بیان میں اس بات کی بھی تصدیق کی گئی کہ روسی "جنوبی" گروپ کی افواج نے ڈونیٹسک میں نئی ​​اسٹریٹجک پوزیشنوں کا کنٹرول سنبھال لیا، جس کے نتیجے میں 220 یوکرائنی فوجی ہلاک اور متعدد جنگی گاڑیاں اور توپیں تباہ ہوئیں۔ اسلام ٹائمز۔ روس کی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ روسی افواج لوہانسک کے قصبے نوولیبووکا کا کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہیں جبکہ دیگر کئی محاذوں پر ٹھوس پیشرفت بھی حاصل کی گئی ہے۔ روسی وزارت دفاع کی جانب سے آج ہفتہ کے روز جاری ایک سرکاری بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ روس کی مغربی فورسز نے اپنی جارحانہ کارروائیوں کو جاری رکھا، نوولیبووکا کا کنٹرول سنبھال لیا اور خارکیف اور ڈونیٹسک کے مختلف علاقوں میں یوکرائنی فورسز کو نشانہ بنایا۔ ان حملوں کے نتیجے میں یوکرائنی افواج کو بھاری نقصان پہنچا، 200 سے زائد فوجی مارے گئے، 3 بکتر بند تباہ ہو گئے، اس کے علاوہ فیلڈ گنز، الیکٹرانک وارفیئر سٹیشنز اور گولہ بارود کا ایک ڈپو بھی تباہ ہو گیا۔ بیان میں اس بات کی بھی تصدیق کی گئی کہ روسی "جنوبی" گروپ کی افواج نے ڈونیٹسک میں نئی ​​اسٹریٹجک پوزیشنوں کا کنٹرول سنبھال لیا، جس کے نتیجے میں 220 یوکرائنی فوجی ہلاک اور متعدد جنگی گاڑیاں اور توپیں تباہ ہوئیں، اس کے علاوہ ایک الیکٹرانک وارفیئر اسٹیشن اور گولہ بارود کے ڈپو کو بھی تباہ کر دیا گیا۔ وزارت نے مزید کہا کہ روس کے "مشرقی" گروپ کے یونٹوں نے دشمن کے دفاع میں اپنی پیش قدمی جاری رکھی، جہاں انہوں نے ڈونیٹسک اور زاپوریزیا کے مختلف علاقوں میں یوکرائنی افواج کے اجتماعات کو دوبارہ نشانہ بنایا، اس کارروائی کے نتیجے میں 160 سے زائد یوکرینی فوجی ہلاک اور دو ٹینک اور ایک بکتر بند گاڑی کو تباہ کر دیا گیا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کے نتیجے میں کا کنٹرول کہ روس

پڑھیں:

حکمران سیلاب کی تباہ کاریوں سے سبق سیکھیں!

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250918-03-5
مجاہد چنا
جب آپ فطرتی ماحول ، قدرت کے فیصلوں اور پانی کے قدرتی راستوں میں رکاوٹیں کھڑی کریں گے تو اس کا خمیازہ بھی آپ کو بھگتنا پڑے گا۔ موجودہ دریائی سیلاب جو کے پی اور پنجاب میں تباہی مچا رہے ہیں وہ بھی اسی کا نتیجہ ہیں۔ بادل پھٹنے کے نتیجے میں پہاڑوں سے آنے والے پنجاب میں راوی سمیت دریا ئی پانی کی گذرگاہوں پر زبردستی قبضے اور سوسائٹیز، مکانات، بنگلے، فارم ہاؤسز وغیرہ سمیت بڑی بڑی آبادیاں قائم کردینے کے باعث بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔ لاکھوں خاندان بے گھر ہو چکے ہیں اور جان و مال کے لحاظ سے بڑے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کے پی میں پیر بابا بونیر میں تباہی کی وجہ پانی کو روکنے والے درختوں کی کٹائی اور دوسری وجہ اس پانی کے راستے پر بستیوں کا قیام بھی بتایا جاتا ہے۔ یہی صورتحال ملک کے سب سے بڑے شہر اور سندھ کے دارالحکومت کراچی میں بھی ہوئی ہے۔ شاہراہ فیصل سے سعدی ٹاؤن تک پانی میں ڈوبنے اور شاہراہ بھٹو کے کچھ حصوں کے کٹاؤ کی بھی یہی وجہ بتائی جا رہی ہے۔ ملیر ندی کے پیٹ میں شاہراہ بھٹو بنانے اور پھر دھیرے دھیرے پوری زمین پر قبضہ کرنے کی سازش کئی دہائیوں کے بعد تیز بہنے والے پانی نے بالآخر ناکام بنا دی۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ سانپ گذرنے کے بعد لکیر پیٹے رہتے ہیں۔ چند سالوں کے وقفے کے بعد ہمارے ملک میں سیلاب، زلزلے اور قدرتی آفات آتی ہیں، لیکن ہر بار یہ صرف وقتی طور پر متحرک ہوتی ہیں اور حکومت اور ادارے سو جاتے ہیں۔ پنجاب میں آنے والے سیلاب کی وجہ بھارت کی آبی دہشت گردی کہی جا سکتی ہے لیکن یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ پوری دنیا، میڈیا اور ہمارا محکمہ موسمیات دریائی اور شہری سیلابوں کی پیش گوئیاں کرتے رہے لیکن جو تباہی اور افراتفری ہوئی ہے اس سے لگتا ہے کہ ہماری حکومت صرف اشتہارات اور کرپشن کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف تھی۔ جب سرسے پانی چڑھا تو ہنگامی سرگرمیاں شروع کیں ، وہ بھی محض نمائشی! پنجاب حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب لوگ ڈوب رہے تھے تو وزیراعلیٰ محترمہ مریم بی بی سرکاری خرچ پر بڑی وفدکے ساتھ چین کے دورے پر گئی تھیں۔ پنجاب میں حکومتی امدادی سرگرمیوں کی متعدد ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ہیں جس سے اس کی اصلیت کھل کر سامنے آئی ہے۔ ایک ویڈیو میں پولیس اہلکار صرف تھیلے پر ہاتھ رکھ کر متاثرین کو خالی ہاتھ بھیج رہے ہیں، دوسری میں ایک خاندان کو راشن کا تھیلا دیا جا رہا ہے جس میں آٹے میں نمک کے برابر سامان ہے، جب کہ متاثرین نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے والے معروف ٹی وی اینکر حامد میر کو بتایا کہ سرکاری ادارے 1122 کی امدادی کشتیاں لوگوں کو محفوظ مقام پر لے جانے کے لیے تیس سے پینتیس ہزار روپے فی شخص کرایہ وصول کر رہی ہیں۔ یہ افسوسناک مناظر میڈیا میں آئے اور حامد میر نے بھی اپنے پروگرام کیپٹل ٹاک میں دکھائے، کہاں ہے حکومت اور انصاف فراہم کرنے والے ادارے؟

وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے نارووال میں متاثرہ علاقوں کے دورے کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس سیلاب نے ہمیں 30 سال پیچھے کر دیا ہے اور 500 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ سیلاب نے ہماری تیس سال کی محنت برباد کر دی ہے۔ سیلاب نے سڑکیں، پل اور گاؤں تباہ کر دیے ہیں۔ اندازہ لگائیے کہ 2010 اور 2022 کے سیلاب میں سندھ کے عوام کس تکلیف دہ صورتحال سے گزرے ہوں گے۔ اور ان دو سیلابوں نے سندھ کی ترقی کو کتنے سال پیچھے کر دیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ موجودہ سیلاب نے پنجاب میں خریف کی فصل کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پنجاب کے 24 اضلاع میں ہزاروں مربع کلومیٹر اراضی زیر آب آچکی ہے اور یہ سلسلہ اب بھی بڑھ رہا ہے۔ بالخصوص جنوبی پنجاب میں دہان کی 60 فیصد اورکپاس کی 35 فیصد فصل تباہ ہونے کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔ اس میں باسمتی چاول کی فصل کا 20 فیصد بھی شامل ہے۔کسان بورڈ پاکستان کے اختر فاروق میو نے دعویٰ کیا ہے کہ کسانوں کو کپاس، چاول، تل، مکئی اور چارہ جات کی تباہی کی وجہ سے 536 ارب روپے کے نقصان کا سامنا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ کئی شہروں میں سبزیوں اور دیگر جلد خراب ہونے والی اجناس کی قلت پیدا ہوگئی ہے جو آئندہ خوراک کے بحران میں بدل سکتی ہے۔

پنجاب کے بعد سندھ میں آنے والے سیلابی پانی نے سکھر، کشمور، خیرپور، دادو اور دیگر اضلاع میں تباہی مچانا شروع کر دی ہے۔ کچی آبادیوں کے سینکڑوں دیہات زیر آب آگئے ہیں اور لوگ بے گھر ہوگئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے اس بات پرگہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے اب تک بین الاقوامی امداد کی اپیل کیوں نہیں کی! اگر سندھ حکومت بندوں کی مرمت سمیت بروقت حفاظتی اقدامات کرتی تو یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی۔ پیپلز پارٹی کا سیلاب متاثرین کے لیے 21 لاکھ گھر بنانے کے دعوے کو بھی تسلی بخش نہیں کہا جا سکتا۔ کراچی سے کشمور تک سندھ کا حال بھی آپ کے سامنے ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن پہلے قومی رہنما ہیں جنہوں نے سیالکوٹ، گجرات، لاہور اور دیگر سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرکے الخدمت فاؤنڈیشن کی امدادی سرگرمیوں کا جائزہ لیا اور متاثرین کی تسلی کی۔ میڈیا اورمتاثرین سے بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حکومت سیلاب کی تباہ کاریوں کو قدرتی آفت قرار دے کر اپنی ذمہ داری سے نہیں بچ سکتی۔ یہ تباہی ظالموں کے ظلم کا نتیجہ ہے۔ سیلاب کی تباہی ہمارے حکمرانوں کی بے حسی اور نااہلی کے ساتھ ساتھ بھارت کی آبی دہشت گردی کا نتیجہ ہے۔ 40 سال تک پنجاب پر حکومت کرنے کے بعد مریم بی بی حیران ہیں کہ گجرات میں سیوریج کا نظام نہیں ہے۔ اسی طرح 40 سال سے سندھ پر حکومت کرنے والی پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ پانی میرے گھر تک ٹینکرز کے ذریعے آتا ہے! یہ لوگ عوام کے مسائل کیسے حل کر یں گے؟؟ انہوںنے سیلاب کی صورتحال کے پیش نظر شدید مہنگائی، غذائی قلت اور زرعی بحران پیدا ہونے کے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ بھی کیا ہے کہ اشیائے خورونوش ، کھاد، بیج اور زرعی ادویات پر سبسڈی کا اعلان کیا جائے۔

گزشتہ 78 سالوں سے ملک میں اقتدار کے مزے لینے والا حکمران ٹولہ چاہے وہ سول ہو یا فوجی یا بیوروکریسی، اپنے کاروبار یا اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے توطویل المدتی منصوبے بناتا ہے، لیکن جس ملک نے انھیں عزت، شہرت اور دولت دی، اس ملک اور قوم کی بہتری کے لیے سوچنے اور منصوبہ بندی کرنے کی کوئی پرواہ نہیں۔ اگر حکومت کرپشن سے پاک منصوبہ بندی پر عمل درآمد کرتے ہوئے سیلاب سے پہلے چوکس رہتی، بندوں کی صحیح مرمت اور تجاوزات کا خاتمہ ہوتا تو عوام کو یہ مشکل دن نہ دیکھنا پڑتے۔حقیقت یہ ہے کہ ملک اس وقت بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے نہیں بلکہ حکمران طبقے کی نااہلی اور نااہلی کی وجہ سے ڈوبا ہوا ہے جس سے نجات حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے حکمرانوں کو سیلاب وبارش سے ہونے والی جانی ومالی تباہی سے کوئی سبق حاصل کرنا چاہیئے۔ متاثرین کی دوبارہ آبادکاری ، زرعی اور ماحولیاتی ہنگامی حالات کے کھوکھلے اعلانات کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، اس کے لیے روڈ میپ اور فریم ورک کا اعلان کرنے کی ضرورت ہے۔ سندھ کے 2010-2022 کے سیلاب متاثرین اب بھی پریشانی کا شکار ہیں۔ سندھ میں تعلیمی ایمرجنسی کے اعلان کے باوجود 80 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے۔ کچھ سکول عمارتوں سے محروم ہیں جبکہ کچھ بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ اس لیے بار بار کے اعلانات سے ہٹ کر متاثرین کی امداد وبحالی اور سندھ کی تعمیر وترقی کے لیے کچھ عملی کام کرنا ہوں گے۔

ابھی بھی زیادہ دیر نہیں ہوئی ہے۔ سب سے پہلے تو اس مشکل وقت میں تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے مسائل کے حل کے بارے میں مشترکہ حکمت عملی بنانی چاہیے۔ سیاسی اور جماعتی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر شہروں میں سیوریج کے نالوں پر تجاوزات، دریا کے قدرتی راستوں پر بنائے گئے طاقتور لوگوں کے بنگلوں، فارم ہاؤسز اور سوسائٹیز کو ختم کیا جائے۔ جہاں یہ ممکن نہ ہو وہاں فوری طور پر متبادل حل تیار کیا جائے۔ دریائی پشتوں کی مرمت اور سیم نالوں کی صفائی کے لیے جاری کی گئی رقم اور کام کا جائزہ لیا جائے۔ دریا اور بارشوں کے سیلاب سمیت قدرتی آفات کی صورت میں خدمات فراہم کرنے والے اداروں کو فعال اور مضبوط کیا جائے۔ حکومت الخدمت فاؤنڈیشن سمیت فلاحی خدمات کے اداروں کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرے اور انہیں متاثرہ علاقوں میں تقسیم کرے تاکہ تمام متاثرین کو ریلیف اور بحالی کی سہولت فراہم کی جاسکے۔

متعلقہ مضامین

  • حکمران سیلاب کی تباہ کاریوں سے سبق سیکھیں!
  • آئی ایم ایف کی اگلی قسط کیلئے شرائط، ٹیکس ہدف اور بجٹ سرپلس حاصل کرنے میں ناکام
  • آئی ایم ایف کی اگلی قسط کیلئے شرائط، ٹیکس ہدف اور بجٹ سرپلس حاصل کرنے میں ناکام
  • برطانیہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند پاکستانیوں کیلئے بڑی خبر آگئی
  • آزاد کشمیر آل پارٹیز کا مسلح افواج سے یکجہتی کیلئے عوامی رابطہ مہم شروع کرنے کا فیصلہ
  • ملائیشیا میں طوفانی بارشوں سے تودے گرنے کے نتیجے میں 13 افراد ہلاک
  • سیلاب کی تباہ کاریاں : پنجاب و سندھ کی سینکڑوں بستیاں اجڑ گئیں، فصلیں تباہ 
  • قطر اور یہودو نصاریٰ کی دوستی کی دنیا
  • وزیراعظم، مسلح افواج کے سربراہان اور دیگر کو کیا تحائف ملے، توشہ خانہ کا 6 ماہ کا ریکارڈ جاری
  • تقاریر سے اسرائیل کاکچھ نہیں بگڑے گا، مسلم ممالک مشترکہ آپریشن روم بنائیں، ایران