Express News:
2025-09-18@23:23:14 GMT

جامعات کی خود مختاری پر سیاسی کنٹرول

اشاعت کی تاریخ: 19th, September 2025 GMT

پاکستان کے ریاستی و حکومتی نظام کی بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اداروں اور آئین و قانون کی بالادستی کے مقابلے میں افراد اور خاندان کی بالادستی کے حامی ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہماری پالیسیوں اور قانون سازی یا اس پر عملدرآمد کے نظام میں بنیادی خرابی یہ ہے کہ یہاں ہم اداروں کی مضبوطی اورخودمختاری پر سیاسی سمجھوتے کرنے کے عادی بن گئے ، اور افراد کی بنیاد پر نظام چلانے کی خواہش کو لے کر اداروں کی مضبوطی کی نفی کرتے ہیں ۔

18ویں ترمیم کے باوجود ہم اختیارات کی تقسیم کے خلاف ہیں اور عدم مرکزیت کے مقابلے میں مرکزیت کے نظام کے حامی ہیں۔کیونکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ادارے مضبوط ہوتے ہیں تو پھر ان کی سیاسی طاقت اور سیاسی مداخلت کا کھیل کمزور ہوگا ۔ان کے بقول ہمیں اداروں کے سامنے خود کو جوابدہ بنانا ہوگا اور ہماری طاقت کمزور ہوگی جو ہمیں قبول نہیں ۔

پاکستان میں اعلی تعلیم یعنی ہائر ایجوکیشن اور جامعات کی خود مختاری کو بھی مختلف طور طریقوں سے وفاقی اور بالخصوص صوبائی حکومتیں چیلنج کررہی ہیں۔صوبائی حکومتوں کی جانب سے یونیورسٹیوں میں اسی تجاویز پر غور ہورہا ہے یا ایسی قانون سازی کرنے کی کوشش ہورہی ہے جس سے جامعات اور وائس چانسلرز کے اختیارات کم سے کم کرکے صوبائی حکومتیںان تعلیمی اداروں پر اپنے سیاسی کنٹرول کو بڑھا سکیں ، جامعات اور وائس چانسلرز ان کے ماتحت ہوں اور وہ آزادانہ بنیادوں پر اپنے اداروں اور اعلی تعلیم سے متعلقہ فیصلوں سے محروم ہوں ۔

پہلے ہی صوبائی حکومتوں نے جامعات کے لیے حکومتی مالی وسائل کو محدود یا کم کردیا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ جامعات خود اپنے اخراجات کو پورا کرنے کی کوشش کریں ۔لیکن حکومت اور بیوروکریسی انتظامی یا قانونی بنیاد پر مداخلت کرکے معاملات کو سدھارنے کی بجائے انھیں مزید بگاڑ رہی ہے اس پر حکومتی سطح پر کوئی غوروفکر نہیں ہورہا جو تشویش کا پہلو ہے۔

پہلے ہی وفاقی اور صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن کی خود مختاری کو چیلنج کیا جاچکا ہے اور بالخصوص صوبائی سطح پر قائم ہائر ایجوکیشن کمیشن کو ایک بے بس ادارہ بنا دیا گیا ہے اور اختیارات کی کمی کے باعث صوبائی کمیشن ہو یا جامعات کے سربراہ وہ سیکریٹری ہائر ایجوکیشن کے سامنے بے بس ہی نظر آتے ہیں اور ان کا انتظامی کنٹرول اتنا بڑھ گیا ہے کہ جامعات کی خود مختاری ایک مذاق بن کر رہ گئی ہے۔

یعنی وفاقی ہائر ایجوکیشن کمیشن نہ تو وفاقی حکومت اور نہ ہی وفاقی کمیشن صوبائی کمیشن کو اور نہ صوبائی حکومتیں صوبائی کمیشن اور جامعات کو خود مختاری دینے میں سنجیدہ ہیں ۔ یہ ہی وہ رویہ ہے جس کی وجہ سے تعلیمی معیارات سمیت جامعات کی گورننس کا نظام بری طرح متاثر ہورہا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ ہم کس حد تک اعلی تعلیم کے نظام میں سنجیدہ ہیں۔اس ایکٹ کے تحت صوبائی حکومت جامعات کا مکمل کنٹرول اپنا پاس رکھنا چاہتی ہے اور اس سے جامعات میں پہلے سے موجود حکومتی سیاسی مداخلتوں کو اور زیادہ بڑھانے اور فیصلوں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

جامعات کی سطح پر وائس چانسلرز ایک اعلی تعلیم یافتہ مرد اور عورت ہوتے ہیں اور کئی دہائیوں تک تعلیم اور علمی و فکری میدان کا ان کا وسیع تجربہ بھی ہوتا ہے ۔وہ جامعات کی سطح پر سینڈیکیٹ کا سربراہ بھی ہوتا ہے اور اسی کی سربراہی میں سینڈیکیٹ کا اجلاس ہوتا ہے ۔مگر اب سینڈیکیٹ کی سربراہی صوبائی وزیر تعلیم ہائر ایجوکیشن کو دی جا رہی ہے جو وائس چانسلرز بلکہ جامعات کی خود مختاری پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہوگا جس سے جامعات میں سیاسی مداخلت بڑھے گی۔

اسی طرح اب جامعات کی سینڈیکیٹ میں ایک سرکاری ایم پی اے کی جگہ تین ایم پی اے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔اسی سینڈیکیٹ میں سیکریٹری ہائر ایجوکیشن، سیکریٹری قانون ، سیکریٹری فنانس،چیرپرسن ہائر ایجوکیشن کمیشن،دو ڈین کی تقرری کا اختیار بھی حکومت کے پاس ہوگا۔سب سے اہم بات اس ایکٹ میں چانسلر کا اختیار گورنر کی بجائے وزیر اعلی اور صوبائی وزیر پرو چانسلر ہوگا جو ظاہر کرتا ہے کہ اس سینڈیکیٹ میں جہاں وائس چانسلرز کے مقابلے میں وزیر اعلی ،وزیر تعلیم اور بیوروکریسی کو اس حد تک مضبوط بنادیا گیا ہے کہ اصل فیصلوں کا اختیار بھی حکومت کے پاس ہوگا اور وائس چانسلرز کی حیثیت نمائشی ہوگی اور وہ سینڈیکیٹ میں صوبائی وزیر تعلیم کے عملا ماتحت ہوگا جو غیر دانشمندانہ فیصلہ ہوگا۔

اسی سینڈیکیٹ میں چار اہم پوزیشن جامعات کے پروفیسرز کی نمائندگی کی تھیں جن میں پروفیسرکے علاوہ ایسوسی ایٹ پروفیسر، اسٹنٹ پروفیسر اور لیکچرارز جو منتخب نمائندے تھے، کو ختم کردیا گیا ہے جو جامعات میں موجود اساتذہ کی آواز کو بھی دبانے کی ایک کوشش ہے ۔اسی سینڈیکیٹ میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی نمائندگی کو بھی ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ حکومت اپنی من مرضی کی بنیاد پر اپنے سیاسی فیصلے کرسکے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ آج کل ضلعی سطح پر نئی جامعات کی تشکیل بھی کی جا رہی ہے ۔اس وقت اگر ہم دیکھیں تو پنجاب ہی میں 34پبلک جامعات ہیں لیکن ان نئی جامعات کو چلانے کے لیے پہلے سے موجود بڑی جامعات کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کی کوئی کوشش نہیں کی جا رہی اور جب کہ پرانی جامعات کے لیے مالی وسائل نہیں تو نئی جامعات کے لیے وسائل کہاں سے آئیں گے۔

ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ حکومت سرکاری جامعات کو خود پر انتظامی اور مالی بوجھ قرار دے کر ان سرکاری جامعات کو حکومت پبلک پارٹنر شپ کے تحت چلانا چاہتی ہے جس سے اعلی تعلیم عام اور غریب لوگوں کے لیے اور زیادہ مشکل کردیا جائے گا جو سرکاری جامعات میں کم فیسوں کی وجہ سے پڑھ لیتے تھے۔اس وقت مثال کے طور پر پنجاب یونیورسٹی کا سالانہ بجٹ بیس سے اکیس ارب تک کا ہے اور اس میں سے حکومتی مدد محض78سے 80 کروڑ ہے ۔اس لیے حکومت کی جانب سے سرکاری جامعات میں مالی وسائل میں اضافہ کرنے کی بجائے جامعات کے خلاف ایک مخالفانہ مہم اور اس کو حکومتی کنٹرول میں لینے کا کھیل واضح طور پر دیکھنے کو مل رہا ہے ۔

پہلے ہی ہم جی ڈی پی میں تعلیم پر سب سے کم وسائل کو مختص کررہے ہیں اور پھر توقع کی جاتی ہے کہ جامعات بہتر تنائج کیوں نہیں دے رہیں۔ اس وقت تعلیم و تحقیق پر کسی بھی قسم کی کوئی بڑی مالی سرمایہ کاری جامعات کی سطح پر نہیں کی جارہی اور جامعات کو ایک ایڈ ہاک پالیسی یا سیاسی فیصلوں کی بنیاد پر جس انداز سے چلایا جارہا ہے وہ کافی غور طلب پہلو ہے ۔ہمیں دنیا کی جدید جامعات اور ان کی ہائر ایجوکیشن کی پالیسیوں اور اقدامات سے سبق سیکھنا چاہیے کہ وہ کیسے اپنے ملکوں میں جامعات کے نظام کو چلاتے ہیں اور وہاں سینیٹ سمیت سینڈیکیٹ کا نظام کیسے چلایا جارہا ہے اور کیا وہاں وائس چانسلرز حکومت کی سیاسی مداخلت کا شکار ہے یا وہ اور جامعات کی سینیٹ اور سینڈیکیٹ آزادانہ بنیادوں پر بغیر کسی سیاسی مداخلت کے اپنے فیصلے خود کرسکتے ہیں ۔

ایسا نہیں کہ ہمارے یہاں جامعات کی سطح پر سب اچھا ہے یقیناً اس میں بھی بڑی اصلاحات درکار ہیں ۔لیکن ایک اچھی حکومت جب بھی جامعات کے بارے میں کچھ پالیسیاں یا قانون سازی کو ممکن بناتی ہے تو وہ جامعات اور اعلی تعلیم کے ماہرین، سابق اور موجودہ وائس چانسلرز سے مشاورت کی بنیاد پر آگے بڑھتی ہے تاکہ سب کے اتفاق رائے سے آگے بڑھاجاسکے ۔لیکن حکومت ایک طرف اپنی سیاسی مداخلت اور دوسری طرف بیوروکریسی کی طاقت کے ساتھ جامعات کے نظام کو چلانے پر بضد ہے تو اس سے حکومت ،بیوروکریسی اور جامعات کے درمیان ٹکراؤ کا ماحول پیدا ہوگا جو اعلی تعلیم میں پہلے سے موجود مسائل میں اور زیادہ اضافہ کرے گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جامعات کی خود مختاری ہائر ایجوکیشن کمیشن جامعات کی سطح پر سرکاری جامعات صوبائی حکومت وائس چانسلرز سینڈیکیٹ میں سیاسی مداخلت کی بنیاد پر اور جامعات اعلی تعلیم جامعات اور جامعات میں کہ جامعات جامعات کے جامعات کو کے نظام کرنے کی ہیں اور رہی ہے اور جا ہے اور کے لیے اور اس گیا ہے

پڑھیں:

صوبائی محتسب اعلیٰ کی زیرصدارت اداروں میں زیر التوا کیسز کی پیش رفت سے متعلق اجلاس

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250918-2-15

حیدرآباد (اسٹاف رپورٹرٓ) صوبائی محتسب اعلی سندھ کے ایڈوائیز ر محمد نصیر جمالی کی زیر صدرات شہباز ہال شہباز بلڈنگ میں ریجن کے صوبائی اداروں میں زیر التوا کیسز کی پیش رفت کے متعلق ایک اجلاس منعقد ہوا۔اجلاس میں ایڈوائیزر نصیر جمالی نے کہا کہ صوبائی محتسب کا ادارہ سرکاری اداروں سے عوامی شکایات کا جلد اور بروقت نمٹانے اور انصاف فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔اجلاس میں ریجن کے مختلف محکموں اور اداروں میں زیر التوا کیسز کی پیش رفت کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔۔اجلاس میں صوبائی محتسب حیدرآباد کو عوام کی جانب سے صوبائی اداروں کے خلاف موصول ہونے والی شکایات کے زیر التوا کیسز کی پیش رفت کے متعلق تمام مذکورہ اداروں نے تفصیلات سے ایڈوائیزر نصیر جمالی کو آگاہ کیا۔انہوں نے مزید کہا کہ عوامی مسائل کی نوعیت کے کیسز کو فوری طور پر حل کیا جائے اور تاخیر کی وجوہات بننے والی پیچیدگیوں کو واضح کر کے آئندہ ایسی رکاوٹوں کے سدباب کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ سرکاری ادارے عوام کی سہولت اور مسائل کے حل کے لیے قائم ہیں، اس لیے تمام محکمے اپنے فرائض پوری ذمہ داری سے ادا کریں۔ایڈوائرر نے مزید کہا کہ محکمے اپنی کارکردگی میں زیر التوا کیسز کی رپورٹ باقاعدگی سے جمع کرائیں تاکہ آئندہ تین ماہ بعد ہونے والے اجلاسوں میں شفافیت اور جوابدہی کو یقینی بنایا جا سکے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہر ادارے کا فوکل پرسن کم سے کم 17 گریڈ کا ہونا چاہیے جسے اپنے ادارے متعلق بہتر طریقے سے معلومات ہو-اجلاس میںریجنل ڈائریکٹر صوبائی محتسب حیدرآباد سید محمد سجاد حیدر نے زیر التوا کیسز بالخصو ص ریٹائرڈ ہونے والے ملازمین کی پینشن اور دیگر معاملات کے فوری حل کویقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیااورجلد اور بروقت عوامی شکایات کونمٹانے سے نا صرف عوام کا اعتماد بحال ہوگا ۔

متعلقہ مضامین

  • افغانستان میں بگرام ایئربیس کا کنٹرول واپس لینے کی کوشش کر رہے ہیں، صدر ٹرمپ
  • ایم ڈی کیٹ 2025ء: 1 لاکھ 40 ہزار سے زائد امیدواروں کی رجسٹریشن
  • صوبائی محتسب اعلیٰ کی زیرصدارت اداروں میں زیر التوا کیسز کی پیش رفت سے متعلق اجلاس
  • صوبائی حکومت نے معطل ڈاکٹر کو دوبارہ سندھ گورنمنٹ اسپتال سعود آباد کا ایم ایس تعینات کردیا
  • طلبہ یونین الیکشن کا ضابطہ اخلاق 21دن میں تیارکرنے کا حکم
  • !ورزش اور غذا کے ساتھ بلڈپریشر کے مؤثر کنٹرول کیلئے یہ عوامل بھی اہم ہیں
  • 375 ٹریلین کی بے ضابطگیوں کی رپورٹ حکومت کو بدنام کرنے کی سازش قرار
  • سیلاب ،بارش اور سیاست
  • بطور ایٹمی طاقت پاکستا ن مسلم امہ کے ساتھ کھڑا ہے ،کسی کو بھی پاکستان کی خود مختاری چیلنج نہیں کرنے دیں گے،اسحاق ڈار