Express News:
2025-11-03@06:06:46 GMT

ہاتھ نہ ملاؤ فیلڈ میں ہراؤ

اشاعت کی تاریخ: 19th, September 2025 GMT

DUBAI:

میچ نہیں ہورہا، اب آپ سب اپنے کمروں میں جا سکتے ہیں,, ٹیم مینجمنٹ  نے جب یہ کہا تو تمام پاکستانی کھلاڑیوں کے چہرے اتر گئے، وہ یو اے ای کرکٹ کھیلنے آئے ہیں اور کوئی نہیں چاہتا تھا کہ ایشیا کپ میں  مہم کا ایسے اختتام ہو  لیکن حکام کی بات تو ماننا ہی تھی۔ 

اسی لمحے بورڈ کی جانب سے  میڈیا کو واٹس ایپ  پیغام بھیجا گیا کہ فوری طور پر پریس کانفرنس کے لیے قذافی اسٹیڈیم پہنچ جائیں، ٹی وی چینلز والے  براہ راست نشریات کیلیے ڈی ایس این جی بھی ساتھ لائیں،میچ کا وقت بھی نزدیک آ گیا اور ٹیم ہوٹل میں ہی موجود تھی، حالانکہ پہلے سامان بس میں رکھ کر کھلاڑیوں  کو انتظار کرنے کا کہا گیا تھا۔ 

اس وقت پاکستان کیلیے ایشیا کپ ختم ہو چکا تھا، اس دوران بورڈ حکام کی آئی سی سی کے ساتھ زوم میٹنگ جاری رہی جس کا مثبت نتیجہ سامنے نہ آسکا، کونسل کی سربراہی بھارت کے جے شاہ نے سنبھالی ہوئی ہے، دیگر اہم پوزیشنز پر بھی انھوں نے اپنے ہم وطنوں کو رکھا۔ 

پاکستان کا اعتراض میچ ریفری اینڈی پائی کرافٹ پر تھا جنھوں نے  کپتان سلمان علی آغا کو بھارتی قائد سے ہاتھ نہ ملانے کا کہا، وہ واضح طور پر بی سی سی  آئی کی سہولت کاری کرتے نظر آئے، اسی لیے پی سی بی انھیں ریفری کی ذمہ داریوں سے الگ کرنا چاہتا تھا۔ 

اگر جے شاہ ایسا کرتے تو ان کو ابو امیت شاہ سے ڈانٹ پڑتی اور دیش دروھی (غدار) کا لقب بھی مل جاتا، دوسری جانب پی سی بی نے باتیں بہت کر دی تھیں اگر پیچھے ہٹتا تو سبکی ہوتی۔ 

اس معاملے میں آئی سی سی کے جنرل منیجر وسیم خان بھی خاصے متحرک رہے، ان کی نوکری ویسے ہی خطرے میں ہے لہذا انھیں خود کو نیوٹرل ثابت کرنا تھا، کونسل کے پاس سادہ آپشن تھا کہ پاکستان سے میچز میں  پائی کرافٹ کا تقرر نہ کرتی۔

مگر جے شاہ نے ایسا نہ ہونے دیا، یوں  ریفری کو ایونٹ سے ہٹانا تو دور کی بات رہی وہی پاک یو اے ای میچ میں بھی خدمات نبھاتے نظر آئے، معاملہ معافی تلافی پر ختم ہو گیا۔ 

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر ایسا ہی کرنا تھا تو پی سی بی نے اتنی تاخیر کیوں کی پہلے ہی بات مان لیتا، میچ ایک گھنٹے تاخیر کے بجائے وقت پر شروع ہوجاتا اور ٹینشن بھی نہ رہتی۔ 

اطلاعات یہی ہیں کہ بورڈ  بائیکاٹ کی بات پر سنجیدہ تھا، قانونی داؤ پیچ کے ماہر ایک آفیشل یہی مشورہ دے رہے تھے، البتہ جب محسن نقوی نے رمیز راجہ اور نجم سیٹھی کو مشاورت کیلیے بلایا تو انھوں نے کہا کہ میچ نہ کھیلنا درست نہیں ہو گا اس کے پاکستان کرکٹ پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، لہذا فیلڈ میں مقابلہ کریں اور  ریفری کی معافی و تحقیقات والی پیشکش قبول کر لیں۔ 

آخرکار ایسا ہی ہوا، کھلاڑی بس میں بیٹھ کر ہوٹل سے اسٹیڈیم روانہ ہوئے ، پھر میچ کا انعقاد کیا گیا اور پاکستان فتح حاصل کر کے سپرفور میں پہنچ گیا۔ 

اس تنازع کا ٹیم پر منفی اثر پڑا، کھلاڑی غیریقینی کا شکار رہے، اس سے یہ باتیں بھی ہونے لگی تھیں کہ کہیں ذہنی دباؤ کی وجہ سے یو اے ای کیخلاف بھی شکست نہ ہو جائے لیکن شکر ہے بیٹنگ میں اوسط درجے کی  کارکردگی کے باوجود فتح مل گئی۔ 

اس تنازع سے ثابت ہو گیا کہ محسن نقوی کو اپنی ٹیم میں چند باصلاحیت آفیشلز کا تقرر کرنا  ہوگا،  سی او او سمیر سید کو کرکٹ کی بالکل سمجھ نہیں، سلمان نصیر ہر معاملے کو لیگل کی طرف لے جاتے ہیں،وہاب ریاض جس لیول کے کرکٹر رہے منتظم بھی ویسے ہی ہیں، توجہ اب بھی لیگز کھیلنے پر ہی رہتی ہے۔ 

اگر اپنے اردگرد درست لوگ ہوتے تو شاید رمیز یا نجم سیٹھی کو نہ بلانا پڑتا، دبئی میں  جب  ٹیم نے دیکھ لیا کہ بھارتی ہاتھ ملانے کے موڈ میں نہیں ہیں تو کھلاڑی خود پیچھے ہٹ جاتے۔ 

بھارت جنگ ہارا ہوا ہے ، رافیل سمیت 6 طیارے کھوئے ہیں، اسے جگ ہنسائی کا سامنا ہے لہذا وہ کرکٹ کو ڈھال بنا کر اپنی عوام کی توجہ بھٹکانا چاہتا ہے،اس تنازع کو درست انداز میں نہ سنبھالنے میں پاکستانی ٹیم مینجمنٹ بھی قصور وار ہے، نوید اکرم چیمہ کو اب آرام کرنا چاہیے۔ 

اب  نہ ماضی جیسے کرکٹرز ہیں نہ وہ دور کہ کرفیو ٹائم لگا دو ایسا کر دو ویسا کر دو، جب  فیصلہ ہو گیا تھا کہ تقریب تقسیم انعامات کا بائیکاٹ کرنا ہے اور سلمان علی آغا نہیں گئے تو شاہین آفریدی کو زیادہ چھکوں کا ایوارڈ لینے کیوں بھیجا؟

ہاتھ نہ ملانے کی شکایت سے زیادہ ضروری بات  سوریا کمار یادو کی جانب سے انٹرویو میں پہلگام واقعے  اور اپنی افواج کا ذکر تھا، اسے کیوں ہائی لائٹ نہ کیا؟ تاخیر سے خط کیوں بھیجا؟ 

ڈائریکٹر انٹرنیشنل عثمان واہلہ کو تو معطل کر دیا گیا لیکن کیا وہ اکیلے اس سب کے ذمہ دار ہیں؟  ان تمام امور پر بورڈ کو غور کرنے کی ضرورت ہے، ایک اچھے سی ای او کو لائیں جو کرکٹ کے معاملات کو سمجھتا ہو، چیئرمین کی دیگر مصروفیات بھی ہیں، ایسے میں اتنا قابل شخص بورڈ میں ہونا چاہیے جو ان کی عدم موجودگی میں بھی بورڈ کو سنبھال سکے۔ 

بھارت جنگ کی اپنی سبکی  کم کرنے کیلیے ایسے ہی منفی ہتھکنڈے آزمائے گا، ان کا میڈیا تو جھوٹوں کا بادشاہ ہے،جنگ میں بھی کیسے کیسے شگوفے چھوڑے تھے اب بھی یہی کر رہا ہے، آگ بھڑکانے میں اس کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے، اب بھی یہ باتیں شروع کردیں کہ بھارتی کپتان  محسن نقوی سے ٹرافی وصول نہیں کریں گے، ارے پہلے جیت تو جاؤ پھر یہ باتیں کرنا۔

رپورٹس میں یہ بھی کہا گیا کہ پائی کرافٹ نے کوئی معافی نہیں مانگی، اگر ایسی بات ہے تو ریفری کیوں خاموش ہیں،آئی سی سی نے کیوں تردید نہ کی؟ اس سے مضحکہ خیز بات کیا ہوگی کہ پاکستانی ٹیم شرٹ کی کوالٹی تک پر اسٹوری کر دی گئی۔ 

حیرت اس بات کی ہے کہ بھارتیوں کا آئی کیو لیول کس حد تک لو ہے ،وہ یہ نہیں سمجھ پا رہے کہ جنگ ہارنے پر مودی حکومت انھیں بے وقوف بناتے ہوئے نیا چورن بیچ رہی ہے، خیر یہ سب شرارتیں چلتی رہیں گی ہمیں  یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہار جیت کرکٹ کا حصہ ہے۔

البتہ فائٹ ضرور کریں،اگلے میچ میں ان سے ہاتھ نہ ملائیں بلکہ فیلڈ میں ہرائیں، بھارتیوں کو جتنا اگنور کریں گے اتنا ہی  وہ تڑپیں گے آپ ان کے جال میں نہ پھنسیں صرف اپنے کام پر توجہ دیں۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہاتھ نہ

پڑھیں:

جو کام حکومت نہ کر سکی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251103-03-8

 

آصف محمود

کسی کا بھٹو زندہ ہے، کسی کا ببر شیر دھاڑ رہا ہے، کوئی چشم تصور میں عشق عمران میں مارے جانے پر نازاں ہے، ایسے میں ایک جماعت اسلامی ہے جس نے نوجوانوں کے ہاتھوں میں بنو قابل کی صورت امید کا دیا تھما رکھا ہے۔ کیا اس مبارک کام کی تعریف میں صرف اس لیے بخل سے کام لیا جائے کہ یہ جماعت اسلامی والے کر رہے ہیں اور جماعتیوں کے بارے میں کلمہ خیر کہنا سکہ رائج الوقت نہیں ہے؟ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی پر تو حیرت ہوتی ہے۔ ان کو اگر اس ملک میں سیاست کرنی ہے تو وہ نوجوانوں سے اس درجے میں لاتعلق کیوں ہیں۔ اب آ کر مریم نواز صاحبہ نے بطور وزیر اعلیٰ نئی نسل سے کچھ رابطے بڑھائے ہیں اور انہیں اپنا مخاطب بنایا ہے ورنہ مسلم لیگ تو یوں لگتا تھا کہ اب بس بزرگوں کی جماعت ہے اور چراغ سحر ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا بھی یہی حال ہے۔ بلاول زرداری نوجوان قیادت ضرور ہیں لیکن وہ آج تک نوجوانوں کو اپنا مخاطب نہیں بنا سکے۔ پیپلز پارٹی کے سیاسی بیانیے میں ایسا کچھ بھی نہیں جس میں نئی نسل کے لیے کوئی کشش ہو۔ دائو پیچ کی سیاست کی ہنر کاری سے کسی بھی جماعت کے لوگ توڑ کر پیپلز پارٹی میں ضررو شامل کیے جا سکتے ہیں لیکن اس سے پارٹی میں کوئی رومان قائم نہیں کیا جا سکتا اور رومان کے بغیر سیاسی جماعت کی حیثیت ہجوم سے زیادہ نہیں ہوتی۔ نئی نسل کو صرف تحریک انصاف نے اپنا مخاطب بنایا ہے۔ اس نے جوانوں کو نفرت کرنا سکھایا ہے۔ ان میں رد عمل، اشتعال اور ہیجان بھر دیا ہے۔ ان کو کوئی درست فکری سمت دینے کے بجائے ان کی محرومیوں کو مائنڈ گیم کا ایندھن بناتے

ہوئے انہیں زہر کی دلدل میں پھینک دیا ہے۔ اس کی عملی شکل سوشل میڈیا پر دیکھ لیجیے۔ نوجوان تعمیری گفتگو کی طرف کم ہی راغب ہوتے ہیں۔ ہیجان، نفرت، گالم گلوچ، اندھی عقیدت، پاپولزم، کیسے کیسے عارضے قومی وجود سے لپٹ چکے ہیں۔ دو فقروں کے بعد یہ باشعور مخلوق ہانپنے لگتی ہے اور پھر چھلانگ لگا کر نتیجے پر پہنچتی ہے اور نتیجہ کیا ہے: باقی سب چور ہیں، ایک اکیلا کپتان دیانت دار ہے اور وہ پاکستانی سیاست کا آخری ایماندار ہے اوپر سے ہنڈ سم سا بھی ہے تو بس اس کے بعد قیامت ہے۔ عمران ہی سب کچھ ہے، گندم کی فصل بھی اگر وقت پر تیار ہو جائے تو یہ عمران خان کے ویژن کا کمال ہے اور جون میں سورج کی تپش اگر تکلیف دے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ باقی سب چور ہیں۔ نوجوان ہی تحریک انصاف ہی قوت ہیں اوور ان ہ کا فکری استحصال کر کے اس کی رونقیں قائم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان نوجوانوں کے لیے تحریک انصاف نے کیا کام کیا؟ مرکز میں بھی اس کی حکومت رہی اور خیبر پختون خوا صوبے میں تو تسلسل سے اس کی حکومت رہی، اس سارے دورانیے میں تحریک انصاف کی حکومت نے نوجوانوں کے لیے کیا کیا؟ چنانچہ آج بھی نوجوانوں کا ابرار الحق صاحب کے ساتھ مل کر بس کپتان خاں دے جلسے اچ نچنے نوں جی کردا۔ اس کے علاوہ کوئی سرگرمی انہیں دی جائے تو ان کا دل کرے کہ وہ کچھ اور بھی کریں۔ نوجوانوں کو مائنڈ گیم کی مہارت سے الگوردم کے کمالات سے اور عشروں تک کی سرپرستانہ مارکیٹنگ کے طفیل کھائی کی سمت دھکیل دیا گیا ہے۔ وہ جلسوں کا ایندھن بھی بنتے ہیں۔ احتجاجوں میں قانون ہاتھ میں لیتے ہیں اور پھر جیلوں میں جا پہنچتے ہیں تو قیادت ان کی خیر خبر لینے بھی نہیں آتی۔ جوانوں کو مسلسل ریاست کی انتظامی قوت سے الجھائے رکھا گیا، لیکن یہ اہتمام کیا گیا کہ یہ نوجوان دوسروں کے گھرانے کے ہوں۔ قیادت کے اپنے بچے کسی احتجاج میں شریک نہیں ہوئے۔ مائنڈ گیم کی مہارت غریب کے بچوں پر استعمال کی گئی، اپنے بچوں پر نہیں۔ اپنی طرف تو مزے ہی مزے ہیں۔ نئی کابینہ ہی کو دیکھ لیجیے، عمر ایوب خان کا چچازاد بھائی بھی وزیر بنا لیا گیا ہے، اسد قیصر کے چھوٹے بھائی جان بھی وزیر بنا دیے گئے ہیں۔ شہرام ترکئی کے بھائی جان کو بھی وزارت دے دی گئی ہے۔ نوجوان اگر تحریک انصاف کے ساتھ تھے تو تحریک انصاف کو ان کے ساتھ خیر خواہی دکھانی چاہے تھی۔ ان کے لیے کوئی منصوبہ لانا چاہیے تھا۔ انہیں معاشرے کا مفید شہری بننے میں سہولت فراہم کرنی چاہیے تھی۔ لیکن ایسا کچھ نہیںہو سکا۔ ایک زمانے میں ایک ٹائیگر فورس بنی تھی، آج تک کسی کو معلوم نہیں کہ سماج کی بہتری کے لیے اس فورس کی کارکردگی کیا رہی اور یہ فورس اس وقت موجود بھی ہے یا نہیں۔ ایسے عالم میں، ایک جماعت اسلامی ہے جس نے نوجوانوں کو با مقصد سرگرمی کی طرف راغب کیا ہے۔ بنو قابل پروگرام کی تفصیلات قابل تحسین ہیں۔ یہ کام حکومتوں کے کرنے کا تھا جو جماعت اسلامی کر رہی ہے۔ آنے والے دور کے تقاضوں سے نوجوانوں کو ہم آہنگ کرنا حکومتوں اور وزارت تعلیم وغیرہ کے کرنے کا کام تھا، یہ ان کو دیکھنا چاہیے تھا کہ وقت کے تقاضے کیا ہیں اور نصاب میں کیا کیا تبدیلیاں کرنی چاہییں۔ حکومتوں کی مگر یہ ترجیحات ہی نہیں۔ ایسے میں الخدمت فائونڈیشن کا بنو قابل پروگرام ایک خوشگوار جھونکا ہے۔ جن نوجوانوں کو آئی ٹی کے کورسز کروائے جا رہے ہیں ان سب کا تعلق جماعت سے نہیں ہے۔ نہ ہی ان سے کوئی پوچھتا ہے کہ تمہارا تعلق کس جماعت سے ہے۔ 60 ہزار سے زیادہ نوجوان ان پروگرامز کو مکمل کر چکے ہیں۔ ان کی ایک ہی شناخت ہے کہ یہ پاکستانی ہیں۔ پروگرام کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ابتدائی ٹیسٹ میں آنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے۔ ڈیجیٹل مارکیٹنگ، ویب ڈیولپمنٹ، گرافک ڈیزائننگ، ویڈیو ایڈیٹنگ، ای کامرس ڈیولپمنٹ، سائبر سیکورٹی جیسے کئی پروگرامز کامیابی سے چل رہے ہیں۔ جن کی عملی افادیت ہے اور وہ نوجوانوں کو حصول روزگار میں مدد دے سکتے ہیں۔ الخدمت فائونڈیشن، نے ہمیشہ حیران کیا ہے۔ اس نے وہ قرض بھی اتارے ہیں جو اس پر واجب بھی نہیں تھے۔ جماعت اسلامی سے کسی کو سو اختلافات ہوں لیکن الخدمت دیار عشق کی کوہ کنی کا نام ہے۔ یہ اس ملک میں مسیحائی کا ہراول دستہ ہے۔ الخدمت فائونڈیشن اور جماعت اسلامی کا شکریہ اس سماج پر واجب ہے۔ (بشکریہ: 92 نیوز)

 

آصف محمود

متعلقہ مضامین

  • لینڈنگ کے وقت جہاز
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • امریکہ نے فیلڈ مارشل کی تعریفیں بہت کیں لیکن دفاعی معاہدہ ہندوستان کیساتھ کرلیا، پروفیسر ابراہیم
  • فیلڈ مارشل کو سلام، گلگت بلتستان کو ترقی کے تمام مواقع دیئے جائینگے: صدر زرداری
  • اسرائیلی وزیر کی ہاتھ بندھے، اوندھے منہ لیٹے فلسطینی قیدیوں کو قتل کی دھمکی؛ ویڈیو وائرل
  • میرا لاہور ایسا تو نہ تھا
  • فیلڈ مارشل ایوب خان کے پڑپوتے کے گھر چوری، سابق صدر کی یادگار اشیاء بھی غائب
  • تجدید وتجدّْد
  • پختونخوا میں جو امن قائم کیا وہ ہاتھ سے پھسلتا جارہا ہے، سابق وزیراعلیٰ گنڈاپور
  • زوبین گارگ کی اہلیہ نے شوہر کے ہاتھ سے لکھا ہوا آخری خط شیئر کردیا