اویس کیانی : وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف  نے  آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ کے چھ برس گزرنے کے موقع پر افواج پاکستان کی جر١ت و بہادری، پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور قربانی کے جذبے کو خراج تحسین پیش کیا 

 وزیرِاعظم کا کہنا تھا کہ آج سے چھ برس قبل، 27 فروری 2019  کے دن  پاکستان ائیر فورس کی جانب سے دشمن کو ایک واضح پیغام دیا گیا کہ پاکستان اپنی سرحدوں کی حفاظت کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے.

بھارت کی خطے میں جارحیت کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئےہماری افواج  نے یہ ثابت کر دیا کہ پاکستان کی سلامتی کیلئے ہمارے جوان ہر دم تیار ہیں. آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ میں  پاکستان ائیر فورس نے اپنی عسکری صلاحیتوں اور وطن سے حفاظت کے غیر متزلزل عزم سے دشمن کو واضح پیغام دیا کہ افواج پاکستان ملکی سلامتی کیلئے کسی بھی طرح کی جارحیت کے مقابلے کی بھرپور صلاحیت و قابلیت رکھتی ہے.افواج پاکستان وطن عزیز کی حفاظت کیلئے ہر دم تیار ہیں.مجھ سمیت پوری قوم کو اپنی بہادر افواج پر فخر ہے.افواج پاکستان کی ملک کی حفاظت کی خاطر عظیم قربانیاں ہیں جسے پاکستانی قوم کبھی فراموش نہیں کر سکتی.پاکستان علاقائی امن کو فروغ دینے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہا ہے، لیکن جب کبھی پاکستان کی قومی سلامتی  اور استحکام پر ضرب لگانے کی کوشش کی گئی، تو پوری قوم سیسہ پلائی دیوار کی مانند متحد ہوگئی.

بلدیاتی انتخابات میں تاخیر؛ پنجاب حکومت کی جلد قانون سازی کی یقین دہانی

ذریعہ: City 42

کلیدی لفظ: افواج پاکستان کی حفاظت کی پاکستان کی

پڑھیں:

غزہ میں امن فوج یا اسرائیلی تحفظ

غزہ جنگ بندی معاہدے کے بعد جہاں ایک طرف غاصب صیہونی ریاست اسرائیل مسلسل معاہدے کی خلاف ورزیاں کر رہی ہے، وہاں ساتھ ساتھ دنیا بھر میں امریکی اور اسرائیلی دلال، فلسطینی عوام اور فلسطین کی مزاحمت یعنی حماس کے خلاف منفی پراپیگنڈا کرنے میں مصروف عمل ہیں۔

اسی طرح امریکی صدر ٹرمپ مسلسل حماس کو دھمکیاں دے رہے ہیں لیکن اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے کو ہتھیانے سمیت متعدد خلاف ورزیوں پرکسی قسم کا کوئی رد عمل نہیں دیا جا رہا ہے۔

دنیا کے بعض صحافیوں اور دانشوروں کو اس کام پر لگا دیا گیا ہے کہ وہ یہ تاثر پیدا کریں کہ معاہدے کی خلاف ورزی حماس کی طرف سے ہوئی تو پھر حالات کی ذمے داری حماس اور فلسطینیوں پر آن پڑے گی لیکن یہ سارے لوگ اسرائیل کی خلاف ورزیوں کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔

یہ رویہ خود اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ ان کو کسی خاص مقصد کے لیے اس کام پر لگایا گیا ہے تاکہ مسئلہ فلسطین کو کمزورکیا جائے اور اسے فراموش کرنے کے لیے جو ممکن ہتھکنڈے استعمال ہو سکتے ہیں، وہ کیے جائیں۔

 حال ہی میں ٹائمز آف اسرائیل نامی اخبار نے یہ خبر شایع کی ہے کہ غزہ میں امن فوج کے نام پر انڈونیشیا، آذربائیجان اور ترکیہ کی افواج کو بھیجا جا رہا ہے۔ تشویش، اس لیے بھی پائی جا رہی ہے کیونکہ ایک تو امن معاہدے کی سرپرستی امریکی صدر ٹرمپ کر رہے ہیں۔

جن پر دنیا کے عوام بالکل بھی اعتماد نہیں کرتے اور انھوں نے آج تک غزہ میں نسل کشی کے ذریعے قتل ہونے والے ستر ہزار فلسطینیوں کے قتل پر اسرائیل کی مذمت تک نہیں کی ہے، لٰہذا اب ٹرمپ کی خواہشات کے مطابق مسلم ممالک کی افواج کو غزہ میں تعینات کرنے کے اعلان پر دنیا بھر کے عوام کو اس لیے تشویش ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ مسلمان افواج کو حماس اور فلسطینی مزاحمتی گروہوں کے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہیں اور فلسطینی مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کے لیے مسلمان افواج کی خدمت لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اگر یہ خدشات درست ہیں تو یقینا اس سے بڑی پریشانی مسلمانوں کے لیے اور کچھ نہیں ہو سکتی ہے۔اگر تاریخی اعتبار سے بھی اس معاملے پر غورکیا جائے تو ہم جانتے ہیں کہ امریکا اور اسرائیل کی پالیسی ہمیشہ سے فلسطین کے مکمل کنٹرول اور مزاحمتی قوتوں کی سرکوبی پر مرکوز رہی ہے۔

ٹرمپ کے سابقہ دورِحکومت صدی کی ڈیل یعنی Deal of the Century کے نام پر فلسطین کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تھی، تاہم ٹرمپ ناکام رہے۔ اسی طرح سابقہ دور میں ہی ٹرمپ نے یروشلم (القدس) کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر کے امتِ مسلمہ کے دل پر وارکیا تھا، لیکن پوری دنیا میں اس عمل کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

اسی تسلسل میں اگر ٹرمپ یا اس کے حمایتی حلقے مسلمان ممالک کی افواج کو امن یا نگرانی کے نام پر غزہ بھیجنے کا حکم دیں، تو اس کا مقصد مزاحمتی قوتوں کو غیر مسلح اور فلسطینی عزم کو توڑنا ہوگا۔ ماضی میں بھی عراق، افغانستان، شام اور لیبیا میں اتحادی افواج کے نام پر مسلمان ممالک کے فوجی استعمال کیے گئے جس کے نتیجے میں استعماری ایجنڈے کو تقویت ملی۔

لہٰذا امریکی صدرکے عزائم کو سمجھتے ہوئے مسلم دنیا کے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ کوئی بھی ایسا فیصلہ نہ کریں جس کے سبب نہ صرف فلسطین کاز کو نقصان پہنچتا ہو بلکہ مسلمانوں کی باہمی وحدت اور یکجہتی بھی متاثر ہوتی ہو۔

امریکی حکومت کا یہی ایجنڈا ہے کہ وہ مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنا چاہتی ہے۔کسی غیر مسلم یا استعماری قوت کے سیاسی ایجنڈے کے مطابق مسلمان افواج کا استعمال اسلامی وقار کے بھی منافی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ علماء اور مفتیان کرام اس عنوان سے کیا ارشاد فرمائیں گے؟

کیونکہ ترکیہ سمیت آذربائیجان اور انڈونیشیا تو پہلے ہی اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں ہیں، لٰہذا ان سے امید کم ہی نظر آتی ہے لیکن دیگر مسلم ممالک کو کیوں اس دلدل میں گھسیٹا جا رہا ہے؟ اگر مقصد فلسطینی عوام کی تحفظ و حمایت کے بجائے امریکی پالیسیوں کی تکمیل ہے، تو یہ عمل غلامی کے مترادف ہے، اگر مسلمان افواج کو غزہ اس نیت سے بھیجا جائے کہ وہ حماس یا فلسطینی مزاحمت کو کمزورکریں، تو یہ امتِ مسلمہ کی اخلاقی شکست ہوگی۔

ایسے فیصلے اسلام کے سیاسی استقلال، جہادی فلسفے اور امتِ واحدہ کے اصول کی نفی ہیں۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلمان افواج کا مقصد طاغوت کے حکم پر مظلوموں کو دبانا ہے یا ظالموں کو روکنا؟خلاصہ یہ ہے کہ دو سال تک غزہ میں مسلسل نسل کشی کی جاتی رہی لیکن مسلم و عرب دنیا کی افواج خاموش تماشائی بنی رہیں اور اب امریکی صدر ٹرمپ کے احکامات کو بجا لانے کے لیے غزہ میں پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک کی افواج کی تعیناتی کی بات کی جا رہی ہے اور جس کا مقصد بھی اسرائیلی غاصب افواج سے لڑنا نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس اسرائیلی اور امریکی مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔

انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اگر مسلمان حکمران اپنے عوام کے احساسات اور فلسطین کی حمایت کے بجائے امریکی دباؤ پر فیصلے کریں، تو یہ سیاسی غلامی کی علامت ہے، اگرکسی بھی فوجی اقدام میں سیاسی وفاداری کا مرکز واشنگٹن ہے، تو یہ امت کے لیے ذلت کا باعث ہے۔

امت کے علما، دانشوروں اور عوام کو ایسے’’ فریبِ امن‘‘ منصوبوں کو علمی و عوامی سطح پر بے نقاب کرنا چاہیے۔اگر واقعی مسلمان ممالک غزہ کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو پھر حقیقی مدد تب ہے جب مسلمان ممالک فلسطین کو اسلحہ، سفارتی حمایت، انسانی امداد اور سیاسی پشت پناہی فراہم کریں نہ کہ ان کے خلاف امن فوج کے نام پر جائیں۔

سعادت اُس میں ہے کہ مسلمان طاغوت کے سامنے جھکنے کے بجائے ظلم کے نظام کو بدلنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں، یہی قرآن کا پیغام، یہی محمد ﷺ کی سنت اور یہی فلسطین کی مزاحمت کا سبق ہے۔

متعلقہ مضامین

  • وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف کا پی کے ایل آئی کے جگر کی پیوندکاری کے 1000 کامیاب آپریشن پر اظہار تشکر
  • پی کے ایل آئی میں جگر کی پیوندکاری کے ایک ہزار آپریشن مکمل، وزیرِ اعظم کا اظہار تشکر
  • جب آپ رنز بناتے ہیں تو جیت کا یقین ہوتا ہے، بابر اعظم اور سلمان علی آغا کی دلچسپ گفتگو
  • غزہ میں امن فوج یا اسرائیلی تحفظ
  • آپریشن سندور کی ناکامی کے بعد بھارت نے ڈس انفارمیشن مہم شروع کی، وزیر اطلاعات
  • دہشتگردی کیخلاف سب متحد ہوں: شہباز شریف، سہیل آفریدی کو بھرپور تعاون کی پیشکش
  • پاکستان امن کا خواہاں ہے، ہر حال میں اپنی علاقائی سالمیت اور خود مختاری کا دفاع کرے گا:ترجمان دفتر خارجہ
  • پاکستان امن کا خواہاں ہے مگر اپنی خود مختاری اور عوام کے تحفظ کیلئے ہر اقدام اٹھائے گا: ترجمان دفتر خارجہ
  • وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے بیانات ملکی سلامتی کے منافی ہیں: خواجہ آصف  
  • حکومت پنجاب نے وزیر اعظم کے پروٹوکول کیلئے گاڑیاں فراہم کر دیں