رمضان کی آمد اور مہنگائی؟
اشاعت کی تاریخ: 25th, February 2025 GMT
چند دنوں کے بعد رمضان آجائیں گے۔یہ ایک مقدس مہینہ ہے۔ جس میں ہرمسلمان روزے رکھ کر اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتاہے۔ پاکستان میں بھی رمضان بڑی عقیدت اور احترام سے منایاجاتاہے۔ ہر شخص چاہے وہ امیر یا غریب اپنے تئیں اس مقدس مہینے میں ر وزے رکھ کر روحانی طور پر اپنے آپ کو مضبوط بننے کی کوشش کرتاہے ۔ دراصل اس مہینے میں پورے ملک کی فضا میں روحانی اثرات موجزن ہوتے ہیں اور روحانی پاکیزگی سے معاشرے میں ایک خوشگوار بھائی چارے کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ دراصل رمضان کامہینہ اللہ کامہینہ ہے‘ اس لئے اس ماہ کو اللہ نے اپنے لے چناہے۔ نیز روزے رکھنے والے اس مہینے میں مسلمان زیادہ سے زیادہ صدقہ اور خیرات کرکے اللہ سے قربت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نیز اس مہینے میں اللہ کا مسلمانوں پر خاص فضل ہوتاہے۔ روز ے رکھنے سے جہاں روحانی قوت پیدا ہوتی ہے وہیں ایک دوسرے کے لئے خیر کے جذبات بھی پیدا ہوتے ہیں۔ اس مہینے میں ہر مسلمان روزے رکھ کر جہاں اللہ کا فضل تلاش کرتے ہیں وہیں وہ معاشرے میں خیر اور بھلائی کا راستہ اختیار کرکے معاشرے میں ضرورت مندوں کو جیو اور جینے دو کا گہرا احساس بھی دلاتے ہیں۔ رمضان کا مہینہ برکتوں کے علاوہ ایک آسودہ معاشرے کو تشکیل دینے کی کوشش کرتاہے جس میں جیو اور جینے دو کا عنصر غالب ہوتاہے۔ اس مہینے میں ہر مسلمان اپنے تئیں اللہ کی زیادہ سے زیادہ قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتاہے۔ یقینا اس مہینے میں ہرسو اللہ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔ جس کی وجہ سے معاشرے میں پاکیزگی کے علاو ہ ایک دوسرے کے درمیان بھائی چارے کے احساسات پیدا ہوتے ہیں ۔ دراصل اس مقدس مہینے میں جہاں گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں وہیں انسانی تعلقات میں غیرمعمولی بھائی چارے اور محبت اور خلوص کے احساسات جاگزیں ہوتے ہیں۔
تاہم اس مقدس مہینے میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے دیکھنے میں آتاہے۔ جس کی وجہ سے اس مہینے میں پیداہونے والی روحانیت متاثر ہوتی ہے۔ چنانچہ اس مہینے میں اشیائے خوردنوش کی قیمتوں میں کسی بھی صورت میں اضافہ نہیں ہوناچاہیے۔ دنیا بھر میں دیگر مذہبی تہوار کے موقع پر ہر چیز کی قیمتیں کم ہوجاتی ہیں لہٰذا ماہ رمضان میں قیمتوں میں اضافہ کوئی نیک شگون نہیں ہے۔ کیونکہ اس طرح روحانیت کے تقاضے شدید متاثر ہوہتے ہیں۔ ہرچند کہ یہ مہینہ تزکیہ نفس کا مہینہ بھی کہلاتاہے۔ لیکن جب ہر قسم کی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہونے کی وجہ سے روحانیت کے تقاضے متاثر ہوتے ہیں۔ حالانکہ رمضان کے مہینے میں ہر قسم کی اشیا کی قیمتوں میں کمی ہونی چاہیے‘ جیسا کہ دیگر مذاہب کے ماننے والے اپنے تہوار وں میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں کمی کردیتے ہیں ۔ لیکن پاکستان میں اس کے برعکس منظر دیکھنے میں آتاہے۔ اور یعنی ہر چیز کی قیمتوں میں بلاجواز اضافہ کردیاجاتاہے۔ جس کی وجہ سے اس مقدس مہینے کی اسپرٹ متاثر ہوتی ہے۔اگر پاکستان میں تاجر اور بیوپاری حضرات قیمتوں میں اضافہ نہ کریں بلکہ اعتدال سے کام لیں تو اس طرح اس مہینے کی خوشیوں میں اضافہ ہوجاتاہے۔ دراصل ماہ رمضان ہر قسم کی آلودگی کو صاف کرنے کا مہینے ہوتاہے۔ نیز بھائی چارے کی فضا قائم ہونے کی صورت میں جیو اور جینے دو کے لازوال احساسات پیدا ہوتے ہیں۔ یہی ماہ رمضان کی اسپرٹ ہے۔ اگر پاکستان کے تاجراور بیوپاری حضرات قیمتوں میں اضافہ نہ کریں تو اس ماہ کی برکتوں میں جہاں روحانیت کو غیر معمولی تقویت ملتی ہے وہیں معاشرے میں ایک دوسرے کے لئے نیکی اور خیرخواہی کے جذبات فروغ پاتے ہیں دراصل رمضان کا مہینہ محبتوں‘ خیرخواہی اور ایک دوسرے کیلئے ہمدردیاں پیدا کرنے کا موجب بنتاہے۔ ہر مسلمان اس مینے میں روزے رکھ کر اور زیادہ سے زیادہ نیک کام انجام دیکر اللہ کے ساتھ’’ تجارت‘‘ کرکے آئند ہ کیلئے اپنے خوشگوار زندگی کااضافہ کرتاہے۔ اس ماہ روزے رکھ کر ہر مسلمان اپنے لئے اوردوسروں کیلئے نیک امور انجام دیکر معاشرے سے ہر قسم کی آلودگی کو دور کرنے کی کوشش کرتاہے اور وہ ان انسانی اقدار کو نمایاں کرنے کی کوشش کرتاہے جو عام دونوں میں نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں۔
چنانچہ ماہ رمضان میں ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کے لئے زندگی میں آسانی پیداکرنے اور ان اسلامی اور انسانی اقدار کو ازسرنو معاشرے میں پیداکرنے کی کوشش کرے تاکہ ہر فرد چاہے وہ امیر ہو یا غریب اپنے انداز میں خوش اسلوبی کے ساتھ زندگی بسر کرسکے یہی اس مبارک مہینے کاتقاضا ہے اور پیغام بھی۔ اگر پاکستان میں اسلامی اور انسانی اصولوں کے تحت زندگی بسر کرنے کا جذبہ پیدا ہوجائے تو حیات کا سفر بہت آسان ہوجاتاہے ہر مسلمان رمضان کے مقدس مہینے میں اس ہی قسم کے جذبات پیداکرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ خود بھی خوشگوار زندگی بسر کرسکے اور دیگر مسلمان بھی ۔ ذرا سوچیئے۔!
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: قیمتوں میں اضافہ مقدس مہینے میں کی قیمتوں میں اس مقدس مہینے مہینے میں ہر ایک دوسرے کے اس مہینے میں پاکستان میں روزے رکھ کر بھائی چارے ماہ رمضان ہر قسم کی کی وجہ سے ہوتے ہیں اللہ کا
پڑھیں:
اسرائیل کی معاشی تنہائی شروع
اسلام ٹائمز: 10 ستمبر کو، یورپی کمیشن (EC) کی صدر Ursula von der Leyen نے دوحہ میں حماس کی مذاکراتی ٹیم پر حملے کے بعد اسرائیل کے ساتھ تعاون کو محدود کرنے، کابینہ کے ارکان پر پابندیاں عائد کرنے اور یورپی یونین (EU) کے ساتھ ایسوسی ایشن کے معاہدے کو معطل کرنے کے اپنے ارادے کا اعلان کیا۔ ان کے مطابق، یورپی کمیشن متعدد اسرائیلی وزراء پر پابندیاں عائد کرنے کے ساتھ ساتھ تجارتی معاملات پر ایسوسی ایشن کے معاہدے کو جزوی طور پر معطل کرنے کی تجویز پیش کر رہا ہے۔ دنیا میں اسوقت جتنی نفرت اسرائیل سے ہے، کسی اور سے نہیں، لہذا صیہونی حکومت کا اقتصادی تنہائی کا شکار ہونا نوشتہ دیوار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیتن یاہو اس مرحلہ کے لیے اپنے آپ کو تیار کر رہا ہے۔ تحریر: حامد حاجی حیدری
نیتن یاہو نے اسرائیلیوں پر زور دیا کہ وہ "معاشی تنہائی کے لیے تیار رہیں۔" قابض وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے قطر میں اسرائیلی آپریشن کی ناکامی کے بعد 15 ستمبر کو وزارت خزانہ کے جنرل اکاؤنٹنگ آفس میں ایک کانفرنس میں کہا کہ اسرائیل خود کو الگ تھلگ اور بند معیشت کے مطابق ڈھالنے پر مجبور ہوسکتا ہے۔ "اسرائیل ایک طرح کی تنہائی میں داخل ہو رہا ہے۔۔۔ ان کا کہنا تھا۔ سب سے پہلے، ہمیں اپنے طور پر مسائل سے نمٹنے کے لیے اپنی صلاحیتوں کو فروغ دینا چاہیئے، اسرائیل کے سرکاری ٹی وی کان کے مطابق نیتن یاہو نے اس گفتگو میں کئی اعترافات کئے ہیں۔ نیتن یاہو کے مطابق، ایسی صورت حال جس میں ملک خود کو پیداواری ناکہ بندی میں پاتا ہے، ایک حقیقت بن سکتی ہے۔ اس لیے اسرائیل معیشت پر بعض پابندیوں کو اپنانے پر مجبور ہوگا۔ انہوں نے واضح کیا کہ اسرائیل کی تنہائی کی ایک وجہ یورپی پابندیاں بھی ہوسکتی ہیں۔
صیہونی وزیراعظم کے مطابق قطر سمیت اسرائیل کے دشمن ممالک نے سوشل میڈیا کے ذریعے عالمی گفتگو کو متاثر کرنے کے لیے بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔ اس کے جواب میں نیتن یاہو کا خیال ہے کہ اسرائیل کو اپنے گھریلو وسائل اور سائنسی صلاحیت کو فروغ دینا چاہیئے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ دنیا بلاکس میں بٹی ہوئی ہے اور ہم کسی بلاک کے رکن نہیں ہیں۔ "اس طرح ایک فائدہ پیدا ہوتا ہے، جب وہ ہمیں الگ تھلگ کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے پاس ایک تکنیکی اور سائنسی فائدہ بھی ہے، جو دوسروں کی ہم میں دلچسپی کا باعث بن سکتا ہے۔" تاہم کان ٹی وی کے مطابق اپوزیشن لیڈر یائر لاپیڈ نے وزیراعظم کے ریمارکس پر کڑی تنقید کرتے ہوئے اس موقف کو پاگل پن قرار دیا۔ لایپڈ کے مطابق اسرائیل کی تنہائی ناگزیر نہیں ہے، بلکہ یہ سب کچھ نیتن یاہو اور ان کی حکومت کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر اسرائیل اپنی خارجہ پالیسی کا رخ بدلتا ہے تو وہ پھلتی پھولتی معیشت کی طرف لوٹ سکتا ہے۔
10 ستمبر کو، یورپی کمیشن (EC) کی صدر Ursula von der Leyen نے دوحہ میں حماس کی مذاکراتی ٹیم پر حملے کے بعد اسرائیل کے ساتھ تعاون کو محدود کرنے، کابینہ کے ارکان پر پابندیاں عائد کرنے اور یورپی یونین (EU) کے ساتھ ایسوسی ایشن کے معاہدے کو معطل کرنے کے اپنے ارادے کا اعلان کیا۔ ان کے مطابق، یورپی کمیشن متعدد اسرائیلی وزراء پر پابندیاں عائد کرنے کے ساتھ ساتھ تجارتی معاملات پر ایسوسی ایشن کے معاہدے کو جزوی طور پر معطل کرنے کی تجویز پیش کر رہا ہے۔ دنیا میں اسوقت جتنی نفرت اسرائیل سے ہے، کسی اور سے نہیں، لہذا صیہونی حکومت کا اقتصادی تنہائی کا شکار ہونا نوشتہ دیوار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیتن یاہو اس مرحلہ کے لیے اپنے آپ کو تیار کر رہا ہے۔