محدث و مفسر امام ابن ماجہ رحمہ اللہ
اشاعت کی تاریخ: 1st, March 2025 GMT
پورا نام’’محمد بن یزید القزوینی‘‘ تھا، لیکن تاریخ میں ابن ماجہ کے نام سے زندہ و تابندہ ہیں. ایران کے مشہور شہرقزوین میں 209ہجری میں جنم لیا۔ ذوق سلیم اور شوق علم کے ساتھ پیدا ہوئے۔ شعور کی آنکھ کے کھلتے ہی اپنے تکمیل شوق کے لیے گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔عراق ،خراسان، حجاز، مصر اور شام کا سفر کیا اور ان تمام مقامات کے معتبر اساتذہ سے علم حدیث کے شوق کی تسلی و تشفی کی۔
جن میں محمد بن عبداللہ بن نمیر، علی بن محمد الطنافسی، محمد بن رمح المصری اور ابوبکر بن ابی شیبہ رحم اللہ علیہماشامل تھےجن کے کسب فیض سے سرفرازہوئے۔تقریباً ساڑھے چار سو احادیث کے راوی بنے۔ جن میں ضعیف احادیث بھی شامل ہیں جن پرعلمائے حدیث نے تنقید کی ہے.
صحاح ستہ میں آپ کی تصنیف’’ سنن ابن ماجہ‘‘ چھٹی کتاب کے طور پر شامل ہے۔ جسے بجا طور پر احادیث کے مستند ماخذ کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔سنن ابن ماجہ کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ اس میں بعض ایسی احادیث پائی جاتی ہیں جو دیگر کتب احادیث میں نہیں ہیں۔
امام ابن ماجہ مفسر قرآن بھی تھے مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ ان کی لکھی ہوئی تفسیر مرور زمانہ کے ساتھ ناپید ہوتی چلی گئی، اسی طرح تاریخ کے حوالے سے ترتیب دی ہوئی ان کی ایک تصنیف بھی وقت کے ساتھ کامل محفوظ نہ رہ سکی ۔ آپ کی مذکورہ کتاب میں محدثین اور دیگر کئی اسلامی شخصیات کے سوانحی خاکے، حالات زندگی اور مقام و مرتبہ سے متعلق تفصیلات بلکہ ان کی جرح و تعدیل کے بارے بھی معلومات درج تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بعض بہت مشہور و معروف فقہا، محدثین اور جید اساتذہ حدیث کے واقعات اور ان کی علمی خدمات کا تذکرہ بھی شامل تھا۔ بہرحال یہ کتاب مکمل محفوظ نہیں رہی مگر دیگر محدثین کی کتب میں اس کے اقتباسات اور حوالے مل جاتے ہیں۔
امام ابن ماجہ کو تحقیق حدیث میں انتہائی اہم کردار کا حامل گردانا جاتا تھا کیونکہ انہوں نے احادیث کی تدوین کا کام بہت محنت اور لگن سے سرانجام دیا۔ یہی وجہ ہے کہ عالم اسلام میں ان کی سنن کو دیگر محدثین کے مقابلے میں منفرد مقام حاصل ہے۔
امام نے روایات کی درستی کے اصولوں پر دیدہ ریزی سے کام کیا جسے ان کے معاصر محدثین ہی نہیں بعد ازاں علم حدیث پر کام کرنے والے علمائے حدیث نے ان کی توصیف کی۔
امام ذہبی اور امام ابن حجر عسقلانی نے انہیں بہت سراہا ہے اور ان کے علمی ورثے کو تاریخی قرار دیا ہے۔ امام ابن ماجہ کی عزت و عظمت کو ان کی موجودگی ہی میں تسلیم کیا گیا اور ان کی انفرادیت پر مہر تصدیق ثبت کی گی۔ یہ اس وقت اور زمانے ہی کی بات نہیں بلکہ آج بھی عالم اسلام کے مدارس اور جامعات میں ان کی حدیث کی کتب کو بنیادی مصدر کی حیثیت حاصل ہے۔
جیسا کہ پیچھے ذکر ہوا کہ امام ذہبی نے امام ابن ماجہ کی علمی خدمات کا وسعت قلب سے اعتراف کیا اور انہیں ایک اعلی مرتبت محدث قرار دیا، اسی طرح حافظ ابن حجر عسقلانی نے اپنی تصنیف ’’تقریب التہذیب‘‘ میں لکھا کہ ’’ امام ابن ماجہ صدوق یعنی قابل اعتماد محدث ہیں لیکن ان کی سنن میں بعض ضعیف اور موضوع احادیث بھی شامل ہیں‘‘۔
امام ابن کثیر نے ابن ماجہ کو جید اور معتبر محدث سے تعبیر کیا۔ ماہر علم رجال امام یحییٰ بن معین نے ان کے بارے میں فرمایا کہ ’’ وہ حدیث میں ثقہ اور معتبر ہیں‘‘ امام ابو عبداللہ الحاکم نے کہا کہ ’’امام ابن ماجہ کی کتاب میں منفرد اور نایاب احادیث موجود ہیں‘‘ امام ابو الحسن المقدسی نے کہا کہ ’’بعض دیگر محدثین کی کتب زیادہ مستند تھیں‘‘ تاہم بعد میں انہوں نے بھی تسلیم کر لیا کہ ’’ محدثین نے ابن ماجہ کو صحاح ستہ میں شامل کرکے اچھا کیا‘‘۔
اس میں مطلق شک نہیں کہ ’’سنن‘‘ ابن ماجہ پر ہر دور میں تنقید ہوتی رہی، خصوصاً ان کے ضعیف احادیث موضوع بحث رہیں، مگر مجموعی طور پر محدثین کی رائے امام ابن ماجہ رحمت اللہ علیہ کے بارے میں متوازن اور معتدل رہی اور علمی حلقوں میں آج بھی ان کے کام کوتحسین کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور انہیں ایک معتبر محدث اور مفسر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے. محدثین اور علما ء امت میں انہیں اعلیٰ عزت ومقام سے پکارا جاتا ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ابن ماجہ کی کے ساتھ جاتا ہے اور ان
پڑھیں:
جامعۃ النجف سکردو میں جشن صادقین (ع) و محفل مشاعرہ
اسلام ٹائمز: محفل کے مہمانِ خصوصی ڈاکٹر محمد یعقوب بشوی نے اپنے خطاب میں کہا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ قرآن مجید کا عملی پیکر ہے۔ قرآن ہی وہ منشور ہے، جو پوری انسانیت کے لیے ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ شعر و ادب میں قرآنی روح جھلکنی چاہیئے، تاکہ یہ محض الفاظ کا کھیل نہ رہے بلکہ نسلوں کی رہنمائی کرے۔ انہوں نے امام محمد باقر علیہ السلام کی روایت نقل کی کہ جو ہماری شان میں ایک شعر کہے، اللہ تعالیٰ جنت میں اس کے لیے گھر عطا فرماتا ہے۔ رپورٹ: علی احمد نوری، سکردو بلتستان
جامعۃ النجف سکردو میں ولادت باسعادت حضرت ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی مناسبت سے نہایت شایانِ شان جشن صادقینؑ اور پررونق محفل مشاعرہ کا انعقاد ہوا۔ اس پرنور محفل میں علم و ادب کی خوشبو، تلاوت و منقبت کی صدائیں اور معرفت و عقیدت کے رنگ ایک ساتھ سمٹ آئے۔ تقریب کی صدارت جامعہ کے پرنسپل جید عالم دین اور مترجم حجت الاسلام شیخ محمد علی توحیدی نے کی، جبکہ مہمانِ خصوصی کے طور پر معروف محقق اور مصنف حجت الاسلام ڈاکٹر محمد یعقوب بشوی شریک ہوئے۔
تقریب کا آغاز گروہ قراء جامعۃ النجف کی تلاوتِ کلام پاک سے ہوا، جس نے سامعین کے دلوں کو منور کر دیا۔ اس کے بعد نعتِ رسولِ مقبولؐ مولانا معراج مدبری اور ہمنوا نے عقیدت و محبت کے ساتھ پیش کی۔ ننھے منقبت خواں عدن عباس اور دیباج عباس نے اپنی معصوم آوازوں میں نذرانۂ عقیدت پیش کرکے حاضرین کو مسحور کر دیا۔ مشاعرے کے سلسلے میں ایک کے بعد ایک خوشبو بکھیرتے شعراء کرام نے محفل کو چار چاند لگا دیئے۔
جامعہ کے فارغ التحصیل اور معروف شاعر مولانا زہیر کربلائی نے اپنے معیاری اور پُراثر کلام سے داد تحسین وصول کی۔ طالب علم عقیل احمد بیگ نے بلتی زبان میں قصیدہ پڑھ کر سامعین کو ایک روحانی کیفیت سے ہمکنار کیا۔ نوجوان شاعر عاشق ظفر نے بارگاہِ رسالت میں معرفت سے بھرپور اشعار پیش کیے۔ معروف قصیدہ خواں مبشر بلتستانی نے بلتی قصیدہ سادہ مگر پرخلوص لہجے میں سنایا۔ رثائی ادب کے شناسا اور نوحہ نگاری کی دنیا کے معتبر نام عارف سحاب نے بھی اپنے پُراثر اشعار کے ذریعے محفل کو رنگین بنایا۔ جامعہ کے ہونہار طالب علم محمد افضل ذاکری نے بارگاہِ حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا میں منقبت پیش کی۔ شاعرِ چہار زبان سید سجاد اطہر موسوی نے معرفت آمیز اشعار پیش کیے جنہیں سامعین نے بےحد سراہا۔
محفل کے مہمانِ خصوصی ڈاکٹر محمد یعقوب بشوی نے اپنے خطاب میں کہا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ قرآن مجید کا عملی پیکر ہے۔ قرآن ہی وہ منشور ہے، جو پوری انسانیت کے لیے ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ شعر و ادب میں قرآنی روح جھلکنی چاہیئے، تاکہ یہ محض الفاظ کا کھیل نہ رہے بلکہ نسلوں کی رہنمائی کرے۔ انہوں نے امام محمد باقر علیہ السلام کی روایت نقل کی کہ جو ہماری شان میں ایک شعر کہے، اللہ تعالیٰ جنت میں اس کے لیے گھر عطا فرماتا ہے۔ صدرِ محفل شیخ محمد علی توحیدی نے آخر میں اپنے عمیق اور ادبی اشعار کے ذریعے محفل کو معرفت کے ایک اور جہان میں داخل کر دیا۔ انہوں نے تمام شرکاء اور شعراء کرام کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ یہ محافل نہ صرف جشن ولادت ہیں بلکہ ایک تعلیمی اور فکری نشست بھی ہیں۔
اختتام پر جامعہ کے فارغ التحصیل مولانا سید امتیاز حسینی نے دعائے امام زمانہ علیہ السلام کی سعادت حاصل کی، جس کے ساتھ یہ پرنور محفل اپنے اختتام کو پہنچی۔ اس عظیم الشان تقریب کے نظامت کے فرائض اردو اور بلتی زبان کے معروف شاعر و استاد جامعہ شیخ محمد اشرف مظہر نے انجام دیئے، جنہوں نے اپنے شایستہ اور پُراثر انداز سے محفل کو مربوط رکھا۔ یہ محفل، جس میں علم و ادب، نعت و منقبت اور معرفت و عقیدت کے سب رنگ جلوہ گر تھے، سکردو کی علمی و ثقافتی فضا میں ایک خوشگوار اضافہ ثابت ہوئی۔