Daily Ausaf:
2025-11-05@01:28:11 GMT

کمر کیوں جھکتی ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT

شائد آپ نے نوٹ کیا ہو کہ 20سال کے نوجوانوں اور 40سال کے ادھیڑ عمر کے لوگوں میں کھڑے ہونے کا ایک بنیادی فرق ہوتا ہے۔ آپ مشاہدہ کر کے دیکھنا کہ نوجوان بلکل سیدھے اور ادھیڑ عمر قدرے جھک کر کھڑے ہوتے ہیں، نوجوانوں کا سینہ باہر نکلا ہوتا ہے اور پوری ٹانگیں سیدھی ہوتی ہیں جبکہ ادھیڑ عمروں کی ٹانگیں کافی حد تک آگے کی طرف جھکی ہوتی ہیں کیونکہ اس عمر میں گوڈے انچ آدھا انچ آگے کی طرف نکل جاتے ہیں۔ آپ کھڑے ہونے کے اس فرق کو فٹ بال ٹیم کے ’’لائن اپ‘‘کے دوران آسانی سے محسوس کر سکتے ہیں۔ آج ایک دوست اشفاق احمد پسروری نے کھڑے ہونے کے اس انداز کو ایک چونکا دینے والی وضاحت کے ساتھ بیان کیا۔ انہوں نے بتایا کہ عمر کے بڑھنے سے آپ کے دماغ میں ذمہ داریوں کا بوجھ بڑھ جاتا ہے، فکر اور وسوسوں کی مقدار زیادہ ہو جاتی ہے اور آپ کے اندر سوچنے اور عمل کرنے کی طاقت بھی کم ہو جاتی ہے۔ یہ ایک حقیقت بھی ہے کہ نوجوانی میں ہمارے اندر سوچنے اور عمل کرنے کی قوت زیادہ ہوتی ہے۔ جب ہم نوجوان ہوتے ہیں تو رات کو سوچتے ہیں اور صبح اس پر عمل کر کے کامیاب ہو جاتے ہیں۔ لیکن جب عمر بڑھتی ہے ایک تو ہمارے دماغ میں غم و آلام کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے دوسرا ہمارے اندر خود اعتمادی میں کمی آ جاتی ہے اور جب یہ چیزیں ہمارے دماغ میں زیادہ جمع ہو جاتی ہیں تو ان کا بوجھ ہمارے سر میں واقع دماغ سے نکل کر ہماری جسم اور ٹانگوں پر پڑتا ہے۔ایک اردو کا محاورہ ہے کہ ’’سر کا بوجھ ٹانگوں کو اٹھانا پڑتا ہے‘‘ جس کا اصطلاحی مفہوم یہ ہے کہ سوچ و فکر کی کمی کی وجہ سے آپ نوجوانی میں جو غلطیاں اور کوتاہیاں کرتے ہیں ان کا خمیازہ آپ کو ادھیڑ عمر اور بڑھاپے میں بھگتنا پڑتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ کچھ زیادہ عمر کے بوڑھے لوگوں کی کمر جھک جاتی ہے اور وہ عموماً چھڑی کے سہارے پر جھک کر چلتے ہیں۔ جہاں کمر جھکنے کا تعلق عمر سے ہے وہاں اس کا تعلق آپ کے سر میں موجود ماضی کا وہ بوجھ بھی ہوتا ہے جس کو آپ نظر انداز کر کے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے رہے ہوتے ہیں۔ نوجوانی میں عقل و دانش سے کام لینا آپ کو بڑھاپے میں سہارا دیتا ہے اور آپ کمر میں ٹیڑھے پن کی بیماری سے بچ جاتے ہیں۔
ہمارے آج کے طلباء اور نوجوانوں کو اپنے گزرے ہوئے کل کی بجائے آنے والے کل کی زیادہ فکر کرنی چایئے جو صرف اپنے حال پر نظر رکھ کر زیادہ بہتر طریقے سے کی جا سکتی ہے۔ آج ہم کامیاب ہونے کے لیئے جتنی محنت کرتے ہیں وہ ہمارے آنے والے کل میں کام آتی ہے۔ ہمیں ہمیشہ کچھ نہ کچھ برسات کے دن کے لئے رکھتے رہنا چایئے۔ ہماری زندگی کے سارے دن ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے ہیں۔ اگر آج ہمارے اچھے دن ہیں تو ہمیں چایئے کہ ہم آنے والے کل کے لیئے کچھ نہ کچھ بچا کر رکھیں، اور آج ہم پر برے دن ہیں تو ہم پر لازم ہے کہ ہم صبر کریں، حوصلہ رکھیں اور محنت سے کام لیں، اور اپنے برے دنوں سے نکلنے کے لیئے دن رات ہاتھ پاو’ں مارتے رہیں۔انگریزی کا ایک محاورہ ہے کہ”Stich in Time Saves Nine.

” جس کا مفہوم ہے کہ وقت پر بگڑا ہوا کام سنوارنا ہمارے نو ہندسے بچا لیتا ہے۔ جب وقت ہو تو محنت کرنا اور عقل مندی سے کام کرنا ہی ہمارا مستقبل بچاتا ہے ورنہ وقت گزر جائے اور ہم سستی اور کاہلی کرتے رہیں تو ہمارے دماغ میں افسوس اور پچھتاوے جمع ہونے لگتے ہیں جن کا بوجھ عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتا رہتا ہے۔ اسی لئے اگر ہم نے جوانی میں سمجھ بوجھ سے کام نہ لیا ہو، آوارہ گردی کی ہو، محنت سے کتراتے رہے ہوں، اور کچھ رقم وغیرہ جمع نہ کی ہو تو ہماری پریشانیوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
والدین، رشتہ دار، دوست اور معاشرہ ہم سے نفرت کرنے لگتا ہے کیونکہ ہم کم کماتے ہیں یا بلکل ہی نہیں کماتے ہیں، تو ہم نہ صرف ہم اپنے قریبی لوگوں پر بوجھ بن جاتے ہیں بلکہ ہم خود بھی اپنا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہونے لگتے ہیں۔بڑھاپے میں کمر جھکنے کی یہ بھی ایک بنیادی وجہ ہے کہ ہم اپنی جوانی نادانیوں سے برباد کر چکے ہوتے ہیں۔ دنیا میں عموما لوگ 25 سے 35 سال کی عمر میں تیزی سے ترقی کرتے ہیں۔ اس عمر میں دماغ اور جسم دونوں میں وافر مقدار میں “انرجی” ہوتی ہے۔ جب زندگی 40 اور 50 میں داخل ہوتی ہے تو اس کے بعد آدمی پیسہ جسم سے زیادہ دماغ سے کماتا ہے۔ اس دور میں ہم وقت کا بہتر استعمال کریں، اور جسم و دماغ دونوں کا بھرپور فائدہ اٹھائیں تو بڑھاپے میں ہماری کمر جھکنے سے بچ جاتی ہے۔ یہ بات ان لوگوں کے لیئے اور بھی زیادہ اہم ہے کہ جو لوگ جس عمر میں بھی ہوں وہ وقت ضائع کر رہے ہیں تو مستقبل میں ان کی پریشانیوں میں ضرور اضافہ ہو گا اور وہ وقت سے پہلے ہی بوڑھے لگنے لگیں گے۔ سوچ اور عمل کا نتائج پر لازم اثر پڑتا ہے کہ کچھ لوگ 20 سال کی عمر میں 60 سال کے بوڑھے اور کچھ 60 سال کی عمر میں 20 سال کے نوجوان لگتے ہیں۔

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: جاتے ہیں ہوتے ہیں ہوتا ہے کا بوجھ جاتی ہے پڑتا ہے کے لیئے ہے اور ہیں تو سے کام سال کے عمر کے

پڑھیں:

عورتوں کو بس بچے پیدا کرنے والی شے سمجھا جاتا ہے؛ ثانیہ سعید

منجھی ہوئی اداکارہ ثانیہ سعید نے اپنے حالیہ انٹرویو میں خواتین کی زندگی میں آنے والے مراحل، ذمہ داریاں اور تبدیلیوں کے بارے میں مفکرانہ گفتگو کی جس میں ان کے ذاتی تجربات بھی شامل تھے۔

ان خیالات کا اظہار ثانیہ سعید نے ایک پوڈ کاسٹ میں کیا۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے معاشرے کو عورت کو ایک کم تر سمجھا جاتا ہے جس کا کام صرف بچے پیدا کرنا ہے۔

اداکارہ نے کہا کہ عورت کی زندگی اصل کہانی تو 35 سال بعد شروع ہوتی ہے لیکن ہمارے ڈراموں میں اس عمر کی خواتین کی کہانی نہیں دکھائی جاتی۔

انھوں نے کہا کہ ہمارے ڈراموں میں عورت کو بس جوانی، محبت اور شادی تک محدود کردیا کیا گیا ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عورت کو کس نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

ثانیہ سعید نے یہ شکوہ بھی کیا کہ معاشرے میں عورت کو صرف اُس وقت قابلِ توجہ سمجھا جاتا ہے جب وہ جوان ہو۔

اداکارہ نے کہا کہ میں نے اپنی اصل عمر کے کردار نہیں کی۔ اپنی جوانی میں بھی ماں کا کردار نبھایا۔

ثانیہ سعید نے عورت کی معاشی آزادی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہر عورت کے پاس کوئی نہ کوئی ہنر یا صلاحیت ہونی چاہیے جس اس کی آمدنی کا ذریعہ بنا رہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اقتصادی آزادی عورت کو علم، خود اعتمادی اور فیصلہ سازی کی قوت دیتی ہے۔ عورت گھر سے نکلتی ہے تو سیکھتی ہے، آگے بڑھتی ہے۔ 

 

متعلقہ مضامین

  • عورتوں کو بس بچے پیدا کرنے والی شے سمجھا جاتا ہے؛ ثانیہ سعید
  • صارفین پر بوجھ ڈالے بغیر 1.2 کھرب روپے کا گردشی قرضہ ختم کر رہے ہیں‘ وزیر توانائی
  • اے آئی کا قدرتی دماغ کی طرح کا کرنا ممکن بنالیا گیا
  • صارفین پر بوجھ ڈالے بغیر 1.2 کھرب روپے کا گردشی قرضہ ختم کر رہے ہیں، وزیر توانائی
  • سالانہ 500 سے زائد لوگوں کی ہلاکت، افغانستان میں زلزلے کیوں عام ہیں؟
  • ہمارے ٹاؤن چیئرمینوں کی کارکردگی قابض میئر سے کہیں زیادہ بہترہے ، حافظ نعیم الرحمن
  • لینڈنگ کے وقت جہاز
  • زباں فہمی267 ; عربی اسمائے معرفہ اور ہمارے ذرایع ابلاغ
  • غزہ میں ہمارے زیرِ قبضہ علاقوں میں حماس اب بھی موجود ہے: نیتن یاہو
  • عوام پر اضافی بوجھ ڈالا جارہا ہے: حافظ نعیم سندھ حکومت کے ای چالان سسٹم کے خلاف بول پڑے