ہاتھ نہ ملاؤ فیلڈ میں ہراؤ
اشاعت کی تاریخ: 19th, September 2025 GMT
DUBAI:
میچ نہیں ہورہا، اب آپ سب اپنے کمروں میں جا سکتے ہیں,, ٹیم مینجمنٹ نے جب یہ کہا تو تمام پاکستانی کھلاڑیوں کے چہرے اتر گئے، وہ یو اے ای کرکٹ کھیلنے آئے ہیں اور کوئی نہیں چاہتا تھا کہ ایشیا کپ میں مہم کا ایسے اختتام ہو لیکن حکام کی بات تو ماننا ہی تھی۔
اسی لمحے بورڈ کی جانب سے میڈیا کو واٹس ایپ پیغام بھیجا گیا کہ فوری طور پر پریس کانفرنس کے لیے قذافی اسٹیڈیم پہنچ جائیں، ٹی وی چینلز والے براہ راست نشریات کیلیے ڈی ایس این جی بھی ساتھ لائیں،میچ کا وقت بھی نزدیک آ گیا اور ٹیم ہوٹل میں ہی موجود تھی، حالانکہ پہلے سامان بس میں رکھ کر کھلاڑیوں کو انتظار کرنے کا کہا گیا تھا۔
اس وقت پاکستان کیلیے ایشیا کپ ختم ہو چکا تھا، اس دوران بورڈ حکام کی آئی سی سی کے ساتھ زوم میٹنگ جاری رہی جس کا مثبت نتیجہ سامنے نہ آسکا، کونسل کی سربراہی بھارت کے جے شاہ نے سنبھالی ہوئی ہے، دیگر اہم پوزیشنز پر بھی انھوں نے اپنے ہم وطنوں کو رکھا۔
پاکستان کا اعتراض میچ ریفری اینڈی پائی کرافٹ پر تھا جنھوں نے کپتان سلمان علی آغا کو بھارتی قائد سے ہاتھ نہ ملانے کا کہا، وہ واضح طور پر بی سی سی آئی کی سہولت کاری کرتے نظر آئے، اسی لیے پی سی بی انھیں ریفری کی ذمہ داریوں سے الگ کرنا چاہتا تھا۔
اگر جے شاہ ایسا کرتے تو ان کو ابو امیت شاہ سے ڈانٹ پڑتی اور دیش دروھی (غدار) کا لقب بھی مل جاتا، دوسری جانب پی سی بی نے باتیں بہت کر دی تھیں اگر پیچھے ہٹتا تو سبکی ہوتی۔
اس معاملے میں آئی سی سی کے جنرل منیجر وسیم خان بھی خاصے متحرک رہے، ان کی نوکری ویسے ہی خطرے میں ہے لہذا انھیں خود کو نیوٹرل ثابت کرنا تھا، کونسل کے پاس سادہ آپشن تھا کہ پاکستان سے میچز میں پائی کرافٹ کا تقرر نہ کرتی۔
مگر جے شاہ نے ایسا نہ ہونے دیا، یوں ریفری کو ایونٹ سے ہٹانا تو دور کی بات رہی وہی پاک یو اے ای میچ میں بھی خدمات نبھاتے نظر آئے، معاملہ معافی تلافی پر ختم ہو گیا۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر ایسا ہی کرنا تھا تو پی سی بی نے اتنی تاخیر کیوں کی پہلے ہی بات مان لیتا، میچ ایک گھنٹے تاخیر کے بجائے وقت پر شروع ہوجاتا اور ٹینشن بھی نہ رہتی۔
اطلاعات یہی ہیں کہ بورڈ بائیکاٹ کی بات پر سنجیدہ تھا، قانونی داؤ پیچ کے ماہر ایک آفیشل یہی مشورہ دے رہے تھے، البتہ جب محسن نقوی نے رمیز راجہ اور نجم سیٹھی کو مشاورت کیلیے بلایا تو انھوں نے کہا کہ میچ نہ کھیلنا درست نہیں ہو گا اس کے پاکستان کرکٹ پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، لہذا فیلڈ میں مقابلہ کریں اور ریفری کی معافی و تحقیقات والی پیشکش قبول کر لیں۔
آخرکار ایسا ہی ہوا، کھلاڑی بس میں بیٹھ کر ہوٹل سے اسٹیڈیم روانہ ہوئے ، پھر میچ کا انعقاد کیا گیا اور پاکستان فتح حاصل کر کے سپرفور میں پہنچ گیا۔
اس تنازع کا ٹیم پر منفی اثر پڑا، کھلاڑی غیریقینی کا شکار رہے، اس سے یہ باتیں بھی ہونے لگی تھیں کہ کہیں ذہنی دباؤ کی وجہ سے یو اے ای کیخلاف بھی شکست نہ ہو جائے لیکن شکر ہے بیٹنگ میں اوسط درجے کی کارکردگی کے باوجود فتح مل گئی۔
اس تنازع سے ثابت ہو گیا کہ محسن نقوی کو اپنی ٹیم میں چند باصلاحیت آفیشلز کا تقرر کرنا ہوگا، سی او او سمیر سید کو کرکٹ کی بالکل سمجھ نہیں، سلمان نصیر ہر معاملے کو لیگل کی طرف لے جاتے ہیں،وہاب ریاض جس لیول کے کرکٹر رہے منتظم بھی ویسے ہی ہیں، توجہ اب بھی لیگز کھیلنے پر ہی رہتی ہے۔
اگر اپنے اردگرد درست لوگ ہوتے تو شاید رمیز یا نجم سیٹھی کو نہ بلانا پڑتا، دبئی میں جب ٹیم نے دیکھ لیا کہ بھارتی ہاتھ ملانے کے موڈ میں نہیں ہیں تو کھلاڑی خود پیچھے ہٹ جاتے۔
بھارت جنگ ہارا ہوا ہے ، رافیل سمیت 6 طیارے کھوئے ہیں، اسے جگ ہنسائی کا سامنا ہے لہذا وہ کرکٹ کو ڈھال بنا کر اپنی عوام کی توجہ بھٹکانا چاہتا ہے،اس تنازع کو درست انداز میں نہ سنبھالنے میں پاکستانی ٹیم مینجمنٹ بھی قصور وار ہے، نوید اکرم چیمہ کو اب آرام کرنا چاہیے۔
اب نہ ماضی جیسے کرکٹرز ہیں نہ وہ دور کہ کرفیو ٹائم لگا دو ایسا کر دو ویسا کر دو، جب فیصلہ ہو گیا تھا کہ تقریب تقسیم انعامات کا بائیکاٹ کرنا ہے اور سلمان علی آغا نہیں گئے تو شاہین آفریدی کو زیادہ چھکوں کا ایوارڈ لینے کیوں بھیجا؟
ہاتھ نہ ملانے کی شکایت سے زیادہ ضروری بات سوریا کمار یادو کی جانب سے انٹرویو میں پہلگام واقعے اور اپنی افواج کا ذکر تھا، اسے کیوں ہائی لائٹ نہ کیا؟ تاخیر سے خط کیوں بھیجا؟
ڈائریکٹر انٹرنیشنل عثمان واہلہ کو تو معطل کر دیا گیا لیکن کیا وہ اکیلے اس سب کے ذمہ دار ہیں؟ ان تمام امور پر بورڈ کو غور کرنے کی ضرورت ہے، ایک اچھے سی ای او کو لائیں جو کرکٹ کے معاملات کو سمجھتا ہو، چیئرمین کی دیگر مصروفیات بھی ہیں، ایسے میں اتنا قابل شخص بورڈ میں ہونا چاہیے جو ان کی عدم موجودگی میں بھی بورڈ کو سنبھال سکے۔
بھارت جنگ کی اپنی سبکی کم کرنے کیلیے ایسے ہی منفی ہتھکنڈے آزمائے گا، ان کا میڈیا تو جھوٹوں کا بادشاہ ہے،جنگ میں بھی کیسے کیسے شگوفے چھوڑے تھے اب بھی یہی کر رہا ہے، آگ بھڑکانے میں اس کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے، اب بھی یہ باتیں شروع کردیں کہ بھارتی کپتان محسن نقوی سے ٹرافی وصول نہیں کریں گے، ارے پہلے جیت تو جاؤ پھر یہ باتیں کرنا۔
رپورٹس میں یہ بھی کہا گیا کہ پائی کرافٹ نے کوئی معافی نہیں مانگی، اگر ایسی بات ہے تو ریفری کیوں خاموش ہیں،آئی سی سی نے کیوں تردید نہ کی؟ اس سے مضحکہ خیز بات کیا ہوگی کہ پاکستانی ٹیم شرٹ کی کوالٹی تک پر اسٹوری کر دی گئی۔
حیرت اس بات کی ہے کہ بھارتیوں کا آئی کیو لیول کس حد تک لو ہے ،وہ یہ نہیں سمجھ پا رہے کہ جنگ ہارنے پر مودی حکومت انھیں بے وقوف بناتے ہوئے نیا چورن بیچ رہی ہے، خیر یہ سب شرارتیں چلتی رہیں گی ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہار جیت کرکٹ کا حصہ ہے۔
البتہ فائٹ ضرور کریں،اگلے میچ میں ان سے ہاتھ نہ ملائیں بلکہ فیلڈ میں ہرائیں، بھارتیوں کو جتنا اگنور کریں گے اتنا ہی وہ تڑپیں گے آپ ان کے جال میں نہ پھنسیں صرف اپنے کام پر توجہ دیں۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہاتھ نہ
پڑھیں:
غزہ نسل کشی: “یونی لیور” کی خاموشی پر بین اینڈ جیری کے شریک بانی مستعفی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نیویارک :۔ بین الاقوامی تجارتی زنجیر “بین اینڈ جیری”کے شریک بانی جیری گرین فیلڈ نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق اپنے استعفے کی وجہ “یونی لیور” کی غزہ میں جاری انسانیت کش صورتحال پر بے حسی کی آئینہ دار مسلسل خاموشی کو بتایا گیا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر شہرت یافتہ آئس کریم برانڈ کی تشکیل میں جیری گرین فیلڈ کا نام شامل ہے۔ اب انہوں نے کمپنی کو خیرباد کہہ دیا ہے۔ انہوں نے اس امر کا اظہار “بین اینڈ جیری” کی کمیونٹی سے ایک کھلے خط میں مخاطب ہوتے ہوئے کیا ہے۔ ان کے بقول “یونی لیور” کے غزہ کے بارے میں موقف اور نسل کشی پر خاموشی نے انہیں ایسا کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ان کے اس خط کو ان کے شراکت دار بین کوہن نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ ایکس’ پر پوسٹ کیا ہے۔
خط میں گرین فیلڈ نے موقف اختیار کیا ہے کہ ورمونٹ امریکا میں قائم کمپنی نے ‘ یونی لیور ‘ کے ‘ ایکٹوازم’ کی وجہ سے کمپنی اپنی آزادی کھو چکی ہے۔یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ یونی لیور اور بین اینڈ جیری کے درمیان 2021 میں اسی وقت جھگڑا شروع ہو گیا تھا جب کہا تھا کہ کمپنی مقبوضہ مغربی کنارے میں آئس کریم کی فروخت بند کر دے۔ بعد ازاں اس کمپنی کی ‘پیرنٹ کمپنی” یونی لیور نے اسے خاموش کرانے کی کوشش کی تو کمپنی نے ‘یونی لیور’ کے خلاف عدالت سے رجوع کر لیا۔انہوں نے غزہ میں جنگ کو نسل کشی کا نام دیا ہے۔
گرین فیلڈ کا کہنا ہے وہ اب اپنے ضمیر کے خلاف مزید کام نہیں کر سکتے۔ کیونکہ وہ ایک ایسی کمپنی کے ساتھ مزید کام نہیں کر سکتے جس نے غزہ میں نسل کشی کے بارے میں خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ اس لیے مستعفی ہو رہے ہیں۔