Daily Ausaf:
2025-04-26@02:35:44 GMT

ہماری بات مان لیتے تو مارے نہ جاتے

اشاعت کی تاریخ: 26th, February 2025 GMT

غزوۂ احد میں مسلمانوں کو خاصا جانی نقصان اٹھانا پڑا، اور جب خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہوئے اور آپ کے دندان مبارک شہید ہوئے تو عام مسلمانوں میں یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا کہ اگر ہم حق پر ہیں اور اللہ تعالٰی ہمارے ساتھ ہیں تو اس جنگ میں ہمیں کفار کے ہاتھوں اس قدر نقصان کیوں اٹھانا پڑا ہے، اور محاذ جنگ پر اس قدر افراتفری کیوں ہوئی کہ جناب نبی اکرمؐ کے دندان مبارک شہید ہوئے؟ حتٰی کہ حضرت حذیفہ بن الیمانؓ کے والد محترم جو خود بھی صحابیؓ تھے، دیکھتے ہی دیکھتے بیٹے کی آنکھوں کے سامنے مسلمانوں ہی کے ہاتھوں شہادت سے ہمکنار ہوئے۔ جناب نبی اکرمؐ کی شہادت کی افواہ پھیلنے پر حضرت عمرؓ جیسے مضبوط حوصلے والے صحابی بھی مایوسی کے عالم میں ایک چٹان کی اوٹ میں بیٹھ کر اس سوچ میں ڈوب گئے کہ اب کیا ہو گا؟ اور شہداء کی تعداد ستر تک پہنچی تو کفار کے لشکر کے کمانڈر ابو سفیان کو یہ اعلان کرنے کا موقع ملا کہ یہ بدر کے ستر مقتولین کا بدلہ ہے۔
اس سوال کو منافقین نے بطور خاص پھیلایا اور مختلف طریقوں سے عام مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ شکوک پیدا کرنے کی کوشش کی کہ حق والوں کے ساتھ ایسا نہیں ہوا کرتا۔ اور اس کے ساتھ ہی منافقین نے مسلمانوں کو یہ طعنہ بھی دیا کہ اگر تم میدان میں نہ جاتے اور ہمارے ساتھ مدینہ منورہ میں بیٹھے رہتے تو تمہارا یہ حشر نہ ہوتا اور تم نہ مارے جاتے اور نہ قتل ہوتے۔
اللہ تعالی نے سورۃ آل عمران میں ان سب سوالوں کا ذکر کیا ہے اور ان کے جوابات دینے کے ساتھ مسلمانوں سے کہا ہے کہ جنگ میں نقصان دونوں فریقوں کو اٹھانا پڑتا ہے، اور کبھی ایک فریق اور کبھی دوسرا فریق میدان میں آگے بڑھتا ہے۔ بالخصوص سورۃ آل عمران کی آیت ۱۶۰ سے ۱۷۱ تک ان واقعات کا تفصیل کے ساتھ تذکرہ کیا گیا ہے۔
قصہ یوں ہوا کہ غزوۂ احد کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہزار ساتھیوں کے ہمراہ مدینہ کی آبادی سے باہر نکل کر احد کے دامن میں پہنچے اور وہیں کفار کے لشکر کا انتظار کرنے کا فیصلہ کیا۔ مگر کچھ انتظار کے بعد منافقین کے سردار عبد اللہ بن ابی نے یہ کہہ کر تین سو ساتھیوں سمیت مدینہ منورہ واپسی کا راستہ اختیار کر لیا کہ یہاں تو کوئی جنگ ونگ نہیں اس لیے ہم وقت ضائع کرنے کی بجائے مدینہ منورہ واپس چلتے ہیں۔ انہیں بعض دوستوں نے سمجھایا کہ دشمن کا لشکر آ رہا ہے اس لیے میدان سے نہ جاؤ، اور اگر تم لڑائی میں شریک نہیں ہوتے تو کم از کم نفری دکھانے کی حد تک تو ساتھ رہو، اس نے کوئی بات نہ سنی اور تین سو افراد کو لے کر واپس پلٹ گیا۔ جنگ کے خاتمہ پر جب ستر شہداء اور دیگر زخمیوں کے خاندانوں میں اس جانی نقصان کے اثرات فطری طور پر ظاہر ہوئے تو میدان سے چلے جانے والے منافقوں نے یہ کہہ کر انہیں طعنے دینے شروع کر دیے کہ اگر تم ہماری بات مان لیتے تو اس طرح نہ مارے جاتے۔ اللہ تعالٰی نے قرآن کریم میں منافقوں کے اس طعنہ کا ذکر کرتے ہوئے اس کے جواب میں دو باتیں فرمائی ہیں:
ایک یہ کہ طعنہ دینے والوں کو مخاطب کر کے فرمایا، اگر تم اس بات میں سچے ہو کہ تمہاری بات ماننے اور تمہارے پاس رہنے سے موت ٹل جاتی ہے تو پھر تم اپنی جانوں پر آنے والی موت کو ٹال کر دکھاؤ۔
جبکہ دوسری بات یہ فرمائی کہ میدان جنگ میں شہید ہونے والے جن افراد کی موت کا تم بار بار تذکرہ کر رہے ہو اور ان کے قتل ہونے کا طعنہ دے رہے ہو ان کی موت رائیگاں نہیں بلکہ شہادت کی موت ہے، اور شہید کے بارے میں خیال بھی نہ کرو کہ وہ مر گیا ہے بلکہ وہ زندہ ہے اور اپنے رب کے ہاں نعمتوں اور خوشیوں میں رہ رہا ہے۔
یہ ان آیات کے مفہوم کا خلاصہ ہے جن میں اللہ رب العزت نے منافقوں کے اس طعنہ کا ذکر کر کے اس کا جواب دیا ہے کہ اگر احد کے میدان میں جانے والے ہماری بات مان لیتے اور ہماری طرح مدینہ منورہ میں ہی رہتے تو اتنے بڑے جانی نقصان سے دوچار نہ ہوتے اور اس طرح قتل و موت کا شکار نہ ہوتے۔ جبکہ اس کے علاوہ اللہ تعالی نے مسلمانوں کو ان کی اس کیفیت پر بھی تنبیہ کی ہے کہ جو میدان احد میں جناب نبی اکرمؐ کی شہادت کی افواہ پھیلنے پر طاری ہو گئی تھی۔ رسول اللہ کو زخمی حالت میں دیکھ کر کسی نے یہ خبر مشہور کر دی کہ حضرت محمدؐ قتل ہو گئے ہیں۔ یہ خبر اس قدر مشہور ہوئی کہ کفار کے کمانڈر ابو سفیان نے ایک ٹیلے پر کھڑے ہو کر مسلمانوں سے پکار کر پوچھا کہ کیا تم میں محمدؐ موجود ہیں؟ رسول اللہ نے اپنے قریب کھڑے ساتھیوں کو اس کا جواب دینے سے روک دیا تو اس نے سوال کیا کہ کیا تم میں ابوبکرؓ موجود ہیں؟ رسول اکرمؐ نے ساتھیوں کو اس کا جواب دینے سے بھی منع فرما دیا تو اس نے پوچھا کیا تم میں عمرؓ موجود ہیں؟ نبی کریمؐ نے اس سوال کا جواب بھی نہیں دینے دیا تو اپنے تینوں سوالوں کے جواب میں خاموشی دیکھ کر ابوسفیان کو یقین ہو گیا کہ حضرت محمدؐ شہید ہو گئے ہیں اور ان کے بعد جو دو بزرگ مسلمانوں کی قیادت سنبھالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ بھی موجود نہیں رہے، اس پر اس نے ایک پرجوش نعرہ لگایا اور بیت اللہ میں نصب سب سے بڑے بت ہبل کو پکار کر اپنی مسرت کا اظہار کیا۔
یہ موقع تھا جب مسلمانوں کی صفوں میں پریشانی اور اضطراب کے ساتھ مایوسی پیدا ہونے لگی حتٰی کہ حضرت عمرؓ جیسے جری بزرگ بھی ایک چٹان کی اوٹ میں بیٹھ گئے۔ ایک اور صحابی سعد بن معاذؓ نے انہیں دیکھا اور پوچھا تو بتایا کہ حضرت محمدؐ کی شہادت کے بعد اب ہم کیا کریں گے؟ اس صحابیؓ نے جواب دیا کہ اگر حضرت محمدؐ شہید ہو گئے ہیں تو کیا ہمارے لیے شہادت کا دروازہ بند ہو گیا ہے؟ یہ سن کر حضرت عمرؓ جیسے ہوش میں آ گئے اور پھر سے پورے جوش و خروش کے ساتھ معرکہ کارزار میں کود پڑے۔ جب حضرت عمرؓ جیسے دلیر اور جری شخص پر کچھ وقت کے لیے یہ کیفیت طاری ہو گئی تھی تو دوسرے مسلمانوں کے اضطراب اور بے چینی کا اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
اللہ تعالی نے سورۃ آل عمران میں مسلمانوں کی اس کیفیت کا ذکر کرتے ہوئے تنبیہ کے انداز میں فرمایا کہ حضرت محمدؐ اللہ تعالی کے رسول ہیں، ان سے پہلے بھی کئی رسول آئے اور چلے گئے تو کیا حضرت محمدؐ کے وفات پانے یا شہید ہو جانے کی صورت میں تم ایڑیوں کے بل واپس پلٹ جاؤ گے۔ اور اگر تم خدانخواستہ واپس بھی لوٹ جاؤ تو اللہ تعالٰی کا کچھ نہیں بگاڑ سکو گے۔ انہی آیات کریمہ میں اللہ تعالی نے یہ بھی فرمایا کہ تمہیں اگر مصیبت پہنچی تو اس کے پیچھے تمہاری کوئی نہ کوئی غلطی کارفرما ہے اور یہ تمہارے نفسوں کی طرف سے ہے۔ گویا اللہ تعالی نے ان آیات کریمہ میں مسلمانوں کو یہ سمجھایا ہے کہ اہل حق کو بھی بسا اوقات کفار کے مقابلہ میں بہت زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو اللہ تعالٰی کی طرف سے آزمائش اور اہل حق کی کسی غلطی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اور کبھی اللہ تعالٰی مسلمانوں اور منافقوں میں خط امتیاز کھینچنے کے لیے بھی ایسا کرتے ہیں۔ اس لیے ایسے کسی نقصان پر نہ تو اہل ایمان کو صبر و ضبط کا دامن ہاتھ سے چھوڑنا چاہیے اور نہ ہی منافقوں کو اس طرح کے مسلمانوں کو دیکھ کر خوش ہونا چاہیے کہ اگر ہماری بات مان لیتے تو اس انجام سے دوچار نہ ہوتے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ہماری بات مان لیتے جناب نبی اکرم اللہ تعالی نے کہ حضرت محمد مسلمانوں کو اللہ تعال ی کے ساتھ کا جواب شہید ہو رسول ا کہ اگر اگر تم کا ذکر

پڑھیں:

فلسطین سے دکھائوے کی محبت

58 سالوں سے مسلمانوں کے قبلہ اول پر طاقت کے زور پر قبضہ جمائے بیٹھے ہوئے یہودی ملک اسرائیل نے حالیہ 17 مہینوں میں فلسطینی مسلمانوں کو اپنی بربریت بلکہ جانوروں سے بھی زیادہ وحشیانہ بربریت سے شہید اور غزہ سمیت فلسطین کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور مسلمانوں کے رہائشی علاقوں، عمارتوں، تعلیمی اداروں، امدادی کیمپوں کو ہی ملبے کے ڈھیر میں نہیں بدلا بلکہ غزہ کا آخری اسپتال بھی اپنی بم باری سے تباہ کر دیا اور مریضوں کو جبری طور پر باہر نکال کر فلسطین میں کوئی ایسی جگہ تک نہیں چھوڑی کہ لاکھوں فلسطینی کہیں اپنا علاج ہی کرا سکیں۔

 جنگ بندی کے معاہدے کے بعد بھی غزہ میں اسرائیلی بربریت رکنے میں نہیں آ رہی۔ تیس فیصد علاقے پر اسرائیل قبضہ کرچکا اور اسرائیلی وزیر دفاع واضح کرچکا ہے کہ کوئی انسانی امداد غزہ میں داخل نہیں ہونے دی جائے گی اور ہماری فوج زیر قبضہ علاقوں میں غیر معینہ مدت تک موجود رہے گی۔ غزہ شہر کا بنیادی ڈھانچہ تقریباً تباہ ہو چکا اور اپنے گھروں کے ملبے پر بیٹھے اب تک بچ جانے والوں تک اسرائیل اب غذا اور ادویات تک پہنچنے نہیں دے رہا جس پر فرانسیسی صدر نے اسرائیلی وزیر اعظم سے کہا ہے کہ غزہ کے لوگوں کی تکالیف کا خاتمہ ہونا چاہیے۔

پاکستانی پارلیمنٹ نے ایک بار پھر اسرائیلی بربریت کی مذمت میں متفقہ قرارداد منظور کر لی جس میں حسب روایت اسرائیل پر کڑی تنقید کی گئی۔ ارکان نے لمبی چوڑی مذمتی تقاریر کیں اور حکومت نے حسب معمول فلسطینی مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کیا اور ہر ممکنہ امداد و تعاون کا بھی یقین دلایا مگر یہ امداد، خوراک، خیمے، ضرورت زندگی کی اشیا، ادویات وغیرہ متاثرین تک پہنچیں گی کیسے؟ یہ اہم سوال ضرور ہے جس کا حل حکومت، پارلیمنٹ ملک کے عوام سمیت کسی کے پاس نہیں ہے سب بے بس و مجبور ہیں صرف مذمت پر ہی اکتفا ہے۔

رکن قومی اسمبلی شیر افضل مروت نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ ہمارے ارب پتی ارکان پارلیمنٹ نے فلسطین کی ایک ٹکے کی بھی مدد نہیں کی اور حکومت نے بھی متاثرین فلسطین کی کوئی مدد نہیں کی۔ بظاہر تو لگتا ہے کہ ہماری حکومت اور پارلیمنٹ کے ارکان فلسطین کی محبت میں مرے جا رہے ہیں اور ان کی ہمدردی میں بڑی تقاریر کے ساتھ بعض پر کڑی تنقید بھی کر رہے ہیں۔ ایک رکن قومی اسمبلی نے تو یہ سچ بھی کہہ دیا کہ اسرائیل کے 80 لاکھ یہودیوں سے زیادہ تعداد میں ہمارے ملک میں علمائے کرام موجود ہیں جو فلسطینیوں کے لیے دعائیں اور اسرائیل کے لیے بددعائیں کر رہے ہیں مگر دعا اثر ہی نہیں کر رہی۔

ملک میں مذہبی جماعتیں اور فلسطینی مسلمانوں کے بے بس ہمدرد الگ الگ بڑی بڑی ریلیاں اسرائیل کے خلاف سخت گرمی میں نکال کر فلسطینی مسلمانوں سے ہمدردی اور اظہار یکجہتی کر رہے ہیں جہاں اسرائیل کے خلاف اور فلسطینیوں کی حمایت میں لاکھوں لوگ نعرے لگاتے ہیں۔ اسرائیلی پرچم پیروں تلے روند کر اپنے غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔

ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں جماعت اسلامی نے شارع فیصل پر اور جے یو آئی نے شاہراہ قائدین پر بڑی بڑی ریلیاں نکال کر اسرائیل سے اپنی نفرت کا اظہار کیا۔ فلسطینیوں کی امداد کی اپیلیں بھی ہوئیں جن میں لوگوں نے دل کھول کر عطیات بھی دیے۔ بعض جماعتوں نے امدادی سامان جمع کرکے بھجوایا بھی مگر اسرائیلی وزیر دفاع نے سنگدلی سے کہہ دیا کہ فلسطین کے مسلمانوں اور زخمیوں تک کوئی بیرونی امداد پہنچنے ہی نہیں دی جائے گی۔ مسلم ممالک میں مسلمانوں کے علاوہ دنیا بھر میں غیر مسلم بھی فلسطینیوں کی حمایت میں ریلیاں نکال رہے ہیں مگر اسرائیل اور اس کے بڑے حمایتی امریکا پر کوئی اثر نہیں ہو رہا۔

مسلمان غیر مسلموں خصوصاً امریکا، برطانیہ، فرانس جو ایٹمی طاقت ہیں اور یورپ سے یہ پوچھتے ہیں کہ ان کے یہاں تو جانوروں کے بھی حقوق ہیں وہاں تو وہ اپنے کتوں کا بھی بڑا خیال رکھتے ہیں تو کیا عشروں سے اسرائیل کی وحشیانہ بربریت کا شکار اور زیر عتاب فلسطینی مسلمان جانوروں سے بھی بدتر ہیں جنھیں اب تک ہزاروں کی تعداد میں شہید کیا جا چکا اور باقی بچے ہوئے زخمیوں اور تباہ و برباد متاثرین غزہ تک اسرائیل دوائیں اور خوراک بھی پہنچنے نہیں دے رہا اور انسانی حقوق کے دعویدار اس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ وہ مل کر بھی اسرائیلی وحشت پر آواز بلند نہیں کر رہے اور انھیں بے گناہ مسلمانوں کے مقابلے میں امریکی ٹیرف کے مقابلے کی زیادہ فکر ہے مسلمانوں کا خون بہتا ہے تو بہتا رہے کیونکہ عرب دنیا اور مسلم ممالک بھی اپنے ان بھائیوں پر ہونے والے مظالم پر خاموش ہیں تو انھیں کیا پڑی کہ مسلمانوں کو جینے کا حق ہی دلا سکیں۔

مسلم عوام دنیا بھر میں اسرائیلی بربریت پر سراپا احتجاج اور مسلمان ممالک خود کو بے بس سمجھ کر خاموش ہیں اور جو مسلمان ممالک اسرائیل کو تسلیم کر چکے وہ بھی سفارتی سطح پر اسرائیل کو اس کی بربریت پر نہیں روک رہے اور ہر ایک صرف اپنے بچاؤ میں مصروف ہے کہ اسرائیل انھیں بھی اپنی جارحیت کا نشانہ نہ بنا دے۔

پاکستان کے عوام جہاد کی حمایت میں فتویٰ دے چکے مگر ہماری حکومت بھی دوسروں کی طرف فلسطینیوں سے دکھاؤے کی محبت اور بیانات پر اکتفا کیے ہوئے ہے جس کے ارکان پارلیمنٹ نے اپنی جیب سے فلسطین کے لیے ایک پیسہ بھی نہیں نکالا جب کہ اب حکومت نے انھیں لاکھوں روپے تنخواہیں بھی بڑھا دی ہیں۔ مساجد میں علما بیانات دے رہے ہیں تو لوگ پوچھتے ہیں کہ ہم اسرائیل سے لڑنے جا نہیں سکتے۔ امداد کے لیے عطیات دیں تو وہ وہاں پہنچنے نہیں دی جا رہی تو علما کے پاس ایک ہی جواب ہے کہ یہودی و نصرانی مصنوعات کا بائیکاٹ کرکے انھیں مالی نقصان پہنچائیں۔ مسلمان عوام تو بائیکاٹ بھی کر رہے ہیں مگر عرب و مسلم ممالک اور ان کے سربراہ اپنے ممالک کے عوام کو اسرائیل کے خلاف غصے کا اظہار بھی نہیں کرنے دے رہے۔

متعلقہ مضامین

  • فلسطین سے دکھائوے کی محبت
  • جھوٹے لوگ، جھوٹی محبت اورجھوٹی دعائیں
  • پشین، سی ٹی ڈی کی کارروائی، 9 مبینہ دہشتگرد ہلاک
  • پہلگام حملے کے بعد کشمیر بھر میں بھارتی فورسز کی چھاپہ مار کارروائیاں، 2 مکان مسمار
  • حضرت معصومہ قم (س)
  • پہلگام حملے میں مارے گئے افرادکے لواحقین مودی سرکار پر برس پڑے
  • گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری کی روضہ حضرت امام حسین علیہ السلام پر حاضری
  • شواہد کے بغیر پاکستان پر الزام تراشی بھارت کا وطیرہ ،بہتر ہوتا شواہد  پیش  کئے جاتے، سعد رفیق
  • گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی روضۂ حضرت امام حسین رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ پر حاضری
  • مظلوم مسلمانوں کے دفاع کی اجتماعی ذمہ داری