مورخہ 4 ستمبر 2025 کو جاوید چوہدری کا ایک کالم بعنوان International Blindness پر لکھا تھا جس میں سوسائٹی میں بڑھتی ہوئی ’’بے توجہی‘‘ پر بات کی گئی تھی، مغرب کے لوگ اپنی سوسائٹی میں بڑھتی ہوئی بے توجہی سے تشویش میں مبتلا ہیں۔
اسی لیے نفسیات دانوں نے ایک نئی تھیوری ’’توجہ کا اندھاپن‘‘ کو ٹیسٹ کرنے کے لیے کیا تھا، اور ایک آٹھ سالہ بچے کو بطور چائلڈ ایکٹر روم کے سینٹرل پارک میں بٹھا دیا اور چاروں طرف اس کی گمشدگی کے پوسٹر لگا دیے، لیکن سارا دن گزر گیا، لوگ آتے رہے، جاتے رہے، لیکن کسی نے بھی اس بچے کی طرف توجہ نہ دی جو گمشدہ تھا، ایک خاتون نے تو پوسٹر بھی پڑھا اور بچے کے پاس جا کر اس کا موازنہ بھی کیا، لیکن بجائے دیے ہوئے فون نمبر پہ مسنگ بچے کے بارے میں اطلاع دیتی، کندھے اچکائے وہاں سے چلی گئی۔
مجھے یہ کالم پڑھ کر خیال آیا کہ ہماری سوسائٹی بھی توجہ کے اندھے پن کا شکار ہے، ہم بہت بری طرح توجہ کے فقدان یا اندھے پن کا شکار ہیں۔ کبھی آپ نے غور کیا کہ تلاش گمشدہ پر چھپنے والے اشتہاروں پر کسی نے توجہ دی ہو؟ ہم ہر لحاظ سے توجہ کے اندھے پن کا شکار ہو رہے ہیں۔ اسلام آباد ایک ایسا شہر ہے جس کے بارے میں ماہرین نے یہ بھی بتایا تھا کہ یہاں زلزلے کے فالٹ لائن ہے، یہاں زلزلے آ سکتے ہیں۔
پھر سب نے 2008 کا زلزلہ دیکھا ۔ گزشتہ سال جب میں اسلام آباد اپنے بیٹے کے پاس گئی، تو وہ شام کو مجھے اور بیوی بچوں کو لانگ ڈرائیو پر لے گیا، تب میں یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ بلند و بالا فلیٹ بنائے جا رہے ہیں، خاص کر چکری روڈ کے ہر جگہ فلیٹ ہی فلیٹ نظر آئے، ہاؤسنگ اسکیمیں نظر آئیں، درخت کاٹے گئے اور پہاڑوں کو توڑا گیا، اور بنگلوز بن گئے، فلیٹ بن گئے، اسے توجہ کا اندھا پن ہی کہیں گے کہ درختوں کے کاٹنے سے پتھر اپنی جگہ چھوڑیں گے اور اگر خدا نخواستہ کلاؤڈ برسٹ ہوا اور بے تحاشا بارش سے سیلاب آ گیا تو کیا ہوگا۔ جب میں نے اپنے بیٹے سے یہ بات کی کہ زلزلوں والی زمین پر بلند و بالا فلیٹ تعمیر کرنے کی اجازت محکمے نے کیوں دے دی؟ تو وہ بولا ’’امی! آپ جانتی تو ہیں کہ اس ملک میں سب کام ہو جاتے ہیں۔‘‘
اس نے ٹھیک ہی کہا تھا، جب کوئی امیر آدمی پیسہ خرچ کرکے سینیٹر بن سکتا ہے تو کیا نہیں ہو سکتا؟ اس کی بلا سے شہر ڈوب جائے، اس کی جیب خالی نہ ہو۔ مجھے اسلام آباد بالکل پسند نہیں ہے، ایک عجیب سی بے چینی طاری رہتی ہے۔ جب کبھی کسی کانفرنس میں شرکت کے لیے جانا ہوا تو یہ شہر سمٹا ہوا لگتا تھا، کانفرنس میں جاتے تھے تو وہیں سے واپس آ جاتے تھے، لیکن جب بیٹے کے پاس جاتی تھی تو وہ گھمانے لے جاتا تھا، اس شہر کی ایک ایک تفریح گاہ میری دیکھی ہوئی ہے، جب وہ گزشتہ سال جون 24 میں لانگ ڈرائیو پر لے کر گیا تو بلند و بالا عمارتیں دیکھ کر میرا تو دل دہل گیا۔ سب سے زیادہ مجھے ان لوگوں کی عقل پہ ماتم کرنے کو جی چاہا جنھوں نے ان فلیٹوں اور بستیوں میں بکنگ کروا کے رہائش اختیار کرنے کا سوچا ہے۔ یہ بھی توجہ کا زوال یا اندھا پن ہے ۔ لاہور میں راوی کنارے بنائی گئی بستی کا جو حال ہوا ہے، اس کے بعد لوگوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ بقول دلاور فگار:
لے کے رشوت پھنس گیا ہے
دے کے رشوت چھوٹ جا
اب آتے ہیں توجہ کے ایک اور فقدان کی طرف، یہ ہے بزرگ شہریوں اور معمر افراد کے تعلق سے بیگانگی۔ کسی بھی دفتر میں، کسی بینک میں یا کسی بھی سرکاری اور غیر سرکاری ادارے میں کہیں بھی آپ چلے جائیں، بزرگ شہری اور معمر افراد دھکے کھا رہے ہوتے ہیں۔ ان کے لیے کوئی نشست نہیں، کوئی علیحدہ کاؤنٹر نہیں۔ ایک بار میں نے ایک بینک منیجر سے یہ کہا کہ آپ سینئر سٹیزن کے لیے علیحدہ کاؤنٹر کر دیں تو انھوں نے بڑی بدتمیزی سے جواب دیا کہ لوگ صرف بینکوں سے کیوں توقع رکھتے ہیں کہ وہ سینئر سٹیزن کا خیال رکھیں۔
پھر ایک اسی بینک کی دوسری برانچ سے جہاں میرا اکاؤنٹ ہے یہی سوال کیا تو منیجر آپریشن بہت شائستگی سے بولے کہ ’’میڈم! ہمارے پاس عملہ کم ہے، ورنہ پہلے یہاں بھی ایک علیحدہ کاؤنٹر ہوتا تھا‘‘ جسے میں نے بھی دیکھا تھا، لیکن اب صرف لکڑی کا وہ چھوٹا سا ٹکڑا ضرور ایک طرف رکھا نظر آتا ہے جس پر لکھا ہے، معذور اور بزرگ شہریوں کے لیے۔زندگی کے جس شعبے میں بھی آپ نظر دوڑائیں توجہ کا اندھا پن ہر جگہ نظر آتا ہے۔ ہجرت کے بعد معاشرہ جس ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا ہے، اس کے اثرات دن بہ دن بڑھتے جا رہے ہیں اور جب سے موبائل فون، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے تباہی مچائی ہے تب سے توجہ کا فقدان بہت بڑھ گیا ہے۔ ایک اپارٹمنٹ میں جو اٹھائیس فلیٹوں پر مشتمل ہے، اس میں ایک خاتون تنہا رہتی ہیں۔
ملازمہ کام کرکے چلی جاتی ہے، بچے ملک سے باہر ہیں، ایک فلور پر چار فلیٹ ہیں، لیکن کسی کو یہ توفیق نہیں ہوتی کہ ان خاتون سے یہی پوچھ لیں کہ انھیں بازار سے کچھ منگوانا تو نہیں ہے، یا ان کی طبیعت ٹھیک ہے۔ انھیں کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ہے۔ بچے بہتر مستقبل کے لیے بیرون ملک چلے گئے، ماں باپ اکیلے رہ گئے، اگر صاحب حیثیت ہیں تو ملازمہ رکھ لی یا چوکیدار کو پیسے دے کر جو کچھ منگوانا ہو منگوا لیا، ورنہ تنہا پڑے رہے۔ سڑکوں اور شاپنگ مالز کے گیٹ پر آپ نے موٹر سائیکلیں اور کاریں کھڑی دیکھی ہوں گی، مجال ہے جو کسی کو خیال آ جائے کہ اس نے غلط پارکنگ کی ہے۔
چند ماہ کے دوران ملک میں برساتی اور سیلابی صورت حال کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا، اب رخ سندھ کی طرف ہے لیکن خواہ اسلام آباد ہو یا کراچی، نالوں پر بلڈنگیں بنائی جا رہی ہیں، کراچی تو ویسے بھی سطح سمندر سے نیچے ہے۔ سمندر کے کنارے ہوٹل بن گئے ہیں، نالے بند ہو گئے ہیں، اگر کراچی میں کلاؤڈ برسٹ ہوا تو یہ خدائی قہر ہوگا۔
مجھے تو لگتا ہے کہ بادلوں کا پھٹنا، سیلاب کا آنا، بستیاں اجڑنا سب اسی وجہ سے ہے کہ ہم فطرت کے خلاف جا رہے ہیں، جب آبی گزرگاہیں بند ہو جائیں گی، دریاؤں کی زمین پر بستیاں بنا دی جائیں گی، نالے بند کر دیے جائیں گے تو یہ پانی کہاں جائے گا؟ باران رحمت صرف ایک نقطے کے فرق سے ’’ زحمت‘‘ بن جاتا ہے۔ ہماری قوم ہر معاملے میں توجہ کے اندھے پن کا شکار ہو رہی ہے۔ ہم ایک بے حس قوم ہیں اور وہ قوم ہیں جو جس شاخ پہ بیٹھتی ہے اسی پر کلہاڑا چلاتی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اندھے پن کا شکار توجہ کا اندھا اسلام آباد اندھا پن توجہ کے رہے ہیں کے لیے
پڑھیں:
ہاتھ نہ ملاؤ فیلڈ میں ہراؤ
DUBAI:میچ نہیں ہورہا، اب آپ سب اپنے کمروں میں جا سکتے ہیں,, ٹیم مینجمنٹ نے جب یہ کہا تو تمام پاکستانی کھلاڑیوں کے چہرے اتر گئے، وہ یو اے ای کرکٹ کھیلنے آئے ہیں اور کوئی نہیں چاہتا تھا کہ ایشیا کپ میں مہم کا ایسے اختتام ہو لیکن حکام کی بات تو ماننا ہی تھی۔
اسی لمحے بورڈ کی جانب سے میڈیا کو واٹس ایپ پیغام بھیجا گیا کہ فوری طور پر پریس کانفرنس کے لیے قذافی اسٹیڈیم پہنچ جائیں، ٹی وی چینلز والے براہ راست نشریات کیلیے ڈی ایس این جی بھی ساتھ لائیں،میچ کا وقت بھی نزدیک آ گیا اور ٹیم ہوٹل میں ہی موجود تھی، حالانکہ پہلے سامان بس میں رکھ کر کھلاڑیوں کو انتظار کرنے کا کہا گیا تھا۔
اس وقت پاکستان کیلیے ایشیا کپ ختم ہو چکا تھا، اس دوران بورڈ حکام کی آئی سی سی کے ساتھ زوم میٹنگ جاری رہی جس کا مثبت نتیجہ سامنے نہ آسکا، کونسل کی سربراہی بھارت کے جے شاہ نے سنبھالی ہوئی ہے، دیگر اہم پوزیشنز پر بھی انھوں نے اپنے ہم وطنوں کو رکھا۔
پاکستان کا اعتراض میچ ریفری اینڈی پائی کرافٹ پر تھا جنھوں نے کپتان سلمان علی آغا کو بھارتی قائد سے ہاتھ نہ ملانے کا کہا، وہ واضح طور پر بی سی سی آئی کی سہولت کاری کرتے نظر آئے، اسی لیے پی سی بی انھیں ریفری کی ذمہ داریوں سے الگ کرنا چاہتا تھا۔
اگر جے شاہ ایسا کرتے تو ان کو ابو امیت شاہ سے ڈانٹ پڑتی اور دیش دروھی (غدار) کا لقب بھی مل جاتا، دوسری جانب پی سی بی نے باتیں بہت کر دی تھیں اگر پیچھے ہٹتا تو سبکی ہوتی۔
اس معاملے میں آئی سی سی کے جنرل منیجر وسیم خان بھی خاصے متحرک رہے، ان کی نوکری ویسے ہی خطرے میں ہے لہذا انھیں خود کو نیوٹرل ثابت کرنا تھا، کونسل کے پاس سادہ آپشن تھا کہ پاکستان سے میچز میں پائی کرافٹ کا تقرر نہ کرتی۔
مگر جے شاہ نے ایسا نہ ہونے دیا، یوں ریفری کو ایونٹ سے ہٹانا تو دور کی بات رہی وہی پاک یو اے ای میچ میں بھی خدمات نبھاتے نظر آئے، معاملہ معافی تلافی پر ختم ہو گیا۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر ایسا ہی کرنا تھا تو پی سی بی نے اتنی تاخیر کیوں کی پہلے ہی بات مان لیتا، میچ ایک گھنٹے تاخیر کے بجائے وقت پر شروع ہوجاتا اور ٹینشن بھی نہ رہتی۔
اطلاعات یہی ہیں کہ بورڈ بائیکاٹ کی بات پر سنجیدہ تھا، قانونی داؤ پیچ کے ماہر ایک آفیشل یہی مشورہ دے رہے تھے، البتہ جب محسن نقوی نے رمیز راجہ اور نجم سیٹھی کو مشاورت کیلیے بلایا تو انھوں نے کہا کہ میچ نہ کھیلنا درست نہیں ہو گا اس کے پاکستان کرکٹ پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، لہذا فیلڈ میں مقابلہ کریں اور ریفری کی معافی و تحقیقات والی پیشکش قبول کر لیں۔
آخرکار ایسا ہی ہوا، کھلاڑی بس میں بیٹھ کر ہوٹل سے اسٹیڈیم روانہ ہوئے ، پھر میچ کا انعقاد کیا گیا اور پاکستان فتح حاصل کر کے سپرفور میں پہنچ گیا۔
اس تنازع کا ٹیم پر منفی اثر پڑا، کھلاڑی غیریقینی کا شکار رہے، اس سے یہ باتیں بھی ہونے لگی تھیں کہ کہیں ذہنی دباؤ کی وجہ سے یو اے ای کیخلاف بھی شکست نہ ہو جائے لیکن شکر ہے بیٹنگ میں اوسط درجے کی کارکردگی کے باوجود فتح مل گئی۔
اس تنازع سے ثابت ہو گیا کہ محسن نقوی کو اپنی ٹیم میں چند باصلاحیت آفیشلز کا تقرر کرنا ہوگا، سی او او سمیر سید کو کرکٹ کی بالکل سمجھ نہیں، سلمان نصیر ہر معاملے کو لیگل کی طرف لے جاتے ہیں،وہاب ریاض جس لیول کے کرکٹر رہے منتظم بھی ویسے ہی ہیں، توجہ اب بھی لیگز کھیلنے پر ہی رہتی ہے۔
اگر اپنے اردگرد درست لوگ ہوتے تو شاید رمیز یا نجم سیٹھی کو نہ بلانا پڑتا، دبئی میں جب ٹیم نے دیکھ لیا کہ بھارتی ہاتھ ملانے کے موڈ میں نہیں ہیں تو کھلاڑی خود پیچھے ہٹ جاتے۔
بھارت جنگ ہارا ہوا ہے ، رافیل سمیت 6 طیارے کھوئے ہیں، اسے جگ ہنسائی کا سامنا ہے لہذا وہ کرکٹ کو ڈھال بنا کر اپنی عوام کی توجہ بھٹکانا چاہتا ہے،اس تنازع کو درست انداز میں نہ سنبھالنے میں پاکستانی ٹیم مینجمنٹ بھی قصور وار ہے، نوید اکرم چیمہ کو اب آرام کرنا چاہیے۔
اب نہ ماضی جیسے کرکٹرز ہیں نہ وہ دور کہ کرفیو ٹائم لگا دو ایسا کر دو ویسا کر دو، جب فیصلہ ہو گیا تھا کہ تقریب تقسیم انعامات کا بائیکاٹ کرنا ہے اور سلمان علی آغا نہیں گئے تو شاہین آفریدی کو زیادہ چھکوں کا ایوارڈ لینے کیوں بھیجا؟
ہاتھ نہ ملانے کی شکایت سے زیادہ ضروری بات سوریا کمار یادو کی جانب سے انٹرویو میں پہلگام واقعے اور اپنی افواج کا ذکر تھا، اسے کیوں ہائی لائٹ نہ کیا؟ تاخیر سے خط کیوں بھیجا؟
ڈائریکٹر انٹرنیشنل عثمان واہلہ کو تو معطل کر دیا گیا لیکن کیا وہ اکیلے اس سب کے ذمہ دار ہیں؟ ان تمام امور پر بورڈ کو غور کرنے کی ضرورت ہے، ایک اچھے سی ای او کو لائیں جو کرکٹ کے معاملات کو سمجھتا ہو، چیئرمین کی دیگر مصروفیات بھی ہیں، ایسے میں اتنا قابل شخص بورڈ میں ہونا چاہیے جو ان کی عدم موجودگی میں بھی بورڈ کو سنبھال سکے۔
بھارت جنگ کی اپنی سبکی کم کرنے کیلیے ایسے ہی منفی ہتھکنڈے آزمائے گا، ان کا میڈیا تو جھوٹوں کا بادشاہ ہے،جنگ میں بھی کیسے کیسے شگوفے چھوڑے تھے اب بھی یہی کر رہا ہے، آگ بھڑکانے میں اس کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے، اب بھی یہ باتیں شروع کردیں کہ بھارتی کپتان محسن نقوی سے ٹرافی وصول نہیں کریں گے، ارے پہلے جیت تو جاؤ پھر یہ باتیں کرنا۔
رپورٹس میں یہ بھی کہا گیا کہ پائی کرافٹ نے کوئی معافی نہیں مانگی، اگر ایسی بات ہے تو ریفری کیوں خاموش ہیں،آئی سی سی نے کیوں تردید نہ کی؟ اس سے مضحکہ خیز بات کیا ہوگی کہ پاکستانی ٹیم شرٹ کی کوالٹی تک پر اسٹوری کر دی گئی۔
حیرت اس بات کی ہے کہ بھارتیوں کا آئی کیو لیول کس حد تک لو ہے ،وہ یہ نہیں سمجھ پا رہے کہ جنگ ہارنے پر مودی حکومت انھیں بے وقوف بناتے ہوئے نیا چورن بیچ رہی ہے، خیر یہ سب شرارتیں چلتی رہیں گی ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہار جیت کرکٹ کا حصہ ہے۔
البتہ فائٹ ضرور کریں،اگلے میچ میں ان سے ہاتھ نہ ملائیں بلکہ فیلڈ میں ہرائیں، بھارتیوں کو جتنا اگنور کریں گے اتنا ہی وہ تڑپیں گے آپ ان کے جال میں نہ پھنسیں صرف اپنے کام پر توجہ دیں۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)