ماضی کی وہ معروف اداکارہ جس نے ماں کی خواہش پر بالی ووڈ چھوڑ دیا
اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT
بالی ووڈ کی ماضی کی معروف اداکارہ اور ’بگ باس 18‘ کی سابقہ امیدوار شلپا شیروڈکر نے انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے اپنی والدہ کی خواہش پر فلم انڈسٹری کو چھوڑ کر شادی کا فیصلہ کیا تھا۔
ایک انٹرویو میں شلپا نے بتایا کہ بالی ووڈ کو انہوں نے اپنی والدہ کے مشورے پر خیرباد کہہ کر شادی کر لی تھی اور انہیں اس پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔
اداکارہ نے بتایا کہ ان کی والدہ ہمیشہ کہتی تھیں کہ ہر کام کا وقت ہوتا ہے، اور جو کام وقت پر نہ ہو وہ بعد میں صرف پچھتاوے کا باعث بنتا ہے۔ شلپا نے کہا کہ ان کی والدہ کے مطابق وہ ان کی شادی کی عمر تھی اور وہ ہی شادی کیلئے بہترین وقت تھا۔
A post common by BollywoodShaadis.
شلپا نے بتایا کہ ’میں نے 2000 میں شادی کی اور میری والدہ کا ماننا تھا کہ ہر چیز کا صحیح وقت ہوتا ہے، اس لیے بالی ووڈ میں نام کمانے کے بعد میری زندگی کا اگلا قدم شادی تھی۔ 26-27 سال کی عمر میں شادی کرنا ضروری تھا، اور میں نے خوشی سے فلم انڈسٹری چھوڑ دی۔‘
شلپا نے مزید کہا کہ وہ ہمیشہ اپنی والدہ کے فیصلوں پر یقین رکھتی ہیں اور انہیں کبھی بھی والدہ کے کیے فیصلوں پر عمل کر کے افسوس نہیں ہوا۔ شلپا نے یہ بھی کہا کہ وہ کبھی بھارت چھوڑنا نہیں چاہتی تھیں، لیکن تقدیر میں یہی لکھا تھا۔ شادی کے بعد ملک سے باہر چلی گئیں اور مکمل طور پر ایک گھریلو خاتون بن گئیں جس پر وہ خود بھی خوش اور مطمئین ہیں۔
TagsShowbiz News Urdu
ذریعہ: Al Qamar Online
پڑھیں:
جرمن چانسلر کی ترکی کو یورپی یونین کا حصہ بنانے کی خواہش
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
انقرہ: جرمنی کے چانسلر فریڈرک مرز نے کہا ہے کہ برلن چاہتا ہے کہ ترکی کو یورپی یونین میں شامل کیا جائے کیونکہ عالمی سیاست کے موجودہ منظرنامے میں ترکی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق ترک صدر رجب طیب اردوان کے ساتھ ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے جرمن چانسلر نے کہاکہ انہوں نے صدر اردوان کو بتایا ہے کہ وہ یورپی سطح پر ترکی کے ساتھ اسٹریٹجک ڈائیلاگ کا آغاز چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں کوپن ہیگن معیارات پر بھی بات ہوئی ہے، ہم ایک نئے جغرافیائی سیاسی دور میں داخل ہو چکے ہیں، جہاں بڑی طاقتیں عالمی سیاست کی سمت طے کر رہی ہیں، ایسے میں یورپ کو ترکی کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید گہرا کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ترکی تمام خارجہ و سیکیورٹی امور میں ایک اہم فریق ہے اور جرمنی اس کے ساتھ سیکیورٹی پالیسی کے میدان میں قریبی تعاون کو فروغ دینا چاہتا ہے، مشرقِ وسطیٰ میں یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ بندی کی پیش رفت مثبت اشارہ ہے اور پہلی بار پائیدار امن کی امید پیدا ہوئی ہے۔
انہوں نے غزہ میں قیامِ امن کے لیے ترکی، قطر، مصر اور امریکا کے کردار کو سراہا تے ہوئے کہا کہ یہ عمل ان ممالک کے بغیر ممکن نہیں تھا، جرمنی اس امن عمل کو برقرار رکھنے کے لیے ہر ممکن کردار ادا کرے گا۔ انہوں نے تصدیق کی کہ جرمن افسران کو پہلی بار اسرائیل کے جنوبی حصے میں ایک سول-ملٹری سینٹر میں تعینات کیا گیا ہے تاکہ انسانی امداد کی فراہمی میں بہتری لائی جا سکے۔
انہوں نے زور دیا کہ غزہ میں بین الاقوامی سیکیورٹی موجودگی اور حماس کے بغیر گورننس سسٹم قائم کیا جانا ضروری ہے۔
مرز نے کہا کہ “اسرائیل کی جانب سے 7 اکتوبر 2023 کے بعد جو ردعمل آیا، وہ اس کا حقِ دفاع ہے، اور امید ظاہر کی کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے کے تحت یہ عمل پائیدار امن کی راہ ہموار کرے گا۔
ترک صدر اردوان نے اس موقع پر کہا کہ ماس کے پاس نہ بم ہیں، نہ ایٹمی ہتھیار، مگر اسرائیل ان ہتھیاروں سے غزہ کو نشانہ بنا رہا ہے، جرمنی کو کیا یہ سب نظر نہیں آرہا،چانسلر مرز نے ترکی کی جانب سے یورو فائٹر ٹائیفون طیارے خریدنے کے فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ طیارے ہماری مشترکہ سیکیورٹی کے لیے اہم کردار ادا کریں گے، اور یہ تعاون دفاعی و صنعتی شعبے میں نئے مواقع پیدا کرے گا، دونوں ممالک نے ٹرانسپورٹ، ریلویز اور توانائی کے شعبوں میں تعاون بڑھانے پر بھی اتفاق کیا ہے۔
انہوں نے مزی کہاکہ ہم نیٹو اتحادی ہیں اور روس کی توسیع پسندانہ پالیسی یورپ و اٹلانٹک خطے کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے، اس لیے نیٹو کی متفقہ حکمتِ عملی پر سختی سے عمل ضروری ہے، ترکی اور جرمنی دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ یوکرین میں جنگ جلد ختم ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ روس کے منجمد اثاثوں سے یوکرین کو ہتھیار فراہم کرنے پر پیش رفت ہو رہی ہے اور یورپی یونین و امریکا اس ضمن میں مشترکہ پابندیاں عائد کرنے پر غور کر رہے ہیں۔
ایک سوال پر مرز نے کہا کہ جرمنی اور یورپ میں اسلاموفوبیا اور نسل پرستی کے خلاف بھرپور جدوجہد کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جرمنی ایک آزاد اور کھلا معاشرہ ہے جہاں مسیحی اور مسلمان دونوں آئین کے تحت برابر تحفظ رکھتے ہیں۔ کوئی بھی شخص مذہب یا نسل کی بنیاد پر امتیاز کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔