:33 GMT

عام آدمی کے حالات زندگی

اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT

مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت کا ایک سال مکمل ہونے پر حکومت پاکستان کی جاری کارکردگی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بہتر معاشی پالیسیوں کے تسلسل سے عام آدمی کے حالات بہتر ہوئے ہیں۔ حکومت نے مشکل حالات، سیاسی انتشار اور ان گنت رکاوٹوں کے باوجود ملک کی ڈیفالٹ پرکھڑی معیشت کو ایک سال میں ترقی کی راہ پر گامزن کر دیا ہے۔

ملک میں مہنگائی کی شرح میں سنگل ڈیجٹ تک کمی آنے سے مہنگائی ساڑھے 6 سال کی کم ترین سطح پر آنے سے خور و نوش کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اسٹاک مارکیٹ تاریخ کی بلندیوں تک پہنچی، شرح سود اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی آئی اور حکومت نے بی آئی ایس پی مستحقین کے لیے مالی امداد میں اضافہ کیا جس کے بعد 2025 سے ہر سہ ماہی 13500 روپے ادا کیے جائیں گے۔ اس پروگرام کی رجسٹریشن کا دائرہ کار بڑھا کر بے نظیر انکم رپورٹ پروگرام سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد نوے لاکھ ہو جائے گی۔

جس دن حکومتی کارکردگی رپورٹ جاری ہوئی، اسی روز تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ چین نے پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچا رکھا ہے اور اس سال غیر ملکی قرضوں کی ضروریات 22 ارب ڈالر سے بڑھ کر ساڑھے 23 ارب ڈالر ہوگئی ہیں جو پاکستان کو اس سال میں رول اوورکرانا پڑیں گے۔ اس تجزیے سے تو پتا چلتا ہے کہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے میں حکومت سے بڑا کردار چین کا ہے اور دعوے حکومت کر رہی ہے۔

حکومت کی کارکردگی رپورٹ میں بے روزگاری کا کوئی ذکر نہیں مگر حکومت نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رجسٹریشن بڑھانے کا کہا ہے جس سے اس پروگرام سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد نوے لاکھ کردیے جانے کو حکومت کی کارکردگی بتایا گیا ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ملک میں بے روزگاری اور مہنگائی بڑھنے سے بی آئی ایس پی کے مستحقین کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے اور حکومت کو ان کی امداد بڑھانا پڑی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ عام آدمی کی زندگی میں بہتری آئی ہے، اگر واقعی ایسا ہوا ہوتا تو حکومت کو بی آئی ایس پی مستحقین کی تعداد اور ان کی سہ ماہی مالی امداد نہ بڑھانا پڑتی۔ بی آئی ایس پی کے مستحقین کو تین ماہ بعد صرف ایک ہزار روپے امداد زائد ملے گی مگر ان ضرورت مندوں اور ملک کے عام افراد جن میں کروڑوں غریب شامل ہیں ان سے زیادہ حکومت کو ججز اور ارکان اسمبلی کی فکر زیادہ ہے۔

وہ ججز جو ماہانہ لاکھوں روپے تنخواہ لے رہے تھے ان کی تنخواہیں بڑھائی گئی ہیں اور اکثر پارلیمنٹ سے غیر حاضر رہنے اور سپریم کہلانے والی پارلیمنٹ کے ارکان جو کروڑوں روپے خرچ کرکے ایک سال پہلے منتخب ہوگئے تھے اور عام آدمی سے بھی زیادہ’’ غریب‘‘ ہیں کہ جن کی ماہانہ تنخواہوں میں ججز سے زیادہ یعنی تین لاکھ روپے سے زائد اضافہ کیا ہے جن کی پی ڈی ایم حکومت میں کارکردگی یہ تھی کہ انھوں نے عدلیہ کے فیصلے کے مطابق پنجاب اسمبلی کے الیکشن نہیں ہونے دیے تھے۔

ملک بھر میں ڈھائی سال قبل قائم ہونے والی پی ڈی ایم کی سولہ ماہ کی، نگرانوں کی چھ ماہ کی اور مسلم لیگ (ن) کی ایک سال قبل قائم ہونے والی موجودہ حکومتوں میں ملک میں غربت و بے روزگاری بے حد بڑھی ہے جس سے عام آدمی کو حکومت بہتر قرار دے رہی ہے ان کی حقیقی زندگی میں بہتری حکمرانوں کو کہاں سے نظر آگئی ہے؟

ملک میں سنگل ڈیجٹ مہنگائی میں کمی شاید حکومت کے نزدیک سبزیوں کے نرخوں میں کمی آنے سے نظر آئی ہے کیونکہ سیزن اور پیداوار زیادہ ہونے کی وجہ سے پنجاب کی منڈیوں میں گوبھی پانچ روپے کلو بھی خریدنے کے لیے آڑھتی تیار نہیں تھے جس پر مایوس کاشت کاروں نے اتنے کم نرخوں پر گوبھی فروخت کرنے کی بجائے مفت بانٹنا گوارا کرکے بھاری مالی نقصان اٹھا لیا اور سیزن کی وجہ سے آلو، ٹماٹر، پیاز، مٹر و دیگر بعض سبزیوں کی قیمتیں کم ہوئی ہیں جب کہ چینی جو ایک سو تیس روپے کلو تھی وہ ڈیڑھ سو روپے ہوگئی ہے۔ چینی باہر بھیجنے کی حکومت نے اجازت منافع خوروں کو شاید اس لیے دی تھی کہ وہ چینی مہنگی کر سکیں۔

رمضان المبارک میں چینی کا استعمال بڑھتا ہے جس کے بعد توقع ہے چینی مزید مہنگی یا نایاب ہوگی کیونکہ ناجائز منافع خوروں نے رمضان میں زیادہ فروخت ہونے والی اشیا ذخیرہ کرنے اور اپنے گودام بھرنے شروع کر دیے ہیں جس کی نشان دہی پاکستان بزنس کونسل نے کردی ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان اشیا کی مصنوعی قلت پیدا کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی ابھی شروع کی جائے اور اشیائے خوردنی کے سرکاری نرخ مقرر ہی نہ کیے جائیں بلکہ ان پر عمل بھی کرایا جائے۔

حکومتی دعویداروں کے عام آدمی کے حالات بہتر ہونے کے دعوؤں کے برعکس حالت یہ ہے کہ کراچی اور لاہور کے متوسط طبقے کے علاقوں کی بڑی مساجد کے باہر دست سوال دراز کرنے والوں میں خواتین، بزرگ، درمیانی عمر والے اور نوجوان بھی ڈاکٹروں کی دوائیوں کی پرچیاں، اسکولوں کے فیس کارڈ، بجلی و گیس کے بھاری بل ہاتھوں میں لیے کھڑے نظر آتے ہیں۔ خواتین اور دیگر افراد کے ساتھ ان کے بچے، پردہ دار خواتین ہی نہیں بلکہ ان کی کم سن بیٹیاں بھی مدد کے لیے بڑی تعداد میں کھڑے نظر آتے ہیں جن میں اکثر کی آواز بھی شرم و مجبوری کے باعث نہیں نکلتی جب کہ پیشہ ور بھکاریوں کی تعداد الگ ہے۔

پیشہ ور بھکاری اپنے حلیے سے ہی پہچان لیے جاتے ہیں اور صاف، پرانے و بوسیدہ کپڑوں میں امداد، راشن، دوائیوں کے لیے مدد مانگنے والے وہ عام افراد ہوتے ہیں جن کی زندگی میں بہتری لانے کے دعوے کرتی حکومت نہیں تھک رہی ۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بی آئی ایس پی حکومت نے کی تعداد ایک سال ملک میں کے لیے ہے اور

پڑھیں:

بنگلہ دیش: عبوری حکومت کا سیاسی اختلافات پر اظہارِ تشویش، اتفاق نہ ہونے کی صورت میں خود فیصلے کرنے کا عندیہ

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کی ایڈوائزری کونسل نے ملک میں جاری سیاسی اختلافات پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اگر سیاسی جماعتیں آئندہ ایک ہفتے میں جولائی نیشنل چارٹر اور مجوزہ آئینی اصلاحات پر اتفاق نہ کر سکیں، تو حکومت خودمختارانہ طور پر فیصلہ کرے گی۔

یہ اعلان پیر کے روز چیف ایڈوائزر کے دفتر (تیجگاؤں، ڈھاکا) میں ہونے والے ہنگامی اجلاس کے بعد کیا گیا، جس کی صدارت چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس نے کی۔

اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے قانونی مشیر پروفیسر آصف نذرل نے بتایا کہ اگر سیاسی جماعتوں کے درمیان جلد اتفاقِ رائے نہ ہوا تو حکومت ’خود اپنا راستہ اختیار کرے گی۔‘

اجلاس میں دیگر مشیروں میں محمد فوزالکبیر خان، عادل الرحمان خان اور پریس سیکریٹری شفیع الحق عالم بھی شریک تھے۔

سیاسی پس منظر اور تنازعہ کی نوعیت

گزشتہ ہفتے نیشنل کنسینس کمیشن نے حکومت کو ایک رپورٹ پیش کی تھی، جس میں تجویز دی گئی تھی کہ آئینی اصلاحات پر ریفرنڈم کے انعقاد کے لیے ایک خصوصی آرڈر جاری کیا جائے۔ اس کے مطابق، اگر ریفرنڈم کامیاب ہوتا ہے تو آئندہ پارلیمنٹ کو آئینی ترمیمی ادارہ کے طور پر تشکیل دیا جائے گا، جو 270 دن کے اندر اصلاحات مکمل کرے گی۔

تاہم ریفرنڈم کے انعقاد کے وقت پر سیاسی جماعتوں میں اختلاف ہے۔ بعض جماعتیں چاہتی ہیں کہ یہ ریفرنڈم عام انتخابات کے ساتھ کرایا جائے، جبکہ دیگر جماعتیں اسے انتخابات سے قبل منعقد کرنے کی حامی ہیں۔ یہی اختلافات عبوری حکومت کے لیے بڑا چیلنج بن گئے ہیں۔

پروفیسر آصف نذرل کا بیان

پروفیسر نذرول نے کہا ’ہم کوئی الٹی میٹم نہیں دے رہے، بلکہ مکالمے کی دعوت دے رہے ہیں۔ اگر سیاسی جماعتیں باہمی اتفاق پر نہیں پہنچتیں تو حکومت اپنا لائحہ عمل خود طے کرے گی۔‘

انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ حکومت مزید مذاکرات کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔

’ہم توقع کرتے ہیں کہ تمام جمہوری اور اینٹی فاشسٹ جماعتیں مل بیٹھ کر رہنمائی فراہم کریں۔ ان کے پاس تعاون اور مفاہمت کی طویل تاریخ ہے۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ ایک بڑی جماعت کا کہنا ہے کہ کمیشن کی سفارشات پہلے سے طے شدہ نکات سے مختلف ہیں، تو پروفیسر نذرل نے براہِ راست تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔ انہوں نے کہا ’ہم امید کرتے ہیں کہ جماعتیں خود اپنے اختلافات حل کریں گی۔ اگر ایسا نہ ہوا تو حکومت کو فیصلہ کرنا ہوگا۔‘

انتخابات کے شیڈول کی تصدیق

ایڈوائزری کونسل نے اس بات کی بھی ایک بار پھر یقین دہانی کرائی کہ قومی انتخابات فروری 2026 کے اوائل میں منعقد کیے جائیں گے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق، اگر فریقین کے درمیان آئندہ چند دنوں میں اتفاق نہ ہوا تو عبوری حکومت کا یکطرفہ اقدام ملک میں ایک نئے سیاسی بحران کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • حکومت اب بجلی نہیں خریدے گی ،وزیر توانائی اویس لغاری
  • بنگلہ دیش: عبوری حکومت کا سیاسی اختلافات پر اظہارِ تشویش، اتفاق نہ ہونے کی صورت میں خود فیصلے کرنے کا عندیہ
  • شاہانہ زندگی گزارنے والے ممکنہ ٹیکس چوروں کی نشاندہی کرلی گئی
  • اے ٹی ایم اور بینک سے رقم نکلوانے پر چارجز میں نمایاں اضافہ
  • نان فائلرز سے اے ٹی ایم یا بینک سے رقم نکلوانے پر ڈبل ٹیکس کی تیاری
  • نان فائلرز کو اے ٹی ایم یا بینک سے رقم نکلوانے پر ڈبل ٹیکس دینا ہوگا
  • سعودی عرب سے فنانسنگ سہولت، امارات سے تجارتی معاہدہ؛ پاکستانی روپیہ مستحکم ہونے لگا
  • نئے بھرتی کنٹریکٹ ملازمین کو ریگولر ہونے پر بھی پنشن نہیں ملے گی
  • پیٹرول اور ڈیزل مہنگا، حکومت نے نئی قیمتوں کا اعلان کردیا
  • پیٹرول کی قیمت میں اضافہ ہوگیا، حکومت نے عوام پر مہنگائی کا نیا بوجھ ڈال دیا