Express News:
2025-11-03@06:08:08 GMT

توجہ کا اندھا پن

اشاعت کی تاریخ: 19th, September 2025 GMT

مورخہ 4 ستمبر 2025 کو جاوید چوہدری کا ایک کالم بعنوان International Blindness پر لکھا تھا جس میں سوسائٹی میں بڑھتی ہوئی ’’بے توجہی‘‘ پر بات کی گئی تھی، مغرب کے لوگ اپنی سوسائٹی میں بڑھتی ہوئی بے توجہی سے تشویش میں مبتلا ہیں۔

 اسی لیے نفسیات دانوں نے ایک نئی تھیوری ’’توجہ کا اندھاپن‘‘ کو ٹیسٹ کرنے کے لیے کیا تھا، اور ایک آٹھ سالہ بچے کو بطور چائلڈ ایکٹر روم کے سینٹرل پارک میں بٹھا دیا اور چاروں طرف اس کی گمشدگی کے پوسٹر لگا دیے، لیکن سارا دن گزر گیا، لوگ آتے رہے، جاتے رہے، لیکن کسی نے بھی اس بچے کی طرف توجہ نہ دی جو گمشدہ تھا، ایک خاتون نے تو پوسٹر بھی پڑھا اور بچے کے پاس جا کر اس کا موازنہ بھی کیا، لیکن بجائے دیے ہوئے فون نمبر پہ مسنگ بچے کے بارے میں اطلاع دیتی، کندھے اچکائے وہاں سے چلی گئی۔

مجھے یہ کالم پڑھ کر خیال آیا کہ ہماری سوسائٹی بھی توجہ کے اندھے پن کا شکار ہے، ہم بہت بری طرح توجہ کے فقدان یا اندھے پن کا شکار ہیں۔ کبھی آپ نے غور کیا کہ تلاش گمشدہ پر چھپنے والے اشتہاروں پر کسی نے توجہ دی ہو؟ ہم ہر لحاظ سے توجہ کے اندھے پن کا شکار ہو رہے ہیں۔ اسلام آباد ایک ایسا شہر ہے جس کے بارے میں ماہرین نے یہ بھی بتایا تھا کہ یہاں زلزلے کے فالٹ لائن ہے، یہاں زلزلے آ سکتے ہیں۔

پھر سب نے 2008 کا زلزلہ دیکھا ۔ گزشتہ سال جب میں اسلام آباد اپنے بیٹے کے پاس گئی، تو وہ شام کو مجھے اور بیوی بچوں کو لانگ ڈرائیو پر لے گیا، تب میں یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ بلند و بالا فلیٹ بنائے جا رہے ہیں، خاص کر چکری روڈ کے ہر جگہ فلیٹ ہی فلیٹ نظر آئے، ہاؤسنگ اسکیمیں نظر آئیں، درخت کاٹے گئے اور پہاڑوں کو توڑا گیا، اور بنگلوز بن گئے، فلیٹ بن گئے، اسے توجہ کا اندھا پن ہی کہیں گے کہ درختوں کے کاٹنے سے پتھر اپنی جگہ چھوڑیں گے اور اگر خدا نخواستہ کلاؤڈ برسٹ ہوا اور بے تحاشا بارش سے سیلاب آ گیا تو کیا ہوگا۔ جب میں نے اپنے بیٹے سے یہ بات کی کہ زلزلوں والی زمین پر بلند و بالا فلیٹ تعمیر کرنے کی اجازت محکمے نے کیوں دے دی؟ تو وہ بولا ’’امی! آپ جانتی تو ہیں کہ اس ملک میں سب کام ہو جاتے ہیں۔‘‘

اس نے ٹھیک ہی کہا تھا، جب کوئی امیر آدمی پیسہ خرچ کرکے سینیٹر بن سکتا ہے تو کیا نہیں ہو سکتا؟ اس کی بلا سے شہر ڈوب جائے، اس کی جیب خالی نہ ہو۔ مجھے اسلام آباد بالکل پسند نہیں ہے، ایک عجیب سی بے چینی طاری رہتی ہے۔ جب کبھی کسی کانفرنس میں شرکت کے لیے جانا ہوا تو یہ شہر سمٹا ہوا لگتا تھا، کانفرنس میں جاتے تھے تو وہیں سے واپس آ جاتے تھے، لیکن جب بیٹے کے پاس جاتی تھی تو وہ گھمانے لے جاتا تھا، اس شہر کی ایک ایک تفریح گاہ میری دیکھی ہوئی ہے، جب وہ گزشتہ سال جون 24 میں لانگ ڈرائیو پر لے کر گیا تو بلند و بالا عمارتیں دیکھ کر میرا تو دل دہل گیا۔ سب سے زیادہ مجھے ان لوگوں کی عقل پہ ماتم کرنے کو جی چاہا جنھوں نے ان فلیٹوں اور بستیوں میں بکنگ کروا کے رہائش اختیار کرنے کا سوچا ہے۔ یہ بھی توجہ کا زوال یا اندھا پن ہے ۔ لاہور میں راوی کنارے بنائی گئی بستی کا جو حال ہوا ہے، اس کے بعد لوگوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ بقول دلاور فگار:

لے کے رشوت پھنس گیا ہے

دے کے رشوت چھوٹ جا

اب آتے ہیں توجہ کے ایک اور فقدان کی طرف، یہ ہے بزرگ شہریوں اور معمر افراد کے تعلق سے بیگانگی۔ کسی بھی دفتر میں، کسی بینک میں یا کسی بھی سرکاری اور غیر سرکاری ادارے میں کہیں بھی آپ چلے جائیں، بزرگ شہری اور معمر افراد دھکے کھا رہے ہوتے ہیں۔ ان کے لیے کوئی نشست نہیں، کوئی علیحدہ کاؤنٹر نہیں۔ ایک بار میں نے ایک بینک منیجر سے یہ کہا کہ آپ سینئر سٹیزن کے لیے علیحدہ کاؤنٹر کر دیں تو انھوں نے بڑی بدتمیزی سے جواب دیا کہ لوگ صرف بینکوں سے کیوں توقع رکھتے ہیں کہ وہ سینئر سٹیزن کا خیال رکھیں۔

پھر ایک اسی بینک کی دوسری برانچ سے جہاں میرا اکاؤنٹ ہے یہی سوال کیا تو منیجر آپریشن بہت شائستگی سے بولے کہ ’’میڈم! ہمارے پاس عملہ کم ہے، ورنہ پہلے یہاں بھی ایک علیحدہ کاؤنٹر ہوتا تھا‘‘ جسے میں نے بھی دیکھا تھا، لیکن اب صرف لکڑی کا وہ چھوٹا سا ٹکڑا ضرور ایک طرف رکھا نظر آتا ہے جس پر لکھا ہے، معذور اور بزرگ شہریوں کے لیے۔زندگی کے جس شعبے میں بھی آپ نظر دوڑائیں توجہ کا اندھا پن ہر جگہ نظر آتا ہے۔ ہجرت کے بعد معاشرہ جس ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا ہے، اس کے اثرات دن بہ دن بڑھتے جا رہے ہیں اور جب سے موبائل فون، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے تباہی مچائی ہے تب سے توجہ کا فقدان بہت بڑھ گیا ہے۔ ایک اپارٹمنٹ میں جو اٹھائیس فلیٹوں پر مشتمل ہے، اس میں ایک خاتون تنہا رہتی ہیں۔

ملازمہ کام کرکے چلی جاتی ہے، بچے ملک سے باہر ہیں، ایک فلور پر چار فلیٹ ہیں، لیکن کسی کو یہ توفیق نہیں ہوتی کہ ان خاتون سے یہی پوچھ لیں کہ انھیں بازار سے کچھ منگوانا تو نہیں ہے، یا ان کی طبیعت ٹھیک ہے۔ انھیں کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ہے۔ بچے بہتر مستقبل کے لیے بیرون ملک چلے گئے، ماں باپ اکیلے رہ گئے، اگر صاحب حیثیت ہیں تو ملازمہ رکھ لی یا چوکیدار کو پیسے دے کر جو کچھ منگوانا ہو منگوا لیا، ورنہ تنہا پڑے رہے۔ سڑکوں اور شاپنگ مالز کے گیٹ پر آپ نے موٹر سائیکلیں اور کاریں کھڑی دیکھی ہوں گی، مجال ہے جو کسی کو خیال آ جائے کہ اس نے غلط پارکنگ کی ہے۔

چند ماہ کے دوران ملک میں برساتی اور سیلابی صورت حال کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا، اب رخ سندھ کی طرف ہے لیکن خواہ اسلام آباد ہو یا کراچی، نالوں پر بلڈنگیں بنائی جا رہی ہیں، کراچی تو ویسے بھی سطح سمندر سے نیچے ہے۔ سمندر کے کنارے ہوٹل بن گئے ہیں، نالے بند ہو گئے ہیں، اگر کراچی میں کلاؤڈ برسٹ ہوا تو یہ خدائی قہر ہوگا۔

مجھے تو لگتا ہے کہ بادلوں کا پھٹنا، سیلاب کا آنا، بستیاں اجڑنا سب اسی وجہ سے ہے کہ ہم فطرت کے خلاف جا رہے ہیں، جب آبی گزرگاہیں بند ہو جائیں گی، دریاؤں کی زمین پر بستیاں بنا دی جائیں گی، نالے بند کر دیے جائیں گے تو یہ پانی کہاں جائے گا؟ باران رحمت صرف ایک نقطے کے فرق سے ’’ زحمت‘‘ بن جاتا ہے۔ ہماری قوم ہر معاملے میں توجہ کے اندھے پن کا شکار ہو رہی ہے۔ ہم ایک بے حس قوم ہیں اور وہ قوم ہیں جو جس شاخ پہ بیٹھتی ہے اسی پر کلہاڑا چلاتی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اندھے پن کا شکار توجہ کا اندھا اسلام آباد اندھا پن توجہ کے رہے ہیں کے لیے

پڑھیں:

تاریخ کی نئی سمت

ایک امیدکی کرن تھی، غزہ کا امن معاہدہ کہ اس کے بعد جنگ کے بادل چھٹ جائیں گے، مگر ایسا لگ نہیں رہا ہے۔ غزہ امن معاہدے کے فوراً بعد امریکا نے روسی تیل کمپنیوں پر پابندی عائد کردی، یوں ٹرمپ اور پیوتن کے مابین ہنگری میں ہونے والی ملاقات ملتوی ہوگئی۔

پیوتن صاحب اس خوش فہمی کا شکار تھے کہ پچھلے دورکا صدر ٹرمپ واپس آئے گا لیکن ایسا نہ ہوسکا کیونکہ صدر ٹرمپ جو پہلے روس کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں تھا، تھک گیا اور اب وہ یوکرین کے ساتھ اسی طرح کھڑے ہیں جیسے جوبائیڈن کھڑا تھا۔

نیٹو آج بھی یوکرین کے ساتھ ہے۔ روس کی تیل کمپنیوں پر امریکی پابندی کے بعد، ہندوستان نے اندرونی طور پر امریکا کو یہ یقین دلایا ہے کہ وہ روس سے تیل نہیں خریدیں گے اور ایسا ہی وعدہ چین نے بھی کیا ہے، توکیا ایسا کہنا درست ہوگا کہ جو اتحاد چین نے امریکا کے خلاف بنایا تھا۔ 

لگ بھگ دو مہینے قبل تقریباً تیس ممالک کے سربراہان کی بیجنگ میں میزبانی کی وہ اس امیج کو برقرار نہ رکھ سکا۔ البتہ چین کی تیز رفتار ٹیکنالوجی نے امریکا کو پریشان ضرورکردیا ہے۔ مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی میں امریکا کے بعد چین ہی سب سے بڑا نام ہے۔ اس سال کی سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ صدر ٹرمپ اور چین کے صدرکی ملاقات ہے۔

اس منظر نامے میں روس اب نیوکلیئر جنگ کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ روس کا یہ اسٹیٹمنٹ دنیا کو ایک خطرناک موڑ پر لاسکتا ہے اور ایسا ہو بھی رہا ہے۔ روس کبھی یہ بیان جاری کرتا ہے کہ انھوں نے اپنے ایٹمی میزائلوں کا رخ برطانیہ کے مخصوص شہروں کی طرف کردیا ہے، پھر وہ جرمنی کو اپنا سب سے بڑا دشمن قرار دیتے ہیں۔

نیٹو اور یورپین یونین کی تیاری مکمل ہے اگر روس نے کوئی پہل کی۔ کچھ ہی دن قبل روس کے ڈرون نے پولینڈ کی سرحدیں پارکیں اور ایک دو دن پہلے ہی نیٹو نے یورپین یونین کی حدود میں داخل ہوتا روس کا ڈرون مارگرا یا۔

ہندوستان اور پاکستان کشیدگی میں اب افغانستان بھی حصہ دار بن گیا ہے ۔ ہم نے جو ماضی میں غلطیاں کی تھیں، ان سے ہم سبق تو ضرور سیکھ رہے ہیں لیکن وقت بہت گزر چکا ہے۔ پاکستان کے بارے میں یہ خیال آرائی کی جاتی ہے کہ اندرونی مسائل کے باعث جنگ جھیل نہیں سکے گا اور (خاکم بدہن) پاکستان ٹکڑوں میں بٹ جائے گا۔

یہ تمام خیالات افغان پالیسی سے جڑے تھے۔ جس طرح سے انگریز یہاں اپنے وفاداروں کو جاگیریں بطور انعام بانٹتے تھے، اسی طرح سے ہم نے بھی افغانوں اور ان کے پاکستانی ہم نشینوں اور حامی شرفاء کی ایک نسل تیارکی جنھیں پڑھایا اور یقین دلایا گیا کہ افغانستان کبھی غلام نہیں رہا اور افغان جنگجو قوم ہے۔

ہم نے یہاں مدرسوں میں افغانوں اور پاکستانیوں کی ایک ایسی نسل تیارکی جوکل تک سائیکل چلاتے تھے اور آج درجنوں مسلح محافظوں کے ہجوم میں لگژری گاڑیوں اورڈالوں پر سواری کرتے ہیں ۔

افغان پالیسی کا دیمک ہمیں اندرونی طور پر لگا،اب ہمارے ہر شہر، قصبوں اور گاؤں میں ان کے مفادات کا تحفظ کرنے والے لوگ موجود ہیں، افغان تو حکومت افغانستان میں کرتے تھے، ان کے کاروبار پاکستان میں تھے اور وہ رہتے بھی پاکستان میں تھے۔

پاکستان کے خلاف قوتیں جہاں بھی موجود تھیں، وہاں ہندوستان نے اپنے مراسم بڑھائے۔ ہندوستان نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بڑھائے ، جب ٹرمپ صاحب نے اپنے کارڈزکھیلے تو پتا چلا کہ دوست کو ن اور دشمن کون! جو دوست بن کرکام کررہے تھے، وہ ڈبل گیم کھیل رہے تھے ۔

فرض کریں کہ اگر امریکا کی پالیسی ہندوستان کے حوالے سے اب بھی ویسی ہی ہوتی جیسی کہ جوبائیڈن کے دورِ میں تھی تو یقیناً پاکستان آج بہت مشکل میں ہوتا ، آج پاکستان کے ساتھ امریکا بھی ہے اور چین بھی۔ سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ہمیشہ ہی اچھے رہے لیکن اب ان میں مزید مضبوطی پیدا ہوئی ہے۔

اپنی صف میں ہم نے دراصل ایک دشمن کی پہچان کی ہے۔ وہ دشمن جو بھائی بنا رہا لیکن اب ہندوستان کی گود میں بیٹھا ہے ۔ اور طالبان کو یہ سمجھ آگیا ہے کہ اگر وہ حدیں پارکرتا ہے تو پاکستان ان کی حکومت کو ختم کرسکتا ہے۔ اب ہندوستان میں آنے والے انتخابات میں مودی کی شکست واضح نظر آرہی ہے ۔

ہندوستان کے اندر متبادل قیادت ابھرنے والی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں برِصغیر ہیں، دونوں کی تاریخ ایک ہے، دونوں نے حملہ آوروں کا مقابلہ کیا ہے، لہٰذا دونوں ممالک کے درمیان امن ہونا چاہیے۔ دونوں ممالک کے درمیان جنگ میں دنیا خوش ہوگی لیکن دونوں ممالک کی عوام نہیں۔ افغانستان بھی امن کے ساتھ رہنا چا ہتا ہے، ’ہاں‘ اگر طالبان اور انتہاپسند افغانستان کا ماضی بن جائیں۔

مودی صاحب جو ہندوستان کو دنیا کی چوتھی طاقت بنانا چاہتا تھا وہ اب ہندوستان کی معیشت کے لیے خود مسئلہ بن چکے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ نریندر مودی کے دور میں ہندوستان کی معیشت مضبوط ہوئی مگر اب ہندوستان کی تجارت کو مشکلات کا سامنا ہے اور وجہ ہے امریکا کی ناراضگی۔

گزشتہ تین چار برسوں میں پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسی میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ بہتری کے حوالے سے ہماری معیشت نے وہ ٹارگٹ تو حاصل نہیں کیا لیکن مستحکم ضرور ہوئی ہے اور ترقی کی رفتار بھی بہتر ہے۔

افغانستان والے گوریلا وار کے ماہر ہیں۔ وہ پاکستان کے ساتھ روایتی جنگ نہیں لڑ سکتے۔ ہندوستان کا افغانستان کے ساتھ مل کر جنگ لڑنا آسان نہیں۔ جنگ کے لیے جذبہ ہونا لازمی ہے اور اس حوالے سے ہندوستان کی فوج بہت کمزور ہے۔

اسی جذبے کی تحت پاکستان کے افواج آج دنیا میں سرخرو ہیں۔ مودی صاحب کی ہٹ دھرمی کو ٹرمپ صاحب ایک ہی وار میں توڑ دیا۔ یہ چرچا پوری دنیا میں عام ہے۔ہندوستان نے اپنے اتحادیوں کو بری طرح سے نالاں کیا ہے، جن پتوں پر ان کو ناز تھا آج وہ ہی پتے ہوا دینے لگے۔

نادرن افغانستان، محمد شاہ مسعود اب ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔ ایک لبرل اور اعتدال پسند افغانستان کی نگاہیں ہم پر مرکوز ہیں۔ ہمیں ان ماڈرن افغانستان کی بات کرنے والی قوتوں کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی۔

پاکستان کی سیاست میں ایک نئی فالٹ لائن پیدا ہوئی ہے۔ موجودہ حکومت یقینا ایک ہائبرڈ گورنمنٹ ہے اور بری حکمرانی ہے سکہ رائج الوقت لیکن اس وقت کوئی نعم البدل نہیں اور اگر ہے بھی تو تباہی ہے،کیونکہ ان کے تانے بانے بھی طالبان سے ملتے ہیں۔

نو مئی کا واقعہ یا اسلام آباد پر حملے ان تمام کاروائیوں میں افغان بھی ملوث تھا۔نئے بین الاقوامی اتحاد بن بھی رہے ہیں اور ٹوٹ بھی رہے ہیں۔ یوکرین کی جنگ کے تناظر میں یہاں بہت کچھ بدل گیا ہے۔

ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کے اس دور میں ہمیں اپنی بقاء کے لیے اتنی ہی تیزی سے تبدیلیاں لانی ہونگی۔ یقینا پاکستان آگے بڑھے گا، بہ شرط کہ ہم اپنی تاریخ کی سمت درست کریں۔

متعلقہ مضامین

  • پیپلزپارٹی عوامی مسائل پر توجہ دے رہی ہے،شرجیل میمن
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے
  • مصنوعی ذہانت
  • تاریخ کی نئی سمت
  • میرا لاہور ایسا تو نہ تھا
  • تجدید وتجدّْد
  • ہم نے مختصر دور حکومت میں وسائل کی منصفانہ تقسیم پر توجہ دی، گلبر خان
  • آیوشمان کھرانہ نے ’اندھا دھن‘ صرف ایک روپے میں کی تھی، وجہ جان کر حیران رہ جائیں گے!
  • ملکی حالات اور عوام کی بہتری کیلئے دعاگو ہوں، ڈاکٹر طاہرالقادری