Daily Ausaf:
2025-07-26@13:58:20 GMT

ہماری بات مان لیتے تو مارے نہ جاتے

اشاعت کی تاریخ: 26th, February 2025 GMT

غزوۂ احد میں مسلمانوں کو خاصا جانی نقصان اٹھانا پڑا، اور جب خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہوئے اور آپ کے دندان مبارک شہید ہوئے تو عام مسلمانوں میں یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا کہ اگر ہم حق پر ہیں اور اللہ تعالٰی ہمارے ساتھ ہیں تو اس جنگ میں ہمیں کفار کے ہاتھوں اس قدر نقصان کیوں اٹھانا پڑا ہے، اور محاذ جنگ پر اس قدر افراتفری کیوں ہوئی کہ جناب نبی اکرمؐ کے دندان مبارک شہید ہوئے؟ حتٰی کہ حضرت حذیفہ بن الیمانؓ کے والد محترم جو خود بھی صحابیؓ تھے، دیکھتے ہی دیکھتے بیٹے کی آنکھوں کے سامنے مسلمانوں ہی کے ہاتھوں شہادت سے ہمکنار ہوئے۔ جناب نبی اکرمؐ کی شہادت کی افواہ پھیلنے پر حضرت عمرؓ جیسے مضبوط حوصلے والے صحابی بھی مایوسی کے عالم میں ایک چٹان کی اوٹ میں بیٹھ کر اس سوچ میں ڈوب گئے کہ اب کیا ہو گا؟ اور شہداء کی تعداد ستر تک پہنچی تو کفار کے لشکر کے کمانڈر ابو سفیان کو یہ اعلان کرنے کا موقع ملا کہ یہ بدر کے ستر مقتولین کا بدلہ ہے۔
اس سوال کو منافقین نے بطور خاص پھیلایا اور مختلف طریقوں سے عام مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ شکوک پیدا کرنے کی کوشش کی کہ حق والوں کے ساتھ ایسا نہیں ہوا کرتا۔ اور اس کے ساتھ ہی منافقین نے مسلمانوں کو یہ طعنہ بھی دیا کہ اگر تم میدان میں نہ جاتے اور ہمارے ساتھ مدینہ منورہ میں بیٹھے رہتے تو تمہارا یہ حشر نہ ہوتا اور تم نہ مارے جاتے اور نہ قتل ہوتے۔
اللہ تعالی نے سورۃ آل عمران میں ان سب سوالوں کا ذکر کیا ہے اور ان کے جوابات دینے کے ساتھ مسلمانوں سے کہا ہے کہ جنگ میں نقصان دونوں فریقوں کو اٹھانا پڑتا ہے، اور کبھی ایک فریق اور کبھی دوسرا فریق میدان میں آگے بڑھتا ہے۔ بالخصوص سورۃ آل عمران کی آیت ۱۶۰ سے ۱۷۱ تک ان واقعات کا تفصیل کے ساتھ تذکرہ کیا گیا ہے۔
قصہ یوں ہوا کہ غزوۂ احد کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہزار ساتھیوں کے ہمراہ مدینہ کی آبادی سے باہر نکل کر احد کے دامن میں پہنچے اور وہیں کفار کے لشکر کا انتظار کرنے کا فیصلہ کیا۔ مگر کچھ انتظار کے بعد منافقین کے سردار عبد اللہ بن ابی نے یہ کہہ کر تین سو ساتھیوں سمیت مدینہ منورہ واپسی کا راستہ اختیار کر لیا کہ یہاں تو کوئی جنگ ونگ نہیں اس لیے ہم وقت ضائع کرنے کی بجائے مدینہ منورہ واپس چلتے ہیں۔ انہیں بعض دوستوں نے سمجھایا کہ دشمن کا لشکر آ رہا ہے اس لیے میدان سے نہ جاؤ، اور اگر تم لڑائی میں شریک نہیں ہوتے تو کم از کم نفری دکھانے کی حد تک تو ساتھ رہو، اس نے کوئی بات نہ سنی اور تین سو افراد کو لے کر واپس پلٹ گیا۔ جنگ کے خاتمہ پر جب ستر شہداء اور دیگر زخمیوں کے خاندانوں میں اس جانی نقصان کے اثرات فطری طور پر ظاہر ہوئے تو میدان سے چلے جانے والے منافقوں نے یہ کہہ کر انہیں طعنے دینے شروع کر دیے کہ اگر تم ہماری بات مان لیتے تو اس طرح نہ مارے جاتے۔ اللہ تعالٰی نے قرآن کریم میں منافقوں کے اس طعنہ کا ذکر کرتے ہوئے اس کے جواب میں دو باتیں فرمائی ہیں:
ایک یہ کہ طعنہ دینے والوں کو مخاطب کر کے فرمایا، اگر تم اس بات میں سچے ہو کہ تمہاری بات ماننے اور تمہارے پاس رہنے سے موت ٹل جاتی ہے تو پھر تم اپنی جانوں پر آنے والی موت کو ٹال کر دکھاؤ۔
جبکہ دوسری بات یہ فرمائی کہ میدان جنگ میں شہید ہونے والے جن افراد کی موت کا تم بار بار تذکرہ کر رہے ہو اور ان کے قتل ہونے کا طعنہ دے رہے ہو ان کی موت رائیگاں نہیں بلکہ شہادت کی موت ہے، اور شہید کے بارے میں خیال بھی نہ کرو کہ وہ مر گیا ہے بلکہ وہ زندہ ہے اور اپنے رب کے ہاں نعمتوں اور خوشیوں میں رہ رہا ہے۔
یہ ان آیات کے مفہوم کا خلاصہ ہے جن میں اللہ رب العزت نے منافقوں کے اس طعنہ کا ذکر کر کے اس کا جواب دیا ہے کہ اگر احد کے میدان میں جانے والے ہماری بات مان لیتے اور ہماری طرح مدینہ منورہ میں ہی رہتے تو اتنے بڑے جانی نقصان سے دوچار نہ ہوتے اور اس طرح قتل و موت کا شکار نہ ہوتے۔ جبکہ اس کے علاوہ اللہ تعالی نے مسلمانوں کو ان کی اس کیفیت پر بھی تنبیہ کی ہے کہ جو میدان احد میں جناب نبی اکرمؐ کی شہادت کی افواہ پھیلنے پر طاری ہو گئی تھی۔ رسول اللہ کو زخمی حالت میں دیکھ کر کسی نے یہ خبر مشہور کر دی کہ حضرت محمدؐ قتل ہو گئے ہیں۔ یہ خبر اس قدر مشہور ہوئی کہ کفار کے کمانڈر ابو سفیان نے ایک ٹیلے پر کھڑے ہو کر مسلمانوں سے پکار کر پوچھا کہ کیا تم میں محمدؐ موجود ہیں؟ رسول اللہ نے اپنے قریب کھڑے ساتھیوں کو اس کا جواب دینے سے روک دیا تو اس نے سوال کیا کہ کیا تم میں ابوبکرؓ موجود ہیں؟ رسول اکرمؐ نے ساتھیوں کو اس کا جواب دینے سے بھی منع فرما دیا تو اس نے پوچھا کیا تم میں عمرؓ موجود ہیں؟ نبی کریمؐ نے اس سوال کا جواب بھی نہیں دینے دیا تو اپنے تینوں سوالوں کے جواب میں خاموشی دیکھ کر ابوسفیان کو یقین ہو گیا کہ حضرت محمدؐ شہید ہو گئے ہیں اور ان کے بعد جو دو بزرگ مسلمانوں کی قیادت سنبھالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ بھی موجود نہیں رہے، اس پر اس نے ایک پرجوش نعرہ لگایا اور بیت اللہ میں نصب سب سے بڑے بت ہبل کو پکار کر اپنی مسرت کا اظہار کیا۔
یہ موقع تھا جب مسلمانوں کی صفوں میں پریشانی اور اضطراب کے ساتھ مایوسی پیدا ہونے لگی حتٰی کہ حضرت عمرؓ جیسے جری بزرگ بھی ایک چٹان کی اوٹ میں بیٹھ گئے۔ ایک اور صحابی سعد بن معاذؓ نے انہیں دیکھا اور پوچھا تو بتایا کہ حضرت محمدؐ کی شہادت کے بعد اب ہم کیا کریں گے؟ اس صحابیؓ نے جواب دیا کہ اگر حضرت محمدؐ شہید ہو گئے ہیں تو کیا ہمارے لیے شہادت کا دروازہ بند ہو گیا ہے؟ یہ سن کر حضرت عمرؓ جیسے ہوش میں آ گئے اور پھر سے پورے جوش و خروش کے ساتھ معرکہ کارزار میں کود پڑے۔ جب حضرت عمرؓ جیسے دلیر اور جری شخص پر کچھ وقت کے لیے یہ کیفیت طاری ہو گئی تھی تو دوسرے مسلمانوں کے اضطراب اور بے چینی کا اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
اللہ تعالی نے سورۃ آل عمران میں مسلمانوں کی اس کیفیت کا ذکر کرتے ہوئے تنبیہ کے انداز میں فرمایا کہ حضرت محمدؐ اللہ تعالی کے رسول ہیں، ان سے پہلے بھی کئی رسول آئے اور چلے گئے تو کیا حضرت محمدؐ کے وفات پانے یا شہید ہو جانے کی صورت میں تم ایڑیوں کے بل واپس پلٹ جاؤ گے۔ اور اگر تم خدانخواستہ واپس بھی لوٹ جاؤ تو اللہ تعالٰی کا کچھ نہیں بگاڑ سکو گے۔ انہی آیات کریمہ میں اللہ تعالی نے یہ بھی فرمایا کہ تمہیں اگر مصیبت پہنچی تو اس کے پیچھے تمہاری کوئی نہ کوئی غلطی کارفرما ہے اور یہ تمہارے نفسوں کی طرف سے ہے۔ گویا اللہ تعالی نے ان آیات کریمہ میں مسلمانوں کو یہ سمجھایا ہے کہ اہل حق کو بھی بسا اوقات کفار کے مقابلہ میں بہت زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو اللہ تعالٰی کی طرف سے آزمائش اور اہل حق کی کسی غلطی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اور کبھی اللہ تعالٰی مسلمانوں اور منافقوں میں خط امتیاز کھینچنے کے لیے بھی ایسا کرتے ہیں۔ اس لیے ایسے کسی نقصان پر نہ تو اہل ایمان کو صبر و ضبط کا دامن ہاتھ سے چھوڑنا چاہیے اور نہ ہی منافقوں کو اس طرح کے مسلمانوں کو دیکھ کر خوش ہونا چاہیے کہ اگر ہماری بات مان لیتے تو اس انجام سے دوچار نہ ہوتے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ہماری بات مان لیتے جناب نبی اکرم اللہ تعالی نے کہ حضرت محمد مسلمانوں کو اللہ تعال ی کے ساتھ کا جواب شہید ہو رسول ا کہ اگر اگر تم کا ذکر

پڑھیں:

سکردو میں کانفرنس بعنوان "حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں" (2)

مجلس علمائے مکتب اہلبیت سکردو بلتستان کے زیر اہتمام حسین شناسی اور عصر حاضر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے کانفرنس کا اہتمام کیا گیا جس کے مہمان خصوصی قائد گلگت بلتستان آغا سید راحت حسین الحسینی تھے، جبکہ مولانا اصغر، شیخ زاہد حسین زاہدی، مجلس علما مکتب اہلبیت کے صدر شیخ علی محمد کریمی و دیگر علمائے کرام کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ چھوٹی تصاویر تصاویر کی فہرست سلائیڈ شو

حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سکردو میں کانفرنس کا انعقاد

حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سکردو میں کانفرنس کا انعقاد

حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سکردو میں کانفرنس کا انعقاد

حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سکردو میں کانفرنس کا انعقاد

حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سکردو میں کانفرنس کا انعقاد

حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سکردو میں کانفرنس کا انعقاد

حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سکردو میں کانفرنس کا انعقاد

حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سکردو میں کانفرنس کا انعقاد

حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سکردو میں کانفرنس کا انعقاد

حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سکردو میں کانفرنس کا انعقاد

حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سکردو میں کانفرنس کا انعقاد

حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سکردو میں کانفرنس کا انعقاد

حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سکردو میں کانفرنس کا انعقاد

حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سکردو میں کانفرنس کا انعقاد

حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سکردو میں کانفرنس کا انعقاد

حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سکردو میں کانفرنس کا انعقاد

حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے سکردو میں کانفرنس کا انعقاد

اسلام ٹائمز۔ مجلس علمائے مکتب اہلبیت سکردو بلتستان کے زیر اہتمام حسین شناسی اور عصر حاضر میں ہماری ذمہ داریاں کے عنوان سے کانفرنس کا اہتمام کیا گیا جس کے مہمان خصوصی قائد گلگت بلتستان آغا سید راحت حسین الحسینی تھے، جبکہ مولانا اصغر، شیخ زاہد حسین زاہدی، مجلس علما مکتب اہلبیت کے صدر شیخ علی محمد کریمی و دیگر علمائے کرام کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے آغا راحت حسین الحسینی نے کہا کہ ہماری ناکامی کی اصل وجہ اتفاق و اتحاد کا نہ ہونا ہے، ہم ہر کسی نے اپنا تین فٹ کی مسجد بنائی ہوئی ہے، اگر ہم سب ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جائے تو پورے گلگت بلتستان بلکہ پاکستان میں حکومتیں بنانے او گرانے کی طاقت ہم میں موجود ہیں۔ میں تمام علماء سے کہتا ہوں کہ ہمیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا ہوگا، جہاں ہم اپنے مسائل اور حکمت عملی کےلئے سب ملکر بیٹھ سکے۔

انہوں نے کہاکہ مٹھی بھر دہشت گردوں کے سامنے ریاست اور ریاستی ادارے بے بس نظر آ رہے ہیں، حکومت اور اداروں کو اپنا رٹ مضبوط کرنا ہو گا، گلگت بلتستان کو دوبارہ دہشت گردی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے، یہ خطہ کسی بھی غلطی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ 1988ء سے لے کر اب تک ہمارے شہداء کے قاتلوں کو سزا تک نہیں دی گئی ہے، جو کہ ہمارے ساتھ سراسر زیادتی ہے، علاقے کی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت اور ادارے اپنا بھرپور کردار ادا کریں اور مجرموں کو سزا دینے میں اپنا کردار ادا کریں۔ کانفرنس سے علامہ شیخ اصغر، انجمن امامیہ کے نائب صدر شیخ زاہد حسین زاہدی، مرکزی جنرل سیکرٹری مجلس علما مکتب اہلبیت پاکستان علامہ محمد اصغر عسکری، مرکزی سیکرٹری روابط مجلس علما مکتب اہلبت علامہ عیسی امینی، صوبائی صدر مجلس علماء مکتب اہلبیت بلتستان کے شیخ کریمی ودیگر نے بھی خطاب کیا۔

متعلقہ مضامین

  • نوجوان چلتی ٹرین میں سیلفی لیتے ہوئے کھمبے سے ٹکرا کرجاں بحق
  • مودی حکومت نے مزید 3 کشمیری مسلمانوں کو املاک سے محروم کر دیا
  • چکوال: سیلفی لیتے ہوئے 2 نوجوان ڈیم میں ڈوب کر جاں بحق
  • الہیٰ خزانہ۔۔۔ ظلم کے تقدّس کے خلاف معاصر عہد کا ایک وصیّت نامہ(1)
  • وفاقی وزیر ریلوے محمد حنیف عباسی کی زیر صدارت حضرت بری امام سرکارؒ کے سالانہ عرس مبارک کے انتظامات سے متعلق ذیلی کمیٹی کا اجلاس
  • اہلِبیت اطہارؑ کی محبت و عقیدت قربِ الٰہی کا ذریعہ ہے، علامہ رانا محمد ادریس
  • مودی سرکار عدالت میں ہار گئی!
  • سکردو میں کانفرنس بعنوان "حسین شناسی و کربلائے عصر میں ہماری ذمہ داریاں" (2)
  • "ادے پور فائلز" مسلمانوں کو دہشتگرد کے طور پر پیش کرتی ہے، مولانا ارشد مدنی
  • کراچی میں پولیس اہلکار رشوت لیتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے