Daily Ausaf:
2025-06-09@16:25:35 GMT

محدث و مفسر امام ابن ماجہ رحمہ اللہ

اشاعت کی تاریخ: 1st, March 2025 GMT

پورا نام’’محمد بن یزید القزوینی‘‘ تھا، لیکن تاریخ میں ابن ماجہ کے نام سے زندہ و تابندہ ہیں. ایران کے مشہور شہرقزوین میں 209ہجری میں جنم لیا۔ ذوق سلیم اور شوق علم کے ساتھ پیدا ہوئے۔ شعور کی آنکھ کے کھلتے ہی اپنے تکمیل شوق کے لیے گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔عراق ،خراسان، حجاز، مصر اور شام کا سفر کیا اور ان تمام مقامات کے معتبر اساتذہ سے علم حدیث کے شوق کی تسلی و تشفی کی۔
جن میں محمد بن عبداللہ بن نمیر، علی بن محمد الطنافسی، محمد بن رمح المصری اور ابوبکر بن ابی شیبہ رحم اللہ علیہماشامل تھےجن کے کسب فیض سے سرفرازہوئے۔تقریباً ساڑھے چار سو احادیث کے راوی بنے۔ جن میں ضعیف احادیث بھی شامل ہیں جن پرعلمائے حدیث نے تنقید کی ہے.

۔
صحاح ستہ میں آپ کی تصنیف’’ سنن ابن ماجہ‘‘ چھٹی کتاب کے طور پر شامل ہے۔ جسے بجا طور پر احادیث کے مستند ماخذ کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔سنن ابن ماجہ کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ اس میں بعض ایسی احادیث پائی جاتی ہیں جو دیگر کتب احادیث میں نہیں ہیں۔
امام ابن ماجہ مفسر قرآن بھی تھے مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ ان کی لکھی ہوئی تفسیر مرور زمانہ کے ساتھ ناپید ہوتی چلی گئی، اسی طرح تاریخ کے حوالے سے ترتیب دی ہوئی ان کی ایک تصنیف بھی وقت کے ساتھ کامل محفوظ نہ رہ سکی ۔ آپ کی مذکورہ کتاب میں محدثین اور دیگر کئی اسلامی شخصیات کے سوانحی خاکے، حالات زندگی اور مقام و مرتبہ سے متعلق تفصیلات بلکہ ان کی جرح و تعدیل کے بارے بھی معلومات درج تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بعض بہت مشہور و معروف فقہا، محدثین اور جید اساتذہ حدیث کے واقعات اور ان کی علمی خدمات کا تذکرہ بھی شامل تھا۔ بہرحال یہ کتاب مکمل محفوظ نہیں رہی مگر دیگر محدثین کی کتب میں اس کے اقتباسات اور حوالے مل جاتے ہیں۔
امام ابن ماجہ کو تحقیق حدیث میں انتہائی اہم کردار کا حامل گردانا جاتا تھا کیونکہ انہوں نے احادیث کی تدوین کا کام بہت محنت اور لگن سے سرانجام دیا۔ یہی وجہ ہے کہ عالم اسلام میں ان کی سنن کو دیگر محدثین کے مقابلے میں منفرد مقام حاصل ہے۔
امام نے روایات کی درستی کے اصولوں پر دیدہ ریزی سے کام کیا جسے ان کے معاصر محدثین ہی نہیں بعد ازاں علم حدیث پر کام کرنے والے علمائے حدیث نے ان کی توصیف کی۔
امام ذہبی اور امام ابن حجر عسقلانی نے انہیں بہت سراہا ہے اور ان کے علمی ورثے کو تاریخی قرار دیا ہے۔ امام ابن ماجہ کی عزت و عظمت کو ان کی موجودگی ہی میں تسلیم کیا گیا اور ان کی انفرادیت پر مہر تصدیق ثبت کی گی۔ یہ اس وقت اور زمانے ہی کی بات نہیں بلکہ آج بھی عالم اسلام کے مدارس اور جامعات میں ان کی حدیث کی کتب کو بنیادی مصدر کی حیثیت حاصل ہے۔
جیسا کہ پیچھے ذکر ہوا کہ امام ذہبی نے امام ابن ماجہ کی علمی خدمات کا وسعت قلب سے اعتراف کیا اور انہیں ایک اعلی مرتبت محدث قرار دیا، اسی طرح حافظ ابن حجر عسقلانی نے اپنی تصنیف ’’تقریب التہذیب‘‘ میں لکھا کہ ’’ امام ابن ماجہ صدوق یعنی قابل اعتماد محدث ہیں لیکن ان کی سنن میں بعض ضعیف اور موضوع احادیث بھی شامل ہیں‘‘۔
امام ابن کثیر نے ابن ماجہ کو جید اور معتبر محدث سے تعبیر کیا۔ ماہر علم رجال امام یحییٰ بن معین نے ان کے بارے میں فرمایا کہ ’’ وہ حدیث میں ثقہ اور معتبر ہیں‘‘ امام ابو عبداللہ الحاکم نے کہا کہ ’’امام ابن ماجہ کی کتاب میں منفرد اور نایاب احادیث موجود ہیں‘‘ امام ابو الحسن المقدسی نے کہا کہ ’’بعض دیگر محدثین کی کتب زیادہ مستند تھیں‘‘ تاہم بعد میں انہوں نے بھی تسلیم کر لیا کہ ’’ محدثین نے ابن ماجہ کو صحاح ستہ میں شامل کرکے اچھا کیا‘‘۔
اس میں مطلق شک نہیں کہ ’’سنن‘‘ ابن ماجہ پر ہر دور میں تنقید ہوتی رہی، خصوصاً ان کے ضعیف احادیث موضوع بحث رہیں، مگر مجموعی طور پر محدثین کی رائے امام ابن ماجہ رحمت اللہ علیہ کے بارے میں متوازن اور معتدل رہی اور علمی حلقوں میں آج بھی ان کے کام کوتحسین کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور انہیں ایک معتبر محدث اور مفسر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے. محدثین اور علما ء امت میں انہیں اعلیٰ عزت ومقام سے پکارا جاتا ہے۔

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ابن ماجہ کی کے ساتھ جاتا ہے اور ان

پڑھیں:

حضرت ابراہیم (ع) رہتی دنیا تک انسانیت کے امام، رہبر اور رہنما رہینگے، علامہ مقصود ڈومکی

عید کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام الٰہی امتحانات میں صبر و استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے امامت کے عظیم منصب پر فائز ہوئے۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری نشر و اشاعت علامہ مقصود علی ڈومکی نے عید قربان کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہؑ کی بے مثال قربانی کو آج بھی دنیا بھر میں سلامِ عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔ آپؑ نے خدائے واحد کی رضا کے لیے اپنی سب سے عزیز ہستی کو راہِ خدا میں قربان کرنے کا عزم کیا، جو ایثار، اخلاص اور توحید کی اعلیٰ مثال ہے۔ انہوں نے کہا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام الٰہی امتحانات میں صبر و استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے امامت کے عظیم منصب پر فائز ہوئے۔ آپؑ رہتی دنیا تک انسانیت کے امام، رہبر اور رہنما رہیں گے۔ آج دنیا بھر کے مسلمان ابراہیمی سنت پر عمل کرتے ہوئے قربانی پیش کر رہے ہیں، اور لاکھوں حجاج کرام حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی پکار پر "لبیک اللھم لبیک" کی صدائیں بلند کر رہے ہیں۔

علامہ ڈومکی نے امت مسلمہ سے اپیل کی کہ وہ فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کو عید کے موقع پر یاد رکھیں کہ جن پر عید کے دن بھی ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ غاصب اسرائیل نے عید کے دن 42 فلسطینیوں کو شہید کیا جبکہ روزانہ کی بنیاد پر نہتے فلسطینی عوام کو شہید اور زخمی کیا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں ہماری عید حقیقی تب ہوگی جب غاصب صیہونی ریاست کا خاتمہ ہو۔ ہم اپنی عید کی خوشیاں شہداء فلسطین کے نام منسوب کر رہے ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین جنوبی بلوچستان کے رہنما سید گلزار علی شاہ کی قیادت میں علامہ مقصود علی ڈومکی سے ملاقات کی اور عید کی مبارکباد دی۔ اس موقع پر علامہ صاحب نے کہا کہ ہم فلسطین، یمن، کشمیر اور دنیا بھر کے مظلومین کی حمایت کو اپنا دینی و اخلاقی فریضہ سمجھتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی امامِ کعبہ شیخ ڈاکٹر عبدالرحمٰن السدیس سے ملاقات
  • سکردو، تحریک بیداری کے زیر اہتمام امام خمینی کی برسی
  • حضرت ابراہیم (ع) رہتی دنیا تک انسانیت کے امام، رہبر اور رہنما رہینگے، علامہ مقصود ڈومکی
  • امام خمینی کا نام مظلوموں کے دفاع، استقامت کی علامت ہے، مولانا ہدایت الرحمٰن
  • ملتان، امام خمینی رضوان اللہ علیہ کی برسی 
  • مشہد مقدس، ایم ڈبلیو ایم کے زیراہتمام تقریب 
  • ملتان، خانہ فرہنگ اسلامی جمہوریہ کے زیراہتمام امام خمینی رضوان اللہ علیہ کی برسی کا انعقاد
  • ڈیرہ اسماعیل خان، برسی امام خمینی
  • ڈیرہ، ایس یو سی کے زیراہتمام برسی امام خمینی
  • کوہاٹ، امامیہ علماء کونسل کے زیراہتمام برسی امام خمینی