Express News:
2025-07-26@01:40:02 GMT

عمران کی 10 ماہ سے پہلے رہائی نظر نہیں آرہی، فیصل واوڈا

اشاعت کی تاریخ: 25th, February 2025 GMT

اسلام آباد:

سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا ہے کہ 10 ماہ سے قبل عمران خان رہا ہوتے نظر نہیں آرہے. 

نجی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پوری دنیا میں ریاست سے بڑا کوئی نہیں ہوتا، اسٹیبلشمنٹ کا فوکس بانی پی ٹی آئی نہیں پاکستان ہے. 

عمران خان بھی اسی نرسری سے آئے ہیں، سیاست دان اندر پاؤں اور باہرگریبان پکڑتے ہیں، آٹھ سے دس مہینے بانی جیل سے باہر نظرنہیں آرہے.

 

پی ٹی آئی سمجھوتہ کرکے بیٹھی ہے، حکومتیں آئیں یا جائیں اہم پاکستان ہے، کرکٹ کی کارکردگی کے سوال پر فیصل واوڈا کا کہنا تھا کہ ہماری کرکٹ ٹیم اشتہارات میں چھکے لگاتی اورگراؤنڈ میں اسے گیند نظرنہیں آتی، اسی طرح جمہوریت بھی اشتہارات میں نظرآتی ہے، اصلیت میں سیاستدانوں کو بھی بال نظرنہیں آتی. 

یہ سب لوگ ڈی ایچ اے میں رہنا پسند کرتے ہیں، اس حمام میں سارے ننگے ہیں، سیاستدان بے ایمان، چور اور ڈکٹیٹروں کی طرح پارٹیاں چلاتے ہیں۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: نہیں ا

پڑھیں:

شاہ محمود قریشی کی رہائی ‘مفاہمت یا پھر …

یہ کہا جا رہا ہے کہ سزاؤں کا موسم شروع ہو گیا ہے۔ نو مئی کے مقدمات میں سزاؤں کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ ایک دن میں دو فیصلوں نے ملک کا سیاسی منظر نامہ ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ملک بھر میں نو مئی کے مقدمات کا ٹرائل جاری ہے۔

سپریم کورٹ جلد فیصلوں کا کہہ چکی ہے۔ اور اب سزائیں شروع ہیں۔ لیکن تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی بری بھی ہو گئے ہیں۔ ایک طرف سزائیں ہیں دوسری طرف بریت ہے۔ اس لیے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ بریت اور سزائیں ساتھ ساتھ چل رہی ہیں۔ شاہ محمود قریشی کی بریت نے ملک کے سیاسی منظر نامہ پر بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ انھی سوالات کی وجہ سے شاہ محمود قریشی نے اپنی بریت کے بعد ویڈیو پیغام جاری کیا ہے کہ وہ کل بھی بانی تحریک انصاف کے ساتھ تھے، آج بھی بانی تحریک انصاف کے ساتھ ہیں۔ انھوں نے سائفر میں بانی کا ساتھ دیا ہے۔ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ یہ ویڈیو پیغام انھوں نے ان انگنت شکوک و شبہات کے بعد جاری کیا ہے جو ان کی بریت کے بعد پیدا ہوئے۔ ایک عمومی رائے یہی بن رہی ہے کہ ان کی بریت ان کے اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان مفاہمت کا نتیجہ ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ شاہ محمود قریشی کبھی مزاحمت کی سیاست نہیں کرتے۔ ان کا ماضی گواہ ہے کہ انھوں نے اور ان کے خاندان نے ہمیشہ اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مل کر مفاہمت کی سیاست ہی کی ہے۔ یہ پہلی دفعہ تھا کہ ہم نے ان کو بانی تحریک انصاف کے ساتھ مزاحمت کی سیاست کرتے دیکھا۔ جس پر سب حیران بھی تھے۔ لوگ سوال کر رہے تھے کہ شاہ محمود قریشی کا خاندان تو مفاہمت کی سیاست کی پہچان رکھتا ہے۔ پھر وہ کیسے اسٹبلشمنٹ کے خلاف چل رہے ہیں۔ لیکن اب رائے یہ ہے کہ وہ واپس مفاہمت کی سیاست کی طرف آگئے ہیں۔

یہ درست ہے کہ نو مئی کو شاہ محمود قریشی کراچی میں تھے۔ وہ کسی احتجاج میں شریک نہیں تھے۔ شائد نو مئی کے احتجاج کی تیاری کے لیے جو اجلاس ہوئے وہ ان میں بھی شریک نہیں تھے۔ بانی جانتے تھے کہ وہ اسٹبلشمنٹ پر اس طرح حملے کے حق میں نہیں ہوں گے، اس لیے وہ شامل نہیں تھے۔ لیکن یہاں ایک بات سمجھنے کی ہے کہ اس سے پہلے بھی شاہ محمود قریشی کو گرفتار کیا گیا تھا پھر وہ رہا ہو گئے تھے۔

اس وقت بھی یہی بات سامنے آئی تھی کہ ان کی رہائی سیاسی طور پر مشروط تھی۔ وہ رہائی کے بعد بانی تحریک انصاف کو ملے تھے لیکن ان کی ملاقات کامیاب نہیں رہی تھی۔ اس کی خبریں بھی منظر عام پر آئی تھیں۔ یہ وہ وقت تھا جب شاہ محمود قریشی کو کوئی فیصلہ کرنا تھا ۔ لیکن انھوں نے نہیں کیا۔ جس کی وجہ سے وہ دوبارہ گرفتار ہوئے۔ اور اب انھوں نے لمبی جیل بھی کاٹی ہے اور ٹرائل کا بھی سامنا کیا ہے۔ لیکن اب ان کی بریت ہو گئی ہے۔ جس کے بعد ان کی مفاہمت کی مفاہمت کی دوبارہ خبریں سامنے آئی ہیں۔ جس کی وجہ سے شاہ محمود قریشی نے وضاحتی بیان جاری کیا ہے۔

شاہ محمود قریشی کی اس بریت سے پہلے 26ویں آئینی ترمیم کے موقع پر بھی شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی جو رکن قومی اسمبلی بھی ہیں، ان کے اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان ڈیل کی خبریں بھی سامنے آئی تھیں۔ تحریک انصاف نے یہ الزام لگایا تھا کہ ان کو جہاں چھپنے کے لیے کہا گیا تھا وہ وہاں نہیں تھے بلکہ وہاں سے غائب تھے۔

غائب ہونے کا مطلب ہے کہ وہ اسٹبلشمنٹ کے پاس چلے گئے۔ یہ حقیقت ہے کہ زین قریشی نے 26ویں آئینی ترمیم میں حکومت کو ووٹ نہیں دیا۔ لیکن وہ شک کے دائرے میں تھے۔ ایک رائے یہ ہے کہ ان کے ووٹ کی ضرورت نہیں پڑی، اس لیے ان کا ووٹ استعمال نہیں کیا گیا۔ لیکن ان کا ووٹ حکومت اور اسٹبلشمنٹ کے پاس تھا۔ وہ ووٹ دینے پر راضی تھے۔

زین قریشی اس سے انکار کرتے ہیں۔ لیکن انھیں تحریک انصاف کی طرف سے شو کاز جاری کیا گیا، انھیں ڈپٹی پارلیمانی لیڈر کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ انھوں نے شوکاز کا جواب دیا جس کے بعد اس پر مزید کارروائی نہیں کی گئی۔ لیکن تب سے زین قریشی خاموش ہیں۔ پہلے وہ باقاعدگی سے ٹاک شوز میں آتے تھے لیکن اب وہ غائب ہیں۔

ان کا غا ئب ہونا بھی سوالات پیدا کر رہا ہے۔ وہ خاموش ہیں یہ بھی معنی خیز ہے۔ اس لیے لوگ یہ بات کر رہے ہیں کہ بات پہلے طے ہو گئی تھی۔ بہر حال سوال اب شاہ محمود قریشی کیا کریں گے۔ میری رائے میں وہ تحریک انصاف میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے شہباز شریف بننے کی کوشش کریں گے۔ وہ مفاہمت کو آگے لے کر چلیں گے، انھوں نے جیل سے بھی مفاہمت کے لیے خط لکھے ہیں۔ اس لیے یہ ممکن ہے کہ وہ تحریک انصاف کی مفاہمت کی آواز بن جائیں۔ وہ مفاہمت اور ڈائیلاگ کی بات کریں۔ لیکن کیا بانی انھیں یہ کرنے دیں گے ۔ شائد انھیں نکالنا بھی مشکل ہو جائے ۔ لیکن مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے انھیں پارٹی سے نکالنا مشکل ہو جائے گا۔ ایسے ہی انھیں رکھنا بھی مشکل ہو جائے گا۔

وہ مفاہمت کا گروپ بنا سکتے ہیں، وہ لوگ جو تحریک انصاف میں واپس آنا چاہتے ہیں وہ ان کو ساتھ ملا سکتے ہیں۔ تحریک انصاف میں مفاہمت کے لیے لوگوں کو اکٹھا کر سکتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی بھی مفاہمت کے نام پر ان کے ساتھ کھڑے ہو جائیں۔ وہ تحریک انصاف میں مفاہمت کا ایک دھڑا بنا لیں۔ وہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ ڈائیلاگ اور اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مل کر چلنے کی بات کریں۔

جو بات چیت سے بند دروازے کھولنے کی بات کریں۔ یہ سب کہیں گے یہی کہ ہم کپتان کے وفادار ہیں۔ لیکن مزاحمت بند ہونی چاہیے۔ گالم گلوچ بند ہونی چاہیے۔ چوہدری پرویز الہیٰ بھی گھر میں ہیں۔ وہ بھی باہر آسکتے ہیں ایسے اور بھی لوگ ہیں۔ شاہ محمود قریشی کو بانی سے ملنے کی سہولت بھی مل سکتی ہے۔ وہ ایک بار نہیں بار بار مل سکتے ہیں۔ جیل سے مل کر وہ اپنا پیغام دے سکتے ہیں۔

یہ سب بانی کو قبول نہیں ہوگا۔ یہی سب سے بڑا سوال ہے۔ پھر شاہ محمود قریشی کو فیصلہ کرنا ہوگا۔وہ فیصلہ کیا ہوگا، ان کے پاس کوئی گھر نہیں۔ ان کا حال بھی فواد چوہدری کا ہے، کوئی سیاسی جماعت لینے کو تیار نہیں۔ لیکن اگر میں ملتان کی سیاست کو سامنے رکھوں تو وہ ن لیگ میں آسکتے ہیں۔ پیپلزپارٹی میں ان کے لیے جگہ نہیں۔ لیکن ابھی وہ تحریک انصاف میں رہ کر کام کریں گے ، پھر آگے چل کر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ بند دروازے کھل سکتے ہیں۔

یہ ایک مشکل کھیل ہے۔ لیکن آگے چل کر کچھ ایسا نظر آرہا ہے۔ اب یہ بانی پر منحصر ہے کہ وہ انھیں کب تک برداشت کرتا ہے۔ جب تک بانی برداشت کرے گا وہ بانی کے ساتھ ہی ہوں گے۔ لیکن کھیل اپنا کھیلیں گے۔ اس بار وہ کوئی غلطی نہیں کریں گے۔ انھیں سمجھ آگئی ہے، وہ کافی سمجھدار ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • فیصل واوڈا کا ٹریفک پولیس، صحافی سے بدتمیزی کرنیوالے ایف بی آر افسر کیخلاف کارروائی نہ ہونے پر افسوس
  • ایف بی آر افسر کی وائرل بدتمیزی کی ویڈیو پر فیصل واوڈا کا رد عمل سامنے آگیا
  • شاہ محمود قریشی کی رہائی ‘مفاہمت یا پھر …
  • عمران خان کی رہائی کیلئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرینگے، بیرسٹر سیف
  • قاسم اور سلیمان میری اولادیں ہیں اور باپ کی رہائی کیلیے آواز اٹھانا اُن کا حق ہے، عمران خان
  • سینیٹ الیکشن میں پی ٹی آئی کی اندرونی بغاوت کا عمران خان کی رہائی کی تحریک پر کیا اثر ہوگا؟
  • پہلے تھپڑ منسا نے مارا، میں نے جواب میں جوتا پھینکا، علیزے شاہ کا دعویٰ
  • عمران خان کے بیٹوں نے والدکی رہائی کیلئے مہم شروع کر دی( ٹرمپ کے ایلچی سے ملاقات )
  • عمران خان کے بیٹوں کی ٹرمپ کے ایلچی رچرڈ گرینل سے ملاقات، رہائی کیلئے امریکا میں مہم شروع کر دی
  • عمران خان کے بیٹے امریکہ میں سرگرم، رچرڈ گرینل سے ملاقات – والد کی رہائی کا مطالبہ