پنجابی کا کھلا پن، سیاسی و سماجی طنز، برجستگی، روانی حقیقی سادگی کے احساس میں لپٹے ان گنت معنی سے بھرپور شعر کہنے والے استاد دامن کا اصلی نام چراغ دین عرف چاغو، والد کا نام میراں بخش، والدہ کا نام کریم بی بی ہے ۔ آپ کی قبر کے کتبے پر تاریخ پیدائش یکم جنوری بروز ہفتہ 1910درج ہے ۔

آپ اندرون لاہور چوک مستی میں پیدا ہوئے، تیرہ سال کی عمر میں آپ کا محنتی غریب درزی گھرانہ چوک مستی سے باغبان پورہ منتقل ہو گیا۔ آپ کے والد میراں بخش لوہاری دروازے کے باہر ایک دوکان پر درزی کا کام کرتے تھے ۔ استاد دامن کا ایک بھائی اور ایک بہن تھی جو آپ سے عمر میں بڑے تھے ۔ استاد دامن کا رنگ گورا، گرج دار آواز، سر کے بال استرے سے صاف کروا کے رکھتے ، دوتہی کرتہ نیچے سلوکہ کندھے پہ چادر، سر پر پگڑی نما پٹکا تن زیب رکھتے تھے ۔

بچپن سے ہی پڑھائی کے شوقین ساندھادیو سماج سکول لاہور سے میٹرک کر کے دیال سنگھ کالج میں داخلہ لیا مگر چھ ماہ بعد ہی والد کی بیماری اور گھریلوحالات کے پیش نظرتعلیم جاری نہ رکھ سکے، قرآن پاک حفظ کیا ، والد کی خواہش و کوشش تھی کہ ان کا بیٹا ان کی زندگی میںہی سلائی کا سارا ہنر سیکھ کر روزی روٹی کمانے کے قابل ہو جائے ، والد کی تکمیل خواہش اور ضروریات زندگی کے وسائل بڑھانے کے لیے آپ نے استاد وہاب نامی ٹیلر کی شاگردی میں کوٹ پتلون ، اچکن ، شلوار، قیمض بنانے میں کمال مہارت حاصل کی، اُس وقت شلوار قمیض کی سلائی دس آنے ہوتی تھی مگر استاد دامن دس روپے لیتے تھے کیونکہ وہ نلکی کے دھاگے کی بجائے کپڑے کے اندر سے دھاگہ نکال کر سوٹ سلائی کرتے تھے جس کی وجہ سے سلائی نظر نہیں آتی تھی ۔ آزادی کی بڑی بڑی تحریکوں کے راہنما لیڈرآپ سے اپنے کپڑے سلواتے تھے۔

آپ نے اپنے دور میں تجویز خطی کے بڑے شاعر باؤ ہمدم کی شاگردی میں اپنے خیالوں کو شاعری میں مزید نکھارا، مگر استاد دامن پیدائشی شاعر تھے انہوں نے دس برس کی عمر میں شعر کہنا شروع کر دئیے ۔آپ کے والد میراں بخش خود صوفیانہ شاعری کے دیوانے تھے جنہیں ہیر وارث شاہ اور فضل شاہ کی سوہنی زبانی یاد تھی جبکہ استاد دامن بھی ہیر وارث شاہ کی بحر میں لکھتے۔ پہلا مشاعرہ پندرہ سالہ عمر میں باغبان پورہ لاہور میں پڑھا جس کی صدارت استاد دامن سے اپنے کپڑے سلوانے والے کانگرس رہنما میاں افتخار الدین نے کی ۔اس موقع پر سردار گیانی گرمکھ سنگھ مسافر نے صدر مشاعرہ سے کہا کہ استاد دامن نے بہت کمال شعر پڑھے ہیں ۔

انہیں سو روپیہ انعام دیا جائے پہلے مشاعرہ میںہی نامور استاد شاعروں میں اپنا آپ منوانا اور انعام پانا استاد دامن کے فن شاعری کا قد بتاتا ہے ۔ آپ نے عطا اللہ شاہ بخاری ؒ جیسے لوگوں کی موجودگی میں سیاسی ،سماجی اور مذہبی جلسوں میں اپنے کلام پڑھے اور عوام کے دلوں کی آواز بن کر اُبھرتے چلے گئے ۔ پنجابی کے علاوہ کسی اور زبان میں شعر نہیں کہے جبکہ وہ فارسی، عربی، روسی، اردو، ہندی، انگلش اور سنسکرت زبانوں پر بھی عبور رکھتے تھے۔ استاد دامن نے شاعری کی فنی خوبیوں پر قدرت رکھنے کی بدولت اہل علم و فن سے استاد کا خطاب حاصل کیا ۔ استاد دامن غریبوں، مظلوموں ،مزدروں، کسانوں جیسے پسے ہوئے طبقوںکے لیے آواز اُٹھانے اور استحصالی طبقوں کی مزحمت کرنے والے بااثر شاعرتھے ۔

میرے ہنجواں دا پانی پی پی کے

ہری بھری اے بنجر زمین ہو جائے

ایدے منہ تے سرکھی چاہی دی اے

میرے لہو توں پاوئیں رنگین ہو جائے

استاد دامن کی سب سے بڑی خوبی ان کی فی البدیہ گوئی تھی، وہ موقعوں کی مناسبت سے چند لمحوں میں اشعار کی مالا پرو دیتے تھے، آزادی کے کچھ عرصے بعد انہوں نے دہلی میں منعقد مشاعرے میں شرکت کر کے یہ نظم پڑھی۔

ایناں آزادیاں ہتھوں برباد ہونا

ہوئے تسی وی او ہوئے ایسی وی آں

کج امید اے زندگی مل جائے گی

موئے تسی وی او موئے اسی وی آں

جیوندی جان ای موت دے منہ اندر

ڈھوئے تسی وی او ڈھوئے اسی وی آں

جاگن والیا رج کے لٹیا اے

سوئے تسی وی او سوئے اسی وی آں

لالی اکھیاں دی پئی دسدی اے

روئے تسی وی او روئے اسی وی آں

انسانی جان پر آزادی کے نام سے ٹوٹنے والی قیامت کے شکار حاضرین مشاعرہ بے اختیار رونے لگے، مشاعرے میںموجودبھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو بھی آبدیدہ ہو گئے ، انہوں نے استاد دامن کو آزادی کا شاعر کے خطاب سے نوازتے ہوئے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ مستقل طور پر بھارت میں قیام پذیر ہو جائیں مگر انہوں نے جواب دیا کہ میرا وطن پاکستان ہے ، میں لاہور میں ہی رہو ں گا، بیشک جیل میں ہی کیوں نہ رہوں، 1962میں بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو لاہور آئے۔

 ائرپورٹ پر اترے تو انہوں نے پاکستانی گورنر اختر حسین سے کہا کہ میں استاد دامن سے ملنا چاہتا ہوں مگر ادب کی دولت سے ناآشنا گورنر اختر حسین نے اپنے لوگوں سے پوچھا کہ کون ہے استاد دامن؟اس درویش سے ناواقف حکمرانوں کی موجودگی کے باوجود اس محب وطن شاعر نے ساری زندگی غربت و افلاس میں گزارنے کے باوجود پاکستان کے ہی گیت گائے، اس پاک دھرتی کو نفرتوں بے ایمانیوں عیاریوں سے پاک کرنے کے لیے عوام میںاپنی شاعری کے زریعے انسانی حقوق کی صدائیں بلند کیں اور امن و محبت کے پھول نچھاور کرتے رہے اور ساتھ ساتھ اُن برائیوں کی بھی مزاحمت کرتے رہے جو عوامی مفاد کے نقصان میں تھیں، استاد دامن نے حکمرانوں کی کوتاہیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے بھرپور تنقید کے ساتھ عوامی شعور کو بیدا ر کیا، عوامی حقوق کے کھوکھلے نعروں اور ملکی زوال پہ لکھتے ہیں ۔

کھائی جاؤ کھائی جاؤ بھیت کنھے کھولنے

وچوں وچ کھائی جاؤ اُتوں رولا پائی جاؤ

انا مارے انی نوں کسن وجے تھمی نوں

جنی تواتھوں انی پیندی اُنی انی پائی جاؤ

کھائی جاؤ بھئی کھائی جاؤ بھیت کنھے کھولنا

 لڑکی والوں پر رسم و رواج اور بارات کے کھانے کا بوجھ ڈالنے کی مخالفت رکھنے والے استاد دامن نے1949میں ایک قطرین نامی لڑکی سے سادگی و پوشیدگی میںشادی کی جس سے ایک بیٹا بھی تھا جو پیدائش کے بعد مر گیا اور بیوی کے پیٹ میں رسولی تھی جس کا علاج کروایا مگر وہ بچ نہ سکی۔ استاد دامن نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ کوئی بھی انسان تنہائی کی زندگی نہیں گزارنا چاہتا مگر حالات و واقعات اسے اکیلے پن پر مجبور کر دیتے ہیں، میری پہلی شادی قدرت کو منظور نہ تھی اور دوسری شادی میرے نزدیک سودے بازی ہے۔ 1977کے فسادات میں ان کی دُکان کو آگ لگا دی گئی جس کے سبب مشکل مالی بحران کا شکار ہو کر باغبان پورہ سے بادشاہی مسجد کے قریب ٹیکسالی گیٹ میں واقع اُس حجرے میں منتقل ہو گئے جس میں اکبر بادشاہ کے زمانے میں حضرت شاہ حسین ؒبھی مقیم رہے، پھر تادم مرگ یہی حجرہ استاد دامن کا مسکن رہا ۔

دامن دی بیٹھک نامی اس حجرے میںہند و پاک کے نامور ادیب ، گلوکار، اداکار اور سیاسی وسماجی احباب شاعر فیض احمد فیض، صوفی تبسم، حبیب جالب، امجد اسلام امجد، منو بھائی، ملکہ ترنم نور جہاں، ادکار محمد علی اور فلمسٹار علاؤ الدین جیسی عام و خاص قد آورشخصیات سیاسی ادبی فکری گفتگو کے لیے آیا کرتیں جن کے لیے استاد دامن مختلف ذائقہ دار خوراکیں اپنے ہاتھوں سے بنا کر پیش کیا کرتے، ٹیکسالی گیٹ کے اس حجرے میں استاد دامن 1950سے لیکر 1984تک رہائش پذیر رہے، یہیں سے ہی استاد دامن نے عوام کے حالات کی نبض پر ہاتھ رکھ کر حکومتی بیماریوں کی نشاندہی کی، استاد دامن کے سارے اشعار اپنی تاثیر کی وجہ سے ضرب المثل کا درجہ اختیار کر چکے ہیں۔

استاد دامن نے زندگی اور معاشرے کا مطالعہ کھلی آنکھوں سے کیا، ان کے تجربات کی سلطنت انتہائی وسیع تھی، وہ کمال خوش اصلوبی سے عمومی سطح کے تجربوں کو بیان کرتے، دانائی کے موتی بکھیرتے چلے جاتے، ایک سچا شاعر ادیب ہر دور میں اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتا ہوا انجام کے خطرے سے بے خوف رہتا ہے ۔ استاد دامن کے بقول بڑے لکھاری کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ ہر قسم کی غلامی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرے ۔ استاد دامن کے شعور میں جوں جوں پختگی آتی گئی اُن کا ذہن دنیا سماج کائنات کے مسائل پر سفر کرتا گیا، وہ پسے ہوئے غریبوں پہ گزرنے والے حالات یوں بیان کرتے ہیں کہ

ایتھے انقلاب آوے گا ضرور

ایتھے انقلاب آوے گا ضرور

ساڈے ہتھاں دیاں ریکھاں

 پیراں نال میٹن والیو

او دو دو ہتھی

 دولتاں نوں اج سمیٹن والیو

او لٹے پٹے ہویاں دی

 صف نوں سمیٹن والیو

کر لووکوٹھیاں وچ چاننے

کھو کے غریباں دا نور

ایتھے انقلاب آوے گا ضرور

 ایتھے انقلاب آوے گا ضرور

 استاد دامن نے جرمن کمپنی جان ولیم ٹیلر سے سلائی کٹائی کا ڈپلومہ حاصل کر کے باغبان پورہ لاہور میں دامن ٹیلرنگ ہاؤس نامی اپنی دوکان کھولی، یہ درزی خانہ استاد دامن کی مادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے کافی تھا مگر روحانی خوشی شاعری سے ہی حاصل ہوتی اور دیکھتے ہی دیکھتے استاد دامن کا درزی خانہ شاعری کا شوق رکھنے والوں کے لیے ایک درس گاہ کا روپ دھار گیا۔

استاد دامن کی قلمی شخصیت پرفیض احمد فیض کہتے ہیں کہ میں پنجابی شاعری اس لیے نہیں کرتا کہ پنجابی میں شاہ حسین ؒ ، وارث شاہؒ اور بلھے شاہؒ کے بعد استاد دامن جیسے شاعر موجود ہیں اس کے علاوہ فیض صاحب نے استاد دامن کو پنجابی شاعری کا حبیب جالب بھی کہا۔ قیام پاکستان کے وقت جب شرپسندوں نے استاد دامن کی دُکان لائبریری اور کتابوں کو آگ لگا دی تھی جس میں ان کی ذاتی تحریریں اور ہیر کا مسودہ بھی شامل تھا جل کر راکھ ہو گئے تو انہوں نے اپنی قلمی کاوشیں کاغذ کے ٹکڑوں پہ لکھنے کی بجائے عوام کو سونپنی شروع کر دیں

اسٹیجاں تے ہوئیے سکندر ہوئی دا اے

اسٹیجوں اتر کے قلندر ہوئی دا اے

الجھے جے دامن حکومت کسے نال

بس اینا ای ہوندا اندر ہوئی دا اے

ایوبی بھٹو اور ضیا دور میں قید کاٹنے والے استاد دامن نے بھٹو دور میں بھی حکومت کی پالیسیوں پر تنقیدی نظمیں لکھیں جب ایک طرف بھارت سے سو سال جنگ کرنے کی بات کرنے والے بھٹو صاحب اندرا گاندھی سے ملنے شملہ گئے تو اس پر استاد دامن نے بھٹو صاحب کو مخاطب کر کے یہ نظم لکھی

ایہہ کیہ کری جانا ایں ایہہ کہ کری جانا ایں

کدی چین جانا ایں کدی روس جانا ایں

کدی شملے جانا ایں کدی مری جانا ایں

جتھے جانا ایں بن کے جلوس جانا ایں

دھسا دھس جانا دھسا دھوس جانا ایں

لائی کھیس جانا اے کھچی دری جانا ایں

ایہہ کی کری جانا ایں ایہہ کی کری جانا ایں

 یہ نظم جب بہت مشہور ہو گئی تو استاد دامن کو جیل میں ڈال دیا گیا، فیض صاحب کو یقین ہی نہ آئے کہ کوئی شخص استاد دامن کو جیل میں ڈال سکتا ہے ، استاد دامن پر جھوٹا الزام لگا کر مقدمہ بنایا گیا کہ ان کے پاس سے ریوالور بم برآمد ہوئے ہیں، جب مجسٹریٹ نے ان کو یہ بتایا تو انہوں نے کہا کہ میرے حجرے کا تو دروازہ چھوٹا تھا ورنہ وہاں سے تو ٹینک نکلنے چاہیئں تھے جس پر استاد دامن نے یہ نظم لکھی کہ

چوکی تھانے حوالات کچہریاں نیں

کتھے کتھے جا کے میرے کم نکلے

نکلے کوئی میدان وچ نکل سکدا اے

سینہ ٹھوک کے تے جم جم نکلے

نکلے پر کوئی مینوں دبا سکدا اے

پاویں کوئی لے کے دم خم نکلے

 تے دامن شاعر دے قبضے وچ ویکھیا جے

دو ۔ ریوالور تے دستی بم نکلے

استاد دامن کی مشہور زمانہ کتاب دامن دے موتی ان کی باکمال شاعری کا لطف اندوز مجموعہ ہے جو اپنے پڑھنے والوں کو ان کے دور کے حالات و واقعات سے ملوانے کا سچا آئینہ ہے ۔ استاد دامن فیض اور جالب کے چاہنے والوں میں سے تھے۔

80 کی دہائی میں جب ان کے منہ بولے بیٹے فلمسٹار علاؤدین کا انتقال ہوا تو استاد دامن کی جیسے اپنی روح پرواز کر گئی ہو۔ کبھی بستر کبھی اسپتال کبھی گھر، کمزور پڑتی صحت کے ان ایام میںکچھ ہی عرصے بعد فیض احمد فیض صاحب بھی خالق حقیقی سے جا ملے، استاد دامن چاہنے والوں کے روکنے کے باوجود اپنے قلمی یار کے جنازے میں شریک ہوئے، جہاں لوگوں نے پہلی بار استاد دامن کو دھاڑیں مار کر روتے ہوئے دیکھا، ایسے معلوم ہوتا تھاگویا تقسیم ہند سے لیکر آج تک ٹوٹنے والی ساری قیامتوں کی اذیت فیض صاحب کے رخصت ہونے کے بعد ہی ان تک آئی ہے، فیض صاحب کا انتقال 20 نومبر 1984کو ہوا اور اُسی شام استاد دامن کی ہمت بھی جواب دے گئی، ایسے ٹوٹے کہ صرف تیرہ دن بعد ہی بروز سوموار3 دسمبر 1984کو فیض صاحب کے پیچھے ان کی رُوح بھی آسمانی سفر پہ روانہ ہو گئی۔ استاد دامن کی وصیت کے مطابق قبرستان مادھو لال حسینؒ مین گیٹ لاہور میں شاہ حسین ؒ کے مزار کے سائے میں دفن کیا گیا۔

ماری سرسری نظر جہان اندر

تے زندگی ورق اُتھلیا میں

دامن ملیا نہ کوئی رفیق مینوں

ماری کفن دی بُکل تے چلیا میں

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: استاد دامن کو استاد دامن نے استاد دامن کا استاد دامن کی استاد دامن کے کری جانا ایں جانا ایں کدی باغبان پورہ اسی وی ا ں لاہور میں کھائی جاؤ تسی وی او نے استاد انہوں نے شاعری کا فیض صاحب کے لیے ا یہ نظم کہا کہ

پڑھیں:

فلسفۂ قربانی

انسان کی فطری و بنیادی خوبیوں میں سے ایک اہم ترین خصلت ایثار و قربانی ہے اور یہ وہ عظیم وصف ہے، جو انسان کو حیوان سے ممتاز بناتا ہے، ورنہ تو خود غرض اور مفاد پرست انسان اور ایک حیوان کے درمیان کوئی جوہری فرق کیا باقی رہ جاتا ہے ۔۔؟

ازروئے قرآن حکیم تو ایسے انسان حیوانات اور درندوں سے بھی بدتر ہیں، جنہیں خدا نے فطری طور پر اجتماعی شعور ودیعت فرمایا مگر وہ محض اپنی ذات اور خاندان کے مفاد تک ہی محدود اور محصور رہے۔ آج سے قربانی کے عظیم ایام شروع ہو رہے ہیں۔ لیکن بنیادی مسئلہ حسب معمول ابھی تک مبہم اور غیر واضح ہے کہ یہ تمام تر مشقّت آخر کس مقصد کے لیے ہے ۔۔۔ ؟

کہنے اور سننے کی حد تک تو سبھی کا ماننا ہے کہ یہ عمل خدا کی خوش نُودی کے لیے سرانجام دیا جاتا ہے لیکن سماج اور معاشرے میں مطلوبہ نتائج پیدا نہ ہونے کے باعث لگتا یوں ہے کہ یہ عظیم الشان سنتِ ابراہیمیؑ اب محض ایک رسم اور دکھاوا بن چکی ہے۔

امام انسانیت سیّدنا ابراہیمؑ نے خدا کی خوش نُودی اور خلقِ خدا کی بہبود کے لیے آتشِ نمرود میں چھلانگ لگانے سے بھی اعراض نہ فرمایا اور پھر اپنے لاڈلے صاحب زادے سیّدنا اسمٰعیلؑ اور سیّدہ ہاجرہ کو خدا کے حکم سے بے آب و گیاہ صحرا میں چھوڑ دیا۔ بعدازاں ایک اور سخت ترین امتحان اپنے لاڈلے بیٹے کو قربان کر دینے کے حکمِ خداوندی سے شروع ہُوا تو آپؑ کی ثابت قدمی و استقلال سے دُنبے کو ذبح کردینے پر منتج ہوگیا۔ اپنے چنیدہ بندے کی اطاعت شعاری و وفا کیشی کی یہ عظیم ادا خالق ارض و سماء کو اس قدر محبوب ٹھہری کہ تب سے ابد تک قربانی کی یہ سنّت ملّتِ ابراہیمی کا شعار، سنگھار اور حسنِ اظہار قرار پائی۔

بعض لوگ جب سطحی نظر سے قربانی کے لیے جانوروں کے ذبح کرنے کا مشاہدہ کرتے ہیں تو انہیں یہ عمل خدا نہ خواستہ خلافِ انسانیت اور ظلم دکھائی دیتا ہے، حالاں کہ عام حالات میں دورانِ سال اس سے کہیں زیادہ جانور اور پرندے انسانی خوراک بنتے ہیں تو اس کا کوئی نوٹس تک نہیں لیا جاتا، دوسرا یہ کہ کائنات کے اندر دیگر مخلوقات کے مقابلے میں انسانی شرف اور مقام کا صحیح ادراک نہ ہونے سے اس طرح کے جدید توّہمات کا پیدا ہونا کوئی اچنبھے کی بات بھی نہیں۔

اسی طرح ہم میں سے بعض مسلمانوں کا اخلاقی زوال اور ہمارے دُہرے معیارات بھی اِس طرز کی غلط فہمیوں اور فکری مغالطوں کی وجہ بنتے ہیں۔ نماز سے لے کر روزہ و قربانی تک تمام عبادات کا اساسی مقصد تقوٰی کا حصول ہے۔ قرآن حکیم سے ہمیں یہ راہ نمائی ملتی ہے کہ خدا تک ان کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون بل کہ اس تک تمہارا تقوٰی پہنچتا ہے۔ آیت کریمہ کا یہ جزو قربانی کے فلسفے اور بنیادی مقصد کو واضح کرنے کے لیے خدائے بزرگ و برتر کا دوٹوک اور حتمی اعلان ہے۔

اب غور فرمائیے کہ بُخل اور حرص و طمع پر مبنی فکر و عمل سے ہماری تمام کوشش رائیگاں چلی جائے تو کس قدر بدنصیبی ہوگی ؟ ’’اپنے رب کے لیے نماز ادا کیجیے اور قربانی کیجیے۔‘‘ اور جب اپنے رب کی خاطر نماز اور قربانی کا اہتمام ہوگا تو یہ اعمال بندوں کے ظاہر و باطن میں وہ انقلاب پیدا کریں گے کہ اگلی آیت کریمہ کے مطابق: ’’تمہارا دشمن ہی ابتر اور ذلیل و رُسوا ہوگا۔‘‘ جب نماز اور قربانی کا عمل بھی موجود ہو لیکن انسانی قلوب اور معاشرتی اسلوب میں تقوٰی و طہارت اور عدل و ایثار ناپید ہو تو پھر یک لمحہ سکوت و سکون سے سوچنا ہوگا کہ قربانی کی عظیم ترین سنّت ابراہیمی کہیں رسمِ محض تو بن کر نہیں رہ گئی ۔۔۔ ؟

خدا کو تو روح بلالی کے بغیر رسمِ اذان اور روح ابراہیمی کے سوا رسم قربانی کی کوئی حاجت اور ضرورت نہیں، وہ تو غنی اور بے نیاز ہے اور اُسے تو ان اعمال سے فقط ہماری اصلاح و فلاح اور ارتقاء مطلوب ہے تاکہ ہم اس کے مقرب و محبوب بن سکیں۔ ہمارے خالق و مالک کو بہ خوبی علم تھا کہ انسان نفع عاجل اور ظاہری مفاد کے حصول میں بے قرار مگر خفیہ و پائیدار فائدے سے بے زار رہتا ہے، سو قربانی کی غایتِ اصل یعنی تقوٰی کو بُھلا کر گوشت اور خون کے بہانے اور بڑھانے سے آگے نہ بڑھ پائے گا۔ یہی تو ایک انسان اور مسلمان کا امتحان ہے کہ وہ پائیدار و ناپائیدار میں سے کس کا انتخاب کرتا ہے ۔۔۔ ؟

سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ جو ’’بندۂ مومن‘‘ اپنی قربانی کے گوشت سے کسی مجبور اور ضرورت مند کو کچھ دینے سے معذور ہے بھلا وہ اپنی جان سے گوشت اور خون کب راہِ خدا میں قربان کرنے کی ہمّت کر سکے گا ۔۔۔ ؟

یاد رہے کہ ہر سال راہ خدا میں جانوروں کا خون بہانا دراصل ایک اعلی ترین نصب العین کی خاطر اپنے جان و مال کی قربانی کے لازوال انسانی جذبے کا اظہار کرنا ہے۔

قرآن حکیم کی ایک آیت کے مفہوم کے مطابق اﷲ تعالٰی نے مومنوں سے ان کی جان و مال کے عوض جنّت کا سودا کر چھوڑا ہے۔ ہماری تمام تر صلاحیتیں اور نعمتیں ہمارے پاس خدا کی امانت ہیں جب کہ دوسری طرف کرۂ ارضی پر آتش نمرودی بھی برابر بھڑکتی ہوئی دامن انسانیت کو خاکستر کیے جا رہی ہے۔

بہ قول ڈاکٹر محمد اقبالؒ

آگ ہے، اولاد ابراہیمؑ ہے، نمرود ہے

کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے

اگر ہماری قربانی ہمارے اندر موجودہ عالمی نمرودی نظام کے خلاف جدوجہد کا داعیہ پیدا نہیں کرتی تو اس کا مطلب ہے کہ ہم روح سے خالی رسمِ قربانی پر تو کاربند ہیں مگر تاحال ظلم و استحصال سے نفرت اور عدل و ایثار سے محبّت ہمارے اندر جاگزیں نہیں ہو سکی۔ المیہ یہ ہے کہ سرمایہ داری نظام سے انسانوں کی اصل فطرت اس قدر مسخ اور تباہ ہوچکی ہے کہ افراد کی اکثریت اپنی ناک سے آگے دیکھنا تک گوارا نہیں کرتی اور حکم رانوں سے لے کر عوام الناس تک کی اکثریت انفرادیت پسندی اور مفاد پرستی کے مرض کا بُری طرح شکار ہو چکے ہیں۔

قربانی کا بنیادی مقصد ہی یہی ہے کہ ہم اپنی انانیت کو اجتماعیت کے اندر فنا کر ڈالیں اور دوسرے انسانوں کی بقاء و ارتقاء کے لیے اپنا تن، من اور دھن وار دیں۔ ابھی ماضی قریب کی معاشرتی و مذہبی روایت یہی تھی کہ قربانی کے گوشت کو تین برابر حصوں میں تقسیم کیا جاتا یعنی ایک محتاج اور غریب طبقے کے لیے، دوسرا عزیز و اقارب اور تیسرا حصہ گھر کے لیے رکھ لیا جاتا، جس میں سے عید کے مہمانوں کی تواضع بھی کی جاتی۔ لیکن اب گزشتہ چند سالوں سے بعض افراد نے سارے گوشت کو گھر میں منجمد کرنے کی گنجائش تک نکال لی ہے، جو درست ہے۔

مگر وطن عزیز میں تو اسّی فی صد آبادی غذائیت کی کمی کا شکار ہے اور گوشت، پھلوں کے بغیر سادہ و یک ساں خوراک پر گزر بسر کرتی ہے۔ نصف آبادی صرف گوشت چکھنے کے لیے سال بھر عیدِ قربان کی منتظر رہتی ہے، ایسے میں دوسروں کو مرعوب کرنے کے لیے منہگے ترین بکروں، گائے اور بیلوں کی نمائش اور قربانی کرکے ذخیرہ کر ڈالنا سنّت ابراہیمیؑ اور شریعت محمدیؐ کی اصل روح سے متصادم ہی ٹھہرے گا۔ جب معاشرے اور سماج میں اکثریت ضرورت مند اور محروم المعیشت طبقے کی ہوگی تو قربانی کے گوشت کو تقسیم کرکے حق داروں تک پہنچانا لازم ٹھہرے گا البتہ اگر معاشرہ خوش حال و ترقی یافتہ ہے تو گوشت کو ذخیرہ کر لینے میں بھی کوئی حرج نہ ہوگا۔

اسی لیے تو قرآن حکیم ہمیں تعلیم دیتا ہے ہم اس کا عملی مظاہرہ کریں کہ میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اُس اﷲ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔ گویا بندۂ خدا تو خدا کی منشاء و رضا میں مکمل فدا و فنا ہوتا ہے اور یہی قربانی کی عظیم الشان سنّت ابراہیمی کا مقصد و مدّعا بھی ہے ورنہ تو سبھی کچھ نمود و دکھاوا ہے۔

عید قرباں پر اپنے ڈیپ فریزر بھرنے سے احتراز کیجیے اور نادار و بے کس خلق خدا کا حصہ کشادہ دلی اور خندہ پیشانی سے ان تک پہنچائیے کہ یہی ایثار و قربانی کا درس اور قربانی کا اصل مقصد و منشاء ہے۔

Tagsپاکستان

متعلقہ مضامین

  • ۔200 یونٹس کے ریٹ کا 201 یونٹ پر یکدم بدل جانا مصیبت ہے، سعد رفیق
  • 200 یونٹس استعمال کے ریٹ کا 201 یونٹ پر یکدم بدل جانا مصیبت ہے
  • وادی نیلم کا علاقہ جو جدید دور میں بھی ہرقسم کی بنیادی سہولیات سے محروم ہے
  • پنجاب اسمبلی میں پیش کیا جانے والا وراثتی بل کیا ہے؟
  • برین ٹیومر کیخلاف عوامی شعور و آگاہی ہی اصل طاقت ہے، مریم نواز
  • برین ٹیومر کیخلاف عوامی شعور و آگاہی ہی اصل طاقت ہے: مریم نواز
  • میر واعظ عمر فاروق کو عیدالاضحیٰ پر مسجد جانے سے روک دیا گیا
  • فلسفۂ قربانی
  • عید کی دعوتیں اُڑائیں لیکن اعتدال کا دامن نہ چھوڑیں: ماہرین کا مشورہ
  • پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک غیر مؤثر ہے، ان کے پاس تیاری ہے نہ عوامی حمایت،رانا ثنا