طلاق کی افواہوں کے دوران ایشوریا رائے بچن کی والدہ سے ملاقات کی اصل وجہ سامنے آگئی
اشاعت کی تاریخ: 17th, September 2025 GMT
ممبئی(شوبز ڈیسک) گزشتہ برس بالی وڈ کے مقبول جوڑے ایشوریا رائے بچن اور ابھیشیک بچن کی طلاق کی خبروں نے شوبز دنیا میں زبردست ہلچل مچادی تھی۔
میڈیا رپورٹس اور سوشل میڈیا پر گردش کرتی افواہوں نے نہ صرف مداحوں کو تشویش میں مبتلا کیا بلکہ ان کی ازدواجی زندگی پر کئی سوالیہ نشان بھی لگا دیے۔
تاہم وقت کے ساتھ ساتھ مختلف تقریبات، ایوارڈ شوز اور عوامی مواقع پر دونوں کو ایک ساتھ دیکھنے کے بعد یہ افواہیں بتدریج دم توڑ گئیں۔ دلچسپ بات یہ رہی کہ اس تمام شور شرابے کے باوجود نہ ایشوریا اور نہ ہی ابھیشیک نے کبھی اس موضوع پر کوئی وضاحت یا ردعمل دیا اور مکمل خاموشی اختیار کیے رکھی۔
اب معروف ایڈورٹائزنگ فلم میکر پرہلا د ککڑ، جو ایشوریا کی والدہ ورِندا رائے کے ساتھ اسی عمارت میں رہ چکے ہیں، نے اس معاملے پر لب کشائی کی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایشوریا کا اکثر اپنی والدہ کے گھر آنا محض خاندانی وابستگی اور اطمینان کی خاطر تھا، اور اس کا ان کے اور ابھیشیک کے تعلقات سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
ہندوستان ڈاٹ کام کے مطابق پرہلا د ککڑ نے وِکی لالوانی کے یوٹیوب چینل پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ایشوریا رائے کی والدہ ورندا رائے کی عمارت میں ہی رہائش پذیر ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایشوریا وہاں کتنا وقت گزارتی ہیں۔ ان کے مطابق، ایشوریا اکثر اپنی والدہ کی عیادت کے لیے وہاں آتی ہیں کیونکہ ان کی طبیعت اکثر ناساز رہتی ہے۔
ان کے مطابق، ایشوریا اکثر اپنی والدہ کی عیادت کے لیے وہاں آتی ہیں کیونکہ ان کی طبیعت اکثر ناساز رہتی ہے۔ جب ان کی بیٹی اسکول میں ہوتی ہے تو وہ اس دوران اپنی والدہ کے ساتھ وقت گزارتی ہیں اور پھر بیٹی کو اسکول سے لینے چلی جاتی ہیں۔ پرہلا د کے بقول، ایشوریا اپنی والدہ کے نہایت قریب ہیں اور ان کی صحت کے حوالے سے بہت فکرمند بھی رہتی ہیں۔
پرہلا د ککڑ سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا ایشوریا کی ساس جیا بچن اور نند شویتا بچن کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات کے مسائل کی وجہ سے وہ طلاق پر غور کر رہی تھیں تو انہوں نے ان خبروں کو سراسر بے بنیاد قرار دیا۔
انہوں نے واضح کیا کہ ایشوریا آج بھی بچن خاندان کی باوقار بہو ہیں اور گھر کی ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے نبھا رہی ہیں۔
ان کے مطابق، ’لوگوں نے یہ سوچ لیا تھا کہ وہ شادی ختم کر کے ماں کے گھر منتقل ہو چکی ہیں، حالانکہ حقیقت میں وہ صرف چند گھنٹے اپنی والدہ کے ساتھ گزارتی تھیں جب ان کی بیٹی اسکول میں ہوتی۔‘
پرہلا د ککڑ نے مزید کہا کہ اگر غور کیا جائے تو نہ ابھیشیک اور نہ ہی ایشوریا نے ان تمام خبروں پر کبھی کوئی تبصرہ کیا۔ ان کے بقول، ’جب کوئی شخص باوقار انداز اختیار کرتا ہے تو اسے بار بار وضاحتیں دینے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ خاموشی اکثر ان لوگوں کو کھٹکتی ہے جو شور کے عادی ہوتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ایشوریا نے ہمیشہ اپنی عزت اور وقار کو مقدم رکھا ہے، اور یہی رویہ بعض صحافیوں کو کھٹکتاہے کیونکہ انہیں سنسنی خیز بیانات اور تنازعات درکار ہوتے ہیں جو ایشوریا کبھی نہیں دیتیں۔
واضح رہے کہ ایشوریا اور ابھیشیک کی ازدواجی زندگی سے متعلق افواہیں صرف قیاس آرائیاں تھیں، جن کی حقیقت میں کوئی بنیاد نہیں۔ دونوں نہ صرف اپنے خاندان بلکہ اپنی ذاتی ذمہ داریوں کو بھی خاموشی اور وقار کے ساتھ نبھا رہے ہیں اور یہی ان کی کامیاب شادی کا اصل راز ہے۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: اپنی والدہ کے کہ ایشوریا کے مطابق کے ساتھ ہیں اور
پڑھیں:
لاڈلا بیٹا شادی کے بعد ’’کھٹکنے‘‘ کیوں لگتا ہے؟
وہ تمام لوگ جو اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد ہیں، یقیناً ان کا جواب ہاں میں ہوگا۔ آپ کے ذہن میں یہ سوال کلبلا سکتا ہے کہ اکلوتے کےلیے ’’سب‘‘ کا لفظ گرامر کے لحاظ سے غلط ہے۔ آگے جو کچھ غلط آنا ہے تو اس کے مقابلے میں اسے ناقابل اعتنا سمجھ کر آگے چلتے ہیں۔
جو لوگ دو بھائی یا ایک بھائی ایک بہن یا دو بہنیں ہیں، ہوسکتا ہے کہ ان میں سے کچھ کا جواب ہاں میں اور کچھ کا نہ بھی ہوسکتا ہے مگر وہ لوگ جو تین یا تین سے زائد بھائی یا بہنیں ہیں، یقیناً ان میں سے اکثریت کا جواب ’’نہیں‘‘ میں ہوگا۔
میں عموماً اپنی تربیتی نشستوں میں شرکا سے یہ سوال کرتا ہوں کہ آپ بھائی بہنوں میں والد یا والدہ کا پسندیدہ بچہ کون ہے؟ لوگوں کے جواب سے پتہ چلتا ہے کہ عموماً والد کی پسندیدہ اولاد کوئی بہن ہوتی ہے اور والدہ کی پسند کوئی بڑا یا چھوٹا بھائی ہوتا ہے اور جو خود پسندیدہ ہوتے ہیں وہ شرماتے ہوئے اس کا اقرار کرلیتے ہیں۔
والد کی پسند عموماً مستقل ہوتی ہے اور بیٹی کی شادی ہونے کے بعد بھی جو پہلے پسندیدہ ہوتی ہے وہی رہتی ہے لیکن والدہ کی پسند میں تغیر آتا ہے اور یہی ہماری آج کی تحریر کا اصل موضوع ہے۔
والدہ کی پسند عموماً کوئی نہ کوئی بیٹا ہوتا ہے جس کو گھر میں سب سے زیادہ لاڈ پیار ملتا ہے۔ کھانے پینے میں اس کی پسند کا ترجیحی بنیادوں پر خیال رکھا جاتا ہے اور یہ سب کچھ اس وقت تک تواتر سے جاری رہتا ہے جب تک اس کی شادی نہیں ہوجاتی۔ شادی چاہے وہ اپنی پسند سے کرے یا والدہ کی پسند سے، اب وہ اس مقام پر مستقل فائز نہیں رہ سکتا۔ بس یوں سمجھ لیجیے اور میں یہ بات مبالغہ آرائی سے لکھ رہا ہوں کہ پہلے سب گھر والے مل کر اس کےلیے دلہن لاتے ہیں اور پھر سب مل کر یہ چاہتے ہیں کہ بس اب دلہا اور دلہن خوش نہ رہیں۔
شادی سے پہلے والدہ کو بیٹی کی شکل میں ذمے داری نظر آتی ہے اور شادی کے بعد بیٹی میں سہیلی بلکہ بیٹے اور بہو کے خلاف کسی بھی قسم کی محاذ آرائی میں ایک بااعتماد شریک اور ساتھی نظر آتی ہے۔
شادی کے بعد بیٹا اگر گھر کے کام کاج میں اپنی بیوی کا ہاتھ بٹائے تو زن مرید اور اگر یہی سب کچھ داماد کرے تو کہا جاتا ہے کہ میاں بیوی میں کیا خوب ہم آہنگی ہے اور اللہ ایسے داماد سب کو دیں۔ مگر خود کے بیٹے پر ایسا داماد بننے کی پابندی تا دم مرگ برقرار رہتی ہے۔
اگر بیٹا معاشی لحاظ سے داماد سے بہتر ہو تو یہ بات بھی وجہ تنازعہ بن جاتی ہے اور اب بیٹے سے یہ امید بلکہ حکم دیا جاتا ہے کہ وہ جو کچھ اپنے بیوی بچوں کےلیے کرے ایسا ہی سب کچھ اپنی بہن اور اس کے بچوں کےلیے بھی کرے۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو پھر اماں نہ صرف اس کو ناخلف قرار دیتی ہیں اور حالات اپنے ہاتھ میں لے کر بیٹی کے گھر چیزیں پہنچانا شروع کردیتی ہیں کہ جس سے گھر کا ماحول کشیدہ ہوتے ہوئے جنگ و جدل کا میدان بن جاتا یے۔ تمام خاندان میں بہو اور اس کے بچوں جو کہ دراصل ان کے اپنے پوتے پوتیاں ہوتے ہیں، کی ایک منفی تصویر بنا کر پیش کی جاتی ہے۔
اس حوالے سے ایک اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ اب ڈراموں میں ایسے کردار کھل کر دکھائے جارہے ہیں اور عقیدت اور احترام کو پس پشت ڈال کر حقیقت دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام وصف تھوڑے تھوڑے ہمیں بھی دیے ہیں جیسے محبت کرنا، خوش ہونا، انعام دینا، غصہ کرنا وغیرہ وغیرہ۔ میری ذاتی رائے میں جس وصف کا سب سے زیادہ حساب دینا ہوگا اور جس پر ہماری سب سے زیادہ پکڑ ہوگی، وہ عدل ہوگا۔ اللہ چاہتا ہے کہ ہم اپنے ہر رشتے میں عدل کریں چاہے اولاد کا ہو یا والدین کا اور اگر اس میں ہم نے ظلم کیا تو اس کی پکڑ بہت سخت ہوگی۔
والدین بالخصوص والدہ کی اس جانبدارانہ رویے کی وجہ مشترکہ خاندانی نظام ٹوٹ رہا ہے اور بدقسمتی سے بزرگوں کو تنہائی کا کرب سہنا پڑتا ہے جو کہ خود ان کا اپنا بویا ہوا ہوتا ہے۔ یہ بات نہیں کہ تمام غلطیاں والدین ہی کی ہوتی ہیں، کوئی بھی انتہا پسند یا جانبدارانہ رویہ غلط ہے، چاہے کسی بھی جانب سے ہو۔
آج جب ہر موضوع پر بات ہورہی ہے تو میں نے سوچا کہ اس حساس موضوع پر بھی بات کر لیتے ہیں جو عموماً تمام گھروں کی کہانی ہے لیکن کوئی بھی اس پر بات کرنے کی ہمت نہیں کرتا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کو میری یہ تحریر بیٹے یا بہو کی بے جا حمایت محسوس ہوگی لیکن اگر اپنے تمام جذبات کو بالائے طاق رکھ کر اگر آپ اس پر سوچیں گے اور اپنے اردگرد نظر دوڑائیں گے تو آپ کو یہ کہانیاں کھلی آنکھوں نظر آنے لگیں گی۔
اس دفعہ آخر میں کوئی کہانی نہیں، بس ایک مضمون کا حوالہ ہے۔ ’’میبل اور میں‘‘ میں پطرس نے ایک جگہ لکھا ہے کہ وہ مردوں سے ضرور داد چاہیں گے بالکل اسی طرح میں اپنی اس تحریر کے مظلوم طبقے یعنی بہو اور بیٹے سے اپنی حمایت ضرور چاہوں گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔